حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ نے مذکورہ مکالمے سے انتہائی جامع اُصول کا استخراج کیا ہے
(1) جب تک کوئی مضطرانہ ضرورت داعی نہ ہو، اصل یہی ہے کہ غیر مسلموں سے استغاثہ اور وہ بھی ایسی کہ جس میں ان کی تکریم ہوتی ہو، قرین عقل و دین نہیں۔
(2) یہ عزر کسی طرح قابلِ سماعت نہیں کہ ہمیں صرف ان کی خدمات درکار ہیں، نہ کہ ان کا مزہب۔ کیونکہ اس تحصیل خدمات کے ذیل میں ان کے ساتھ معیت ۔۔۔۔ اُس شدت و تغلیظ کو کم کر دے گی جو ایک مسلمان کا اسلامی شعار بتلایا گیا ہے اور یہی قلتِ تغلیظ بالآخر .... مداہت، چشم پوشی اور :اعراض عن الدین: کا مقدمہ لے کر کتنے ہی شرعی منکرات کے نشونما کا ذریعہ ثابت ہو گی۔
(3) مان لیا کہ ایک شخص سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ ؓجیسا راسخ الایمان بھی ہے اور اشتراکِ عمل سے اس میں کوئی تزلزل گی نہیں آسکتا، لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسی ذمّہ داری کا اشتراکِ عمل عام مسلمانوں کے لئے بڑی استعانت اور زیادہ اختلاط کا دروازہ کھول دے اور عوام اپنے لئے اس طرزِ عمل کو حجت شمار کریں۔
(4) جس مخلوق کی اس کے خالق نے تکریم نہ کی اور اُن کو پھٹکار دیا، اس کی تکریم اُن کو پیار کرنا شرائعِ الہیہ کی توہین اور افعالِ خداوندی کی صریح تکذیب ہے۔
(5) اسلام میں سیاست محضہ مقصود نہیں، پس اگر سیاست ہی کا کوئی شعبہ تخریب دین یا مداہنت و حق پوشی کا زریعہ بننے لگے تو بےدریغ اس کو قطع کر کے حفاظت کی جائے گی، ورنہ قلبِ موضوع اور انقلاب ماہیت لازم آجائے گا۔
(فتاویٰ عثمانیه: جلد 10 صفحہ 327)