غیر مسلموں کی مذہبی رسومات میں موافقت کرنا موجب کفر اور قاطع نکاح کا ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ میں (اظہر محمود) نے ایک کرسچن (عیسائی) عورت (زرینہ یوسف) سے شادی کی، بایں طور کہ پہلے اس کو مسلمان کرکے اسلامی طریقے سے نکاح کیا، پھر ہم دونوں کو چرچ لے جایا گیا، وہاں اُن کی مذہبی رسومات کے مطابق کرسچن فیملی کو نہلایا گیا، پھر انہی کے طریقے پر دوبارہ نکاح ہوا، جس سے یہ لوگ سمجھے کہ میں کرسچن ہو گیا ہوں، حالانکہ ہم (میاں بیوی) نے یہ سب کچھ صرف دکھلاوے کے طور پر کیا تھا، تا کہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو۔ اس (چرچ میں کئے گئے) نکاح میں میری پہلی مسلمان بیوی (زرینہ) (جو کہ اس نو مسلم بیوی سے پہلے میرے نکاح میں تھی) بھی شریک تھی، کچھ عرصہ تک دونوں بیویوں سے ازدواجی تعلق برقرار رکھنے کے بعد میں نے ایک تیسری (شیعہ) عورت (سیدہ دلشاد فاطمہ، جو کہ شیعیت کے بارے میں نارمل عقیدہ رکھتی ہے) سے بھی نکاح کر لیا، پھر کچھ ناچاقی کی وجہ سے دوسری (نو مسلم) بیوی کو تین طلاقیں دے کر فارغ کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کرسچن رسومات کے مطابق نکاح کرنے سے ہم اسلام سے خارج تو نہیں ہوئے؟ نیز ہمارے نکاح کا کیا حکم ہے؟
تنقیح:
- نو مسلم بیوی کے ساتھ نکاح کے بعد اور چرچ جانے سے پہلے جماع کیا تھا یا نہیں؟
- چرچ جانے کے بعد کتنا عرصہ گزرا جب اس کو طلاق دی؟
- چرچ جانے کے بعد نو مسلم بیوی میں باقاعدہ دین کی طرف رغبت ظاہر ہوئی یا نہیں؟ ظاہر ہوئی تو کس وقت؟
- پہلی بیوی نے چرچ میں جا کر کیا کیا عمل کیا تھا؟
- شیعہ عورت سے نکاح کب ہوا تھا؟
- شیعہ عورت سے نکاح کرنے سے پہلے اپنے سابقہ فعل سے سچی توبہ کی تھی یا نہیں؟
- شوہر نے اپنے فعل پر ندامت اور دل سے توبہ کب سے کی ہے؟ نیز صحیح طریقہ سے اسلامی تعلیمات پر چلنے کا عزم کب سے کیا تھا؟
- چرچ میں بتپسمہ دونوں نے اکٹھا کیا تھا یا آگے پیچھے؟ پوری تفصیل بتائیں۔
جواب: تنقیح:
- نکاح کے بعد اور بتپسمہ سے پہلے باقاعدہ جماع کیا تھا۔
- بتپسمہ کے بعد عرصہ گیارہ سال ایک ساتھ رہے۔
- دین کی طرف رغبت اب بھی ظاہر نہیں ہے، صرف رسمی طور پر بعض کام انجام دیتی ہے اور اپنے گھر والوں کو اب تک یہ ظاہر کرتی ہے کہ میں عیسائی ہوں۔ البتہ مجھے غالب گمان ہے کہ اگر دوبارہ اس سے نکاح کر لیا تو سچی مسلمان ہو جائے گی، پہلے اس کے ذہن پر ایسی محنت ہی نہ کر سکا نہ اس کا زیادہ خیال ہوا، اب میرے دل میں بھی دین اسلام کی بڑی عظمت ہے۔
- صرف تماشائی تھی کچھ عمل نہیں کیا۔
- تقریبا دو اڑھائی سال بعد۔
- شیعہ عورت سے نکاح کرنے سے پہلے میں نے اس عمل کو غلط نہیں سمجھا تھا اور نہ اس سے توبہ کی تھی اور اب تک اس طرف کوئی دھیان نہیں ہوا، آج کے بعد اس کام سے سچی توبہ کرتا ہوں، اللّٰہ مجھے معاف فرمائے۔
- پہلے میری بیوی نے مجھے کہا کہ آپ بتپسمہ کر لو اس میں کیا ہے، کیونکہ اس کے والد کا مطالبہ تھا، تو پہلے میری بیوی اس کو پسند کر رہی تھی پھر والد کے کہنے پر اس نے مجھے بھی تیار کیا، البتہ چند روز بعد بتپسمہ صرف میں (شوہر) نے ہی کیا تھا بیوی نے نہیں۔
جواب: صورتِ مسںٔولہ میں مذکورہ تفصیل و تنقیح کے مطابق اظہر محمود اور اس کی نو مسلم بیوی (زرینہ یوسف) چرچ میں جا کر بتپسمہ لینے، نیز کرسچن رسومات کے مطابق نکاح انجام دینے کی بناء پر داںٔرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔
لہٰذا اس حالت میں رہتے ہوئے شرعاً ان پر کفر کے احکام جاری کئے جائیں گے۔ البتہ اس کے بعد وہ اگر سچی توبہ کرکے تجدیدِ ایمان کر لیں اور اپنے ان منافی ایمان اعمال پر ندامت کا اعلان کرتے ہوئے اور عیسائیت سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے اسلام قبول کر لیں، تو شرعاً ان پر مسلمانوں کے احکام لاگو ہوں گے، لیکن پہلی مسلمان بیوی (زرینہ) جو چرچ میں جا کر مذکورہ نکاح میں شریک ہوئی اگر وہ محض تماشائی تھی، یعنی ان کے افعال کی وجہ سے اس کا عقیدہ تبدیل نہیں ہوا اور نہ ان کی مذہبی رسومات کو وہ اچھا سمجھ رہی تھی تو اس کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوئی، البتہ سخت گناہ گار ہوئی، وہ اس فعل پر اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ سے معافی مانگے اور آئندہ اس طرح کی محافل میں شرکت کرنے سے مکمل احتراز کرے۔ اور اگر وہ ان افعال کو اچھا اور جائز سمجھ رہی تھی یا اس کی وجہ سے اس کا عقیدہ تبدیل ہو گیا تھا تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو گئی ہے۔ بہرحال اس کو بھی احتیاطاً تجدیدِ ایمان کر لینا زیادہ مناسب ہے۔ نیز مذکورہ تنقیح کے مطابق اظہر محمود اور اس کی نو مسلم بیوی کا ارتداد اور اسلام بعد الارتداد آگے پیچھے ہونا متعین ہے۔
لہٰذا اس صورت میں اظہر محمود کا اپنی دونوں بیویوں سے نکاح ٹوٹ چکا ہے اور اس دوران (بغیر تجدیدِ ایمان و نکاح کے) دوسری نو مسلم بیوی (جبکہ اظہر محمود کے نکاح سے بالکلیہ خارج ہو چکی تھی) کو دی گئی طلاق واقع ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی تیسری بیوی (سیدہ دلشاد فاطمہ) سے نکاح درست ہوا ہے۔
لہٰذا اگر اظہر محمود بمع فیملی باقاعدہ طور پر دوبارہ اسلام قبول کر چکا ہے تو اس کے لئے مذکورہ تینوں عورتیں دوبارہ تجدیدِ نکاح کے ساتھ ازدواجی تعلق رکھنا جائز ہے، بشرطیکہ تینوں کفریہ عقائد سے تائب ہوں اور دین اسلام کے علاؤہ دوسرے تمام ادیان سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔
(فتاویٰ عباد الرحمٰن: جلد 1، صفحہ 84)