دھوکہ نمبر 29
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 29
کرتے یہ ہیں کہ اپنے مذہب کے ثبوت میں اور اہل سنت کے مذہب کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ کتاب لکھتے تو خود ہیں مگر لعنت بر کذاب کا مصداق بننے کے لئے ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ایک ذمی نے لکھی ہے ۔ اور اس کتاب کے آغاز میں اسی مجہول العلم ذمی کی زبانی بیان کراتے ہیں کہ جب میں بالغ ہوا، اور دین حق کے تلاش کرنے کی فکر ہوئی تو میں نے اس سلسلہ میں بڑی تکلیف اٹھائی۔ بہت تگ و تازکی سرد و گرم زمانے سے دو چار ہوا ، تا آنکہ توفیق الٰہی نے رہنمائی و دستگیری فرمائی۔ اور مجھے دارالاسلام پہنچایا، یہاں پہنچ کر میں نے دین اسلام کو جانچا پرکھا اور ہر طرح سے اسے دین حق پایا اور میں نے اسے قبول کر لیا۔ لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد جب میں نے اس کے ماننے والوں میں اندرونی اختلاف رائے کو دیکھا تو میرے تو ہوش اڑ گئے۔
میں تو بھانت بھانت کے اقوال و آرا سن کر سرا سیمہ ہو گیا کہ کس کو حق سمجھوں کس کو غلط ، مختلف آراء اور مذاہب کا جائزہ دلائل کی روشنی میں لیا تو مجھے معلوم ہو گیا اسلامی مذاہب میں سے صرف شیعہ مذہب ہی حق ہے۔ اس کے علاوہ جتنے مذاہب ہیں سب گھڑے ہوئے اور تحریف شدہ ہیں ان ہی دلائل کی روشنی میں علمائے اہل سنت سے بحث و گفتگو کی اور ان پر الزام لگایا مگر کسی کو ان کے جوابات کی توفیق نہیں ہوئی اور کوئی بھی لگائے ہوئے الزامات کے جواب پر قادر نہ ہوا۔ اس کو دیکھ کر میرا عقیدہ پختہ تر ہو گیا کہ شیعہ مذہب ہی حق ہے۔ اس نتیجہ پر پہنچ کر میں نے سوچا کہ ان دلائل کو ضبط تحریر میں لے آؤں تاکہ اس کے ذریعہ دوسروں کو بھی راہ راست دکھا سکوں۔
اس نوعیت کی ایک کتاب یوحنا بن اسرائیل ذمی کی ہے ۔ جس کا اصل مصنف شریف مرتضٰی ہے ، اس کو کسی نامعلوم الحال ذمی کی طرف منسوب کر کے اس کے شروع میں لکھتا ہے۔
کہ اول میں طلب حق میں حیران و سرگرداں رہا۔ ہر مذہب کی کتابوں کا بنظر غائر اور انصاف پسندی کے ساتھ مطالعہ کیا۔ اور ہر مذہب کی مشکلات کو اس کے معتبر علماء سے حل کرنے کی کوشش کی مگر میرے دل میں شیعہ مذہب کے سوا کسی مذہب کی حقانیت و صداقت نے اثر نہیں کیا۔
اس سلسلہ میں ایک حکایت بھی کتاب میں بیان کی گئی ۔ کہ فلاں تاریخ کو بغداد کے مشہور مدرسہ نظامیہ میں گیا تو دیکھا کہ ایک عظیم الشان مجلس منعقد ہے جس میں جلیل القدر علماء میں سے فلاں فلاں عالم موجود ہیں۔ میں نے ان سے گذارش کی کہ حضرات میں عیسائی ہوں۔ اللّٰه کی توفیق سے حقیقت اسلام سے آگاہ ہوا۔ اور بجان و دل اس کا والہ و شیدا ہوا۔ لیکن اہل اسلام میں میں نے باہم بڑا اختلاف دیکھا کہ ہر ایک کا قول دوسرے کے قول سے ٹکراتا ہے ۔ عرصہ سے میں اسی جستجو میں تھا کہ علمائے اسلام کا اجتماع کسی مجلس میں دیکھوں اور اپنی خلش دور کروں ۔
میری خوش قسمتی ہے کہ میں اس مبارک محفل تک پہنچ گیا، آپ حضرات کی بڑی عنایت اور کرم نوازی ہو گی اگر دلائل کی روشنی میں مذہب حق سے مجھے روشناس کرا دیا جائے۔
چنانچہ اہل سنت کے چاروں فرقوں میں سے ہر ایک نے اپنے حق ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور ہر فرقہ والے نے اپنا مذہب حق ثابت کرنے کے لئے دوسرے فرقہ کے مذہب کو باطل قرار دیا۔ ہرطرف سے باہم لعن طعن ، گالم گلوچ کا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا اور بات ہاتھا پائی تک آ گئی۔ اس وقت میں نے انہیں للکارا کہ اے نا انصافو! بدراہو! مذہب حق دراصل تم چاروں فرقوں کے مذہب میں کوئی سا بھی نہیں، حق مذہب تو ایک اور ہی ہے جس کو تم رفض کا نام دیتے ہو، اس مذہب کو حقیر اور اس کے ماننے والوں کو ذلیل سمجھتے ہو۔ اس کے بعد جو میں نے مذہب رفض کے دلائل بیان کرنا شروع کئے تو چاروں فرقوں کے عالموں میں سے کسی نے بھی دم نہ مارا۔ بلکہ سب کے سب سرنگوں رہے۔
اب میں چاہتا ہوں کہ ان دلائل کو بصورت کتاب ضبط تحریر میں لے آؤں ، پس ثواب آخرت کی امید اور گمراہوں کو راہ راست دکھانے کی خاطر میں نے یہ کتاب تصنیف کی۔
شریف مرتضٰی پر بڑا تعجب ہے کہ اس نے اختلاف کی نسبت اہل سنت کی طرف کی حالانکہ وہی نہیں ساری شیعہ زریت جانتی ہے اصول و بنیاد عقائد واعمال میں ان میں باہم ہرگز کوئی اختلاف نہیں ۔ فروعات میں البتہ اختلاف ہے سو وہ بھی اتنا سنگین نہیں کہ ایک دوسرے کو کافر یا گمراہ کہنے کی حد تک جا پہنچے ۔ پھر اتفاقی مسائل زیادہ ہیں اور ایسے مسائل بہت کم ہیں جن میں اختلاف ہے ۔ چھان بین اور جائزہ سے بعد پتہ چلتا ہے کہ چاروں مذاہب میں جن فروعی مسائل میں اختلاف ہے ان کی تعداد تین سو سے کچھ زائد نہیں ۔ اور وہ بھی وہ جن میں صراحت سے کوئی حکم شرعی نہیں ملتا۔ بخلاف مذہب شیعہ کے ، کہ ان میں اختلاف ہی اصولی ہے۔ اور بہت زیادہ ہے۔ ہر فرقہ دوسرے کو کافر اور گمراہ کہتا ہے۔ امامیہ کے بارے میں چھان پھٹک سے پتہ چلا ہے کہ اثنا عشریہ ایک ہزار فروعی مسائل میں باہم اختلاف رکھتے ہیں۔ حالانکہ ان کے مسائل کے بارے میں امام کا حکم صریحی موجود ہے۔ مثلاً شراب کا پاک یا ناپاک ہونا، اور اسی طرح کے دوسرے مسائل ! ان کی نئی اور پرانی کتابوں سے جو واقف ہے وہ یہ سب کچھ جانتا ہے۔ تو پھر مرتضٰی جس کا لقب ہی علم الہدیٰ ہے ، وہ مجتہد کیا مذہب کا بانی مبانی ہے ان باتوں سے کیسے بے خبر رہ سکتا ہے لیکن تعصب اور عناد کی پٹی اس کی آنکھوں پر ایسی چڑھی ہوئی ہے کہ اسے یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔ رہیں وہ دلیلیں اور حجتیں جو وہ ذمی کے منہ سے اگلواتا ہے اور جن کو اپنے خیال خام میں بڑی مضبوط اور قیمتی خیال کرتا ہے وہی برتے برتائے مضامین اور گھسی پٹی دلیلیں ہیں جو حیض کے پرانے چیتھڑوں کی طرح اجڑے ہوئی گھوروں اٹھا لایا ہے۔ بار بار انہیں کو دھوتا ہے اور انہیں سے شیعہ فرقہ کے لئے نیا لباس بنا لیتا ہے۔ حالانکہ وہ ساری دلیلیں اہلسنت کے نزدیک مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور اور شہتوت کے پتے سے بھی زیادہ بودی ہیں۔ جن کو ان کے مکتب کے بچوں نے روند رکھا ہے ۔ اور انگلیوں کے ناخنوں نے ان کا حال خستہ کر رکھا ہے ۔