Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شِیعہ مذہَب میں امامَت کا عقیدہ

  مولانا غلام محمد

شِیعہ مذہَب میں امامَت کا عقیدہ

(شیعہ مذہب کا بنیادی عقیدۂ امامت گویا ختمِ نبوت کے عقیدہ کا انکار ہے۔ اس کے دلائل اور اس کے ثبوت)

اسلام میں نبوت اور ختمِ نبوت کا مفہوم، ختمِ نبوت کی اہمیت اور حقیقت

اسلام کے بنیادی عقائِد میں ختمِ نبوت اور رسالت کا عقیدہ اہم عقیدہ ہے۔توحید کے عقیدہ کے بعد نبوت اور رسالت کا عقیدہ ہے جس کی اسلامی کلمہ لا الہ الا اللہ محمدْ رَّسولُ اللہ کے الفاظ میں صحیح عکاسی ہوتی ہے ۔ دَرحقیقت ایمان بِالرَّسول ہی ایمان باللہ کا ذریعہ ہے۔ لہذا رسول پر ایمان کے بغیر اللہ پر ایمان ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔

نبوت اور رسالت صرف الفاظ نہیں ہیں بلکہ ان کے ایک متعین شدہ معنی ہیں۔ ہر نبی اور رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے نامزد ہو کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی حُجّت بن کر آتا تھا۔ ان کو پہچاننا اور ماننا نجات کے لئے شرط تھا۔ ان کو وحی کے ذریعہ احکاماتِ الٰہی ملتے تھے اور ہر نبی معصوم اور مُفتَرِضُ الطاعة ہوتا تھا، وہ اور اس کی مقدس تعلیم اسکی اُمت کے لئے سرچشمۂ ہدایت ہوتی تھی۔ اسی طرح ختمِ نبوت یا ختمِ رسالت کے معنی مقرَّر اور معیَّن ہیں ایسا کونسا مسلمان ہو گا جس کو ان الفاظ کے معنی نہ آتے ہوں اور ان کی حقیقت و ماہیت سے ناواقف ہو۔ ختمِ نبوت اور ختمِ رسالت کی مکمل حقیقت سے اکثر مسلمانوں کی ناواقفیت کے سبب اسلام دشمن عبد اللہ بن سباء یہودی کی یہودی ذہنیت نے عام مسلمانوں کی اس کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر امامت کے عقیدہ کو ایجاد کیا جس میں فی الحقیقت ختمِ نبوت اور ختمِ رسالت کے عقیدہ کے خاتمہ کا سو فیصد بارود بھرا ہوا ہے۔

مفکَّرِ اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے دو متضاد تصویریں نامی کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؓ کا ایک مکاشفہ نقل کیا ہے ۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ :

میں نے آنحضرتﷺ سے روحانی طور پر فرقہ شیعہ کے متعلق دریافت کیا مجھے جواب ملا کہ ان کا مذہب باطل ہے اور ان کے مذہب کا بطلان لفظ امام سے سمجھا جا سکتا ہے. شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ اس روحانی مراقبہ کی کیفیت ختم ہوئی تو مجھے خیال آیا کہ واقعی امام ان حضرات کے نزدیک وہ معصوم ہستی ہے جس کی اطاعت فرض ہے اور جس پر باطنی وحی آتی ہے اور حقیقت میں یہی نبی کی تعریف ہے اس لئے ان کا مذہب ختمِ نبوت کے انکار کا مُستَلْزِم ہے۔ (بروایت دو متضاد تصویریں ص77)

رسولُ اللّٰہﷺ کے خاتمُ النبیین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نبوت، رسالت، معصومیت اور براہِ راست اللّٰہ تعالیٰ سے وحی کے ذریعہ احکامات حاصل کر کے بندوں تک پہنچانے کی جو حقیقت ہے وہ حقیقت حضورﷺ پر ختم کی گئی ہے۔ اب قیامت تک آپﷺ ہی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نامزد رسول اور بندوں پر مقرر کردہ حجّت ہیں اور اب آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آخری حجت تسلیم کرنا اور آخری معصوم و مفترضُ الطاعۃ سمجھ کر قبول کرنا اور ایمان لانا ہی نجات کا سبب ہے، اور صرف آپﷺ کی اطاعت ہی اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور حضورﷺ پر نازل شدہ کتاب قرآن کریم جو کہ حضورﷺ کے ساتھیوں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے اور سید الکونینﷺ کے ارشادات یعنی احادیثِ رسول، اور اعمال جو خود آپﷺ نے کئے اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سکھلائے جو ہمیں صحابہ کرامؓ کے ذریعہ موصول ہوئے، وہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے دینِ اسلام کی ہدایت کا سرچشمہ، مرجع اور ماخذ رہیں گے۔ حضورﷺ کے بعد کوئی بھی دوسرا شخص معصوم اور مفترض الطاعۃ ہونے والا نہیں ہے، نہیں تھا اور نہ ہی ہو گا ۔ اور نہ ہی کوئی دوسرا شخص اللّٰہ کے بندوں پر اللّٰہ کی طرف سے حجّت بن کر آئے گا اور نہ آیا تھا۔

اس متعین اور تسلیم شدہ حقیقت کو تسلیم کرنے کے برعکس اسلام کے دشمن سبائی ٹولے نے اسلام کے نام میں سیدنا علیؓ اور آپ کی اولاد میں سے چند شخصیتوں کا انتخاب کر کے امام کے نام سے پکارا پھر وہ تمام فضائل جو حضورﷺ کے رسول اور خاتمُ النبیین ہونے کے لئے مخصوص ہیں وہ سب کے سب ہر ایک امام کے لئے مخصوص کر کے آخری بارہویں امام پر ان فضائل کی تکمیل دکھائی ہے یا بقولِ شیعہ یوں کہا جائے کہ شیعوں کے ہر ایک امام نے (مَعَاذَ اللہ) یہ تمام فضائل بلکہ ان سے بھی مزید اَرفَع و اعلیٰ درجات و فضائل انتہائی وضاحت کے ساتھ اپنے لئے بیان کئے ہیں اور ان فضائل کی تکمیل بارہویں امام پر اس طرح کی گئی ہے کہ اِمامُ الانبیاء خاتمُ النبیین حضرت محمدﷺ کو امامُ العصر (یعنی سنہ460ھ سے ہر وقت اور ہر دور کے زندہ غائب امام کے ظاہر ہونے کے بعد اس کی بیعت یعنی فرمانبرداری کا عہد کرنا پڑیگا (اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)۔

اب آپ ہی بتائیں کہ جس مذہب میں حضورﷺ کا بارہویں امام یعنی امام العصر ہی (غائب مہدی) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا عقیدہ ہو، تو اس مذہب میں امام کی نبیﷺ پر بالا دستی تسلیم کی جائیگی یا نبیﷺ کو امام پر فضیلت اور بالادستی حاصل ہوگی۔ فیصلہ آپ خود کریں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ اور شیعہ مذہب کے تصنیف کرنے والوں نے اسلام اور ختمِ نبوت کو مٹانے کے لئے کیا کچھ کیا ہے اور شیعہ مذہب کے اماموں اور عقیدۂ امامت میں اور اہلِ سنت والجماعة کی طرف سے امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ یا امام غزالیؒ کو امام کہنے میں کیسا نمایاں فرق ہے ۔ تاکہ عقیدۂ اِمامَت کے مُضمرات بآسانی سمجھ میں آ سکیں۔

2) اسلام کیا ہے؟ اسلام کی بنیاد کن چیزوں پر ہے؟ اور مسلمان کس کو کہا جاتا ہے؟

یہ بات ذہن میں رہے کہ شروع سے جس طبقہ نے بھی اپنے آپ کو مسلمان یا اسلام کا پیروکار ظاہر کر کے بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اور پسِ پردہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی ہے اور اسلام کو مٹانے کی کوشش اور جدوجہد کی ہے تو ایسے طبقے یا طاقت کو شکست دینا مسلمانوں کے لئے انتہائی مشکل کام بن گیا ہے۔ کیونکہ جو قوم بظاہر اسلام اور مسلمانوں کا نام لے کر میدانِ عمل میں آئی ہے وہ اسلام کے نام سے ایسے حربے استعمال کرتی ہے جن سے کتنے ہی ایسے مسلمان جن کو دین کی بنیادی باتوں کا علم نہیں ہے اور وہ اس باطل قوت کے اصل نَصْبُ العین اور مقصد سے بھی واقِف نہیں ہیں تو وہ مسلمان ان باطل لوگوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں اور شروع سے باطل قوتیں ایسا ہی کرتی رہی ہیں ۔ لہذا ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ اسلام کی بنیاد کن چیزوں پر ہے اور مسلمان کس کو کہا جاتا ہے؟

لفظ اسلام کے معنی ہیں اطاعت اور فرمانبرداری ۔ مذہب اسلام کا نام اسلام اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنی پڑتی ہے اور اللہ تعالی کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا لازم ہے۔ اسلام اور مسلمان کی تعریف میں مولانا محمد منظور نعمانی صاحبؒ لکھتے ہیں کہ:

اسلام نام ہے اس دین کا اور اس طریقہ پر زندگی گزارنے کا جو اللہ کے رسولﷺ اللہ کی طرف سے لائے ہیں اور جو قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں میں بیان کیا گیا ہے ، پھر جو اس دین کو اختیار کرے، اس طریقہ پر چلے وہ ہی اصلی مسلمان ہے۔ : (اسلام کیا ہے صفحہ: 17٫18)

اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ جو کچھ قرآن وسنت میں بیان کیا گیا ہے اس کا نام اسلام ہے اور جو شخص اسلام کی ان دو بنیادوں قرآن و سنت کو اختیار کرتا ہے اور قرآن وسنت کے شرعی احکامات کے مطابق زندگی گذارتا ہے وہی مسلمان ہے ۔

اسلام میں قرآن سے مراد موجودہ قرآن ہے جس پر نزولِ قرآن سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کا ایمان ہے ۔ فقہی اختلاف کی بناء پر حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی، اہلِ حدیث ان تمام حق پرست جماعتوں کا اس قرآن پر ایمان ہے جو کہ کامل مکمل صورت میں موجود ہے اس میں کوئی تَغَیُّر و تبدیلی اور تحریف نہیں ہوئی اور اس قرآن کے کاتِب، مُفسِّر اور ہمارے پاس پہنچانے والے اَوَّلِین مُبَلِّغ اور راوی حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔

اسلام میں سنت سے مراد حضورﷺ کی حیاتِ طیبہ اور آپﷺ کی وہ تمام قولی اور عملی ہدایات ہیں جو آپﷺ نے نبی، رسول، کتابُ اللّٰہ کے معلم اور اللّٰہ کی طرف سے بندوں پر آخری حجّت ہونے کی حیثیت سے دنیا کو سکھائی ہیں، اس پاکیزہ تعلیم کے بھی اولین راوی، اولین مخاطِب اور دنیا میں اولین مبلغ حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے اور وہی ہو سکتے ہیں۔ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پیغمبرﷺ کی سنت اور تعلیمات کو انتہائی حفاظت سے بعد میں آنے والوں تک پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے ۔ اور یہ تعلیمات بعد میں آنے والے مُحَدِّثین کرام نے پوری سند کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج کی ہیں اس طریقہ سے حضورﷺ کی سنت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تَوَسُّط سے ہم تک پہنچی ہے۔

3) اسلام مکمل دین کیوں ہے؟ اور حضورﷺ خاتم النبیین کیوں ہیں؟

اسلام مکمل دین کیوں ہے اور حضورﷺ خاتم النبیین کیوں ہیں؟ اور ختمِ نبوت کے عقیدہ کو برقرار رکھنے کے لئے کن چیزوں کا محفوظ اور موجود ہونا لازمی ہے ۔ اسکے بارے میں قرآن مجید میں ہے کہ :

ارشاد باری تعالی:

كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَۃً(قف)فبعث اللهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ ص وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الكِتَبَ بِالْحَقِّ لِيَحْکم بَينَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ

( البقرة 2- رکوع 26 - آیت 213)

تھے سب لوگ ایک دین پر، بھیجے اللہ نے پیغمبر خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے اور اتاری ان کے ساتھ کتاب سچی کہ فیصلہ کرے لوگوں میں، جس بات میں وہ جھگڑا کریں۔

2_ قیامت تک آنے والے ہر دور اور ہر زمانے کے تمام انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی قرآن میں موجود ہے اور رسول اللہﷺ ہر دور کے انسانوں کے لئے بشیر و نذیر یعنی خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے ہیں۔

إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلعَلَمِينَ۔۔

(یوسف 12- ع 11 - آیت 104)

یہ تو اور کچھ نہیں مگر نصیحت سارے عالم کو۔

وَمَآأَرْسَلْنٰكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا.

(سبا 34-رکوع 3- آیت 28)

اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈر سنانے کو۔

3_قرآن میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے کے لئے رہنمائی موجود ہے.

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًّا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِيْنَ.

(النحل 16- رکوع 13- آیت 89)

اور اتاری ہم نے تجھ پر کتاب، کھلا بیان ہر چیز کا اور ہدایت، رحمت اور خوشخبری حکم ماننے والوں کیلئے۔

4_ حق سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں اسلام کے علاوہ دوسرا کوئی دین مقبول نہیں ہے۔

ومن يبتغ غیر الاسلام دینا فلن يُقبل منه۔

(ال عمران 3-رکوع 9 - آیت 85)

اور جو کوئی چاہے سوائے دین اسلام کے اور کوئی دین سو ان سے ہرگز قبول نہ ہوگا۔

5_ قرآن کریم میں اسلام کے کامل دین ہونے کا اعلان ۔ اليوم أكملت لكم دينكم واتممت عليکم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دینا

(المائدة 5-رکوع 1- آیت 3)

آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کے دین کو۔

6_ حضورﷺ مُطاع (اطاعت کیا ہوا) ہیں اور آپکی اِطاعت اہلِ ایمان کیلئے قیامت تک فرض ہے۔

اَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُول

(النساء 4- رکوع 8 - آیت 59)

کہنا مانو اللہ کا اور کہنا مانو رسولُ اللّٰہﷺ کا۔

وما اٰتٰكم الرسولُ فَخُذُوہ، وما نهاكم عنه فانتهوا۔

(الحشر 59-رکوع 1- آیت 7)

اور جو دے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو۔

واضح رہے کہ قرآن کریم آنحضرتﷺ پر تیس برس میں نازل ہو کر مکمل ہوا، نزولِ قرآن کے ساتھ اس کی قولی اور عملی تشریح خود حضورﷺ بیان فرماتے رہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیان کراتے رہے جس کے نتیجہ میں کلامِ پاک کے بے شمار حُفَّاظ وقُرَّاء حضرات بن گئے اور قرآن کریم کی دائمی حفاظت کا معجزانہ انتظام ہو گیا۔

مضامینِ قرآن حکیم جلد اول طبع 1980ء میں زاہد ملک لکھتے ہیں کہ :۔

گویا اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے سینوں کو دنیا میں لوحِ محفوظ کا نمونہ بنا دیا۔

اور آگے لکھتے ہیں کہ :۔

آپﷺ کے دور میں قرآن کے حافظوں اور قاریوں کی تعداد اس حد تک ہو گئی تھی کہ عام مسلمانوں کی تعلیم کے لئے حضورﷺ ایک ایک شہر اور بستی میں چالیس چالیس حافظ و قاری بھیجتے تھے۔

(مضامینِ قرآن صفحہ 56)

چنانچہ حضورﷺ سے ہر ایک صحابی فیض حاصل کرکے نمونۂ اسلام بن گیا۔ اب جبکہ قرآن مجید اللّٰہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والی آخری کتاب ہے اس کے بعد کوئی اور کتاب نازل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا آپﷺ پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ تمام ہوا ۔ اب قیامت تک آپﷺ کے بعد کوئی شخص نبوت اور رسالت کا دعویٰ نہیں کر سکتا اگر کوئی دعویٰ کریگا تو وہ بلا شک و رَیب دجّال و کذّاب ہو گا۔ جسمانی معراج کا شرف بھی حضور انورﷺ کے ساتھ مخصوص تھا۔ قرآن مجید کے واضح الفاظ سے حضور انورﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا اعلان کیا گیا ۔ وہ الفاظ مبارکہ یہ ہیں :۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُم ولكن رسول الله وخاتم النبیین۔

( الاحزاب آیت40 - رکوع 5)

محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن (آپﷺ) اللہ کے رسول اور سب سے آخر میں آنے والے نبی ہیں۔

مندرجہ بالا توضیحات سے معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلام اور اس کے دونوں طریقے یعنی قرآن و سنت کی حفاظت کے لئے اپنی طرف سے ایک غیبی انتظام کیا ہے کہ اب رہتی دنیا تک اسلام کی تعلیمات اور اس کے احکامات میں کوئی ترمیم یا تنسیخ نہیں ہوگی اسلام میں کوئی تحریف و تغیّر نہ ہو گا جیسے دوسرے مذاہب میں ہوا ہے۔ یہ غیبی انتظام کچھ اس طرح ہے کہ:

1_قرآن حکیم جو حضورﷺ پر نازل ہوا وہ شروع سے ہی محفوظ اور موجود ہے۔ اس کے ایک ایک حرف، حرکات و سکنات وغیرہ میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آیا اور نہ ہی کسی فرق کے آنے کا امکان ہے کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری ربُّ العالمین نے خود اپنے ذمہ لی ہے جیسا کہ سورہ حِجْر میں ارشاد خداوندی ہے کہ:

یعنی "بے شک ہم نے ہی قرآن پاک کو اتارا ہے اور ہم ہی اسکی ہر لحاظ سے حفاظت کرنیوالے ہیں"

اس کے علاوہ مزید معلومات کے لئے سورہ حٰمٓ سجدہ کی آیت 21٫22 قابل غور ہیں. آیات مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کو تحریف اور تبدیلی سے بچانے کے لئے ایسا غیبی انتظام کیا گیا ہے کہ اس میں سے کسی بھی حصہ کا ضائع یا غائب ہو جانا یا اس میں غیرِ قرآن کا داخل ہو جانا ناممکن ہے۔

2_حضورﷺ کی زندگی مبارکہ کے تمام حالات و واقعات ، اقوال و اعمال جن کو قرآن کی تشریح یا تفسیر کہا جاتا ہے وہ سب کے سب ایسے محفوظ و موجود ہیں کہ چودہ سو برس گزرنے کے بعد بھی حضورﷺ ہمیں دائمی زندہ تعلیمات میں یوں نظر آتے ہیں گویا کہ ہم آپﷺ کو دیکھ کر آپﷺ سے ہدایات حاصل کر رہے ہیں۔

یہ ہے اسلام کے مکمل دین اور اس کے محفوظ اور موجود ہونے کی حقیقت اور یہ ہے حضور اقدسﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا مختصَر خاکہ اور ثبوت.

4- اسلام اور ختمِ نبوت کو مٹانے کے(نعوذُ باللہ) مؤثر طریقے:

گذشتہ صفحات سے معلوم ہوا کہ اگر اسلام دنیا میں باقی رہے اور حضورﷺ کو خاتمُ النبیین تسلیم کیا جائے تو ان باتوں کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت اپنی اصلی صورت میں محفوظ و موجود ہوں اور انکو اصلی صورت میں محفوظ اور موجود تسلیم کیا جائے۔

اگر اسلام کو (نعوذ باللہ) دنیا سے مٹانا ہو تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دنیا کے اندر قرآن وسنت کے محفوظ اور موجود ہونے کا انکار کیا جائے اور یہ انکار قولی ہو یا عملی یا دونوں طریقوں سے ہو۔ تیسری صورت یہ بھی ہے کہ خود ختمِ نبوت کا انکار کیا جائے۔ چنانچہ اسلام کو مٹانے کے لئے شیعیت میں تینوں چیزوں یعنی قرآن، سنت، اور خود ختمِ نبوت کا سو فی صد انکار ثابت ہو جاتا ہے ۔

آپ اگر اسلام کی مکمل تاریخ پر نظر ڈالیں گے تومعلوم ہوگا کہ جب بھی کسی چالاک دشمنِ اسلام نے (معاذ اللہ) اسلام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس نے ان تینوں حقائق میں سے کسی بھی ایک یا دو یا تینو کو غلط یا ناقص یا غیر یقینی ثابت کرنے کے لئے منصوبہ بنا کر اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جدوجہد کی ہے. آپ کو دور جانے کی ضرورت نہیں ہے حال ہی کے فتنۂ قادیانیت پر نظر ڈالیں ۔ انگریزوں نے جب 1857ء کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کے عزم و استقلال کو دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ اگر ہندوستان کے مسمانوں کے اس مضبوط قلعہ میں جب تک کوئی دراڑ نہیں ڈالی جائیگی اور تعلیماتِ اسلام کی بنیادوں کو کمزور نہیں کیا جائیگا تب تک انگریزوں کو اور ان کی حکومت کو استحکام نصیب نہیں ہوگا ۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے منصوبہ بنایا اور جس مہرے کو آگے کیا تو اس نے یعنی غلام احمد قادیانی نے نہ قرآن کا انکار کیا اور نہ ہی احادیث رسولﷺ کا انکار کیا لیکن اس نے صرف حضورﷺ کی ختمِ نبوت کا انکار کیا. جس کا آگے چل کر یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ وہ خود نبی بن بیٹھا اور اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنے اوپر وحی کے نزول کا راگ آلاپنا شروع کیا، قرآن کی تشریح اپنی طرف سے کرنے لگا اور اپنی حدیثیں تراشنے لگا اَلغرض بہت سے قصے اور داستانیں بنا کر مرتد اور گمراہ ہو کر اسلام کے لئے ایک بڑا فتنہ بنا اور مسلمانوں کو بھی بڑے فتنہ میں مبتلا کر دیا۔

اس کے بعد مسٹر پرویز کو دیکھیں ۔ اس نے قرآن کا انکار نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہلوایا، اس نے ختمِ نبوت کا بھی انکار نہیں کیا لیکن اس نے کمزور تاریخ کے حوالوں کا سہارا لے کر حضورﷺ کی احادیث یعنی قرآن کریم کی قولی اور عملی تشریح و تفسیر کو ناقص کہا جو کہ ہمیں حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ سے معلوم ہوئیں پھر اس مسٹر پرویز کا بھی اس دنیا میں جو حشر ہوا وہ ہوا ، علماء کرام سے یہ بات مخفی نہیں ہے۔

5_ اسلام اور ختمِ نبوت کو مٹانے کیلئے شیعوں کا اختیارکیا ہوا طریقہ، اصلی قرآن اور اماموں پر نازل شدہ 249 آسمانی کتابیں کہاں گئیں؟ شیعہ مذہب کہاں تصنیف ہوا ہے؟

اوپر بیان ہو چکا کہ ان تین حقائق میں سے کسی ایک کا انکار کرنے سے بھی حقیقت میں اسلام اور ختمِ نبوت کا انکار ہو جاتا ہے پر اب اگر آپ شیعوں کی مستنَد اور معتبَر کتابیں دیکھیں گے تومعلوم ہو گا کہ شیعہ مذہب کے موجدوں نے ان تینوں چیزوں کا انکار کیا ہے، اس کی تفصیل اس طرح ہے:

1_ نزولِ قرآن کے سب سے اولیّن عینی گواہ اور مخاطب ، پہلے عامِل ، حافظ و قاری اور کاتب و مبلغ حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہیں اور وہی تھے، ان معزَّز اور قُدسی ہستیوں کو شیعہ مصنفین و شیعہ مذہب کے موجدوں نے جھوٹے، مفاد پرست، غیر معتبر، غاصِب، منافِق اور مرتَد اور کافر کہہ کر قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا انکار کیا ہے۔ اور دو ہزار سے زائد روایات اماموں کے نام منسوب کر کے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں ان میں واضح الفاظ میں یوں لکھا گیا ہے کہ اس قرآن میں بڑے پیمانہ پر تبدیلی اور تحریف ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں، اس کتاب کے باب دوئم میں کافی مواد پیش کیا گیا ہے وہ وہاں مطالعہ کیا جائے یہاں پر صرف دو اقتباس دوبارہ پیش کرتا ہوں :-

1_ دہماں عیبی را کہ مسلمانان بکتاب یہود و نصاری میگرفتند عینا برائے خود را اینها ثابت شود.

(كشف الأسرار صفحہ 114 عکس صفحہ 525 پر)

اور تحریف کا جو عیب مسلمان، یہود و انصاری پر لگاتے ہیں وہی عیب ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اوپر بھی ثابت ہوتا ہے (معاذ اللہ)۔

اس عبارت میں خمینی صاحب قرآن کریم کو تحریف شدہ کتاب اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن مجید میں تحریف کرنیوالا لکھتا ہے۔ (نعوذ باللہ)

2- شیعہ اثنا عشریہ کی مستند و معتبر ترین کتاب تفسیر صافی صفحہ 10 میں ہے کہ :

عن ابی عبد الله علیه السلام قال لو قولی القرآن كما انزل لَالفيتنا فيه مسمّين.

(تفسير صافي صفحہ 10 طبع تهران)

اگر قرآن اس طرح پڑھا جاتا جیسا کہ رسول اللّٰہﷺ پر نازل ہوا تھا تو تم اس میں ہمیں ہمارے ناموں سے پا لیتے۔ (عکس دیکھیں صفحہ 509 پر)

اس کے بارے میں مزید تفصیل باب دوم میں موجود ہے یہاں پر بطور نمونہ دو اِقتباسات پر اکتفا کیا گیا ہے۔

2_ اب آپ غور کریں کہ شیعہ مذہب کے مصنِّفین نے قرآن کریم کو مشکوک ثابت کرنے کیلئے قرآن کے اولین مخاطب اور مبلّغین حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کفر و ارتداد، غاصب و ظالم ، مکار و مفاد پرست وغیرہ کی مذموم صفات سے مَطعون کیا ہے اور قرآن کریم کے بارے میں تحریف کا عقیدہ بنایا ہے تو پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شیعہ دنیا کے لئے حضورﷺ کی سنت یعنی احادیث کے بارے میں کونسے فارمولے سے معتبر اور قابل اعتبار ہو سکیں گے؟ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس پر کچھ لکھنا بالکل غیر ضروری ہے چنانچہ شیعوں کے پاس نبیﷺ کی سنت یعنی اَحادیث کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شیعہ جس چیز کو سنّت اور حدیث کہتے ہیں ان سے ان کی اصل مراد وہ روایت ہوتی ہے جو کسی امام کے نام سے منسوب بتائی جائے مثلاً کوئی راوی کہے کہ سَیِّدُنا محمد باقر صاحب نے اس کے بارے میں یہ حکم دیا ہے یا سیدنا رضاؒ نے یوں کہا ہے، سیدنا حسن عَسکریؒ نے یوں فرمایا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی ہے شیعہ مذہب میں سنّت اور حدیث کا اصلی چہرہ جس کو میں نے دوسرے مقامات پر تفصیل کے ساتھ بے نقاب کیا ہے تاکہ عام مسلمان اس زبردست دھوکے کو اچھی طرح دیکھ اور سمجھ سکیں۔

3_ اسلام اور ختمِ نبوت کے عقائد کی بقاء کے لئے قرآن وسنت کا محفوظ و موجود ہونا اشد ضروری ہے لیکن شیعہ مذہب کے بانیوں نے ان دونوں کا انکار کرنے کے بعد حضورﷺ کے خاتَمُ النبیین والے منصَب کو ، امامت کے عہدہ سے پُر کیا ہے اور انہوں نے اماموں کے نام سے ہزاروں روایات بنا ڈالیں جو کہ شیعہ مذہب کی بنیادیں ہیں چنانْچہ ہم شیعوں سے جو روایات اور احادیث کے الفاظ سنتے ہیں تو دراصل ان سے مراد وہی روایات ہوتی ہیں جو شیعوں کی کتابوں میں احادیث کے نام سے لکھی گئی ہیں۔ جن کی آخری سند حضورﷺ کی ذات گرامی نہیں ہے بلکہ آخری سند کوئی نہ کوئی امام بتایا گیا ہے۔ شیعوں کی ایسی کتابوں میں سے سب سے زیادہ مستند و معتبر ترین کتاب" اَلْجامعُ الٰکَافِی“ ہے ۔ اس کا مؤلّف ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحق کلینی رازی متوفی 328ھ ہے۔ صرف اس کتاب میں روایات کی تعداد (16199) سولہ ہزار ایک سو ننانوے ہے۔ ان روایات میں تحریفِ قرآن اور تقیہ (جھوٹ بولنا ، دھوکہ سے کام لینا، ظاہر کا باطن کے خلاف ہونا) کو اماموں کا دین کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بداء ہوتا ہے یعنی اللہ تعالٰی بھی نعوذ باللہ بھول جاتا ہے ، اس مسئلہ کا ذکر ہے ۔ اس کتاب میں امامت اور اماموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی طرح ہر شئے میں حجّت ہونے کے بارے میں ایک سو ستائیس (127) اَبواب ہیں۔ جن میں ہے کہ امام معصوم اور گناہوں سے پاک ہیں جن سے غلطی اور لغزِش ہونے کا تصوُّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔حضورﷺ کی اطاعت کی طرح اماموں کی اطاعت فرضِ عین ہے، ہر امام کا درجہ تمام انبیاء علیہم السلام سے اعلیٰ اور حضورﷺ کے برابر ہے ہر امام پر ہرسال قدر کی رات میں آسمان سے فرشتہ ایک کتاب لیکر نازل ہوتا تھا لہذا ہر امام صاحبِ کتاب ہے اور ہر امام جمعہ کی رات معراج پر جاتا تھا تاکہ اسکے علم میں اضافہ کیا جائے۔ لہذا ہر امام صاحبِ معراج ہے۔ اور اس کتاب میں ہے کہ ہر امام کو اپنے سے پہلے فوت شدّہ امام کیطرح حلال کردہ اشیاء کو حرام کرنے اور حرام کردہ اشیاء کو حلال کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ لہذا ہر امام صاحبِ شریعت ہے. یہ جو کچھ لکھا گیا وہ صرف ڈھیر میں سے ایک مٹھی ہے جس سے شیعہ مذہب کی جنس کا تعارف کرانا مقصود ہے ۔ اس کے بارے میں آگے تفصیلی روایات آرہی ہیں۔

اب یہ بات ذہن میں رہے کہ رسولُ اللّٰہﷺ نے سن 11 ہجری میں رحلت فرمائی، شیعوں کے عقیدہ کے مطابق سیدنا علیؓ حضورﷺ کیطرح پہلے امام سن 11ہجری میں بنے اور گیارہویں امام سیدنا حسن عسکریؒ نے 260 ھجری میں وفات کی، تو اس حساب سے(11 - 260) = 249 برس کا عرصہ بنا۔ ہر ایک امام پر ہر سال شبِ قدر میں کتاب نازل ہوتی تھی تو پھر کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی پر آخری آسمانی کتاب قرآن مجید نازل ہونے کے بعد بھی اماموں پر 249 آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں۔

اسوقت شیعہ ویلفیئر آرگنائزیشن نواب شاہ کی طرف سے مطبوعہ چارٹ میرے سامنے موجود ہے اسکی تصدیق شیعہ اثناء عشریہ علامہ علی احمد نَجفی نے کی ہے۔ اس میں سے چند باتیں ناظِرین کے لئے پیش کرتا ہوں۔

1_سَیِّدُنَا علیؓ: (مقامِ ولادت: مکہ معظمہ، وفات: 40 ہجری، امامت کی مدت: 30 سال

2_ سَیِّدُنَا حسنؓ: (مقامِ ولادت: مدینہ منورہ وفات: 50 ھجری، امامت کی مدت: 10 سال)

3_ سَیِّدُنَا حسینؓ: (مقامِ ولادت: مدینہ منورہ وفات:61 ھجری، امامت کی مدت: 10 سال)

4_ سَیِّدُنَا زین العابدینؒ: (مقامِ ولادت: مدینہ منورہ، وفات: 95 ھجری، امامت کی مدت: 34 سال)

5_ سَیِّدُنَا محمد باقرؒ: (مقامِ ولادت: مدینہ منورہ وفات: 114ھجری، امامت کی مدت: 19 سال)

6_ سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ: (مقامِ ولادت: مدینہ منورہ وفات: 148ہجری، امامت کی مدت: 34 سال)

7_ سَیِّدُنَا موسیٰ کاظمؒ: (مقامِ ولادت: مکہ اور مدینہ کے درمیان منزل، وفات: 183 ہجری، امامت کی مدت: 35سال)

8_ سَیِّدُنَا علی رضاؒ: (مقامِ ولادت: مدینہ منورہ، وفات: 203 ہجری، امامت کی مدت: 20 سال)

9_ سَیِّدُنَا محمد تقیؒ: (مقامِ ولادت: مدینہ منورہ، وفات: 220 ہجری، امامت کی مدت: 17سال)

10_ سَیِّدُنَا علی نقیؒ: (مقامِ ولادت: مدینہ منورہ کے قریب گاؤں میں، وفات: 254 ہجری، امامت کی مدت: 34 سال)

11_ سَیِّدُنَا حسن عسکریؒ: (مقامِ ولادت: مدینہ منورہ، وفات: 240 ہجری، امامت کی مدت: 4 سال)

12_ محمد مہدیؒ: (مقامِ ولادت: سامرہ،بغداد وفات:(ـــــ)، امامت کی مدت: 259)

کل مدت2( اماموں پر نازل شدہ آسمانی کتابوں کی مجموعی تعداد): 249

اس چارٹ سے گیارہ اماموں کی امامت کا عرصہ 249 برس بنتا ہے شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ہر امام پر، ہر سال شبِ قدر میں آسمان سے فرشتے ایک کتاب لیکر نازل ہوتے تھے۔ تو اس حساب سے قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد بھی ان اماموں پر 249 آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں اور شیعوں کا کہنا ہے کہ محمد مہدی (امامُ العصر غائب مہدی) اصلی قرآن کے ساتھ یہ تمام کتابیں اپنے ساتھ لے گیا ہے اور وہ صاحب تقریباً ساڑھے گیارہ سو (1150) برسوں سے ایک غار میں غائب ہو گیا ہے (اَستغفرُ اللّٰہ).

مذکورہ چارٹ کو دیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ صرف سَیِّدُنَا علیؓ پر حضورﷺ کی وفات کے بعد میں (30) کتابیں نازل ہوئی ہیں ۔ اب جبکہ ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ یہ سب کتابیں کہاں گئیں؟ اور سَیِّدُنَا علیؓ نے جو قرآن جمع کیا تھا وہ گیارہ امام اپنے ساتھ 249 برس تک اپنے پاس صرف برکت کے بہانے رکھتے رہے وہ قرآن کہاں ہے؟ تو شیعہ حضرات ایک عجیب مُعَمّہ پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ گیارہویں امام سَیِّدُنَا حسن عسکریؒ کو ایک کنیز نرگس سے ایک فرزند ہوا تھا جس کی دوسرے کسی کو بھی خبر تک نہیں دی گئی تھی۔ اس لڑکے کی عمر ابھی 4-5 برس ہی تھی تو سَیِّدُنَا حسن عسکریؒ کی وفات کا وقت قریب آیا، لہذا یہ صاحبزادہ اپنے والِد کی وفات (سنۃ 260 ہجری) سے آٹھ دس دن پہلے اس وقت کی حکومت کے خوف کی وجہ سے یہ مُکمل کتابیں اور دوسرے بھی بہت سارے تبرکات جن کا شمار کرنا نامُمکن ہے، وہ بھی اپنے ساتھ لے کر تَن تنہا بغداد شہر کے قریب ایک غار میں غائب ہوگیا اور وہاں اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے اور جب اس کی جلا وطنی کا زمانہ ختم ہوگا تو پھر یہ صاحب، جن کو ہم اِمامُ العصر کہتے ہیں وہ باہر نکل آئے گا اور اپنے ساتھ سَیِّدُنَا علیؓ والا قرآن جو کہ موجودہ قرآن سے کم از کم تین گنا بڑا ہو گا اور اسمیں تمام اماموں کے نام اور ان کی امامت کا ذکر ہوگا اور اس کے ساتھ اماموں پر نازل شدہ کتابیں اور دوسرے بہت سارے تبرکات باہر نکال کر لائے گا اور اگر آپ اس وقت زندہ ہوں گے تو خود بھی دیکھ سکیں گے اور مزید فرماتے ہیں کہ ہم خود اس امام العصر کا 260 ہجری سے آج تک انتظار کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شب و روز دعائیں کر رہے ہیں کہ اس کی جلا وطنی کا عرصہ ختم کر کے اسکو جلد باہر لائے وغیرہ وغیرہ۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھیں اس کتاب کا باب غائب امام مہدی اور رجعت)۔

اس چارٹ میں آپ کو ایک دوسری خاص چیز یہ بھی نظر آئے گی کہ شیعوں کے یہ تمام گیارہ آئِمّہ حجازِ مقدس اور اس میں بھی خاص کر مدینہ مُنوَّرہ میں پیدا ہوئے ہیں اور شعیوں نے اپنے مذہب کو زیادہ تر سَیِّدُنَا محمد باقرؒ اور سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات مدینہ منوّرہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہاں ہی پوری عمر گزاری ہے اور وہیں جنّتُ البقیع کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

تحذيرُ المسلمين عنْ كَيدِ الکاذِبین کا مصنّف لکھتا ہے کہ :۔ اس مذہب کا کوئی راوی ملک عرب بالخصوص مکہ اور مدینہ کا نہیں ہے، تمام راوی عراق اور ایران کے ہیں۔ خُلفائے ثلٰثہ کے عہد میں ان مَمَالک کی سیاسی برتری کو جو نقصان پہنچا وہ مَخفی نہیں اس لئے مذہب کو سیاسی انتقام کا ایک ذریعہ بنایا گیا.

(تحذيرُ المسلمين، بار سوم، صفحہ 380)

مولانا محمد منظور نعمانی صاحبؒ ایرانی انقلاب میں لکھتے ہیں کہ:

"اس سلسلہ میں یہ بات خاص طور سے قابلِ لحاظ ہے کہ ابو بصیر اور زُرَارہ وغیرہ جو اس طرح کی روایتوں کے راوی ہیں اور ہمارے نزدیک فی الحقیقت شیعہ مذہب کے مصنّف ہیں. کوفہ میں رہتے تھے اور سَیِّدُنَا محمد باقرؒ اور سَیِّدُنَا جَعفَر صادِقؒ مدینہ منورہ میں۔ یہ لوگ کوفہ سے کبھی کبھی مدینہ منورہ آتے اور یہاں سے واپس جا کر کوفہ میں اپنے خاص حلقہ میں ان آئِمَّہ کی طرف منسوب کر کے اسطرح کی روایات بیان کرتے تھے انہی روایات پر شیعہ مذہب کی بنیاد ہے" (ایرانی انقلاب، صفحہ 141)

شیعہ مذہب کے تصنیف کرنیوالے کوفہ اور ایران کے باشندے تھے وہ جب مدینہ منورہ میں آتے تھے تو سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ اور سَیِّدُنَا محمد باقرؒ سے ملاقات کرنے اور ان سے حدیثیں حاصل کرنے کا جن الفاظ میں اظہار کرتے تھے اس کا صحیح نقشہ مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے شیعوں کی مُستند ترین معتبر کتاب اَلْجَامِعُ الکَافِی کی سند سے اس طرح بیان کیا ہے :-

اصولِ کافی میں ایک باب ہے جس کا عنوان ہے بابٌ فیہ ذِکرُ الصَّحیفةِ وَالجفرِ وَالجامعة و مُصْحَف فاطمةَ علیها السلام"( اس باب میں ذکر ہے صحیفہ کا، جفر، جامعہ اور مصحفِ فاطمہؒ کا). "اس باب کی پہلی رِوایت بہت طویل ہے اس لیے اس کو تَلخیص اور اختِصار ہی کے ساتھ نظرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔"

" ابو بصیر( جو شیعی روایت کے مطابق سَیِّدُنَا جعفر صادق رحمہ اللہ کے خاص مَحرَمِ راز شیعوں میں سے تھا) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ مجھے ایک خاص بات دریافت کرنی ہے یہاں کوئی غیر آدمی تو نہیں ہے؟ تو انہوں نے وہ پردہ اٹھایا جو اس گھر اور دوسرے گھر کے درمیان پڑا ہوا تھا اور اندر دیکھ کر فرمایا کہ اس وقت یہاں کوئی نہیں ہے جو جی چاہے پوچھ سکتےہو۔"

(اصول کافی، مطبوعہ 1302 ہجری، صفحہ 146)

آگے چل کر حضرت مولانا لکھتے ہیں کہ:-

" شیعہ مذہب کی پوری حقیقت، روایت کے اس اِبتدائی حصے سے سمجھی جا سکتی ہے سَیِّدُنَا محمد باقرؒ اور سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ وغیرہ آئمہ سے شیعہ مذہب کی تعلیمات اور روایات کرنے والے ابو بَصیر، زُرارہ وغیرہ مذہب شیعہ کے خاص راوی جو اپنے آپ کو سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ اور سَیِّدُنَا باقرؒ کا خاص محرم راز بتلاتے تھے اور اپنے حلقے کے خاص لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ آئمہ ہم کو شیعہ مذہب کی باتیں رازداری کے ساتھ تنہائی میں بتاتے تھے جب کوئی دوسرا آدمی نہیں ہوتا تھا اس طرح یہ لوگ جو چاہتے ان اماموں کی طرف منسوب کر کے کہہ سکتے تھے اور انہوں نے یہی کیا ہے. واقعہ یہ ہے کہ شیعہ مذہب کی اصل حقیقت بس یہی ہے ورنہ ہمارے اور جَمہور امتِ محمدیہ کے نزدیک یہ حضرات اللہ کے مقبول باصفا بندے اور اعلیٰ درجے کے صاحبِ علم و تقوی تھے. ان کا ظاہر و باطن ایک تھا اور وہ سب کو دین کی تعلیم اِعلانیہ دیتے تھے ان کی زندگی میں نفاق کا شبّہ بھی نہیں تھا جس کا نام شیعہ حضرات نے "تقیہ" رکھ لیا ہے۔ (ایرانی انقلاب صفحہ 138-139)

شیعہ مذہب کے تصنیف کرنے والے ایرانی اور عراقی راویوں میں زرارہ اور ابوبصیر تمام راویوں سے زیادہ معتبر ہیں اس بات کی تصدیق شیعوں کی بہت مشہور کتاب" رِجال کشی" کے ان الفاظ سے ہوتی ہے:-

سمعتُ ابا عبداللہ (ع) ما أجد احدًا احیا ذکرنا واحادیث ابی الا زرارۃ و ابو بصیر لیث المرادی و محمد بن مسلم و برید بن معاویة العجلی ۔

(رجال کشی (کربلاء) صفحہ 124-125)

ترجمہ:روای کہتا ہے کہ میں نے ابو عبداللہ جعفر صادقؒ سے سنا کہ آپ نے فرمایا مجھے ایسا کوئی دوسرا شخص نہیں ملتا جس نے ہمارے ذکر اور میرے والد کی حدیثوں کو زندہ کیا ہو سوائے زرارہ، ابو بصیر، محمد بن مسلم اور برید بن معاویہ کے ۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب بھی اماموں کو کسی شیعہ راوی کے بارے میں یہ خبر پہنچی کہ وہ ہمارے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو کہ ہم نے نہیں کہیں تو آپ نے اسی وقت اس راوی پر لعنت بھیجی ہے چنانچہ اِن چار معتبر راویوں کے بارے میں مندرجہ ذیل معتبر ترین روایات دیکھیں۔

(1) ابو سیار نے سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ کے یہ الفاظ سنائے:-

قال سمعت ابا عبداللہ یقول لعن اللّٰه بریدًا، لعن الله زرارۃَ

ترجمہ :میں نے سَیِّدُنَا جعفر سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا بریدہ پر اللہ تعالی لعنت کرے اور زرارہ پر بھی اللہ لعنت کرے ۔

(رجال کشی (کربلاء) 134)

(2)سَیِّدُنَا جعفر کے بارے میں خود ابو بصیر کی رائے اور اس کو اس کی گستاخی کی سزا:-

قال جلس ابو بصیر على باب ابی عبداللہ علیه السلام لیطلب الاذن فلم یؤذن له فقال لو کان معنا طبق الأذن. فجاء کلب فشغر فی وجه ابی بصیر۔

(رجال کشی، صفحہ 155)

ترجمہ:راوی کا بیان ہے کہ ابو بصیر سَیِّدُنَا جعفرؒ کے دروازے پر بیٹھا تھا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی لیکن وہ اس کو اجازت نہیں دے رہے تھے تو کہنے لگا کہ اگر میرے ساتھ کوئی پیسے کا طبق ہوتا تو مجھے اجازت مل جاتی پھر ایک کتا آیا اور اس کے منہ میں پیشاب کر گیا ۔

ابو بصیر کوفہ کا تھا اور اندھا تھا زیادہ وقت دروازے پر بیٹھنے کی وجہ سے وہاں سو گیا تو ایک کتا آیا اور اس نے اس کے منہ میں پیشاب کر دیا بظاہر اس کو قدرت سے یہ سزا ملی ہے کہ وہ منہ کھول کر سویا ہوا تھا اور کتے نے اپنا کام پورا کر دیا ۔

(3)عن مفضل بن عمر قال سمعت ابا عبدالله یقول لعن اللّٰه محمد بن مسلم کان یقول أن الله لا یعلم شیئا حتی یکون ۔

(رجال کشی، صفحہ 151)

مفضل بن عمر کا بیان ہے کہ میں نے سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے سنا آپ نے فرمایا کہ محمد بن مسلم پر اللّٰہ تعالیٰ لعنت کرے کہ وہ کہتا ہے کہ جب تک کوئی چیز وجود میں نہیں آتی تب تک اللّٰہ تعالیٰ کو اس کا علم نہیں ہوتا۔

مندرجہ بالا عنوانات سے اپ کو یہ باتیں معلوم ہوئیں:

1-شیعوں نے رسول اللّٰہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو جھوٹا، مکار، مُرتَد وغیرہ کہہ کر قران و سنّت کی صحت اور سلامیت کا انکار کیا۔

2_ شیعوں نے قران و سنت کے انکار سے ختمِ نبوت کا مَنصَب خالی کر کے یہ جگہ اِمامت کے عہدے سے پُر کی ہے اور ہزاروں روایات اپنی طرف سے بنا کر اماموں کے ناموں سے لکھی ہیں اور ان کے پاس سنت اور حدیث سے مراد یہی خود تراشیدہ روایات ہیں۔

3- شیعوں کے راویوں میں سے کوئی بھی راوی حجازِ مقدس مکہ اور مدینہ منورہ کا باشندہ نہیں ہے بلکہ یہ سب عراق اور ایران کے باشندے ہیں جبکہ شیعوں کے کہنے کے مطابق خود آئمہ حضرات کا قیام مدینہ منورہ اور حجازِ مقدس میں رہا ہے۔ یہ راوی کبھی کبھی اماموں کے پاس چُھپ کر آتے تھے اور پھر اپنے حلقہ کے لوگوں کو کہتے تھے کہ سَیِّدُنَا محمد باقرؒ اور سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ نے اس طرح فرمایا ہے وغیرہ وغیرہ بالفاظِ دیگر شیعہ مذہب کی تصنیف مخفی طرح سے ایران اور عراق میں ہو رہی تھی اور جن بُزرگوں کی طرف اس مذہب کو منسوب کیا جا رہا تھا وہ خود مدینہ منورہ میں رہتے تھے جن کو یہ خبر بھی نہیں تھی کہ ان کے بارے میں کیا کیا کہا جا رہا ہے اور کیا کیا لکھا جا رہا ہے۔

قارئین کرام! اب آپ شیعوں کے ایسے راویوں اور ان سے روایت کی ہوئی حدیثوں کا مقابلہ اہلِ سنت والجماعت کی احادیث کی کتابوں میں ذکر کی گئی حدیثوں اور ان کے راویوں سے کریں. اس بارے میں امامِ اہلِ سنت و الجماعت مولانا عبدالشکور لکھنویؒ فرماتے ہیں:-

"علمِ حدیث کی تکمیل کے لیے اہل سنت نے 65 فن مدون کیے، ایک لاکھ سے زائد راویوں کے حالات قلمبند کیے. آج جس طرح ہم ہر ایک حدیث کی سَنَد رسولِ خدا تک بیان کر دیں گے دنیا میں کوئی بھی شخص تورات، اِنجیل، زبور یا وید کی سند مُعلِّمِ اوّل تک بیان نہیں کر سکتا."

ایک اور جگہ مولانا فرماتے ہیں:-

"اہلِ سنت کے پاس قرآن ہے اور اُن کے تمام عقیدہ کی بنیاد اُسی پاک کتاب پر ہے. ان کے پاس متواتر احادیث کا بھی بہت اچھا ذخیرہ ہے. اُن کا مذہب متواتر ہے، جس کو قرنِ اول کے ایک لاکھ سے زائد انسانوں یعنی اہلِ بیتِ رسول اور اصحابِ رسول نے اپنے پاک نبی سے روایت کیا ہے۔ تدوینِ کتب کے بعد تو ہر قرن میں اس علم کے اتنے لوگ رہے ہیں کہ اُن کا شمار خداوند قدوس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا مثلاً مؤطا امام مالک سے 90 ہزار آدمیوں نے پڑھا اور روایت کیا ہے۔

(خلاصہ مقدمہ تفسیر آیاتِ خلافت، صفحہ 39-47، مطبوعہ لکھنؤ 1942ء)

ایسے اعلیٰ معیار کے مقابلے میں آپ نے شیعوں کے معتبر ترین راویوں کا احوال پڑھا جن پر اماموں نے خود لعنت برسائی ہے اور یہ اماموں کے آگے بھی سخت گستاخ واقع ہوئے ہیں. ان کا اماموں سے روایت حاصل کرنے اور ان سے ملاقات کا طریقہ بھی آپ نے پڑھا حقیقت یہ ہے کہ رافضیوں کا مذہب تو ان کی معتبر کُتُب اُصولِ اربع یعنی اصولِ کافی، تہذیب، مَن لَّا یحضرہ الفقیه، اِستِبصار بھی اپنے مصنِّفین سے ہی متواتر نہیں، جس نے جو کتاب بنائی اس کو عَیب کی طرح صدیوں تک چھپائے رکھا اب بمشکل 200 برس ہوئے ہوں گے کہ وہ کتابیں صندوقِ تقیہ سے باہر نکلی ہیں۔

4- شیعہ مذہب کے بنیادی عقیدۂ امامت کو اسلام اور ختمِ نبوت کے عقیدے کو ختم کرنے کا سوفیصد طے شدہ پروگرام گرام کیوں کہا جاتا ہے؟

اس عنوان کے بارے میں ہم دیکھیں کہ شیعوں کے معتبر ترین کتابوں میں کیا کیا درج ہے، ان میں کس طرح نُبُوَّت والے تمام کام، مقصد، منصب اور اعزاز اماموں کے لیے ثابت کیے گئے ہیں.

(1) اصولِ کافی میں سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ:-

"عن محمد بن مسلم قال سمعت ابا عبدالله علیه السلام یقول اَلائمة بمنزلة رسول اللّٰه صلی الله علیه واله الا انھم لیسوا بانبیاء ولا یحل لھم النساء فاما ماخلا ذالک فھم بمنزلة رسول اللہ صل الله علیه واله ۔"

(اصولِ کافی صفحہ 165-166)

ترجمہ: محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ آئمہ رسول اللّٰہﷺ جیسے ہیں لیکن وہ نبی نہیں کیونکہ اُن کے لیے اتنی عورتیں حلال نہیں جتنی نبیوں کے لیے حلال ہیں اس کے علاوہ باقی جتنے فضائل اور خصوصیات ہیں ان میں آئمہ رسول اللّٰہﷺ کے برابر ہیں (نعوذ باللہ)

(2) اُصولِ کافی میں سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:-

"عن ابی عبدالله قال ما جاء به علی اخذ به و ما نھی عنه انتھی عنه جری له من الفضل مثل ما جری لمحمد و لمحمد الفضل علی جمیع من خلق اللہ عزوجل المتعقب علیه فی شیٔ من احکامه کالمتعقب علی الله و علی رسوله والرادّ علیه فی صغیرۃ و کبیرۃ على حد الشرک باللہ ------ و کذالک یجری لائمة الھدی واحد بعد واحد ۔"

(اصولِ کافی، صفحہ 117)

ترجمہ :- کہ جو احکام علی نے لائے ہیں اُن پر عمل کرتا ہوں اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے ایسا نہیں کرتا اُس سے احتراز کرتا ہوں اس (علی) کی فضیلت محمد جیسی ہے اور محمد کو اللہ کی تمام مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور اس کے کسی حکم پر اعتراض کرنے والا ایسا ہے جیسے اللہ اور اس کے رسول پر اعتراض کرنے والا، اُس (علی) کی چھوٹی یا بڑی بات کی تردید کرنے والا اللہ سے شرک کرنے والے کے برابر ہے اور اسی طرح تمام آئمہ کے لیے جو کہ ہدایت کے سرچشمہ ہیں، ایسی فضیلت ہے ایک کے بعد ایک کے لیے. یعنی بارہ اماموں میں سے ہر ایک کا رتبہ نبی کریمﷺ کے برابر ہے( نعوذ باللہ)

اس روایت میں ہے کہ سَیِّدُنَا علیؓ نے جو احکام لائے ہیں اُن پر عمل کرتا ہوں. اس کے بارے میں آپ کو بخوبی علم ہے کہ شیعوں کے بارہ کے بارہ تمام امام صاحبِ وحی اور صاحبِ کتاب ہیں اور ہر ایک کا رتبہ نبی کریمﷺ کے برابر ہے اب آپ ہی بتائیں یہاں پر ختمِ نبوت کا عقیدہ تو دُور کی بات ہے یہاں تو آپ کو اس عقیدۂ ختمِ نبوت کا کوئی دُھندلا سا تصوُّر بھی ملتا ہے؟

تو پھر کیا عقیدۂ ختمِ نبوت کے انکار کو دوسرے کسی قسم کے سُرخاب کے پَر لگے ہوتے ہیں کیا؟

ان روایات پر کیا تبصرہ کریں انگریز گورنمنٹ کا ایک ایجنٹ اَزلی بدبخت غلام احمد قادیانی (علیه ما عليه) نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ اور اِس کے تمام پیروکار یقینی طور پر کافر اور مُرتَد ہوتے ہیں اور یہاں شیعہ مذہب کے مصنفین بارہ بُزُرگ ہستیوں کو تمام پیغمبروں سے اعلیٰ اور حضورﷺ کے برابر کہتے ہیں اور ان کی طرف روایات منسوب کر کے ان روایات پر اپنا مکمَّل علیحدہ دین تصنیف کرتے ہیں جس کی دین اسلام سے علیحدگی پہلی چیز یعنی کلمہ سے ہی شروع ہوتی ہے اور شیعیت کا اسلام کے ساتھ کہیں بھی اِتحاد نہیں ہے تو پھر شیعیت اسلام کیسے بنا اور اس میں ختمِ نبوت کا تصور کہاں سے آیا۔ بس ختمِ نبوت کے عقیدے کا زبانی دعویٰ شیعوں کا تقیہ ہے جس کے بارے میں خود یہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے 24 برس تک تقیہ کیا اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم کی بیعت میں رہے اور اپنی خلافت اور حکومت کے دور میں بھی اپنا جمع کردہ قرآن پاک ظاہر نہ کر سکے۔

(3) شیعہ مُجتہِد و مُحَدِّث ملا باقر مجلسی کہتا ہے کہ:-

" مرتبہ امامت بالاتر از مرتبہ پیغمبر لیست"

ترجمہ: امامت کا درجہِ نبوت سے بالاتر ہے ۔

(حیاتُ القُلُوب جلد 3، صفحہ 2)

دوسری جگہ پر مجلسی صاحب فرماتے ہیں:-

"مرتبہ امامت نظیر مرتبہ نبوت و مثل آنست بلکہ چنانچہ نبوت رسالتی است از جانب خدا بوساطت ملک، امامت نیز فی الحقیقہ نبوتی است بوساطت نبی۔"

ترجمہ: کہ امامت نبوت کی طرح نہیں بلکہ حقیقت میں نبوت ہے، نبوت جبرائیل کے واسطے سے ہے اور امامت نبی کے واسطے سے ہے۔

(حیات القلوب جلد 3، صفحہ 81)

موجودہ دور کے مذہبی اور سیاسی رہنما خمینی صاحب نے اپنی تصنیف الحکومة الاسلامیة میں لکھا ہے کہ:-

فان للامام مقاما محمودا و درجة سامیة و خلافة تکوینیة تخضع لولایتھا و سیطرتھا جمیع ذرات ھذا الکون ۔

(الحکومۃ الاسلامیہ، صفحہ 82)

ترجمہ :-امام کو وہ مقامِ محمود اور وہ بلند مرتبہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہے جو کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم اور اقتدار کے آگے سر تسلیم خم کر کے تابع و فرمانبردار ہو کر کھڑا ہے۔

اور خمینی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ:

"وان من ضروریات مذھبنا ان لائمتنا مقاما لا یبلغه ملک مقرب ولا نبی مرسل"

(الحکومۃ الاسلامیہ، صفحہ 52)

ترجمہ :- ہمارے مذہب شیعہ( اثنا عشریہ) کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ بھی عقیدہ ہے کہ ہمارے اماموں کو وہ مقام اور فضیلت حاصِل ہے جس تک کوئی مقرب فرشتہ یا نبی مرسل نہیں پہنچ سکتا.

مجلسی صاحب فرماتے ہیں کہ :-

"چوں قائم اٰل محمدﷺ بیرون آید خدا ادرا یاری کند بملائکہ و اول کسے با او بیعت کند محمد باشد و بعد ازان علی"

(حقُّ الیقین، صفحہ 347 )

ترجمہ :- جب قائم اٰل محمد (امام غائب زمان) باہر نکل آئے گا تو خدا فرشتوں کے ذریعے اس کی مدد کرے گا اور سب سے پہلے رسول اللّٰہﷺ اس کی بیعت کریں گے اور پھر علیؓ( نعوذ باللہ).

دیکھا آپ نے اماموں کا کیا رتبہ ہے اور بقول ملا باقر مجلسی کے حضورﷺ خود شیعوں کے مہدی کی بیعت کریں گے تو پھر عقیدۂ ختمِ نبوت کہاں باقی رہا ۔

اصولِ کافی میں قرآن مجید میں تحریف کے بارے میں کافی روایات ہیں بطورِ نمونہ ایک روایت پیش کی جاتی ہے :-

"عن عبدالله بن سنان عن ابی عبدالله علیه السلام فی قوله ولقد عھدنا الی آدم من قبل کلمات فی محمد وعلی و فاطمہ والحسن والحسین والائمة من ذریتھم فنسی ھکذا والله انزلت علی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم-"

(اصولِ کافی ص 263)

ترجمہ:-عبداللہ بن سنان روایت کرتا ہے کہ سَیِّدُنَا جعفر صادق نے اللّٰہ تعالیٰ کے فرمان (قرآن) کو اس طرح پڑھا اور اس سے پہلے ہم نے حکم دیا آدم کو چند احکام کا جو کہ محمدﷺ، علیؓ، فاطمہؓ ، حسنؓ، حسینؓ اور ان اماموں کے بارے میں تھے جو ان کی اولاد میں سے ہونے والے تھے پھر آدم علیہ السلام نے ان کو بھلا دیا اور مزید فرمایا کہ اللہ کی قسم یہ آیت اس طرح محمدﷺ پر نازل کی گئی تھی ۔

قرآن کی آیت کے الفاظ صرف یہ ہیں

"ولقد عھدنا الی آدم من قبل فنسی ولم نجد له عزما"(سورۃ طٰہ آیت 11)

لیکن شیعوں کے ہاں یہ آیت اتنی لمبی ہے کہ اس میں حضرت محمدﷺ،علیؓ فاطمہؓ، حسنؓ، حسینؓ اور ان کی اولاد میں سے پیدا ہونے والے آئمہ کے بارے میں احکامات کا اجمالی ذکر ہے ۔

قرآن پاک جو کہ نصیحت کے مضامین سمجھانے میں اتنا آسان ہے کہ ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مُّدَّکر

اس کا ذکر قرآن کریم میں واضِح الفاظ سے آیا ہے کہ یعنی بے شک ہم نے قرآن مجید کو نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے (خاص اماموں کے لیے نہیں ) آسان کر دیا ہے پھر کیا کوئی غور کرنے اور نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟ (القمر: آیت 17)

اس بارے میں شیعوں نے قرآن مجید پر زبردست وار کیا ہے چنانچہ انہوں نے کہا ہے کہ قرآن کے ظاہر اور باطن کے معنی اماموں کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا جیسا کہ اصولِ کافی میں سَیِّدُنَا باقرؒ کی طرف منسوب ایک روایت اِن الفاظ میں موجود ہے:-

عن ابی جعفر علیه السلام انه قال : ما يستطيع احد أن یدعی أن عندہ جمیع القرآن کله ظاھرہ و باطنه غیر الاوصیاء (اصولِ کافی، صفحہ 139)

ترجمہ  سَیِّدُنَا باقرؒ نے فرمایا کہ کسی کو بھی یہ طاقت نہیں کہ جو یہ دعوی کرے کہ اس کے پاس قران کے ظاہر اور باطن کا پورا علم ہے سوائے اماموں کے۔

شیعہ مذہب کے مصنفین کا یہ کہنا ہے کہ قرآن کے ظاہر اور باطن کا علم سوائے اماموں کے اور کسی کو نہیں ہے اس سے ان کا مقصدِ وحید یہ ہے کہ یہ لوگ اماموں کے نام سے بنائی گئی روایات کی بنیاد پر پورے دینِ اسلام کی تحریف کریں اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ

1- اماموں کے نام سے روایتیں بنا کر ان لوگوں نے قرآن مجید میں تحریف کی ہے۔

2- موجودہ قرآن شیعوں کے مُتَّفق علیہ عقیدہ کے مطابق تحریف شدہ ہے اس میں اُنہوں نے اماموں کے ناموں سے خود بنائی ہوئی روایات کی مدد سے اپنی مرضی سے قرآن مجید کی معنوی تحریف کی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ثبوت کے لیے باب دوم دیکھیں۔

3- رسول اللّٰہﷺ کی حدیث کو غیر معتبر اور ناقابلِ اعتماد بنا کر انہوں نے اماموں کے ناموں سے تراشی ہوئی روایات کو حدیثِ رسولﷺ کا درجہ دے کر حضورﷺ کی احادیث کے خال کو پُر کیا ہے ۔

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ شیعہ مذہب کی ہر بات نرالی ہے. اس کا اسلام سے دور کا واسطہ نہیں ہے تو پھر شیعیت کو اسلام کا حصہ کیوں کہا جاتا ہے اور شیعہ سنی بھائی بھائی اور اِتّحاد بین المسلِمِین کے نعرے کیوں لگاۓ جاتے ہیں؟

4- اصولِ کافی میں سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ:-

"عن یونس ابو الفضل عن ابی عبدالله علیه السلام قال ما من لیلة جمعة الا ولاولیاء الله فیھا سرور. قلت كيف ذٰلك جُعلت فداك قال اذا کان لیلة الجمعة وافٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم العرش و وافی الآئمة و وافیتُ معھم فما ارجع الا بعلم مستفاد ولولا ذلك لنفد ما عندی" (اصولِ کافی، صفحہ 156)

یونس ابو الفضل کہتا ہے کہ سَیِّدُنَا جعفر صادق نے فرمایا کہ جمعہ کی رات میں اولیاء کو سرور حاصل ہوتا ہے، میں نے پوچھا وہ کیسے؟ آپؒ نے فرمایا کہ جب جمعہ کی رات آتی ہے کہ تو رسولﷲﷺ عرش الہی تک پہنچتے ہیں اور آئمہ بھی اور میں بھی ان کے ساتھ ہوتا ہوں اور علم حاصل کر کے واپس آتا ہوں اگر ایسا نہ ہوتا تو میرے پاس جو کچھ علم ہے وہ ختم ہو چکا ہوتا.

قرآن کریم کی سورت الرعد میں ہے:-"اللّٰہ جو کچھ چاہتا ہے وہ مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے وہ باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ہی اصل کتاب (لوح محفوظ ) ہے-" اصولِ کافی بابُ البداء میں سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ آپ نے قرآن مجید کی اس آیت کی تشریح میں فرمایا کہ :-

"وھل یمحی الا ما کان ثابتًا وھل یثبت الا ما لم یکن" ( اصولِ کافی، صفحہ 75)

وہی چیز مٹائی اور محو کی جاتی ہے جو پہلے موجود تھی اور وہی شے ثابت کی جاتی ہے اور باقی رکھی جاتی ہے جو پہلے( لکھی ہوئی) نہیں تھی-

اصولِ کافی کے شیعہ شارح علامہ قزوینی نے اس روایت کی یوں تشریح کی ہے:-

" براۓ ہر سال کتاب علٰحیدہ است ،مراد کتاب است کہ دران تفسیر احکام حوادث کہ محتاج الیہ امام است تا سال دیگر نازل شوند بہ آن کتاب ملائکہ و روح در شب قدر برامام زمان"۔

(الصافی شرح اصولِ کافی جلد 2 ،صفحہ 229)

ترجمہ :- ہر سال کے لیے ایک علٰیحدہ کتاب ہوتی ہے اس سے مراد وہ کتاب ہے جس میں اُن احکامات اور حوادث کی تفصیل ہوتی ہے جن کی وقت کے امام کو آنے والے سال تک ضرورت ہوتی ہے اس کتاب کو ملائکہ اور الروح شبِ قدر میں نازل کر کے وقت کے امام کے پاس لاتے ہیں۔

5- اصول کافی کے "باب فی شأن إنا انزلناہ فی لیلة القدر" میں سَیِّدُنَا باقرؒ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ:-

لقد قُضی أن یکون فی کل سنة لیلة یھبط فیھا بتغیر الامور الی مثلھا من السنة المقبلة

(اصولِ کافی صفحہ 153 )

ترجمہ :- بے شک اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر سال میں ایک رات ایسی ہوگی جس میں آنے والے سال کی اس رات تک (وقت کے امام پر) تمام معاملات کی وضاحت اور تفصیل نازل کی جائے گی۔

6- اصولِ کافی میں سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ:-

عن ابی عبدالله علیه السلام قال إن الامامة عھد من الله عزوجل معھود لرجال مسمّین ۔

(اصولِ کافی، صفحہ 160)

ترجمہ :-سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ امامت (نبوت کی طرح) اللہ تعالی کی طرف سے ایک عہدہ ہے جس پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے (نبیوں کی طرح) اماموں کو ان کے نام سے نامزد کیا گیا ہے۔

7 - اصولِ کافی میں سَیِّدُنَا علی بن موسیٰ رضا سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ :

فھو معصوم مؤید موفق مسدد قد امن من الخطاء والزلل و العثار یخصه الله بذلک لیکون حجة علی عبادہ و شاھدہ علی خلقه

(اصولِ کافی، صفحہ: 122)

ترجمہ وہ یعنی امام معصوم ہوتا ہے اس کے ساتھ اللّٰہ تعالی کی خاص توفیق و تائید ہوتی ہے اس کو اللّٰہ تعالیٰ سیدھا رکھتا ہے وہ غلطی، بھول، لغزش سے بھی محفوظ اور امن میں ہوتا ہے اللّٰہ تعالیٰ اس کو اسی معصومیت کی صفت سے خاص کرتا ہے تاکہ یہ اس کے بندوں پر حجّت ثابت ہو اور اس کی مخلوق پر گواہ ہو ۔

8 -ابو الحسن عطار سے روایت ہے کہ :

قال سمعت ابا عبدالله یقول اشرک بین الاوصیاء والرسل فی الطاعة

(اصولِ کافی صفحہ: 110)

ترجمہ:-میں نے سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے یہ بات کہتے ہوئے سنی ہے کہ اوصیا (یعنی اماموں) کو رسولوں کی پیروی کرنے میں شریک بناؤ( یعنی جس طرح رسولوں کی فرمانبرداری فرض ہے اس طرح اماموں کی فرمانبرداری بھی فرض ہے)۔

9- اصولِ کافی میں سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ :-

عن ابی حمزہ قال: قلت لابی عبدالله تبقی الارض بغیر امام؟ قال لو بقیت الارض بغیر امام لساخت۔

(اصولِ کافی: صفحہ 104)

ترجمہ: ابو حمزہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے پوچھا کہ کیا امام کے سوا زمین باقی اور قائم رہ سکتی ہے فرمایا اگر زمین امام کے بغیر باقی رہتی تو غرق ہو جاتی۔

10 - موجودہ دور کے شیعہ رہنما روح اللہ خمینی اپنی کتاب الحکومة الاسلامیة میں لکھتے ہیں کہ :

ان تعالیم الائمۃ کتعالیم القرآن لا تخص جیلا خاصا و انما ھی تعالیم للجمیع فی کل عصر و مصر و الی یوم القیامة یجب تنفیذھا و اتباعها ۔

(الحکومة الاسلامیۃ صفحہ 133)

ترجمہ:-ہمارے اماموں کی تعلیم قرآن کی تعلیم کی طرح ہے وہ کسی طبقہ اور خاص دَور کے انسانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ہر زمانہ، ہر خطہ کے تمام انسانوں کے لیے ہے اور قیامت تک اس کو نافذ کرنا اور اس کی تابعداری کرنا قرآن کی طرح واجب ہے.

11 - اصولِ کافی میں سَیِّدُنَا جعفر صادق نے فرمایا کہ:

 "عن احدھما أنه قال لا یکون العبد مومنا حتی یعرف الله ورسوله والائمة کلھم و امام زمان۔"

(اصول کافی صفحہ 105)

ترجمہ : سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کوئی بھی بندہ مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللّٰہ اور اس کے رسول اور تمام اماموں خاص كر اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل نہ کر لے۔

 12 -سَیِّدُنَا کاظمؒ سے روایت ہے کہ:

 "عن ابی الحسن علیه السلام قال :ولایة علی مکتوبة فی جمیع صحف الانبیاء ولن یبعث الله رسولا الا بِنبوّة محمد صلی الله علیه واله ووصیّه علي علیه السلام" 

(اصولِ کافی، صفحہ 276)

ترجمہ : ابو الحسن یعنی سَیِّدُنَا موسیٰ کاظمؒ سے روایت ہے کہ آپؒ نے فرمایا کہ علیؓ کی وِلایت اور اِمامت تمام نبیوں کے صحیفوں میں لکھی ہوئی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے جو بھی رسول اس دنیا میں بھیجا تو وہ محمدﷺ کی نبوت اور علیؓ کی وصیت یعنی امامت کی تعلیم سے بھیجا یعنی خدا کے ہر نبی نے اپنی امت کو اِن دونوں چیزوں پر ایمان لانے کی دعوت دی ۔

 13 -سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ نے فرمایا:

 "عن ابی عبدالله عليه السلام قال: ولایتنا ولایة الله التی لم یبعث نبی قط الا بھا" ۔

(اصولِ کافی، صفحہ 276)

ترجمہ: سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ ہماری ولایت (اِمامت اور خِلافت) بِعَینه اللہ کی ولایت اور حکومت ہے اور ہر نبی اللّٰہ تعالیٰ سے یہی حکم لے کر مبعوث ہوا ہے ۔

 14 -سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ:

(1)" وان عندنا علم التوراۃ والانجیل والزبور وتبیان ما فی الألواح۔" (اصولِ کافی صفحہ 137)

ترجمہ: ہمارے پاس تورات، انجیل اور زبور کا علم ہے اور الواح میں جو کچھ تھا اس کا ظاہر بیان ہے ۔

سَیِّدُنَا جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ:

(2) "زبور داؤد علیه السلام و توراۃ موسیٰ و انجیل عیسیٰ و صحف ابراہیم ۔"

(اصولِ کافی صفحہ 147)

ترجمہ: ہمارے پاس داؤد کا زبور، موسی کا توریت، عیسی کا انجیل اور ابراہیم کے صحیفے ہیں۔

 15- زُرارہ راوی ہے کہ سَیِّدُنَا باقرؒ نے فرمایا کہ:

 "للامام عشر علامات: یولد مطہر مختونا، واذا وقع علی الارض وقع علی راحتییه رافعا صوتہ بالشھادتین، ولایجنب، وتنام عیناہ ولا ینام قلبه، ولا یتثاوب ولایتمطیٰ، و یریٰ من خلفه کما یری من أمامه، و نجوہ کرائحة المسك والارض مأمورۃ بسترہ وابتلاعه، و اذا لبس درع رسولﷺ کانت علیه وقفا و إذا لبسھا غیرہ من الناس طویلھم و قصیرھم زادت علیه شبرا ۔"

(اصولِ کافی صفحہ 276)

ترجمہ: امام کی خاص 10 نشانیاں ہیں وہ بالکل پاک اور صاف ہوتا ہے، اس کا ختنہ کیا ہوا ہوتا ہے، اور جب ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو اس طرح آتا ہے کہ اس کے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور باآواز بلند کلمۂ شہادت پڑھتا ہے، اس کو کبھی بھی غسلِ جنابت کی حاجت نہیں ہوتی، نیند کی حالت میں اس کی آنکھ سوتی ہے اور اس کا دل بیدار ہوتا ہے، اس کو کبھی بھی ڈکار یا انگڑائی نہیں آتی، وہ آگے اور پیچھے دونوں طرف سے دیکھ سکتا ہے، اس کے پاخانہ میں مُشْک کی خوشبو ہوتی ہے اور زمین کو اللہ کا حکم ہے کہ اس کو چُھپا لے اور نگل جائے جب وہ رسولُ اللّٰہﷺ کی ذِرَه پہنتا ہے تو وہ اس کو بالکل فِٹ ہو جاتی ہے اور اگر کوئی دوسرا آدمی یہ ذره پہنے تو وہ چاہے کتنے لمبے قد کا ہو یا بالکل کوتاہ قد تو وہ زرہ اس سے ایک بالشت بڑی ہوتی ہے۔

 16- اصولِ کافی میں ہے کہ سَیِّدُنَا نقیؒ سے شیعوں کے اِختلاف کے اَسباب پوچھے گئے تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ:

 "عن محمد بن سنان قال کنت عند أبی جعفر الثانی علیه السلام فاجریت اختلاف الشیعة فقال یا محمد ان الله تبارک و تعالیٰ لم یزل منفردا بوحدانیته ثم خلق محمدا و علیا و فاطمة فمکثوا الف دھر ثم خلق جمیع الأشياء فاشھدھم خلقها واجری طاعتھم علیھا و فوض امورھا الیھم فھم یحلون ما یشاءون و یحرمون ما یشاءون ولن یشاءوا الا ان یشاء الله تبارک و تعالےٰ ۔"

(اصولِ کافی صفحہ 678-679)

ترجمہ: محمد بن سنان روایت کرتا ہے کہ سَیِّدُنَا نقیؒ سے شیعوں کے اختلاف کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اے محمد! اللہ تعالی ازل سے اپنی وَحدت میں تنہا رہے پھر اس نے محمدﷺ ، سَیِّدُنَا علیؓ اور سیِّدَہ فاطمہؓ کو پیدا کیا پھر یہ ہزاروں قَرن اپنی حالت میں اِس طرح رہے، اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا اور ان کو اسی مخلوق کے پیدا کرنے کے اوپر گواہ بنایا اور اُن کی اطاعت اور فرمانبرداری تمام مخلوقات پر فرض کی اور مخلوق کے تمام معاملات کو اُن کے سپرد کیا، پھر جس چیز کو یہ چاہتے ہیں اُس کو حلال کرتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے ہیں اُس کو حرام کرتے ہیں اور یہ نہیں چاہتے مگر وہ چاہتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے ۔

علامہ قزوینی اس روایت کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ اس روایت میں محمدﷺ، سَیِّدُنَا علیؓ اور سيده فاطمہؓ سے مراد یہ تینوں اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام آئمہ ہیں۔

 (الصافی شرح اصولِ کافی، جزء سوم ،حصہ دوم صفحہ 149)

اس روایت سے شیعہ مذہب کی مندرجہ ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے. شیعہ میں اختلاف کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ:

1- جیسا کہ تمام بندوں کے معاملات اِماموں کے سپرد تھے اور اُن کو حلال چیزوں کو حرام کرنے اور حرام اشیاء کو حلال کرنے کے اختیارات حاصل تھے لہذا ہوا یوں ہے کہ مثلاً حضورﷺ کی موجودگی میں کوئی چیز حرام تھی تو سَیِّدُنَا علیؓ(پہلے امام) نے اس کو حلال کیا اس طرح تمام امام اپنے اپنے دورِ امامت میں فوت شدہ اماموں کی حلال کردہ اشیاء کو حرام اور حرام کردہ اشیاء کو حلال کرتے رہے اَب نتیجہ یہ نکلا کہ شیعوں کے پاس اکثر چیزوں کے حلال اور حرام ہونے میں اختلاف رُونُما ہو گیا ہے ۔

2-دوسری یہ اَہم بات معلوم ہوتی ہے کہ جیسا کہ آئمہ کرام کو حلال اَشیاء کو حرام اور حرام اَشیاء کو حلال کرنے کے اختیارات حاصِل تھے لہذا اُن کے اوپر قرآن و سنت کی پابندی لازم نہ تھی اور اُنہوں نے خود اپنی طرف سے ہی جیسے اُن کو آیا ویسے حلال و حرام کے احکام جاری کیے. نتیجہ میں شیعوں کی رِوایات کی آخری سَنَد اِمام ہیں اور اُن کی سند کا سلسِلہ ہمارے رسول خاتَمُ النبیّینﷺ تک نہیں پہنچتا اور شیعہ مذہب کی خصوصیات میں سے یہ چیز خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

3-تیسری یہ بات معلوم ہوئی کہ اِماموں کی حیثیت خاتم النبیین حضرت محمدﷺ سے بھی زیادہ اَفضَل، بَرتَر وبالا اور اعلیٰ ہے اِس لیے اُن کو حلال اَشیاء کو حرام اور حَرام کو حَلال کرنے کے اِختیارات حاصل تھے اور اللّٰہ ربُّ العِزَّت نے اِبتدائے عالَم سے لے کر تمام مخلوق جس میں ہر جاندار اور بےجان آ جاتا ہے ان سب کے تمام معاملات کو اُن کے حوالے کیا ہے اور آج تک جو کچھ ہوا اور جو آئندہ ہوگا وہ سب اُن کی مرضی سے ہوا ہے جیسا وہ چاہتے ہیں ویسا ہوتا ہے وغیرہ (اِنَّا للّٰه وانا الیه راجعون).

کاش! ناواقِف شیعہ اپنے مذہب کے اَصلی خَدوخال معلوم کرنے کی کوشش کریں۔

4-چوتھی خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ قرآن مجید کے واضِح اَلفاظ میں حضرت آدمؑ کی پیدائش کے بارے میں ملائکہ اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان بات چیت کا اس طرح ذکر ہے کہ: 

"اور وہ وقت یاد کر جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا بے شک میں بناؤں گا ایک بشر کھنکھناتے گارے سے۔" 

(سورة الحجر، رکوع 3، آیت 28)

تو قرآن مجید کے ظاہِر اَلفاظ سے یہ ثابِت ہے کہ جِنّوں اور فرشتوں کی پیدائش حضرت آدمؑ سے بھی پہلے ہے اور تمام انسان حضرت آدمؑ کی اولاد میں سے ہیں جبکہ روایت 16 میں یوں کہا گیا ہے کہ محمدﷺ، سَیِّدُنَا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی پیدائش حضرت آدمؑ سے بھی پہلے کی ہے پھر اِسی طرح اِس جھوٹی روایت سے نَصِّ قَطعیّہ قرآن کے حقائق کو رد کیا گیا ہے ۔

آپ پہلے بھی پڑھ کر آئے ہیں کہ اسلام دو چیزوں قرآن و سنت کا نام ہے یا یوں کہا جائے کہ قرآن و سنت کی حفاظت، ختمِ نبوت کا دوسرا نام ہے اور ختمِ نبوت کا دوسرا نام قرآن و سنت کی حفاظت ہے۔

اسلام کو نَعوذُ باللہ مٹانے کے لیے شیعہ مذہب کے مُوجِدوں کو اسلام کی جگہ پر اسلام کے نام سے نیا مذہب لانا تھا جس طرح اِسلام کے خلاف قادیانیت لائی گئی ہے. اس لیے سَبائیوں نے حضور اَکرمﷺ کے خاندان سے چند حضرات کو امام کے نام سے مُنتَخَب کیا اور نُبوَّت کا مقابلہ کرنے کے لیے اِمامت کو میدان میں لایا گیا اور پھر امامت کو نبوت اور رسالت سے بالا اور بَرتَر عُہدہ کہا گیا اور اماموں کے نام سے امامت کے بارے میں ایسے اَوصاف اور اِختیارات کی رِوایات تیار کر دیں تاکہ آئمہ قرآن و سنت کی پابندیوں سے آزاد رہیں۔ مثلاً

1-اِمامت کو نُبوَّت کی طرح ایک عہدہ کہا جس پر حضورﷺ کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے امام نامْزَد ہوتے رہے.

2-اماموں کو نبیوں کی طرح گناہوں سے پاک اور معصوم بتایا گیا۔

3- اماموں کو نبیوں کی طرح مخلوق پر اللّٰہ کی حُجّت کہا گیا.

4- اماموں کی اطاعت کو نبیوں کی اطاعت کی طرف فرض کہا گیا.

5- ہر امام کا درجہ تمام پیغمبروں سے اَرفَع و اَعلیٰ اور رسول اللّٰہﷺ کے برابر کہا گیا اور بارہویں غائب امام کے لیے کہا گیا کہ جب وہ اپنی خود ساختہ جلاوطنی والی زندگی ختم کر کے باہر نکل آئے گا تو رسولُ اللّٰہﷺ پہلے شخص ہوں گے جو نَعوذُ باللہ اس خود ساختہ مہدی کی بیعت کریں گے ۔

6-حضورﷺ نے تو زندگی مبارک میں ایک مرتبہ مِعراج کیا لیکن ان کے امام فوت ہونے کے بعد ہر جمعہ کی رات مِعراج پر جاتے ہیں. 

7-حضورﷺ کو آخری کتاب قرآن پاک ملا لیکن انہوں نے اپنے اماموں کے لیے کہا ہے کہ قرآن کے بعد بھی اماموں پر ہر سال شب قدر میں آسمان سے فرشتے وقت کے امام پر ایک کتاب نازل کرتے تھے اور اِس طرح قرآن کے بعد بھی 249 آسمانی کتابیں نازل ہوئیں. 

8-اللّٰہ کی مخلوق کے معاملات اماموں کے سپرد کیے ہوئے بتائے گئے.

9- ہر امام کو رسولُ اللّٰهﷺ کی طرح قیامت تک پوری مخلوق پر حجّت اور قیامت میں گواہ بنا کر بتایا گیا۔

10-خود قرآن مجید کو تحریف اور تبدیل شدہ کہا گیا۔

11- قرآن کو دنیا کے آگے مُعَمَّہ بنا کر پیش کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ قرآن کریم کے ظاہر اور باطن کو اماموں کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔

۱۲- حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو کہ حدیث و سنّت کے اَوّلین راوی اور قابلِ اِعتِماد شخصیات ہیں اُن کو مُرتَد اور کافِر کہہ کر حضورﷺ کی سنت و حدیث کو ناقابلِ اعتماد بنایا گیا۔

13- اماموں کو اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے اَشیاء کو حلال اور حرام کرنے کے اختیار سپرد کئے گئے۔

14- قرآن و سنت کی پابندی سے آئمہ کو آزاد تصور کر کے اُن کے ناموں سے ہزاروں روایات بنا کر اور ان کو سنّت و حدیث کا نام دیکر اُن کی اطاعت کو قرآن کی اطاعت کی طرح قیامت تک واجِبُ الاطاعت کہا گیا اسطرح شیعہ مذہب کی پوری عمارت اِسی پر قائم ہے جس کا دینِ اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ 

تو پھر دوستو! یہ یاد رکھیں کہ شِیعیَّت اور اِسلام دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضِد ہیں۔ اب اگر اسلام کو اختیار کریں گے تو شیعیت کو چھوڑنا پڑیگا اور اگر شیعیت کو پسند کریں گے تو اسلام سے دستبردار ہونا پڑیگا اور ختمِ نبوّت کا انکار کرنا پڑیگا کیونکہ شیعیت میں امامت کو قُبُول کرنا پڑتا ہے اور اسی پر شیعہ مذہب کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ یہی سبب ہے کہ شیعہ مذہب کے بنیادی عقیدۂ امامت کو اسلام اور ختمِ نبوت کو نعوذ باللّٰه مٹانے اور ختم کرنے کا سو فیصد طَے شدہ انتظام کہا گیا ہے۔

8- اہل سنت والجماعت کے مشہور آئمہ اربعہ کے اختلاف اور شیعوں کے مذہب میں اماموں میں فرق اور شیعوں کے اس دھوکے کا جائزہ کہ شیعہ سنّی اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ حنفی شافعی وغیرہ کا اختلاف ہے۔

 شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ متوفی 1239 ھجری کی شُہرَۂ آفاق تصنیف "تُحفۂ اِثنا عَشریّہ" (اردو ترجمہ) میں باب دوم کا عنوان ہے کہ: "شیعوں کے مکر و فریب، دھوکہ بازی اور لوگوں کو صحیح راستہ سے ہٹا کر اپنے مذہب کی طرف راغب کرنے کے مختلف طریقوں میں۔"

اِس باب میں شاہ صاحبؒ نے پوری تفصیل سے شیعوں کے 107 دھوکہ کے طریقوں کا ذکر کیا ہے۔ اِس کتاب کو تصنیف ہوئے پونے دو سو برس گزر چکے ہیں۔ اِس عرصہ میں شیعوں کے دھوکہ اور فریب کے طریقوں میں مزید کیا اضافہ ہوا ہوگا، اُس کو اللّٰه ہی بہتر جانتا ہے دوسرا کوئی بھی نہیں بتا سکتا۔

مذکورہ عُنوان ایسا ہے جس پر شاید ہی کسی سُنّی عالِم نے اِس سے پہلے کُچھ لکھا ہو کیونکہ اِس سے پہلے اَیسے فرق دکھانے کی کبھی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی، یہ حالت شاید سات آٹھ برس سے ہوئی ہے کہ شیعہ مُبلِّغین نہ صرف یہ کہ پاکستان میں بلکہ جہاں بھی ہیں ہر جگہ وہ یہ تأثُر پیدا کر رہے ہیں اور بڑے زوروں پر یہ مہم چلا رہے ہیں کہ بھائی شیعہ اور سُنّی کے درمیان اِختلاف کی نوعیَّت ایسی ہے جیسی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور اہلِ حدیث میں سے میں سے ہر ایک مکتبۂ فکر کے آپس میں اختلاف کی نوعیت ہے اور زیادہ کوئی اور فرق نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے بارے میں مجھے بھی ایک آوارہ شیعہ نے ایسے دھوکہ دینے کی بَیجا کوشش کی۔ حال ہی میں ریڈیو زاھدان پر ایک شیعہ اُردو میں تقریر کر رہا تھا مجھے بھی اتفاق سے اُس تقریر کا ایک حصہ سننے کا موقع ملا جس میں اُس نے بھی یہی دھوکہ دیا کہ ہم شیعہ اور سُنّیوں کا مذہبی اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ سنّیوں کے آئمہ اَربعہ کے مابین اختلاف ہے۔ ان باتوں سے میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب شیعوں نے پوری دنیا کے ناواقِف مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف راغِب کرنے کے لئے یہ دھوکہ بھی اپنے دین کی تبلیغ یا پروپیگنڈہ کے لئے عام طور پر اِستِعمال کرنا شروع کیا ہے جیسا کہ مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے اپنی مقبولِ عام تصنیف "ایرانی انقِلاب" میں اِس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ شیعوں کے بےشمار فریبوں میں سے ایک بہت ہی بڑا فریب اور دھوکہ یہ بھی ہے۔ کیونکہ شیعوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے یعنی اہلِ سنت والجماعت والوں کے ہاں، اِن فقہ کے اماموں اور ان کے فِقہی مَسائِل کی کیا حیثیت ہے اور دوسری شیعہ مذہب میں اُن کے بارہ اماموں اور اُن کی تعلیم کی کیا حیثیت ہے۔ ان دونوں کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے کہ اِن میں کسی بھی قسم کی مُشابہَت تلاش کر کے نکالنا نامُمکِن ہے. باقی تقیّہ اور مکر و فریب کے ذریعہ اپنے مذہَب کی طرف راغِب کرنے کی بات اور ہے۔ جیسا کہ حضرت شاہ عبدالعزیزؒ نے اُن کے ایک سو سات (107) دھوکے بیان کر کے اُن کے مذہَب کو ظاہر کیا ہے۔

اب ہم اہلِ سُنّت والجماعت کے پاس فِقہی آئمہ کرام کی حیثیت اور شیعوں کے ہاں اُن کے اماموں کی حیثیت کے بنیادی فرق کو ظاہر کرنے کے لئے کچھ اہم بنیادی نکات بیان کرتے ہیں:

1-شیعوں کے ہاں ان کے اماموں کی جو حیثیت ہے وہ آپ پہلے پڑھ کر آئے ہیں اگر نہیں تو اِس عنوان سے پہلے بیان کردہ تفصیل کو مطالعہ کر لیں. باقی اہلِ سنت والجماعت کے ہاں آئمہ اربعہ کی کیا حیثیت ہے؟ اِس کے لیے معلوم ہونا چاہیےکہ اہلِ سنّت والجماعت کے ہاں آئمہ اربعہ کی یہ حیثیت ہے کہ یہ حضرات قرآن و سنت کے مطابِق مُتَبَحِّر عالِم باعَمَل اور اِنتہائی درجے کے مُتّقی اور پرہَیزگار تھے.اسلام اور مسلمانوں کے سچّے ہمدرد اور اشاعتِ دینِ اسلام میں ہَمہ وقت کوشاں اور شب و روز مصروف تھے ،اِسی خیر خواہی کے جذبے سے اُنہوں نے فِقہى مسائل كو عِلْم کی صورت میں مرتَّب و مدوَّن کیا،اُن کا یہ کام اتنا مُہتم بالشّان اور اہم تھا اور امتِ محمديہ عَلىٰ صاحبھا الصلوةُ والسلام كو اُن سے اِتنا فائده اور علمِ دين ميں آسانى حاصل ہوئى اور اُنكى اِس اَہم خدمت كى وجہ سے، جس سے قیامت تک امّت روشنی حاصل كرتى رہے گی، اُنکی شخصيَّت اِتنى اہم ،باوقار اور قابلِ احترام ہو كر سامنے آئى كہ اُمّت نے خود اُن حضرات كو اپنى طرف سے خراجِ تحسين پيش كرنے کے لیے امام کا لقب دیا. یہ لقب اُن کے رتبہ، عزّت اور قدردانى كے اظہار کے لیۓ ، اُن کے فقہ کے فن میں پیشوا اور رَہبر ہونے کے اِظہار کی عکّاسی کرتا ہے. ان حضرات کے لئے اس استِعمال کردہ امام کے لفظ میں کسی بھی وقت میں اور کہیں بھی ایسا مطلب تو درکنار کوئی معمولی تصوُّر کی بھی گنجائش نہیں سمجھی گئی جو کہ شیعوں کے ہاں اماموں کے لیے ہوتا ہے. یعنی شیعوں کے ہاں تو ہر امام کی حیثیت رسولُ اللّٰہﷺ جیسی ہے وغیرہ. لیکن اہلِ سنت کے اِمام صرف قرآن وسنت کی تشریح کرنے والے اور اُس کی روشنی میں پیش آنے والے مسائل کے حل کرنے کے اصول اور طریقے مرتّب کرتے تھے اور اُن کے ساتھ بحث و مُباحثہ اور اِختلاف کرنے میں کوئی حرج نہ تھا.

2- یہ بات بھی ذہن میں ہونی چاہیے کہ سُنّیوں کے فِقہ کے چاروں مسالک میں جن مسائل میں اختلاف ہے، وہ بھی بنیادی نوعیت کی نہیں ہیں. قارِئین کی آسانی کے لیے ان اِختلافات کے کچھ پہلو کا اِجمالی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ حقیقت ظاہر ہو جائے گی کہ ایسے جزوی اختلافات ناگزیر تھے اسی لئے ہوئے ہیں، یہ اختلافات فطری ہیں ان میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہے. 

الف) قرآن وسنت کے اولین راوی حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں ان کے بارے میں جو بھی اَحکامات واضِح لفظوں میں بیان ہوئے ہیں اُن میں فِقّہ کے چار اماموں میں بال کے برابر بھی کوئی اختلاف نہیں ہے یا مثلاً اسلام کے بنیادی عقائد اِیمانیات میں چاروں آئمہ اور اہلِ حدیث حضرات سب متفق ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے برخلاف اس کے شیعوں اور سُنّیوں کے عقائِد میں ہی زمین و آسمان کا فرق ہے اور اَرکانِ اسلام یعنی نماز ،روزہ، زکوٰة اور حج کے بارے میں ان کے بنیادی مسائل اور هيئت وغیرہ کے بارے میں بھی آئمہ اربعہ کا کوئی اختلاف نہیں ہے،اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ جُزْوی اختلاف ہے مثلاً نماز میں رکوع میں جانے اور رکوع سے اُٹھنے والے وقت رَفعُ الیَدَین کرنا چاہیے یا نہیں، ہاتھ سینے پر باندھنے چاہئیں یا ناف کے نیچے باندھنے چاہیئں، آمین بالجَہر کرنا چاہیے یا بالسِّر کرنا چاہئے ،امام کے پیچھے فاتِحةُ الکتاب پڑھنا چاہیے یا نہیں وغیرہ .یہ جزوی اختلافات ہیں.ان کا سبب یہ ہے کہ جب بھی کسی صحابی نے حضورﷺ کو جو بھی عمل کرتے ہوئے دیکھا یا حضورﷺ نے جس طرح اُس کو کسی عمل کے کرنے کی تعلیم دی تو اُس صحابی نے اُسی طرح عمل کیا اور یہ عمل اور طریقہ بھی دوسروں کے لئے بیان کیا.چنانچہ صحاح ستّہ یعنی حدیث کی ان 6 معتبر ترین کُتُب میں ان اعمال کے بارے میں دونوں طرح سے صحيح احادیث موجود ہیں پھر ان چار فقہاء کرام میں سے جس کو بھی جس طریقے پر حضورﷺ کی آخری عمر میں عمل کا طریقہ معلوم ہوا تو اُس نے اس کو زیادہ اہمیت دی لیکن دوسرے طریقے کا بھی انکار نہ کیا بخلاف اس کے شیعوں اور سنّیوں کی فرضی عبادتوں میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے.

ب) انسانی معاملات میں، معاشرت کے بارے میں سنّیوں کے چار فَقِیہوں میں مَندرجہ ذَیل دو قِسموں کے اختلاف نظر آتے ہیں:-

1-وہ اختلاف جو کہ قرآن کریم اور احادیثِ نبوی کی تشریح میں ہیں.

2-اُن مسائل اور معاملات میں اختلافات،جو کہ وسیع تر انسانی معاملات، رسم و رواج، تہذیب و ثقافت، تعزیرات، نظام حکومت، جدید ایجادات، حالات کا تغیُّر اور حالات کی تبدیلیوں وغیرہ کے بارے میں شروع سے ہی ظہور پذیر رہتے ہیں اور قیامت تک ہر زمانے میں ہر جگہ پیدا ہوتے رہیں گے.(1) 

(1)(نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال، ریڈیو پر تلاوتِ قرآن پاک، مریض کو خون کی فراہمی، اَعضائے انسانی کی پیوندکاری، مَصنوعی آنکھ لگانا، ٹرین، بَحری جہازوں اور ہوائی جہاز میں نماز کی ادائیگی، روزے کی حالت میں اِنجکشن، بيمۂ زندگی، سِٹّہ ،ضبطِ تولید، مانعِ حمل اَدویات کا اِستعمال، پرائیویٹ فَنڈز، جَدید اَسلِحہ اور آلاتِ حرب کا جہاد میں استعمال، مِسواک کے عوض ٹوتھ برش ،بندوق کی گولی سے شکار وغیرہ. یہ سب ہمارے دَور کے ایسے جدید مسائل ہیں جن کے بارے میں موجودہ دَور کے ہمارے جَيِّد سُنّی عُلَماء کرام نے اِن چار فُقَہاءِ عِظام اِمام ابو حنیفہؒ ،امام شافعیؒ، امام مالكؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے وضع کردہ اصولوں کی مدد سے اور اِن اماموں کے کئے ہوئے فیصلوں کو سامنے رکھ کر اُن کی روشنی میں بڑی محنت اور کاوِش سے ان مسائل کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں فیصلے دیتے ہیں۔ پھر اللہ کی کروڑوں رحمت میں ہوں اِن بزرگوں پر جِنہوں نے قِیامت تک آنے والی انسانیت کے لئے وہ سب کچھ پہلے ہی کردیا ہے اور اِن اماموں کا یہ جُزوی اختلاف آج بھی امت کے لئے رحمت ظاہر ہو رہا ہے کہ ایک مَسلک کا عالِم اگر کسی مسئلہ کا حل اپنے امام کی فقہ میں نہیں دیکھتا تو دوسرے کسی امام کی فقہ سے روشنی حاصل کر کے اپنے مسئلے کا حَل پیش کر رہا ہے۔ یہی ہے نیک نیتی سے اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے، دین میں کی ہوئی محنت کے نتیجہ میں کچھ فُروعی اختلافات پیدا ہو جانے کے باوجود امّت کے لئے رحمت ہونے کا مَقصَد جس کی مُختصر جَھلَک آپ نے دیکھی۔)

1- اب ہم پہلی قسم کے اُن انسانی مُعاملات اور مُعاشرت کے بارے میں اختلافات کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ قرآن اور سنّت کی تشریح میں ہیں ۔

پہلی مثال:

آنحضرتﷺ کی ایک حدیث ہے کہ 

"لاتبيعوا الثمر حتیّٰ یبدو صلاحه"

یعنی میوہ کو درختوں پر اس وقت تک مت بیچو جب تک ان کی اصلاح اور درستی ظاہر نہ ہو جائے.

اِس حدیث کا مطلب کچھ فُقَہاء کرام نے یہ لیا ہے کہ صلاح سے مراد میوے کا پکنا اور اس کے ذائقے کا ظاھر ہونا ہے۔لہذا میوے کے پکنے سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہو گا لیکن دوسرے فقہاء کرام نے یہ مطلب لیا ہے کہ صلاح سے مراد یہ ہے کہ جب درختوں کا میوہ کیڑوں وغیرہ کے خطرات سے محفوظ نہ ہو جائے اس وقت تک اس کی بَیع درست نہیں ہے ۔ اب آپ خود بتائیں کہ یہ اختلاف فطری ہے یا نہیں؟

دوسری مثال:

سب فَقِیه اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی کی کوئی شخص چیز غَصَب کرے تو اس شخص سے بِعینہ یہی چیز واپس دلانا ضروری ہے ۔۔ اگر غصب کرنے والے سے وصول کرنے کے وقت وہ چیز گم ہو گئی ہو تو اس پر لازِم ہے کہ حَتیَّ الاِمکان اُس جیسی چیز واپس کرے یا اُس کی قیمت ادا کرے لیکن جیسا کہ اَشیاء کی قیمتیں وقت اور حالات کی تبدیلی سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں لہٰذا مختلف فقہاء کی آراء اس بات میں جدا جدا ہیں کہ کس وقت کی قیمت مقرر کی جائے. اَحناف کی رائے ہے کہ جس وقت وہ چیز غصب کی گئی تھی اُس وقت کی قیمت ادا کرنا مناسِب ہے. حَنابلہ اُس وقت کی قیمت مُناسِب سمجھتے ہیں جب چیز گُم یا ضائع ہوئی ہو مگر شَوافِع کے ہاں غاصِب کو وہ قیمت ادا کرنی ہے جو غصب کے وقت سے لے کر چیز کےگم ہونے کے وقت تک زِیادہ سے زیادہ رہی ہو اب آپ خود غور کریں کہ یہ اِختلاف فِطری ہے یا نہیں؟ 

 تیسری مثال:

 ایک مرتبہ رسولُ اللّٰہﷺ نے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بنو قُرَیظہ کی بستی میں پہنچنے کا حکم دے کر فرمایا "لا یصلین احدکم العصر الا فی بنی قریظہ" یعنی "تم میں سے کوئی بھی بنوقریظہ پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھے. " اتفاق سے وہاں پہنچنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیر ہو گئی اور عصر کا وقت ختم ہونے لگا چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے باہَم مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ مشورے میں دو آراء ہوگئیں۔ ایک جماعت کی رائے تھی کہ آنحضرتﷺ نے صاف فرما دیا ہے کہ بنو قریظہ میں پہنچنے سے پہلے کوئی بھی عصر کی نماز نہ پڑھے تو پھر راستے میں نمازِ عصر پڑھنے کا کوئی جَواز نہیں ہے۔ پھر چاہے نماز قضاء ہی کیوں نہ ہو جائے مگر ہمیں تو حضورﷺ کے حکم کی تعمیل کرنی ہے۔ دوسری جماعت کی رائے یہ تھی کہ حضورﷺ کے اس حکم کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں کوشش کرکے نمازِ عصر سے پہلے بنو قریظہ پہنچنا چاہیے لیکن اب چونکہ ہم سورج غروب ہونے سے پہلے کسی طرح نہیں پہنچ سکتے تو پھر نماز قضاء نہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی رائے کے مطابِق عمل کیا واپسی پر جب حضورﷺ کے ہاں یہ واقعہ بیان ہوا تو آپﷺ نے کسی پر ناراض ہونے کا اِظہار نہیں کیا اور آپﷺ نے دونوں فریقَین کے عمل کو درست کہا کیونکہ فریقَین کا بنیادی مقصد ارشادِ نَبَوی کی تعمیل تھی۔

 اِس واقعے سے دوسری مثال کے واقعے کی تائید ہوتی ہے. اِس طرح کے دوسرے بھی بہت سارے واقعات ہیں مگر جیسا کہ یہ اختلاف فطرت کے مُوافِق ہے اسی لئے آنحضرتﷺ نے اِس اختلاف کو رحمت کہا۔

 2- دوسری قسم کے وہ اختلافات جو کہ وسیع تر انسانی معاملات، رسم و رواج، تہذیب و ثقافت، تعزیرات، نظام حکومت، نئی ایجادات، حالات کے تغیُّر و تبدُّل وغیرہ کے بارے شروع سے ہوتے رہے ہیں اور قیامت تک ہر دور میں ہوتے رہیں گے ان کا جائزہ:

 ان کے بارے میں قرآن کریم میں کچھ معاملات کے متعلق قرآن وسنت میں صراحةً یا اشارۃً اَحکام موجود ہیں، اور کچھ معاملات کے بارے میں صِرف بنیادی اصول اور طریقے بیان کئے گئے ہیں، اور کچھ مسئلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں نظامِ حکومت کی وُسعت، تہذیب و ثقافت کی ترقی اور مفتوح مَمَالک میں مُروِّجہ رَسم و رواج سے واسطہ پڑنے کے بعد سامنے آئے جن کو حضورﷺ کے تربیت یافتہ اور اسلام کی روح اور اس کے مزاج کی پہچان رکھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے باہَمی مشوروں سے قرآن وسنت کی روشنی میں حل کیا۔کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی وحئ الہی کے مخاطبینِ اول تھے اور اُن کو براہِ راست حضورﷺ سے فَیض اور تربیت نصیب ہوئی تھی اور اُنکے قلوب اَنوارِ نبوت کے فیض سے منوّر تھے جس کی وجہ سے اُن میں اِنتہا کی لِلّٰہِیَّت, دین کا درد, تقوٰی اور دوسرے اعلٰی اخلاق کے جذبات بدرجۂ کمال موجود تھے اور مزید یہ کہ اُن میں دین کی فَہم اور فراست اور بصیرت کی صِفات بھی بدرجۂ اتم موجود تھیں۔چنانچہ اُن کی گواہی واضح الفاظ میں قرآن مجید میں مُتعَدَّد مقامات پر ملتی ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:

 "وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۔" 

  ترجمہ: اور سَبقت کرنے والے اگلے مُہاجِرین اور اَنصار اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی, اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔

خود حضور ﷺ نے یہ فرمایا: 

اصحابی کالنّجوم بایّھم اقتدیتم اھتدیتم

 یعنی میرے صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) روشن ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی تم پیروی اور اِقتداء کرو گے ہِدایت حاصِل کرو گے ۔اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جن جن مسائل اور باتوں پر اِتفاق اور اِجتِماع ہوا تو بعد میں آنے والے محقِّقین عُلَماء و فُقَہاء نے اُن کو ایک شرعی سَنَد تسلیم کیا سواۓ شیعوں کے جن کے مذہب کی بنیاد ہی حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عداوت پر قائم ہے۔

یہاں پر یہ بات بالکل واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ حضورﷺ خاتَمُ النّبیّین ہیں اور آپﷺ کا لایا ہوا دین اسلام پوری دنیا کی تمام اَقوام اور مَمَالک کے لیے قِیامت تک باقی رہنے والا ہے۔

انسانی معاشرہ مقام اور زمانے کے لحاظ سے ہر وقت ترقی پذیر ہے تغیُّر پذیر بھی۔ اللّٰہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے,جس نے دینِ اسلام کو قِیامت تک آنے والے ہر دور اور ہر ملک اور قوم کی ضروریات، خصوصی حالات اور دیگر مسائل کے حل کے لیے ایسے غیبی نظام سے مزّین کیا ہے جس میں انسان کے معاملات ,خُورد و نوش کی حلال و حرام اَشیاء، کاروبار و تِجارت کے اَہم اور بنیادی قسم کے معاملات، حکومت کے بنیادی اَغراض و مقاصد اور ذمہ داریوں، حاکِم ورِعایا کے حُقوق اور حُدود وغیرہ کے معاملات میں اُنکے اُصولی اور بنیادی قسم کے اَحکام قرآن وسنت میں بیان کیے گئے ہیں باقی انکی مزید وضاحت اور تفصیل یا ان سے مُشابہ پیدا ہونے والے مسائل کا حل نیز نئے پیدا ہونے والے مسائل اور ایجادات وغیرہ کو اسی طرح چھوڑ دیا گیا ہے کہ زمانے کے مخلص اور اسلام پر گہری نظر رکھنے والے عُلَماء کرام قرآن و سنت کے اصولوں، شریعت کے بنیادی مقاصد اور انسانوں کی فلاح اور بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کے مناسب حل خود تلاش کریں۔ چنانچہ یہ سلسلہ بھی مکمل طور پر غیبی نظام کے تحت جاری ہے۔ جس میں آج تک امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کبھی بھی تنگی اور خلا محسوس نہیں کرتی۔

 پھر ایسا ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد والے زمانوں میں علَماء اور فقَہاء نے ایسے نئے نئے معاملات اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نہایت غور و فکر سے اجتہادی کوشش شروع کی۔ اُن کے مدِّ نظر سب سے پہلے شریعت کی دو نصوص یا حُجَّتیں تھیں یعنی قرآن و سنت۔ اس کے بعد تیسری اَہم دلیل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع اور عمل تھا۔ اگر کوئی مسئلہ اِن تینوں دلائل کے دائرے سے باہر ہوتا تھا تو وہ ایسا کوئی مسئلہ تلاش کرتے تھے جو اِس مسئلہ کے ساتھ کسی جزیے، علّت یا کسی اور طریقے سے مشابہت رکھتا ہو اور وہ مسئلہ قرآن و سنّت سے پہلے ہی ثابت شدہ ہو مثلاً کوئی نئی نشہ آور چیز سامنے آئی یا تجارت کے نام پر کوئی غلط کاروبار شروع ہوا تو وہ شراب کی خاصیت، اس کی حرمت کے عِلَل و اَسباب اور قُمار اور جوئے کے حرام ہونے کے اَسباب وعِلَل سے اس نئی چیز کا تقابُل کرکے اُس کے مشابہ اَجزاء اور اَسباب کے تقابل کے ذریعے شرعی احکام صادر کرتے تھے۔

اِس کو قِیاس کا نام دیا گیا اور یہ بھی ایک دلیل تسلیم کی گئی. پھر اگر ان دلائل سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوا پھر اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ قرآن و سنت اور شریعت کے مقاصِد اور خلقِ خدا کی فلاح و بہبود کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے وہ مسائل اِس طرح حل کیے گئے کہ وہ شریعت کے بنیادی روح اور مقاصد کے خلاف نہ ہو. خلقِ خدا کے اخلاق، صالح معاشرہ کے قیام اور ترقی میں مدد ملے اور مجموعی طور پر انسانیت کی فلاح و بہبود کا مقصد بھی حاصل ہو جائے. ظاہر بات ہے کہ ایسے معاملات میں ایک دائِمی عالَمگیر مذہب کے لئے سب سے بہترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے جو اہلِ سنت والجماعت کا تجویز کردہ ہے اس میں فُروعی اور جُزْوی اِختلافات کا موجود ہونا فطری ہے اور اسلام دینِ فطرت ہے اس کی اَساس اور بنیاد قرآن و سنّت ہے اس کی تشریح میں خود فطری اختلافات کی گنجائش کی تعلیم ملتی ہے اور اس کی مثالیں پہلے ذکر ہو چکی ہیں. اِن جُزوی اِختلافات کو آج کل کے اعلیٰ معیاری عدالتوں اور کورٹوں کے تسلیم شدہ ماہر، ایماندار منصفوں اور ججوں کے اختلافی فیصلوں کو سامنے رکھ کر نہایت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے جن کے فیصلے باوجود اختلاف کے ملک کے آئین کے بالکل موافق، آئین کے تسلیم شدہ اصولوں، عوام کی بھلائی اور بہبود کے خاطر درست اور صحیح سمجھے جاتے ہیں ان پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرتا اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ اِس باب میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ شیعو‌ں کے ہاں ہر ایک امام صاحبِ شریعت ہوتا ہے، اُس پر وحی کا نُزُول ہوتا ہے اور اُسکا ہر حکم نبیوں کے حکم اور قول کی طرح خُدائی حکم اور حجّت ہوتا ہے. جبکہ اہلسنت کے لیے چار تسلیم شدہ فقیہ آئمہ اَربَعہ نے کبھی بھی ایسا دعویٰ نہیں کیا اور نہ اُن کے کسی مُستَند عالِم یا عام مسلمان نے یہ سوچا ہے کہ انکا قول آخری سَنَد ہے یا وہ معصوم عَنِ الخطاء اور لَغزِش سے پاک ہیں بلکہ اُن میں سے ہر ایک امام نے یہ بات کہی کہ اُس نے قرآن اور سنتِ رسولﷺ کے صُحبت یافتہ، اِسلام کی روح اور مزاج شناس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قول اور عمل کی روشنی میں اور اِن تینوں اَشیاء کو مدِّنظر رکھتے ہوئے تَحقیق اور جُستُجُو کی ہے. اور اُمّت کی آسانی کے لیے پَیچیدہ مسائل کی تفصیل طے کی ہیں اور آئندہ ایسے مسائل کے حل کے لیے بنیادی اصول مُرتب کئے ہیں. اِس بات کے علاوہ ہر ایک کی طرف سے یہ بھی واضِح اَلفاظ میں اِعلان کیا گیا ہے کہ ہم نے پوری ذمہ داری سے قرآن وسنت اور اس کے بنیادی مخاطِبین اور عامِلین یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تشریح اور عمل کو سمجھنے نیز شریعت کی بنیادی روح اور اَغراض کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اصول وَضع کیے ہیں. اور یہ ہماری تحقیق اور راۓ ہے جس پر چلنا لازمی نہیں ہے. 

جس کو بھی شریعت کے بنیادی مآخذ یعنی قرآن وسنت کی دوسری کوئی بھی تشریح سمجھ میں آۓ اور اُس کے پاس ہم سے ذیادہ مضبوط دلائل ہوں اسکو چاہیے کہ وہ اپنی اس تحقیق اور راۓ کی اِتباع کرے اور واضِح طور پر اس کا اِظہارِ بھی کرے تاکہ خلقِ خدا اس سے مُستَفیض ہوسکے. اُنکی اِس وُسعتِ قَلبی اور اللہ کے دین کے بارے میں خلوص کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ہر اِمام صاحب کے خود اپنے شاگردوں نے اُن کے ساتھ کتنے ہی مسائل میں اختلاف کیا جیسے امام اعظمؒ کے دو مشہور و مُمتاز تلامِذہ امام ابو یوسفؒ اور امام محمّد بن حَسَن شیبانیؒ نے حنفی مذہب پر قائم رہتے ہوۓ بھی بہت سارے مسائل میں امام ابو حنیفہؒ سے انکی زندگی میں بھی اختلاف ظاہر کیا اور مباحثے کئے لیکن اس پر نہ تو اُنکے اُستاد محترم نے ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی متأخرین علماء نے اس کو برا سمجھا کیونکہ ہر ایک کو اپنے اَسلاف کے خلوصِ تقویٰ نیز امت کی خیر خواہی کے جَذبہ کا مکمّل احساس تھا اور اس کی قدر تھی. چاروں فقہوں کے مسلک کے آئمہ ایک دوسرے کے ساتھ اُستاد اور شاگرد کے ناتے میں اسطرح پَیوَستَہ نظر آتے ہیں کہ ناظِرین کی معلومات کے لیے لکھا جاتا ہے کہ فقہ کے پہلے تسلیم شدہ امام، امام ابو حنیفہؒ ہیں. آپکے جیّد شاگرد امام محمّد بن حَسَن شَیبانیؒ جنہوں نے حنفی فقہ کی تدوین میں بڑی خدمات انجام دیں ہیں وہ خود امام شافعی، امام مالِک کے شاگرد بھی رہے ہیں۔ امام محمّد کا یہ قول مشہور ہے کہ تابِعین کے بعد اللّٰه کے بندوں کے لئے اللّٰه کے بندوں میں سے امام مالِک اللّٰه تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نشانی ہیں۔ وہ میرے استاذ ہیں اور جب بھی تمہارے پاس کوئی حدیث امام مالِک کے حوالہ سے پہنچے تو اُس کو مضبوطی سے تھام لو، کیونکہ وہ عِلمِ حدیث کے دَرَخْشاں ستارہ ہیں۔ چوتھے فقہی مسلک حنبلی کے بانی امام اَحمد بن حَنبل امام شافعی کے شاگرد رہے ہیں۔

یہاں پر کوئی اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ وہ ایک دوسرے کے استاذ اور شاگرد تو تھے لیکن بعد میں جزوی اختلافات کی بنیاد پر ان کے راستے الگ الگ تھے اور ایک دوسرے کی رائے علیحدہ ہو گئی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک اپنے الگ مسلک پر اس لئے قائم رہا کہ تحقیق کے مطابق اس کی رائے زیادہ درست تھی، لیکن وہ دوسرے کی رائے کے بارے میں، اس کے اخلاص، تقویٰ، تبحّرِ علمی اور تحقیقی معیار کی بناء پر، ہر ایک کے دل میں آخر تک مکمل احترام قائم رہا۔ اس احترام کی انتہاء یہ ہے کہ حضرت امام شافعی ؒجب کوفہ میں امام اعظم ؒ کی قبر کی زیارت کے لئے گئے تو نماز میں رفع الیدین نہیں کیا حالانکہ آپ رفع الیدین کے قائل تھے۔ آپ احناف کی طرح نماز پڑھتے رہے، لوگوں کے سوال پر آپ نے فرمایا کہ "صاحبِ قبر کا احترام اور حیاء مجھے اس سے روکتی ہے۔" آپ کے اس ایک ہی جملے میں ان اماموں کے باہمی احترام کے بہت سارے پہلو اور دنیا کے لئے عدیم المثال اسباق موجود ہیں۔

دوسری ایک اور مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ امام مالک کی عقیدت مندی میں آکر دو تین مرتبہ عباسی خلفاء نے اُن کو یہ رائے پیش کی کہ پوری سلطنت میں حکومت کی طرف سے زبردستی رعایا کو ملکی مسلک کا پابند بنایا جائے اور دوسرے مسالک کی اشاعت کو روک دیا جائے۔ لیکن امام صاحب نے ہر موقعہ پر اس بات کی مخالفت کی اور کہا کہ جہاں جہاں مسلمان جس مسلک کی پیروی کر رہے ہیں، اس پر اُن کو قائم رہنے دیا جائے۔ سبب ظاہر ہے کہ ان دیگر مسالک میں بھی امام صاحب کو، کوئی بھی مسئلہ قرآن و سنت اور حضور ﷺکے صحابہ رضوان علیھم اجمعین کے اجتماعی فیصلوں کے خلاف نظر نہیں آیا۔ یہ جزوی اختلافات ایسی ہی قسم کے تھے جن کی مثالیں اوپر پیش کی گئی ہیں اور یہ اختلافات فطری ہیں۔

 یہ حقیقت بھی ذہن میں ہونی چاہئے کہ باہمی عزت و احترام اور رواداری کے ایسے جذبے صرفاماموں ، ان کے شاگردوں یا بڑے بڑے علماء تک محدود نہیں ہیں۔بلکہ ساری دنیا کے ہر ایک سُنّی مسلمان کے دل میں موجود ہیں اور ان شاء الله آئندہ بھی باقی رہیں گے۔پوری دنیا کے کونے کونے میں رہنے والا ہر مسلمان دوسرے مسلک کے اماموں اور شیوخ کا نام نہایت احترام سے لیتا ہے یعنی امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سوا نام نہیں لیتا۔اسلامی تاریخ کے جلیل القدر عُلماء اہل اللّٰہ اور صوفی بزرگانِ دین مختلف مسلک رکھنے کے باوجود پوری دنیا میں،سنّیوں کے ہاں ایک جیسے مقبول ہیں۔چنانچہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ پوری اسلامی دنیا میں تسلیم شدہ ولی اللّٰہ ؒ اور صوفیوں کے سرتاج ہیں۔ یہ بزرگ حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔اسلامی تصوف اور علم کلام کے مشہور بزرگ امام غزالیؒ دنیا میں مشہور ہیں ، ان کی اسلامی تصوف اور اخلاق پر مبنی کتابیں احیاء علوم دین اور کیمیائے سعادت انتہائی مشہور اور تمام مسلمانوں کے ہاں مقبول کتابیں ہیں حالانکہ یہ بزرگ شافعی مسلک رکھتے تھے۔اسلام کے مشہور مفسرِقرآن امام فخرالدین رازیؒ بھی شافعی تھے لیکن تمام عالم اسلام آپ کو فخر الاسلام امام رازیؒ کے نام سے جانتا اور پہچانتا ہے اور ان کی تفسیر سے تمام عالم اسلام کے مسلمان حنفی، شافعی ، حنبلی اور مالکی مستفیض ہوتے ہیں۔ جلال الدین رومیؒ ، حنفی ہونے کے باوجود تمام اسلامی طبقوں میں ایک جیسے مقبول ہیں اور ہندوستان کے مشہور حنفی بزرگ امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ الله نہ صرف برصغیر میں بلکہ تمام دنیائے اسلام میں شوافع، احناف ،حنابلہ اور مالکیوں کے ہاں دوسرے ہزار سال کے مجدد مانے جاتے ہیں اور ہر ایک ان کے مکتوبات پڑھ کر رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ حاصلِ مطلب یہ کہ ایسے باہمی احترام اور اخلاص کی مثالوں سے تواریخ بھری پڑی ہیں کس قدر مثالیں پیش کی جائیں۔گزشتہ صفحات میں اپ پر یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئ ہے کۂ اسلام کا بنیادی حد دوسری عبادت سنی مسلمانوں کی فقہ کے ائمہ اربعہ کی فقہ کا بنیادی ماخذ قرآن کریم اور حضورﷺ کی احادیث مبارک (سنت) ہیں اور ان اماموں کا کچھ اجتہادی مسائل کے نتیجہ پر پہنچنے میں جو کچھ جزوی اختلاف نظر اتا ہے وہ فطری اختلاف ہے جس کے بارے میں کافی روشنی ڈالی گئ ہے اور ایسے اختلاف کی کوئ اہمیت نہیں ہے۔ اسلیے تمام مسلمانوں حنفی ،شافعی ، مالکی ، حنبلی خود اہل حدیث حضرات سنی مسلمان کہلاتے ہیں۔ خود شیعہ بھی ان تمام مسلمانوں کے لئے سنی مسلمان کا نام استعمال کرتے ہیں- ان چاروں ائمہ کے اختلاف کو زیادہ سمجھنے کے لئے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمتہ اللّٰہ کی کتاب “اختلاف ائمہ” کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ 

نتیجہ۔ اب یہ بات ثابت ہوگئ کہ جس جھوٹ سے، شیعہ دنیا کے مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ شیعہ سنی اختلاف کی نوعیت کچھ ایسی ہے جیسی سنیوں کے ائمہ اربعہ کے فقہ کی ہے۔ یہ کہنا سراسر جھوٹ اور غلط ہے بلکہ ایک بہت بڑا دجل فریب ہے۔ ایسا دھوکا اس سے پہلے کبھی شیعوں نے نہیں دیا ہے جو لوگ مکر، فریب، دھوکے بازی کتمان اور تقیہ سے دوسروں کو اللّٰہ کے دین سے منحرف کرتے ہیں، ان کو اللّہ تعالیٰ نے اپنے ابدی کلام میں اس طرح خبردار کیا ہے؛

اما الذین مکرو السیئات ان یخسف بھم الارض او یأتیھم العذاب من حیث لا یشعرون۔( النحل رکوع 6 آیت 45)

 بس حقیقت یہی ہے کہ سنیوں کا مذہب اسلام ہے اور شیعوں کا مذہب دوسرا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ دو مذہبوں کا اختلاف ہے۔ لہذا اس کو شیعہ سنی اختلاف کہنا ہی دھوکہ ہے۔

 شیعہ سنی اختلاف کی کیا نوعیت ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اپنے مقالہ "کیا ایرانی انقلاب اسلامی انقلاب ہے "میں لکھتے ہیں کہ:

" چنانچہ سنی اسلام اور شیعی اسلام میں عقائد کا فرق کتنا واضح اور اتنا متضاد اور متصادم ہے کہ ان میں سرے سے کوئی مصالحت محال مطلق اور قطعی ناممکن ہے کوئی دور دراز کی تاویل بھی ان دونوں میں کوئی مطابقت پیدا نہیں کر سکتی۔ ایک طرف خلافت عامہ کا تصور عقیدہ ہے دوسری طرف امامت معصومہ کا تصور و عقیدہ ہے اور وہ بھی ایک مخصوص نسل میں۔ پھر یہ امامت معصومہ بھی بارہ ائمہ تک محدود ہے۔ جن میں سے بارہویں امام غائب ہیں لہٰذا قریبا تیرہ سو سال سے زندہ کسی غار میں پوشیدہ ہیں۔ اور ان کے ظہور تک انہیں کا عہد امامت جاری و ساری ہے۔ حکومت کا حق صرف ان کے لیے مخصوص ہے۔ اثنا عشری شیعہ کے عقائد کے مطابق ان کے علاوہ سیدنا علیؓ کے قبل تینوں خلفاء راشدین معاذ اللّہ غاصب تھے اور آنحضرتﷺ کے بعد تاحال دنیا میں جتنی بھی حکومتیں قائم رہی ہیں یا اب ہیں وہ غاصبانہ حکومتیں ہیں۔( ماہنامہ میثاق اردو میں 1950 صفحہ 69)

 پھر آگے دوسرے پیراگراف میں چل کر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ:

" سنی اور شیعہ مکاتب فکر میں زمین و آسمان کا فرق ہے ان میں جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا کہ بعد مشرقین ہے ان میں (co-existence) اور مطابقت ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لیے میں اس فرق کو بنیادی اور اساسی فرق کہتا ہوں اور اسی لیے میں نے ابتداء ہی میں ان کو رد اسلام سے تعبیر کیا ہے۔ سنی اسلام خالصتا کتاب و سنت پر مبنی ہے جبکہ شیعہ اسلام محض توہمات اور تخیلات پر مبنی ہے۔ جس کی کوئی معمولی سی بنیاد نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ احادیث صحیحہ ہثابتہ میں۔ لہٰذا اسلام کے نام اگر کوئی انقلاب آئے گا یا ظہور پذیر ہو گا تو وہ سنی انقلاب ہوگانہ "شیعہ انقلاب"۔

( ماہنامہ میثاق اردو میں 1985 صحفہ70)

8۔۔۔ لفظ حجت کے معنی اور اس کو آسانی سے سمجھنے کے لئے مثال۔

 دھیان میں رہے کہ اس کتاب میں لفظ حجت بہت سے مقامات پر استعمال کیا گیا ہے ۔ لہذا یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس لفظ کو کھول کر سمجھایا جائے۔ تاکہ اس لفظ کی اہمیت اور وزن عام مسلمانوں پر ظاہر ہو جائے۔ لفظ حجت کی اہمیت اور اس کا وزن اس بات سے ہی سمجھ لینا چاہیے کہ شیعوں کی صف اول کی مشہور ترین کتاب اصول کافی میں کتاب الحجۃ کے حصے میں 127 مستقل ابواب رکھے گئے ہیں۔ جس میں میرے خیال میں 1000 سے زیادہ روایات ذکر کی گئی ہیں۔ جن میں جملہ بارہ ائمہ کو حجۃ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ العیاذ باللہ۔

  لفظ حجۃ کے معنی ہیں دلیل و برہان( بیان اللسان صحفہ۔۔۔۔۔۔۔۔) میں سمجھتا ہوں کہ عام آدمی کو یہ معنی بتانے سے اس لفظ کی اصلہ حقیقت اور وزن معلوم نہیں ہوگا۔اس لیے اس پر روشنی ڈالی جائے۔ شریعت میں لفظ حجۃ ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ جو صرف اللہ تعالی کی کتابوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن آپ نے جیسا کہ پہلے پڑھا ہے اور شیعیت میں ہر ایک امام کا درجہ انبیاء کرام علیہم السلام سے بالاتر اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے برابر ہے۔ اور ہر امام کو حلال اشیاء کو حرام اور حرام اشیاء کو حلال کرنے کے مکمل اختیارات حاصل تھے۔ لہذا شیعہ مذہب کے مصنفین نے ائمہ کرام کو حجت کہہ کر پکارا ہے یا بقول شیعہ ائمہ نے خود اپنے آپ کو خاتم الانبیاء محمدﷺ کے برابر کہا ہے اور اپنے آپ کو حجۃ کہا ہے۔

 اب جبکہ شیعوں کے عقیدے کے مطابق ہر ایک امام حجت ہے اور امام زمان سن 260 ہجری سے ہر وقت اور ہر دور کے لئے زندہ غائب امام) ان کا آخری فیصلہ کن حجۃ ہے۔ لہذا لفظ حجۃکی اہمیت اور وزن اس مثال سے سمجھ لیں:-

 اسلام میں سود کھانا،شراب خوری، جوا ،چوری، ناحق قتل کرنا ،ناجائز اور حرام ہیں۔ اب ایک آدمی ظاہر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو امام زمان کہلاتا ہے۔ وہ کرامات اور معجزات کے نام پر بڑے بڑے کرتب دکھاتا ہے اور شیعہ جو کہ امام زمانہ کے ظہور کے انتظار میں شب و روز بسر کر رہے ہیں وہ اس کے پھندے میں آ جاتے ہیں اور وہ سود کھانے، شراب پینے، جوا کھیلنے، چوری کرنے، سنی مسلمانوں کو قتل کرنے وغیرہ کے نام تبدیل کر کے دوسرے نام تجویز کرتا ہے۔ اور پھر ان تمام امور کو جائز اور حلال کہتا ہے تو یہ سب چیزیں شیعوں کے لئے حلال جائز اور امام کی فرمانبرداری میں ثواب کے کام اور روحانی درجات میں بلندی کا باعث سمجھی جائینگی جیسا کہ ان کے ہاں متعہ (زنا) کتمان( اصلی مذہب چھپانا) تقیہ( دوسرے کو دھوکہ دینا) اس وقت بھی اماموں کی طرف منسوب کردہ روایتوں سے جائز اور حلال ہیں اور درجات کی انتہائی بلندی کے باعث ہیں۔ جیسا کہ ان کا جس طرح مستقل ابواب میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ہے کسی شخص کو حجۃ یا حجۃ الله تسلیم کرنے کی مثال۔ جو مجھے یہاں سمجھانے کے لیے پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔

 برخلاف ان کے جمہور امت، حنفی، شافعی، مالکی ،حنبلی اور اہل حدیث ایسے شخص کو فورا جھوٹا اور دجال کہیں گے۔ اس سبب سے کہ ان کے نزدیک حضور اقدسﷺ جو کہ خاتم النبیین ہیں اور ان کے نزدیک قرآن پاک اور رسول اللّٰہﷺ کے بعد کوئی بھی شخص اللہ کے دین کی رو سے اللہ تعالی کی جانب سے حجت نہیں ہے۔ اور قرآن کریم اور نبی برحق نے جن اشیاء کو حلال فرمایا ہے ان کو کوئی بھی شخص حرام قرار نہیں دے سکتا اور جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ان اشیاء کو کوئی بھی شخص حلال نہیں کر سکتا۔ اس مثال سے آپکے ذہن میں لفظ حجت کے معنی اور اس کا مفہوم پوری طرح آ گیا ہوگا۔

 دوستو۔ اب آپ خود غور فرمائیں کہ شیعہ مذہب اور ان کے عقیدہ امامت کے سبب قرآن میں تحریف کر کے حضور علیہ السلام کے 23 سالہ دور نبوت کی پاکیزہ زندگی کے ہر قول و عمل کو رد کر کے اماموں کے نام سے یہ روایتیں بنا کر اسی پر شیعیت کی بنیاد رکھی گئ ہے۔ اس میں خود حضورﷺ کی ختم نبوت کا انکار ہو گیا یا نہیں۔ اور یہ اسلام کو مٹانے کا منصوبہ ہے یا نہیں۔ ذرا غور فرمائیں۔

 اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرماے۔ آمین۔