دھوکہ نمبر 26
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 26
کہتے ہیں کہ شیعہ مذہب ہی اتباع کا زیادہ سزا وار و حقدار ہے کہ وہ اہل بیت کے مطیع ہیں جن کی شان میں خود اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے *اِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَ كُم تَطهِيرًا
( اے اہل بیت اللّٰه چاہتا ہے کہ تم سے رجس و برائی دور کر کے تم کو بالکل پاک کر دے۔)
اور ان ہی بزرگوں کے اقوال و افعال سے اپنے دعوے کی دلیل لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیعوں کے علاوہ تمام فرقے غیر اہل بیت کی پیروی کرتے ہیں اور اہل بیت کے اقوال و افعال سے روگردانی اور احتراز کرتے ہیں اس لئے شیعہ کے لئے نجات لازمی اور یقینی ہے جبکہ دوسرے فرقے گرفت کے خوف و خطر میں ہیں۔
پھر اسی جھوٹے مفروضے پر حدیث سفینہ سے تائید پیش کرتے ہیں کہ مَثَلُ اَهلِ بَيتي فِيكُم مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَن رَكِبَهُ نَجَا وَمَن تَخَلَّفَ غَرَقَ-
(میرے اہل بیت کی مثال نوح کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہو گیا بچ گیا اور جو اس سے بچھڑ گیا غرق ہو گیا۔)
یہاں انہوں نے غلط مبحث کیا ہے اور حق و باطل کو خلط ملط کر دیا ہے۔اس میں کلام کس کو ہے کہ اہل بیت کی اتباع مؤجب نجات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اہل بیت کا متبع کون فرقہ ہے اور شیطان کا پیرو گمراہ فرقہ کون ہے جو ناجائز اور مشموم اغراض کی خاطر اہل بیت کا دامن تھامے ہوئے تھے اور انکے اور اہل بیت کے رسم و آئین میں زمین و آسمان کا فرق تھا وہ کس منطق کی رو سے اہل بیت کے متبع کہلا سکتے ہیں ۔ اب اس بات کا ثبوت کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے کہ شیعہ اہل بیت کے متبع ہیں ۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ اور۔ جس کی روش ہو وہ کیا کہلاتا ہے سب جانتے ہیں ۔
مشرکین مکہ خود کو ملت ابراہیم کا متبع کہتے تھے۔اور مسلمانوں کو صابی یا صباة کا لقب دیا تھا۔ کیونکہ اپنے خیال میں وہ انکو ملت ابراہیمیہ کا مخالف سمجھتے تھے۔اسی طرح یہود و نصاریٰ حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی اتباع کا دم بھرتے تھے۔اور عبداللّٰہ بن سلام اور نجاشی یا ان جیسے دوسروں کو انبیاء کا مخالف بتاتے تھے۔درحقیقت کسی کا نام لینا اور عمل میں اسکے خلاف راستہ اختیار کرنا سراسر رسوائی اور بے حیائی ہے۔ آزاد خیال اور ملحد بھی خود کو قادری ، سہروردی اور چشتی کہتے ہیں ۔ ایسے ہی سر برہنہ لمبے بالوں والوں کا ایک فرقہ اپنے آپ کر مداریہ کہتا ہے۔ان سب کو محض ان نسبتوں سے کیا فائدہ پہنچتا ہے جبکہ یہ ایسے طرزِ عمل کے سبب اپنی رسوائی اور خفت کو مزید بڑھا لیتے ہیں ۔ کاش! یہ ان بزرگوں کا نام شروع ہی سے نہ لیتے تو ان سے ان بزرگوں کی رسوم اور طریقوں کی پیروی کا کوئی مطالبہ بھی نہ کرتا۔
اس سلسلہ میں سچ صرف یہ ہے کہ اتباع کا زیادہ حقدار صرف اہل سنت کا ہی مذہب ہے ۔ اس لئے کہ جناب امیر المؤمنین حضرت علی و ائمہ اطہار رضی اللّٰه عنہم ظاہر و باطن میں اسی مذہب پر تھے۔اور اس مذہب کے مخالف کو نہ صرف اپنی مجلسوں اور لشکروں سے باہر نکال دیتے تھے بلکہ جلا وطن بھی کر دیتے تھے۔
ان حضرات نے امام ابو حنیفہ اور امام مالک( اساطین اہل سنت) رحمہما اللّٰه کے ساتھ عزت و نرمی روا رکھی پھر ان اساطین اہل سنت نے بھی ائمہ اہل بیت کی شاگردگی اختیار کر کے کسب فیض حاصل کیا ۔ اصول مذہب سیکھے۔جب دوسروں کو بھی ائمہ کے موافق دیکھا اور ائمہ نے بھی ان کی حقانیت کو تسلیم کیا تو انہوں نے ان سب سے معاملات دین کی تحقیق کی۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگر صرف اہل بیت کی طرف نسبت کر دینا حقیقت مذہب کے لئے کافی ہوتا تو چاہئے تھا کہ غلاط، کیسانیہ، مختاریہ،اسمٰعیلیہ ،زیدیہ،امامیہ، حمیریہ اور قرآمطہ یا شیعوں کے دیگر فرقے بھی حق ہوتے اور پھر کسی کو کسی پر متعین اور مخصوص کر کے فخر کرنے اور بغلیں بجانے کا حق نہ ہوتا ۔ حالانکہ یہ سب فرقے ایک ادعا، ایک نسبت کے باوجود ایک دوسرے کو کافر و گمراہ کہتے رہے ہیں اور کہتے ہیں ۔ ( اور اسی پر بس نہیں ماضی میں ایک دوسرے کی گردنیں تک کاٹتے رہے ہیں اور آج بھی انکی کیفیت تحسبھم جمیعا و قلوبھم شتیٰ کے عین مطابق ہے۔ نعمانی)