دھوکہ نمبر 11
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 11
شیعہ کہتے ہیں کہ اثنا عشری مذہب حق ہے اور اہل سنت کا مذہب باطل ہے۔ اس لئے کہ اکثر اوقات اور اکثر شہروں میں اثنا عشری تعداد میں کم اور ذلیل و خوار جب کہ اہل سنت کی تعداد بھی بہت ہے اور عزت وقار بھی ان کو حاصل ہے ۔ اور اللّٰه تعالیٰ نے اہل حق کے بارے میں وقلیل ما هم اہل حق کم ہیں، فرمایا اور ایک اور جگہ فرمایا و قلیل من عبادی الشکور ( میرے بندوں میں شکر گزار بندے کم ہی ہیں).
شیعوں کی یہ بات کلام ﷲ کی تحریف اور تبدیلی کہہ جا سکتی ہے، انہوں نے کلام ﷲ کے متعلق غلط بیانی کی ہے۔ اس لیے کہ ﷲ تعالٰی نے اس امت کے اصحاب الیمین ( وہ جن کے اعمال نامے قیامت کے دن دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے۔ کے بارے میں فرمایا ہے۔ ثلة من الاولين و ثلة من الآخرين ( ایک انبوہ ہے پہلوں سے اور ایک انبوہ ہے پچھلوں سے) ، جس سے کثرت معلوم ہوتی ہے۔ البتہ جہاں کمی بتائی ہے وہاں شکر گزار بندے مراد ہیں۔ جیسا فرمایا ولا تجد اكثر هُمُ شَاكِرِينَ- (ان میں سے اکثر کو آپ شکر گزار نہیں پائیں گے۔ ) اور واقعہ بھی یہی ہے اس لئے کہ اللّٰه تعالٰی کی دی ہوئی تمام نعمتوں کو ان کی فطری اور خلقی غرض و غایت میں صرف کرنے کا نام ہی شکر ہے۔ اور حقیقت میں یہ درجہ نادر الوقوع اور بہت ہی کمیاب ہے. تو ان آیات میں کسی مذہب کی حقانیت یا بطلان کا ذکر کہاں سے نکل آیا۔ البتہ شاکرین کی قلت اور ناشکروں کی کثرت کا بیان ہے۔ اسی طرح آیت و قلیل ماھم میں اس کا ذکر ہے کہ تمام نیک کام کرنے والے کامیاب ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَات و قليل ماهم (مگر جو ایمان لائے اور کام نیک کئے وہ بہت کم ہیں) اس آیت میں بھی حق و باطل عقائد کا ذکر کہاں ہے؟
اور اگر ذلت و قلت حقانیت کا سبب ہو تو پھر انہیں مان لینا چاہیے کہ تواصب، خوارج ، زیدیہ، افطحیہ، ناوسیہ وغیرہ اثنا عشریہ سے زیادہ حقانیت و صداقت کے حامل ہوں۔ کیونکہ یہ فرقے باعتبار تعداد بھی اثنا عشریہ سے کم ہیں اور ان کی نسبت ذلیل بھی زیادہ ہیں۔
اس کے بر خلاف اللّٰه تعالیٰ نے تو اپنی کتاب عزیز میں ، بار بار یہ فرمایا ہے کہ اہل حق کا ظہور، غلبہ اور تسلط ہوگا چنانچہ ارشاد ہے وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لهم المَنْصُورُونَ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ -
(اپنے رسول بندوں کے متعلق ہمارا حکم پہلے ہی جاری ہو چکا کہ ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر بلاشک غالب ہونے والا ہے ، دوسری جگہ فرمایا۔
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزبور مِنْ بَعْدِ الذِكر أَنَّ الأرض يَرِثهَا مِنْ عِبَادِی الصَّالِحون - (زبور میں نصیحت کی باتوں) کے بعد ہم نے یہ بھی لکھا ہے کہ زمین کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے)
ایک اور جگہ یوں ارشاد فرمایا :
وَعَدَ الله الَّذِينَ اٰمَنَوْا مِنكم وَ عَمِلُوالصلحتِ لَيْستخَلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِم ولیمکنن لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتضی لَهُم وَ لیبدلنھم مِن بعد خوفھم اٰمنا۔ (ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں سے اللّٰه تعالٰی نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے پہلوں کو جس طرح اقتدار دیا تھا ان کو بھی زمین پر اقتدار دے گا اور ان کے دین کو مضبوط کرے گا جس کو اللّٰه تعالیٰ نے ان کے لئے پسند کیا ہے۔ اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا ۔)
اسی طرح کی اور بھی آیات ہیں اور احادیث میں بھی جا بجا تاکید ملتی ہے کہ امت کی جمہوریت کی موافقت و تا بعداری کرنی چاہیے۔
پھر قرآن و احادیث میں مجاہدین کی تعریف کی گئی ہے اور حدیث میں یوں آیا ہے ۔ لا يَزَال مِنْ أُمَّتِي أُمَّةً قَائِمَة بامر اللَّهِ لَا يَضرهُمْ مَنْ خَالَفھم اور میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ اللّٰه کے حکم پر جمی رہے گی، مخالف اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے)۔
اہل تاریخ اس پر متفق ہیں کہ شیعوں میں سے آج تک کوئی بھی جہاد پر کمربستہ نہیں ہوا اور نہ ہی ان میں سے کسی نے کسی ملک یا اس کے حصہ کو کفار سے چھین کر اسے دار السلام بنایا بلکہ اس کے برخلاف انہیں اگر کسی شہر کی
سیاست یا حکمرانی ملی بھی جیسے مصر و شام کی ریاست ان کے ہاتھ بھی گئی تو انہوں نے کفار ہی کی طرف دوستی اور یگانگت کا ہاتھ بڑھایا اور دین کو دنیا کے عوض بیچ کر دارالسلام کو دار الکفر میں تبدیل کر دیا۔ (یہ ہمیشہ کافروں سے دوستی اور مسلمانوں کے قتل پر شیر رہے) چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جہاں اس مذہب کے (سبز قدم) نہیں پہنچے وہاں کے باشندے ہمیشہ غالب ، ذی عزت و شان رہے ۔ چنانچہ توران ، ترکستان، روم اور ہندوستان کے بادشاہوں نے شیعوں کے اختلاط اور دوستی سے پہلے عزت و شان کی زندگی بسر کی ہے۔ اور جب بھی کسی شہر اور ملک میں شیعہ مذہب رائج ہوا وہیں فتنہ و فساد، بد بختی اور ذلت اور باہمی نفاق - جو زوالی سلطنت کے اندرونی اسباب شمار ہوتے ہیں۔ آسمان سے بارش کی طرح برسنے لگے ، اور پھر وہاں کی فضا نا قابل اصلاح ہو گئی ۔ ایران، دکن اور ہندوستان ہی نہیں، ملک
عرب شام، روم، توران اور ترکستان وغیرہ کے حالات کو دیکھ لیجئے (تو اس کی تصدیق ہو جائے گی )۔
اور تاریخ کا ایک یہ بھی ناقابل تردید تجربہ ہے کہ جب بھی اتفاق سے کسی ملک میں شیعی غلبہ ہوا ہے تو اس کے متصل بعد ہی اس پر کفار کا غلبہ ہونا گویا لازمی ہو گیا ۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا تسلط کفار کے تسلط کا گویا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اور یہ گویا چھوٹے کفار ہیں۔ بنگال ، دکن، پورب ، دہلی و گرد و نواح ،لاہور، پنجاب میں کفار کو یہی بدبخت سیاه رو، سیاہ کار ہی بر سر اقتدار لائے ۔ اس سے بھی پہلے فتنہ تاتار، اہل اسلام کا قتل قرامطہ اور اسماعیلیہ کا زور ان ہی کی وجہ سے ہوا۔ ان رافضیوں کے فرقے عراقین، بغداد، دلی اور کرخ میں پھیل گئے پھر مطابق آیت کریمیہ واتقو فتنۃ لا تصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصة
(ایسے فتنے سے بچو جس کی لپیٹ میں صرف ظالم ہی نہیں آئیں گے) نیک و بد سارے ہی تباہی و بربادی کا شکار ہوئے ۔