دلیل القرآن: صحابہ الراشدون (ہدایت یافتہ)
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندالراشدون
(ہدایت یافتہ)
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (الحجرات:7)
اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنادیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے۔ (٤) ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آچکے ہیں۔
تشریح:
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ صحابہ کرام کبھی کوئی رائے ہی پیش نہ کریں، بلکہ رائے قائم کر کے اس پر اصرار سے منع فرمایا گیا تھا، اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ مناسب موقع پر کوئی رائے دینے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آنحضرت ﷺ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ تمہاری ہر رائے پر عمل ضرور کریں، بلکہ آپ مصلحت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے، اور اگر وہ تمہاری رائے کے خلاف ہو، تب بھی تمہیں اس پر راضی رہنا چاہیے، کیونکہ تمہاری ہر بات پر عمل کرنے سے خود تمہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ حضرت ولید بن عقبہ کے واقعے میں ہوا کہ وہ تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ بنو مصطلق لڑائی پر آمادہ ہیں، اس لیے ان کی رائے تو یہی ہوگی کہ ان سے جہاد کیا جائے، لیکن اگر آنحضرت ﷺ ان کی رائے پر عمل کرتے تو خود مسلمانوں کو نقصان پہنچتا۔ چنانچہ آگے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اس لیے وہ اطاعت کے اسی اصول پر عمل کرتے ہیں۔
(١) واعلموا ان فیکم رسول اللہ :
ظاہر ہے کہ ہر صحابی یہ جانتا تھا کہ اللہ کا رسول ہم میں موجود ہے، اس کے باوجود فرمایا : ” اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بنفس نفیس موجود ہونے اور آپ کی وفات کے بعد کتاب و سنت کے موجود ہونے کے باوجود جو شخص اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی حدیث سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اپنی بات منوانا چاہتا ہے درحقیقت وہ اس بات سے جاہل ہے کہ ہم میں اللہ کا رسول موجود ہے، ہمیں ہر معاملے میں ان کی بات ماننی چاہیے، کیونکہ اگر اسے یہ بات معلوم ہوتی تو وہ رسول کی اطاعت کرتا اور رسول کو اپنی اطاعت کروانے کی کوشش نہ کرتا۔ سو جس طرح وہ شخص جاہل ہے جو چار دیواری کے باہر سے آپ کو آواز دیتا ہے اور وہ شخص جاہل ہے جو کسی فاسق کی لائی ہوئی خبر پر بلاتحقیق کا رروائی کر گزرتا ہے، اسی طرح وہ شخص بھی جاہل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی حدیث کے ہوتے ہوئے اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ اسلئے اسے یہ بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ جان لو ! تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔
(٢) لویطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم :
یعنی رسول کے احکام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اور اس کا ہر حکم علم و حکمت اور رحمت و مصلحت پر مبین ہے اس لیے رسول کی اطاعت کرنے سے تم ہر طرح کی مشقت اور مصیبت سے بچے رہو گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، جیسا کہ فرمایا
یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید یکم العسر
(البقر ١: ١٨٥)” اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ “ اور رسول کو بھی تمہارا مشقت میں پڑنا کسی صورت گوارا نہیں فرمایا
عزیز علیہ ما عنثم حریص علیکم (التوبۃ : ١٢٨”
اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حصر رکھنے والا ہے۔ “ اس کے برعکس اگر رسول تمہاری اطاعت کرے تو تم مشقت میں پڑجاؤ گے، کیونکہ اول تو تمہاری سب کی بات ایک نہیں ہوگی، ہر شخص وہ بات منوانے کی کوشش کرے گا جو اس کے خیال میں اس کے فائدے کی ہے، تو رسول کس کس کی بات مانے گا اور کس کی بات کا امت کو حکم دے گا ؟ پھر تمہارا علم ناقص ہے، نہ تمہیں مستقبل کی کوئی خبر ہے نہ تم غیب کا علم رکھتے ہو، تمہیں کیا معلوم کہ تم جسے اپنے لیے فائدہ مند کو رہے اور وہ انجام کے لحا ظ سے کس قدر نقصان دہ ہے۔ اس لیے جس طرح کائنات کا نظام درست اس لیے چل ر ہا ہے کہ وہ ایک اللہ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے اسی طرح شریعت کا نظام بھی صرف رسول کی اطاعت سے صحیح چل سکتا ہے، کیونکہ اس کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، فرمایا
(ولو اثبع الحق اھوآء ھم لفسدت السموت والارض ومن فیھن) المومون : ٨١)”
اور اگر حق ان کی خواہشوں کے پیچھے چلے تو سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے، یقیناً بگڑ جائیں۔ “
(٣) لو یطیعکم فی کثیر من الامر
میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول بعض تدبیری امور میں تمہارا مشورہ مان بھی لیتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کی طرف سے مشورہ کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا
فاعف عنھم واستغفر لھم و شاورھم فی الامر (آل عمران : ١٥٩)”
سو ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔ “ مگر یاد رکھو ! تمہارا کام حکم دینا نہیں، مشورہ دینا ہے، رسول مناسب سمجھے تو مان لے مناسب نہ سمجھے تو نہ مانے، آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے ساتھ اسی نے کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا
فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (آل عمران :159)” پھر جب تو پختہ ارادہ کرے تو اللہ پر بھروسہ کرے۔ ‘
(٤) ولکن اللہ حبب الیکم الایمان :
ایمان سے مراد یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے جس میں تصدیق بالقلب ، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں شامل ہیں۔ یعنی اگر رسول بہت سی باتوں میں تمہاری اطاعت کرے تو یقینا تم مشکل میں پڑجاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے (تمہیں مشکل میں پڑنے سے بچا لیا اور ) ایمان یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو تمہارے لیے محبوب بنادیا اور اسے تمہارے دلوں میں ایسا مزین کردیا کہ تم خوش دلی سے رسول کی اطاعت پر کار بند ہوگئے۔ اس لیے بعض اوقات بتقاضیء بشریت تم سے غلطی ہوجاتی ہے مگر ایمان کی محبت اور کفر سے نفرت کی بدولت تم جلد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہو اور گناہوں سے باز رہتے ہو۔
(٥) وکرۃ الیکم الکفر والفسوق والعصیان :
یعنی کفر، فسوق اور عصیان کو تمہارے لیے نا پسندیدہ بنادیا۔ رازی نے فرمایا : ” ایمان میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالا ارکان تینوں شاملیں ۔ کفر دل کی تصدیق نہ ہونا ہے، فسوق زبان سے اقرار نہ کرنا ہے اور عصیان عمل نہ کرنا ہے۔ “ شیخ عبدالرحمن السعید نے فرمایا : ”(کفر کا معنی تو ظاہر ہے) فسوق سے مراد بڑے گناہ (کبائر) اور عصیان سے مراد ان سے کم تر درجے کے گناہ ہیں۔ “
(٦) اولئک ھم الرشدون :
یعنی یہ لوگ جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کردیا ہے اور کفر و فسوق و عصیان کو ان کے لیے ناپسندیدہ بنادیا ہے، یہی لوگ ہیں جو کامل ہدایت والے ہیں۔” الف لام “ بیان کمال کے لیے ہے اور حصر کا فائدہ بھی دے رہا ہے کہ صحابہ ہی ہدایت پر ہیں، ان کے دشمن اور مخلاف گمراہ ہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کی بےحد فضیلت بیان ہوئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے وہ اوصاف حمیدہ بیان کئے جو اس نے انہیں عطا فرمائے اور آخر میں صریح الفاظ میں ان کے راہ راست پر ہونے کی شہادت دی۔