Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غیر مسلموں سے تعلقات اور دوستی سے متعلق تفصیل


سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بات کافی دنوں سے دل میں آرہی ہے کہ کفار یہود و نصارٰی کے ساتھ تعلقات اور دوستی کا کیا حکم ہے؟

بعض قرآنی آیات کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا کسی طرح جائز نہیں مثلاً آیت: لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌: آیت: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ

اس کے علاؤہ کئی احادیث میں بھی واضح لفظوں میں یہ حکم موجود ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہ قائم کئے جائیں۔

لیکن دوسری طرف قرآن کریم کی بعض آیات اور احادیث میں زیر اثر کفار کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم ہے اور معاملات کی بھی اجازت ہو رہی ہے۔ مثلاً آیت: لَا يَنۡهٰٮكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيۡنَ لَمۡ يُقَاتِلُوۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَلَمۡ يُخۡرِجُوۡكُمۡ مِّنۡ دِيَارِكُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡهُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَيۡهِمۡ‌

جبکہ بعض احادیث میں تو نبی کریمﷺ کا کفار کی عیادت کرنا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک و ہمدردی کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح خلفائے راشدینؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ان کے ساتھ معاملات کرنا مذکور ہے۔

اور ظاہر ہے کہ کسی کے ساتھ معاملات کرنا اور میل جول رکھنا اس سے تو دوستی ہو ہی جاتی ہے۔ اور بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ بسا اوقات ہم غیر مسلموں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور کھانے کا وقت ہو جاتا ہے تو ایک جگہ بیٹھتے ہیں، ان سے دور ہو کر بیٹھنا عجیب سا لگتا ہے، تعصب کا رنگ چڑھتا ہے اور اچھے اخلاق کے منافی معلوم ہوتا ہے، ادھر شرعی حکم کا احساس ہوتا ہے۔ ایسی صورت پیش آئے اس کا حکم واضح فرما دیں اور قرآنی آیات و احادیث میں بظاہر تعارض معلوم ہو رہا ہے اس کا حل بھی بتا دیں۔

جواب: اللہ تعالیٰ جل شانہ کی صفت ربوبیت اور بندۂ مؤمن کی صفت عبدیت کا تقاضا یہی ہے کہ دوستی یا دشمنی و عداوت کیلئے محض اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی خوشنودی اور حضور اکرمﷺ کی پیروی ہو، ذاتی نسلی یا دنیاوی مفادات دوستی یا دشمنی کا معیار ہرگز نہ ہو، اسلامی تعلیمات سے یہی درس ملتا ہے۔ چنانچہ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے۔

عن ابی امامةؓ قال قال رسول اللّٰہﷺ من احبّ للّٰه وابغض للّٰه واعطی للّٰه ومنع للّٰه فقد استکمل الایمان

ترجمہ: سیدنا ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے اللّٰہ تعالیٰ کے کیلئے کسی سے محبت کی اور اللّٰہ تعالیٰ ہی کیلئے دشمنی کی، اور اللّٰہ تعالیٰ ہی کیلئے دعا اور اللّٰہ تعالیٰ ہی کیلئے منع کیا اور نہ دیا تو اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی۔

معیاری دوستی دو چیزوں سے عبارت ہے۔ ظاہری تعلق بھی ہو تو صحیح معنوں میں دوستی کہلاتی ہے۔ اور دلی محبت چونکہ ایک مخفی صفت ہے، اور دوسرا تعلق ظاہری صفت ہے لیکن بسا اوقات دلی محبت کے بغیر کسی دینی مصلحت یا دنیاوی غرض کی وجہ سے بھی رکھنا پڑتا ہے۔ اس لئے فقہاء کرام نے دوستانہ تعلق کو مختلف درجات میں تقسیم کر کے شرعی حکم واضح فرمایا۔ فقہاء کرام کی بیان کردہ تفصیل آیات اور احادیث میں تعارض کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔

پہلا درجہ موالات یعنی قلبی مؤدت و محبت کا ہے، یہ صرف مؤمنین کے ساتھ خاص ہے۔

دوسرا درجہ مواسات کا ہے، یعنی خیر خواہی، نفع رسانی اور دوسروں کو نقصان سے بچانے کا جزبہ۔ اس درجہ کی دوستی غیر مسلموں کے ساتھ بھی جاںٔز ہے، البتہ ایسے کفار جو مسلمانوں کے ساتھ برسرِ پیکار ہوں، اُن کے ساتھ جاںٔز نہیں۔

تیسرا درجہ مدارات کا ہے، یعنی دوسروں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا، اپنے دین کی طرف ماںٔل کرنے کی غرض سے ہو، ان کے شر سے بچنے کی غرض سے ہو، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔

چوتھا درجہ معاملات یعنی لین دین، تجارت و ملازمت وغیرہ کا تعلق، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، البتہ ایسا معاملہ جس کی وجہ سے اُمت مسلمہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ہرگز جائز نہیں، مثلاً: اسلحہ وغیرہ ان کو فروخت کرنا۔

(فتاویٰ عباد الرحمٰن: جلد 13، صفحہ 228)