حدیث حب علی
مولانا ثناء اللہ شجاع آبادیحدیث حب علی
قارئین غور فرمائیں ، انبیاء کرام کی عصمت کا عقیدہ تمام امت مسلمہ کے متفقہ عقائد میں سے ہے لیکن شیعیت اس انداز میں اس عقیدے پر ہاتھ صاف کر رہی ہے کہ بعض نبیوں کو علیؓ کی امامت میں شک کرنے اور بعض کو انکار کا مجرم ٹھہرا کر ان کو سزائیں دینے کی روایات گھڑی جا رہی ہیں تا کہ نبوت کے مقام کی پستی اور امامت کی بلندی باور کرائی جا سکے۔
حب علىؓ اتنی بڑی نیکی ہے کہ کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا
شیعہ مومنین کو گناہوں کی کھلی چھٹی دینے کے لئے یہ روایت بھی تصنیف کی گئی ہے کہ حب علیؓ کے ساتھ کوئی گناہ مضر نہیں، اور بغض علیؓ کے ساتھ کوئی نیکی مفید نہیں ۔ روایت کا متن یہ ہے۔
ابوتراب في الحدائق والخوارزمي في الأربعين بأسنادهما عن أنس، والديلمي في الفردوس عن معاذ ، وجماعة عن ابن عمر قال النبي صلى الله عليه و آله: محب علی بن ابی طالب حسنة لاتضر معها سيئة وبغضه سيئة لا تنفع معها حسنة. (بحار الانوار: 256/39)
ترجمہ:’انسؓ، معاذؓ اور ابن عمرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: "حب علیؓ ایسی نیکی ہے جس کے ساتھ کوئی گناہ مضر نہیں اور بغض علیؓ ایسا . گناہ ہے جس کے ساتھ کوئی نیکی فائدہ بخش نہیں۔
وقال ابن عباس: كان يهود يحب عليا حبا شديدا، فمات ولم يسلم، قال ابن عباس: فيقول الجبار تبارک وتعالى: أما جنتی فليس له فيها نصيب، ولكن يا نار لا تهيديه -أي لا تزعجيه--
فضائل احمد و فردوس الديلمي: قال عمر بن الخطاب: قال النبي صلى الله عليه و آله : حب على براءة من النار. وأنشد:
حب على جنة للوری
احطط به يارب أوزاری
لو أن قانوني حبة
حقن في النار من النار
ترجمہ:"ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک یہودی حضرت علی کے ساتھ شدید محبت رکھتا تھا، وہ اسلام لائے بغیر مر گیا ، الله تعالی نے فرمایا کہ میری جنت میں تو اس کا حصہ نہیں لیکن اسے دوزخ! تو اس کو کچھ نہ کہنا۔
فضائل احمد فردوس دیلمی میں ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ ، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ:حب علیؓ" دوزخ سے آزادی کا پروانہ ہے، اور آپ نے دوشعر پڑھے (جن کا ترجمہ یہ ہے:
علیؓ کی محبت مخلوق کیلئے جنت ہے، اے میرے رب! اس کے ذریعے میرے بوجھوں کو ہٹا دیجئے ۔ اگر کوئی کافر حب علیؓ کی نیت کرے تو وہ دوزخ سے محفوظ رہے۔
مرجیہ کا عقیدہ یہ تھا کہ ایمان کے بعد کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا لیکن علامہ مجلسی کی مندرجہ بالا تصریح کے مطابق حب علی کے بعد کفر بھی مضر نہیں ، اور نقل بالا سے یہی معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی الله عنہ حب علیؓ سے پر دامن تھے۔
ازواج مطہرات کی طلاق علی رضی اللّٰہ عنہ کے سپرد تھی
علامجلسی نے حسن بن سلیمان کی کتاب المحتضر" کے حوالے سے ایک مرفوع روایت نقل کی ہے، جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے۔
الا وإني قد جعل امر نسائی بیده.
2 سنو ! اور بے شک میں نے اپنی بیویوں کا معاملہ علیؓ کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔
اس روایت کی تصنیف کے مقاصد اور مضمرات اہل فہم و دانش سے مخفی نہیں۔
دعائے قنوتِ علی
اہل تشیع کی ماثورہ دعاؤں کی کتب میں ایک مشہور دعا ہے جو "دعاء صنمی قریش" قریش کے دو بتوں پر بددعا) کے نام سے معروف ہے۔ ان دونوں سے ابوبکرؓ و عمرؓ مراد لیتے ہیں اور سیدنا علیؓ ، پرظلم اور جھوٹ باندھتے ہوئے اسے آپؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور اسے حضرت علیؓ کی دعائے قنوت قرار دیتے ہیں۔ یہ بددعا ڈیڑھ صفحہ سے زائد پر مشتمل ہے۔ اس میں ہے کہ "اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدﷺ اور آل محمد پر، اور لعنت نازل کر قریش کے دونوں بتوں، قریش کے دونوں جبت ، دونوں طاغوت اور دونوں بڑے
جھوٹوں اور پھر ان دونوں کی دونوں بیٹیوں پر کہ جنہوں نے تیرے حکم کی خلاف ورزی کی، تیری وحی سے انکار کیا، تیرے انعام کی ناشکری کی، تیرے رسولﷺ کی بات نہ مانی، تیرے دین کو بدل دیا اور تیری کتاب میں تحریف کی" اور دعا کا اختتام اس طرح ہوتا ہے:”اے اللہ! ظاہر و باطن ہر طرح سے اور ہمیشہ ہمیش کے لیے ان دونوں پر لعنت نازل کر، اتنی لعنت کے جوشمار سے بالاتر ہو اور جس کا سلسلہ منقطع نہ ہو، اسی لعنت جو اس کے اول سے شروع ہو اور آخرتک کسی کو نہ چھوڑے، یعنی خودان دونوں پر ان کے مددگاروں پر، ان کے معتقدین و قرابت داروں پر ان کے فرماں برداروں پر، ان کی طرف میلان رکھنے والوں پر، ان کے دلائل کے سہارے ابھرنے والوں پر، ان کی باتوں کی پیروی کرنے والوں پر اور ان کے احکامات کی تصدیق کرنے والوں پر، (اور چار مرتبہ کہو ) اے اللہ! انہیں ایسا سخت عذاب دے جس سے اہل جہنم بھی پناہ مانگتے ہیں۔ قبول فرما اے رب العالمین! قبول فرما۔ (مفتاح الحنان فی الادعیۃ و الزیارات و الاذکار: 113،114، تحفہ عوام مقبول: ص 214، 215، یہ کتاب شیعہ علماء کے نزدیک مستند ہے اور اسکی تصدیق کرنے والوں میں ایک نام "امام خمینی" کا بھی ہے۔)
یہ دعا روافض شیعہ کے نزدیک پسندیدہ دعاؤں میں سے ہے۔ یہاں تک کہ اس کی فضیلیت کو ابن عباسؓ کی طرف منسوب کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: علیؓ اپنی نماز میں اسے دعائے قنوت کے طور سے پڑھتے تھے اور اس دعا کو پڑھنے والا ایسا
ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص غزوہ بدر ،احد اور حنین میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں لاکھوں تیر برسارہا ہو۔
اس دعا کی اہمیت کے پیش نظر ہی علماء شیعہ نے اس پر بہت توجہ دی یہاں تک کہ آغا بزرگ الطہرانی نے لکھا ہے کہ اس "دعا‘‘ کی دس شرحیں تیار ہو چکی ہیں۔