دلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین الصالحین (نیکوکار)
نقیہ کاظمیدلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین الصَّالِحِينَ (نیک و کار)
يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ يَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُسَارِعُوۡنَ فِىۡ الۡخَيۡرٰتِ وَاُولٰٓئِكَ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ ۞
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 114)
ترجمہ: یہ لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، اچھائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، اور نیک کاموں کی طرف لپکتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہے۔
تشریح: مومن اہلِ کتاب کی صفت قولِ باری ہے
يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ يَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ الخ۔
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 114)
ترجمہ: وہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔
اہلِ کتاب میں سے جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان کی یہ صفت بیان ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے۔ پھر انہوں نے لوگوں کو حضورﷺ کی تصدیق کی طرف بلایا اور جو لوگ آپ کی مخالفت کرتے تھے انہیں اس مخالفت سے روکا اس لیے ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگیا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پچھلی آیت میں ارشاد ہے:
كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ الخ۔
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 110)
اور نہی عن المنکر کے وجوب پر قرآنی دلائل کا پہلے ذکر کر دیا ہے۔
مذاہب فاسدہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے اگر یہ کہا جائے کہ آیا مذاہبِ فاسدہ کے عقائد کا ازالہ جو تاویل کے سہارے اپنا لیے گئے ہیں اسی طرح واجب ہے جس طرح غلط اور منکر افعال کا؟
تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس کی دو صورتیں ہیں۔
اول یہ کہ فاسد عقائد کا حامل کوئی شخص اگر اپنے غلط عقائد کی دعوت دے رہا ہو اور اس طرح وہ شبہات پیدا کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہا ہو، تو اسے ہر ممکن طریقے سے اس سے ہٹانا اور باز رکھنا واجب ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص اپنے فاسد عقائد کو اپنی ذات تک محدود رکھے اور لوگوں کو ان کی دعوت نہ دے، تو اسے دلائل دے کر حق کی دعوت دی جائے گی اور اس کے شبہات کو دور کیا جائے گا۔ یہاں تک تو اس کے ساتھ یہی معاملہ رکھا جائے گا، لیکن اگر وہ اہلِ حق کے خلاف تلوار اٹھائے گا اور جہاد بندی کر کے امام المسلمین کے خلاف صف آراء ہو جائے گا، اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے باطل عقائد کی لوگوں کو دعوت دینا شروع کر دے گا تو پھر وہ باغی شمار ہوگا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس سے جنگ کی جائے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹنے پر مجبور ہو جائے۔
فاسد مذہب اور سیدنا علیؓ کی رائے:
سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ آپؓ کوفہ کی جامع مسجد میں منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ مسجد کے ایک گوشے سے خوارج کے ایک ٹولے نے لا حکم الا للہ، حکم صرف اللہ کا چلے گا کا نعرہ بلند کیا، آپؓ نے اپنا خطبہ منقطع کر کے فرمایا:
بات تو درست کہی گئی ہے۔ لیکن جس مقصد کے لیے کہی گئی ہے وہ غلط اور باطل ہے، لوگو! سنو، ان لوگوں کے سلسلے میں ہمارا طریقِ کار یہ ہے کہ جب یہ ہمارا ساتھ دیتے رہیں گے ہم انہیں مالِ غنیمت میں سے ان کا حصہ ادا کرتے رہیں گے۔ ہم انہیں اپنی مسجدوں میں اللہ کی عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے، اور جب تک یہ ہمارے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے ہم ان کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں کریں گے۔
سیدنا علیؓ نے لوگوں کو یہ بتایا کہ ان خارجیوں کے خلاف اس وقت تک قتال واجب نہیں ہو گا جب تک وہ جنگ پر کمربستہ نہ ہو جائیں۔
جب حروراء کے مقام پر یہ لوگ آپؓ کے خلاف صف آراء ہوگئے تو آپؓ نے سب سے پہلے انہیں واپس آ ملنے کی دعوت دی، پھر ان کے ساتھ مباحثہ و مناظرہ بھی کیا جس کا یہ اثر ہوا کہ بہت سے لوگ ان خارجیوں کا ساتھ چھوڑ کر آپؓ کے لشکر سے آ ملے۔
یہ طرزِ عمل تاویل کی بناء پرفاسد مذاہب اختیار کرنے اور باطل عقائد رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اصل اور بنیاد ہے۔
یعنی ایسے لوگ جب تک کھلم کھلا اپنے مذہب اور عقیدے کا پرچار نہ کریں اور اہلِ حق کے خلاف صف آرا نہ ہو جائیں اس وقت تک ان کے خلاف جنگی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا، بشرطیکہ ان کا یہ مذہب اور عقیدہ صریح کفر نہ ہو، اس لیے کہ کسی کافر کو کفر کی حالت پر چھوڑ دینا جائز نہیں ہے بلکہ اس پر جزیہ عائد کرنا ضروری ہے۔ جب کہ ایسا شخص جو تاویل کی بناء پر کفر اختیار کرلے اسے جزیہ پر قرار رکھنا جائز نہیں ہے۔
اس لیے کہ اس کی حیثیت مرتد جیسی ہوگی کیونکہ اس نے پہلے توحید کا اقرار کیا تھا، رسول اللہﷺ پر ایمان لے آیا تھا۔ اس لیے اب اگر وہ ان باتوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے کوئی اور راستہ اختیارکرے گا تو وہ مرتد قرار پائے گا۔
تاویل کرنے والے گمراہ مذاہب کے بارے میں ابو الحسن کی رائے:
بعض لوگ انہیں اہلِ کتاب کا درجہ دیتے ہیں، ابو الحسن یہی کہا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے قول کے مطابق ایسے لوگوں کی بیٹیوں سے نکاح جائز ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیٹیاں انہیں نکاح میں دیں۔ ان کا ذبیحہ بھی کھانا درست ہے اس لیے کہ یہ لوگ اپنے مذہب کی نسبت قرآن کے حکم کی طرف کرتے ہیں اگرچہ قرآن پر عمل پیرا ہونے کے لیئے تیار نہیں ہوتے۔
جس طرح کہ کوئی شخص نصرانیت یا یہودیت کی طرف اپنے آپ کو منسوب کر لے، اس کا حکم بھی یہودیوں اور نصرانیوں جیسا ہوگا اگرچہ وہ ان کی شریعت کی تمام باتوں کی پابندی نہ بھی کرتا ہو۔
قولِ باری ہے:
وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡ الخ۔
(سورۃ المائدہ: آیت، 51)
ترجمہ: تم میں سے جو شخص ان کے ساتھ دوستی گانٹھے گا وہ ان ہی میں سے ہو جائے گا۔
امام محمدؒ کی رائے:
امام محمدؒ نے، الزیادات، میں فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسے باطل عقائد اختیار کر لیتا ہے جن کے ماننے والوں کی تکفیر کی جاتی ہے، تو ایسے شخص کی وصیتیں مسلمانوں کی وصیتوں کی طرح ہوں گی، یعنی مسلمانوں کی وصیتوں کی جو صورتیں جائڑہوں گی ان کی بھی جائز ہوں گی اور جو ناجائز ہوں گی ان کی بھی ناجائز ہوں گی۔
امام محمدؒ کی یہ بات بعض صورتوں میں اس مسلک کی موافقت پر دلالت کرتی ہے جو ابوالحسن نے اختیار کیا تھا۔
بعض دیگر اہلِ علم کی آراء:
بعض لوگوں کے نزدیک ان کی حیثیت ان منافقین کی طرح ہے جو حضورﷺ کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔ اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے کفر و نفاق کا علم تھا یا انہیں ان کے نفاق پر قائم رہنے دیا گیا۔
کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی حیثیت ذمیوں جیسی ہے۔ جو لوگ یہ بات تسلیم نہیں کرتے انہوں نے منافقین اور اہل الذمہ کے درمیان یہ فرق کیا ہے کہ اگر ایک منافق کے نفاق کا علم ہو جائے تو ہم اسے اس پر برقرار رہنے نہیں دیں گے اور اس سے اسلام یا تلوار کے سوا اور کوئی بات قبول نہیں کریں گے، اس کے برعکس ذمیوں سے جزیہ لے کر انہیں ان کی حالت پر برقرار رکھا جاتا ہے جب کہ ایسے لوگوں سے جزیہ لینا جائز نہیں ہے جو تاویل کی بناء پر کفر میں مبتلا ہوں اور اپنی نسبت اسلام کی طرف کرتے ہوں انہیں جزیہ کے بغیر چھوڑنا بھی درست نہیں ہے۔ اس لیے اس بارے میں ان کا حکم یہ ہے کہ ہمیں ان میں سے کسی کے متعلق جب کفر کے اعتقاد کا علم ہو جائے گا تو اس پر اسے برقرار رہنے دیا جانا جائز نہیں ہوگا۔ بلکہ اس پر مرتدین کے احکامات جاری کیئے گے اس پر کافروں کے احکام جاری کرنے کے سلسلے میں اس امکان پر انحصار نہیں کیا جائے گا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کا عقیدہ درست ہو اور اسے غلطی لگ گئی ہو بلکہ وہ اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتے ہوئے اگر ہمارے سامنے ایسے اعتقاد کا اظہار کرے گا جو اس کی تکفیر واجب کر دے تو اس صورت میں اس پر مرتدین کے احکام جاری کرنا جائز ہوگا یعنی اس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے اس غلط عقیدے سے توبہ کرے۔ ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا واللہ اعلم۔
وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـنُدۡخِلَـنَّهُمۡ فِى الصّٰلِحِيۡنَ ۞
(سورۃ العنکبوت: آیت، 9)
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ہم انہیں ضرور نیک لوگوں میں شامل کریں گے۔
تشریح: نیک اہلِ ایمان کو صالحین کے گروہ میں شامل کرنے کا یہ وعدہ دنیا کے لیے بھی ہے اور آخرت کے لیے بھی۔ اس مژدہ جانفزا کے مفہوم کو بھی مکہ کے مذکورہ حالات کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے جہاں اہلِ ایمان اپنے پیاروں سے کٹ رہے تھے والدین اپنے جگر گوشوں کو چھوڑنے پر مجبور تھے اولاد والدین کی شفقت و محبت سے محروم ہو رہی تھی اور بھائی بھائیوں سے جدا ہو رہے تھے۔
جیسے سردارِ قریش عتبہ بن ربیعہ کے بڑے بیٹے سیدنا حذیفہؓ ایمان لے آئے جب کہ چھوٹا بیٹا ولید کافر ہی رہا عتبہ اور اس کا بیٹا ولید غزوہِ بدر میں سب سے پہلے مارے جانے والوں میں سے تھے۔
اگر انسانی سطح پر دیکھا جائے تو سیدنا حذیفہؓ کے لیے یہ بہت کڑا امتحان تھا۔
بہرحال جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آزمائش اور امتحان سے دو چار ہوئے انہوں نے غیر معمولی حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن آخر تو وہ انسان تھے اندر سے ان کے دل زخمی تھے اور ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کی ضرورت تھی۔
چنانچہ آیت زیرِ نظر کو اس سیاق و سباق میں پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یوں ہوگا کہ اے میرے جاں نثار بندو اگر تم لوگ مجھ پر اور میرے رسول اللہﷺ پر ایمان لا کر اپنے والدین بھائی بہنوں اور عزیز رشتہ داروں سے کٹ چکے ہو تو رنجیدہ مت ہونا دوسری طرف ہم نے تمہارے لیے نبی رحمت اور اہلِ ایمان کے گروہ کی صورت میں نئی محبتوں اور لازوال رفاقتوں کا بندوبست کردیا ہے۔
ہمارے ہاں تمہارے لیے ایک نئی برادری تشکیل پا رہی ہے جس کی بنیاد ایک مضبوط نظریے پر رکھی گئی ہے اب تم لوگ اس نئی برادری کے رکن بن کر ہمارے برگزیدہ بندوں کے گروہ میں شامل ہوگئے ہو جہاں رحمۃٌ للعالمینﷺ آپ لوگوں کو اپنے سینے سے لگانے کے لیے منتظر ہیں اور جہاں سیدنا ابوبکرؓ اپنے ساتھیوں سمیت تم لوگوں پر اپنی محبت و شفقت کے جذبات نچھاور کرنے کو بے قرار ہیں۔
اس حوالے سے نبی اکرمﷺ کو بھی بار بار یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔
(سورة الحجر: آیت، 88 اور سورة الشعراء: آیت، 215)
کہ مومنین کے لیے آپﷺ اپنے کندھوں کو جھکا کر رکھیے اور ان کے ساتھ محبت و رأفت کا معاملہ کیجیئے۔
دوسری طرف صالحین کے گروہ میں شمولیت کی اس خوشخبری کا تعلق آخرت سے بھی ہے جس کا واضح تر اظہار سورة النساء کی اس آیت میں نظر آتا ہے:
وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيۡنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيۡقًا ۞
(سورۃ النساء: آیت، 69)
ترجمہ: اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی تو ایسے لوگوں کو معیت حاصل ہوگی ان لوگوں کی جن پر اللہ کا انعام ہوا یعنی انبیاء کرام علیہم السلام صدیقین شہداء اور صالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے۔
اَلصَّالِحِیْنَ سے مراد ہیں انبیاء کرام علیہم السلام اولیاء شہداء یعنی ہم نیکوکار مؤمنوں کو انبیاء کرام علیہم السلام اولیاء وغیرہ کے ساتھ شامل کر دیں گے یا ان کا حشر ان لوگوں کے ساتھ کریں گے یا جنت میں ان کے ساتھ ان کو داخل کریں گے جنت میں سب ساتھ ہو جائیں گے۔
صلاح اور نیکی میں کمال مؤمنوں کے درجات کی انتہاء ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی تمنا کا بھی یہ ہی آخری نقطہ ہے کیونکہ کمالِ صلاح کا معنیٰ یہ ہے کہ کسی طرح کا بگاڑ اور خرابی نہ ہو نہ عقیدہ میں نہ عمل میں نہ اخلاق و مشاغل زندگی میں۔