غیر مسلم عورت مسلمان ہو جائے تو غیر مسلم شوہر کا نکاح باقی نہیں رہتا
غیر مسلم عورت مسلمان ہو جائے تو غیر مسلم شوہر کا نکاح باقی نہیں رہتا
سوال: ایک شخص نے امریکہ میں ایک شادی شدہ عیسائی عورت کو مسلمان کرا کے لے آیا۔ اس عورت نے کوئی عدت گزاری ہے اور نہ اس کے عیسائی شوہر پر اسلام پیش کیا گیا ہے اور اس مسلمان نے اس کے ساتھ نکاح بھی نہیں کیا ہے۔ اب اس عورت کے بارے میں کیا حکم ہے، یا پہلے عدت گزارنا اور اس کے سابقہ شوہر کو اسلام کی دعوت دینا ضروری ہو گا؟
جواب: جب کوئی غیر مسلمہ شادی شدہ عورت اسلام قبول کر لے اور اس کا شوہر غیر مسلم ہو تو اس کا نکاح از خود ختم ہو جاتا ہے، اب وہ عورت اگر دارالحرب میں ہے تو صرف تین حیض گزار کر کسی مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے، اور اگر دارالاسلام میں ہے تو تفریق قاضی کے بعد دوبارہ نکاح کیلئے تین حیض گزارنا لازمی ہے۔ لیکن اس میں اختلاف ہے کہ اس بنیونت کے بعد عدت اس عورت پر لازم ہے یا نہیں؟ صاحبینؒ وجوبِ عدت کے قائل ہیں جیسا کہ شامی میں مذکور ہے اور اسی کو امام طحاویؒ لازمی قرار دیتے ہیں، لہٰذا صاحبینؒ کی رائے کے موافق تین حیض گزارنے کے بعد نکاح کر سکتی ہے اور یہی احوط ہے، جبکہ امام صاحبؒ تین ماہواری مزید گزارنے کا ضروری نہیں جانتے۔
لہٰذا امام صاحبؒ کی رائے کے موافق تین ماہواری یا تین مہینے گزر جانے کے بعد مذکورہ عورت نکاح کر سکتی ہے،جبکہ صاحبینؒ کے قول کے مطابق کل چھ ماہواری یا چھ مہینے گزر جانے کے بعد نکاح کر سکتی ہے، اس سے پہلے نہیں، اور حاملہ ہو تو بالاتفاق عدت ۔۔۔۔ وضعِ حمل ہے۔
سابقہ شوہر چونکہ دارالحرب میں ہے، اس لئے اس پر عرض اسلام (اسلام کی دعوت دینا) ضروری نہیں ہے، اس لئے کہ ان پر ہماری کوئی ولایت نہیں ہے، دارالاسلام میں ہوتا تو اس کو اسلام کی دعوت دینا ضروری ہوتا۔
(فتاویٰ عباد الرحمٰن جلد 5، صفحہ 122)