Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ عاملوں سے دم و تعویذ کرانا بڑی حماقت اور سخت گناہ ہے، منکوحہ خاتون کا کسی غیر کے ساتھ چلی جانے سے نکاح نہیں ٹوٹتا


شیعہ عاملوں سے دم و تعویذ کرانا بڑی حماقت اور سخت گناہ ہے، منکوحہ خاتون کا کسی غیر کے ساتھ چلی جانے سے نکاح نہیں ٹوٹتا

سوال: میرے بھائی کے یہاں کافی عرصہ سے اولاد نہیں ہو رہی تھی، اس لئے ان کی گھر والی مختلف جگہ دم و درود کیلئے جاتی تھی، ہمارے علاقے میں ایک غالی شیعہ تھا، وہ عورت ایک مرتبہ اس کے پاس دم کیلئے چلی گئی، تو اس نے بجائے ان پر دم کرنے کے جادو کے ذریعے مسخر کیا اور رات کے وقت گھر سے غائب ہو گئی اور بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ دم کرانے کیلئے اس شیعہ کے پاس جاتی تھیں اور اسی نے ان پر جادو کیا ہے۔ اور تلاش کرنے پر وہ اسی کے گھر سے مل گئیں۔

انہوں نے اس شیعہ کے پاس پانچ مہینے گزارے، اس کے بعد ہم نے علاقے کے دستور کے مطابق صلح کرکے اپنی بھابھی کو گھر لے آئے، اس کے بعد ہم نے ان سے خوب پوچھ گچھ کی۔ انہوں نے کہا کہ ان پانچ ماہ میں وہ آٹھ دن اکٹھے بھی رہے ہے، لیکن میرے ساتھ کوئی غلط کام نہیں کیا، اس کے بعد جب اس شیعہ کے گھر والوں کو پتہ چلا کہ یہ عورت شادی شدہ ہے، انہوں نے اس کو علیحدہ کر دیا اور اس شیعہ کو اپنے علاقے پارا چنار بھیج دیا۔

عرض مسئلہ یہ ہے کہ اب میرے بھائی کیلئے اس عورت (میری بھابھی) کے ساتھ رہنا شرعاً کیسا ہے؟ آیا دوبارہ نکاح کرنا ہو گا یا کیا صورت اختیار کریں؟کیونکہ یہ کہتی ہے کہ میرے ساتھ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا، اور یہ کہ ہمارے لئے اس شیعہ کا قتل کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: اولاد دینا صرف اللّٰہ جل شانہ کا کام ہے، وہ جس کو چاہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہے لڑکے دیتا ہے اور کسی کو لڑکیاں اور لڑکے دونوں سے نوازتا ہے، اور جس کو چاہے بےاولاد سانڈی رکھتا ہے۔ دم و درود سے اور علاج سے اولاد نہیں ہوتی، ہاں سبب کے درجہ میں علاج اور دم و درود بھی کیا جا سکتا ہے۔لیکن دم و درود کسی پرہیزگار متقی عالم سے کرائے تو اس کی گنجائش ہے بشرط کہ شوہر خود بیوی کے ساتھ ہو اور عورت پوری طرح پردے میں ہو۔

کسی شیعہ یا دیگر پیشہ ور عاملوں کے ذریعے دم و درود کرنا خصوصاً عورت کا ایسے لوگوں کے پاس جانا بڑی حماقت اور سخت ہونا ہے۔ یہ عورت شوہر کی اجازت سے ایسے لوگوں کے پاس دم و درود کیلئے اگر جاتی رہی تو شوہر بھی پوری گناہ میں شریک ہے اور شوہر کے اجازت کے بغیر جاتی رہی تب بھی انتہائی بےمروتی اور غیرت کے خلاف بات ہے کہ شوہر کو اپنی بیوی کی کوئی خبر نہ ہو کہ وہ کہاں کہاں جاتی ہے۔

رہا یہ کہ عورت اب اپنے شوہر کے نکاح میں رہی یا نہیں؟ سو نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ شوہر نے اگر طلاق نہیں دی ہے، اور وہ اس کو بسانا چاہتا ہے تو اس کی بیوی سے تجدیدِ نکاح کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

ہاں دین اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف کوئی بات بیوی یا شوہر نے کہی ہو یا اس عورت سے ایسی کوئی بات کہلائی گئی ہو تو تجدیدِ ایمان و نکاح ضروری ہے، احتیاطاً تجدیدِ ایمان و نکاح کرائی جائے تو زیادہ بہتر ہے، مذکورہ جرم میں اس شیعہ کو قتل کرنے کی عام لوگوں کو اجازت نہیں، اس قسم کی سزا یا انتقام صرف حکومت کی ذمہ داری ہے۔

(فتاویٰ عباد الرحمٰن جلد 4، صفحہ 394)