Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 14

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 14

اعوام کو دھوکہ دینے کے لئے ایسی روایات بیان کرتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہوتی ہیں کہ

جناب علی کرم اللّٰه وجہہ اور آپ کی اولاد کی محبت عذاب آخرت سے نجات دلانے کے لئے کافی ہے ۔ بشرطیکہ یہ محبت شیعوں کی عداوت نما محبت کی مانند ہو، سچی اور حقیقی محبت نہ ہو) اس محبت کے بعد ( عذاب آخرت سے بچنے کے لئے ) اطاعت بجا لانا اور گناہوں سے اجتناب کرنا ضروری نہیں ۔

منجملہ ان کی ایک روایت وہ ہے جس کا راوی بادیہ ہے جو ان کے ہاں صدوق مشہور ہے یہ ابن عباسؓ سے روایت کرتا ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ جس نے علیؓ سے محبت رکھی اللّٰه تعالیٰ اس کو دوزخ کا عذاب نہیں دے گا۔

اب چونکہ عام شہوت پرست اور حرص و ہوس کے بندے اس بات کے شوقین ہوتے ہیں کہ ان پر کوئی قد غن اور پابندی نہ ہو ۔ ان کو کھل کھیلنے کی آزادی ملے ۔ دنیا بھر کی تمام چیزیں انکے لئے جائز قرار دی جائیں ۔ عیش و عشرت میں ان پر کوئی گرفت نہ ہو ۔ گناہوں اور محرمات کے ارتکاب میں ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔عبادت الٰہی سے جان چراتے ہیں اور اس میں سستی اور ڈھیل سے کام لیتے ہیں۔اس لئے یہ بشارت ان کے ذہنوں پر کافی اثر انداز ہو کر ان کو اس مذہب کی طرف راغب کر سکتی ہے۔اور یہ اس کی طرف جھک پڑتے ہیں۔

حالانکہ خود ان شیعوں کی معتبر اور صحیح کتابوں میں اس قسم کی روایات موجود ہیں جن میں حضور پاکﷺ نے اپنی اولاد اور ذریت کو بار بار فرمایا کہ تم اپنے نسب پر گھمنڈ نہ کرو بلکہ طاعات و عبادت کے ذریعے خدا کا قرب حاصل کرو۔

جب خوف و ہراس میں خود اہل بیت کا یہ حال ہے تو دوسروں کو اہل بیت کی محبت پر بھروسہ کر کے ارتکاب معاصی و محرمات کے جائز ہونے کا امکان ہی کہاں ہے!

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اہل بیت کرام سے حقیقی محبت اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک طاعات و بندگی ، زہد و تقویٰ میں ان بزرگوں کی روش اختیار نہ کی جائے۔جب اس طریقے سے ان کی محبت حاصل کی جائے گی تو اس ضمن میں تمام کمالات حسنہ خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔

پس الفاظ لَا يُعَذِّبُ اللهُ بِا النَّارِ مَن وَالي عَلِيًّا صرف اس معنی میں صحیح ہیں کہ حضرت علیؓ کی محبت تمام دینی کمالات پر حاوی اور ان کو شامل ہے نہ صرف زبانی کلامی محبت جو صرف زبان سے ادا ہو اور اقوال و افعال میں جناب امیر المؤمنین حضرت علیؓ سے کوئی مناسبت یا مشابہت نہ رکھتی ہو اور آپ کے اقرباء و اصحاب کی شان میں بد زبانی سے نہ رکتا ہو۔

غرض ہر بات میں تو آنجناب رضی ﷲ عنہ کے اقوال کی مخالفت کرنا اور پھر اس قطعہ کا سچا مصداق بننا

تُعصِي الالٰه وَاَنتَ تُظهَرُ حُبَّهُ

هذا لعُمُري فِي القِياسُ بَدِيع

لَوكَانَ حُبُّكَ صَادِقًا

اِنَّ المُحِبَّ لِمَن يُّحبُّ مُطِيعُ

(1) تو خدا کی نافرمانی بھی کرتا ہے اور محبت بھی جتلاتا ہے۔ بخدا میرے خیال میں تو یہ بڑی عجیب بات ہے۔

(2) اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تو اس کی اطاعت کرتا کیونکہ محب تو محبوب کا مطیع و فرمانبردار ہوتا ہے۔