تاریخی روایات کو پرکھنے کے اصول
حکیم محمود احمد ظفرتاریخی روایات کو پرکھنے کے اصول
تاریخ کی روایات میں اکثریت غلط اور منقطع روایات کی ہے اس لئے ان روایات کو پرکھنے کے چند مشہور اصول بیان کرنا ضروری ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں ہر روایت کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھا جانا ضروری ہے۔ وہ اصول حسب ذیل ہیں :۔
1۔ روایت نص قرآنی کے خلاف نہ ہو ۔
2۔ روایت سند متواترہ کے خلاف نہ ہو۔
3۔ روایت صحابہ کرام کے اجماع قطعی کے خلاف نہ ہو۔
4۔ روایت میں کوئی ایسا محسوس وشہور واقعہ بیان ہو کہ اگر وقوع میں آتا تو اس کو روایت کرنے والے متعدد آدمی ہوئے لیکن اس کے خلاف ایک یا دو راوی ہوں تو وہ روایت بھی قابل قبول نہ ہوگی ۔
5۔ روایت مسلمہ اصولوں کے خلاف نہ ہو۔
6۔ روایت صحیح اور مقبول حدیث کے خلاف نہ ہو ۔
7۔ روایت قواعد عربیہ کے خلاف نہ ہو۔
8۔ روایت ایسی نہ ہو جس میں راوی کسی شخص سے ایسی روایت کرتا ہو کہ کسی اور نے نہیں کی اور یہ راوی اس شخص سے نہ ملا ہو ۔
9۔ روایت ایسی نہ ہو کہ اس کے معنی رقیق یا شان نبوت یا شان صحابہ کے منافی ہوں ۔
10۔ روایت عقل سلیم کے خلاف نہ ہو ۔
روایت کے اس دسویں اصول کو محدثین کی اصطلاح میں اصول درایت کے نام سے تعبیر کرتے ہیں جس کے بارے میں محدثین نے بہت بحث کی ہے ۔ جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ۔
یہ دس اصول تو متن روایت کو پرکھنے کے لیے ہیں باقی سند روایت کے پرکھنے کے لیے حسب ذیل اصول ہیں ۔
1۔ تمام راوی عادل ، تام الضبط اور ثقہ ہوں ۔
2۔ روایت کتنے طریق سے مروی ہے اور راویوں کی تعداد کیا ہے ۔
3۔ روایت اصل آدمی تک پہنچتی ہے یا راستہ ہی میں رک جاتی ہے اگر روایت اصل آدمی تک پہنچتی ہوگی تو وہ مرفوع کہلائے گی اور اگر راستہ میں رک جاتی ہے تو اسے منقطع کہتے ہیں ۔
یہ وہ اصول ہیں جن پر تاریخ کی ہر روایت کے متن اور سند کو پرکھ کر دیکھا جاسکتا ہے کہ اس روایت کی اعتمادی حیثیت کیسی ہے، اور میرے خیال میں اگر ان اصولوں کو تاریخی روایات میں اپنایا جائے تو غلط اور منقطع روایات کی کافی حد تک چھان پھٹک ہوسکتی ہے اور ایک قاری تاریخ کا مطالعہ کرنے والا اچھے طریقے سے سمجھ جائے گا کہ غلط روایات کا کس قدر ذخیرہ تاریخ کے صفحات میں سمو دیا گیا ہے ۔