تحقیق حدیث منزلت
مولانا اللہ یار خانتحقیق حدیثِ منزلت
(جو نسبت حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، وہی حضرت علیؓ کو رسول پاکﷺ سے ہے۔ کیا اس سے سیدنا علیؓ کی خلافتِ بلا فصل ثابت ہوتی ہے؟)
رسولﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا: أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي (صحیح مسلم: حدیث 6221 )
ترجمہ: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔
اس سے شیعہ حضرت علیؓ کی خلافتِ بلا فصل کا استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے اسی طرح سیدنا علیؓ رسول اللّٰہﷺ کے خلیفہ تھے۔
شیعہ کا طرزِ استدلال دیکھیے:
قرآن مجید میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللّٰه تعالیٰ سے دعا کی:
وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَہْلِیْ (سورۃ طٰہٰ: آیت 29)
ترجمہ: اور میرے لیے میرے خاندان ہی کے ایک فرد کو مددگار مقرر کر دیجیے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق اللّٰه تعالیٰ سے یہ درخواست کی تھی چنانچہ منظور ہو گئی۔ اور حدیث میں آتا ہے حضورﷺ نے فرمایا :على انت منی بمنزلة هارون من موسىٰ الا انه لانبی بعدی اس حدیث میں حضور اکرمﷺ نے سیدنا علیؓ کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دی اور تشبیہ سے نبوت کے علاوہ تمام مراتب ثابت کیے، ان میں خلافت بھی آتی ہے ،چنانچہ سورۃ الاعراف میں ہے:
وَقَالَ مُوْسٰى لِاَخِيْهِ هَارُوْنَ اخْلُفْنِىْ فِىْ قَوْمِیْ (آیت 142)
ترجمہ: اور موسٰی نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میں میرے جانشین رہو۔
اسی طرح حضور اکرمﷺ غزوۂ تبوک میں سیدنا علیؓ کو خلیفہ بنا کر گئے تھے۔
آئیے شیعہ کے اس استدلال کی حقیقت جانتے ہیں:
یہ دلیل آیت قرآنی کے اجمال، حدیث نبوی کی تفصیل اور فعلِ نبوی کی مثال کی وجہ سے وزنی معلوم ہوتی ہے مگر اس میں کچھ اشکال بھی پائے جاتے ہیں جن سے شیعہ کا استدلال باطل ہو جاتا ہے۔
1) حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح نبی تھے یعنی منصب نبوت پر فائز تھے، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق اللّٰه تعالیٰ سے درخواست کی:
وَ اَشْرِکْہُ فِیْۤ اَمْرِیْ (سورہ طٰہٰ: آیت 32)
ترجمہ: اور ان کو میرا شریک کار بنا دیجیے۔
تو جواب ملا: قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَکَ یٰمُوْسٰی
(سورہ طٰہٰ: آیت 36)
ترجمہ: اللّٰه نے فرمایا : موسیٰ! تم نے جو کچھ مانگا ہے تمہیں دے دیا گیا۔
جب ہارون علیہ السلام کو نبوت کا منصب مل گیا تو خلافت جو (نیابت (قائم مقام) کا حکم رکھتی ہے) کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
2) حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے۔ اگر یہ تشبیہ درست ہے تو ظاہر ہے کہ جب حضرت ہارون علیہ السلام ہی خلیفہ نہ بنے تو حضرت علیؓ جن کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دی جا رہی ہے، کیسے خلیفہ بن سکتے ہیں ؟
3) اس اعتبار سے تشبیہ درست ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو عارضی طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں قائم مقامی کا کام کرنا پڑا، اسی طرح حضور کریمﷺ کی غیر حاضری میں غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علیؓ کو عارضی طور پر خلیفہ (قائم مقام) بنایا گیا، حضورﷺ کی واپسی پر ان کی خلافت ختم ہو گئی جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر حضرت ہارون علیہ السلام کی خلافت ختم ہو گئی ۔
4) آیت میں وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا کی درخواست ہے، وزیر اور خلیفہ کے الفاظ نہ تو مترادف ہیں نہ یہ منصب ہی ایک ہے، وزیر الگ چیز ہے اور خلیفہ الگ۔ اس لیے یہ تشبیہ بے محل نظر آتی ہے۔ ہاں اس دلیل سے حضرت علیؓ کا قربِ منزلت ثابت ہوتا ہے لیکن خلافتِ بلا فصل بعد النبیﷺ (نبی پاکﷺ کے بعد پہلا خلیفہ، جانشین ہونے) کا نشان بھی نہیں ملتا۔
چنانچہ شیعہ نے اس کا اعتراف کیا ہے :
شیعہ کی معتبر کتاب فصل الخطاب صفحہ181 پر لکھا ہے:
واعلم ان قول النبیﷺ لمولانا علیؓ ابن ابى طالب انت منی بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبی بعدی يشتمل على خصائص عظيمة غير الخلافة .
ترجمہ: خوب سمجھ لو کہ حضور اکرمﷺ کا فرمان انت منی۔۔۔ الخ سیدنا علیؓ کی عظیم خصوصیات پر مشتمل ہے مگر اس سے خلافت ثابت نہیں ہوتی۔
(بحوالہ تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین: صفحہ 135)
لیجیے بظاہر دلیل قرآنی تھی مگر خود شیعہ مجتہد نے خلافتِ علیؓ بلا فصل کے بارے میں اسے رد کر دیا۔
5) اگر شیعہ اس کو ہی اپنی دلیل سمجھتے ہیں تو لیجیے شیعہ کی مشہور تفسیر "فرات الکوفی" میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خلافت کس کو ملی؟ ان کے وصی یوشع بن نون علیہ السلام تھے۔
عبارت ملاحظہ ہو :
حسن بن علیؓ سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد گرامی عمر فاروقؓ کے پاس موجود تھے جب کہ ان کے پاس حضرت کعبؓ بھی موجود تھے جو تورات اور کتبِ انبیاء کے عالم تھے، ان سے حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ اے کعبؓ! بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد سب سے بڑا عالم کون تھا؟ تو انہوں نے فرمایا :
كان أَعْلَو بَنِي إِسْرَائِيلَ بَعْدَ مُوسَى يُؤْشع بَن نون وكان وَصِى مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ
(تفسیر فرات الکوفی: صفحہ 25، سورۃ ہود)
ترجمہ: حضرت موسیٰ کلیم اللّٰه علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں سب سے بڑے عالم جناب یوشع بن نون تھے اور یہی موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے وصی تھے ۔
تھوڑا سا آگے چل کر اسی تفسیر میں یوں مرقوم ہے :
فان مُوسَى لما توفى أوصى إلى يُوشع بن نون
ترجمہ: یعنی جب موسیٰ علیہ السلام اس دارِ فانی سے رحلت فرمانے لگے تو انہوں نے جناب یوشع بن نون علیہ السلام کو اپنا وصی مقرر فرمایا ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اس حدیث پاک سے حضورﷺ کا اپنے بعد نہ تو حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ بلافصل بنانا مقصود تھا اور نہ ہی اس حدیث پاک سے حضرت علی المرتضیٰؓ نے وہ مفہوم سمجھا جو شیعہ لوگ ان کے بارے میں قائم کیے ہوئے ہیں کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو صرف دنیوی کاموں کے لیے اہل و عیال پر نگران مقرر کرنے کا ذکر فرمایا۔ غزوۂ تبوک میں شمولیت کے بعد دینی کاموں کے لیے ان کی بجائے حضرت عبد اللّٰہ بن ام مكتومؓ کو مقرر فرمایا تھا اور نماز پنجگانہ کی جماعت انہی کے سپرد ہوئی تھی۔ لہٰذا اہل وعیال کی نگرانی اور وہ بھی صرف چار یوم کے لیے حضرت علیؓ کو سپرد کی گئی۔ کہاں چار دن کے لیے اہل وعیال کی نگرانی اور کہاں آپﷺ کے وصال کے بعد خلافت بلا فصل کا ثبوت؟