عمرؓ نے دین میں اضافہ کیا، تراویح کو باجماعت قائم کرنے کا حکم دیا جبکہ وہ خود اس کے بدعت ہونے کا متصرف ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہر بدعت گمراہی ھے. (صحيح مسلم جلد2 ص285 باب فی خطبۃ الجمعۃ.)
زینب بخاریعمرؓ نے دین میں اضافہ کیا، تراویح کو باجماعت قائم کرنے کا حکم دیا جبکہ وہ خود اس کے بدعت ہونے کا متصرف ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا :
ہر بدعت گمراہی ھے. (صحيح مسلم جلد2 ص285 باب فی خطبۃ الجمعۃ.)
جواب اہلسنّت
نماز تراویح بدعت نہیں ھے، بلکہ رسول اللہﷺ کے قول و فعل سے ثابت ہے، آپﷺ نے فرمایا :
روزہ تم پر فرض کیا گیا، اور رات کا قیام تمہارے لئے مسنون ہوا.
شعب الایمان للبیہقی و لقط جعل اللہ صیامہ فریضۃ و قیام لیلہ تطوعا. (ص 173 کتاب الصوام.)
آپؐ نے تین رات تراویح (قیام رمضان) باجماعت ادا فرمائی. (دیکھئے سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، مسند احمد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ بروایت ابوذر) باجماعت قیام رمضان بعد ازاں آپ نے ترک کر دیا، اور اس کی معذرت بیان کی. صحيح بخاری و مسلم میں ھے:
عائشہؓ فرماتی ہیں، نبیﷺ نے نماز پڑھی، آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز پڑھی، اگلی رات بھی نماز پڑھی، لوگ بہت جمع ہو گئے، پھر تیسری رات آپؐ ان کی طرف نہ نکلے، صبح کے وقت آپ نے فرمایا تم نے جو کیا میں نے دیکھا، میں اس لئے نہیں نکلا کہ مجھے تمہارے اوپر اس کا فرض ہونے کا خطرہ تھا، اور یہ رمضان کا واقعہ ہے.
(سنن ابو داؤد باب قیام شہر رمضان من کتاب الصوع جلد نمبر 1 ص 195، جامع ترمذی ج 1 ص 130 باب قیام شہر رمضان من کتاب الصوم، سنن نسائی جلد 1ص 238 باب قیام شہر رمضان من کتاب قیام اللیل، سنن ابن ماجہ ص 95 باب ماجاءنی قیام شہر رمضان، صحيح بخاری جلد 1 ص 102 باب طول السجود فی اللیل من کتاب المتہجد صحیح مسلم باب الترغيب فی قیام رمضان جلد 1 ص 259.)
رسول اللہ ﷺ کا ترک مواظبت باجماعت کی وجہ بیان کرنا درحقیقت یہ اطلاع دینا ھے، کہ اس علت کے زائل ہونے کے بعد پھر مواظبت مسنون ہو گی.
حضرت عمرؓ کے قول نعمت البلدعۃ ھذہ میں بدعت سے مراد لغوی ھے، شرعی بدعت نہیں، شرعی بدعت اس چیز کو کہتے ہیں، جس کی اصل کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ ، سنت خلفاء راشدین اور اجماع امت میں نہ پائی جانے، سنت خلفاء (مسئلہ عجوثہ میں سنت خلفاء راشدین کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا اپنا طرز عمل بھی تو قابلِ توجہ ہے کہ آپ نے تین روز جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی اور پھر جماعت سے منع نہیں کیا، تم آئندہ جماعت نہ کرانا، بلکہ فرض ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا، جس کے ختم ہونے کے بعد پھر جماعت کا مسنون ہونا ثابت ہوا، جیسا کہ صحابہ کرامؓ نے (جو کہ آپ کے حکم کے تھے) سمجھا) بھی سنت میں داخل ہے نہ کہ بدعت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
جو تم میں سے میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت اختلاف دیکھے گا، تم میری سنت اور خلفاءراشدین کی سنت کو لازم کرنا، اور اس کی پوری پابندی کرنا نئی باتوں سے خود کو بچاؤ، کہ بدعت گمراہی ھے، (ترمذی. ابن ماجہ. بروایت عرباض بن ساریہ.)
(جامع ترمذی ج 2 میں 108 باب الاخذ بالسنتہ ابواب العلم، ابن ماجہ ص 5 باب اتباع الخلفاء الراشدين.)
قابل افسوس وہ جماعت ھے، جو دین میں ایجادات کر کے ائمہ کرام کی طرف منسوب کرتی ھے، جیسا کہ تحلیل فردج، نماز غدیر. حضرت عمرؓ کی وفات کے روز نماز گزارتا، بعض اولاد کو بعض ترکہ نہ دینا. مثلاً کہتے ہیں کہ دختر کو زرعی زمین نہ دی جائے. جیسا کہ کلینی نے لکھا ھے، یہ سب باتیں دین میں اختراعی ہیں، اور بےبنیاد۔ صحابہ کرامؓ پر جنہوں نے سنت رسول اللہﷺ کا اجراء فرمایا طعن کرتے ہیں، اور ادھر ان کا دعویٰ ھے کہ شریعت سازی ائمہ کے سپرد تھی، درحقیقت ان کے اس قسم کے باطل نظریات سے ختم نبوت کا انکار لازم ہے۔