Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عمرؓ نے اہل بیت کو خمس سے محروم کر دیا، جبکہ وہ ذوی القربی کی حیثیت سے اس کے مستحق تھے، قرآن پاک میں ہے  جو چیز بھی غنیمت میں آئے، اللہ کے لئے اور قرابت والوں، یتامی مساکین اور مسافروں کے لئے بھی.

  زینب بخاری

عمرؓ نے اہل بیت کو خمس سے محروم کر دیا، جبکہ وہ ذوی القربی کی حیثیت سے اس کے مستحق تھے، قرآن پاک میں ہے 

جو چیز بھی غنیمت میں آئے، اللہ کے لئے اور قرابت والوں، یتامی مساکین اور مسافروں کے لئے بھی. 

جواب اہلسنّت 

ذوی القربی کو حصہ دینے یا نہ دینے میں حضرت عمرؓ سے مختلف روایات آئی ہیں. ابوداؤد  ج 2 باب فی بیان مواضع قسم الخمس دسہم ذی القریٰ ص 416 ص 417 میں ہے:

علیؓ سے مروی ھے، ابوبکرؓ اور عمرؓ ذوی القربی کا حصہ نکالتے تھے.

جبیرؓ بن مطعم کہتا ھے، عمرؓ ذوی القربی کو خمس سے حصہ دیتے تھے.

حافظ عبد العظيم المنذری فرماتے ہیں، یہ حدیث صحیح ھے، امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کے نذدیک بھی مختار یہی ہے کہ غنیمت میں سے خمس پانچ سہام پر تقسیم ہو گا. جیسا کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ہوتا تھا، خمس میں سے رسول اللہ لﷺ کا حصہ سربراہ کو ملے گا. اور باقی چار حصے ذوی القریٰ یتامی. مساکین، اور أبناء سبیل میں تقسیم کر دئیے جائیں گے.

حضرت عمرؓ سے ایک روایت ھے جو معترض نے نقل کی (اس بارہ میں سنن ابی داؤد کی یہ حدیث بھی ملاحظہ فرما لیجیے، حضرت علیؓ فرماتے ہیں خمس الخمس کی تورات رسول اللہﷺ نے میرے سپرد کی تھی، آپ کے بعد ابوبکرؓ اور عمرؓ کے دور میں بھی میں تقسیم کرتا رہا ایک دفعہ مال آیا حضرت عمرؓ نے مجھے بلایا اور کہا یہ مال لو میں نے اس کو نہیں لینا چاہتا عمرؓ نے کہا تم اس کے زیادہ مستحق ھو، لو! علیؓ نے کہا اب ھم اس سے بے نیاز ہو چکے ہیں (کثرت دولت کی وجہ سے) عمرؓ نے وہ مال بیت المال جمع کرا دیا سنن ابی داؤد ج 2 ص 417 نے نقل کیا، اس روایت کو ابو حنیفہ رحمتہ اللہ نے ترجیح دی، اور اختیار کیا، وہ فرماتے ہیں، لرسول میں لام تمنیک کے لئے نہیں ھے ورنہ آپ کے لئے حصہ نکالنا واجب ھو جاتا، جس طرح کہ جمیع افراد فقراء کے لئے خمس اور زکوٰۃ تقسیم ہوتی ھے، جبکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں، اور نہ اس پر عمل ممکن ھے، بلکہ لام برائے عاقبۃ ھے، اور مصرف کا بیان جس طرح اور مسافروں کے مستحق ہونے کی علت ان کا حاجت مند ہونا ھے، اور رسول اللہﷺ کے لئے علت کفایہ ضروریات ھے اور ذوی القربی کے لئے علت رسول اللہﷺ کی مناصرت ھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے ذوی القربی کے حصہ سے بنی ہاشم اور بنی المطلب کو ہی دیا، بنی نوفل اور بنی عبد الشمس کو نہ دیا. استفسار پر آپ نے وضاحت فرمائی کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب  اسلام اور جاہلیت میں باہم اکٹھے رہے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کو حصہ دینے کی علت ان کا تعاون کرنا تھا رسول اللہﷺ کی وفات سے چونکہ آپ کا حصہ ساقط ھو گیا، مددگاری کی وجہ سے جو حصہ تھا، وہ بھی ساقط ہو گیا، کیونکہ جس بناء پر وہ مستحق تھے، وہ بناء نہ رہی، اس لئے خمس غنیمت فقراء مساکین اور مسافروں میں تقسیم کیا جانے لگا. البتہ فقراء ذوالقربی، مساکین ذوالقربی اور مسافر ہا ذوالقربی کو دوسرے فقراء مساکین اور مسافروں پر فوقیت دی گئی، لہذا آیت پر عمل متروک نہ ھوا، کیونکہ آیت شریف کا مقتضا بھی یہی ھے، کہ مذکورہ مصارف پر خرچ کیا جائے، البتہ ان کے ایک ایک فرد تک پہنچانا ضروری نہیں ھے. بلکہ محال ھے، حضرت عمرؓ نے ذوالقربی کے جمیع افراد سے حصہ نہیں روکا تھا (بلکہ غیر مستحق افراد سے منع کیا تھا)

 جبیرؓ بن مطعم وغیرہ کی روایات کا محمل بھی یہی ھے، تا کہ دونوں طرح کی روایات میں تطبيق کی صورت پیدا ہو سکے، اس سے کسی طرح بھی حضرت عمرؓ پر طعن ثابت نہیں ہوتا ھے.

 امامیہ میں ایک جماعت کا مسلک بھی حضرت عمرؓ اور ابوحنیفہ رحمتہ اللہ کے مذہب و مسلک کے مطابق ھے، اس جماعت کا استدلال اپنے ائمہ سے مرویہ روایات سے ہے .

طحاوی اور دارقطنی محمد بن اسحق سے روایت کرتے ہیں.

محمد بن اسحاق نے محمد بن علیؓ بن حسین سے دریافت کیا، علیؓ جب لوگوں کے امور کے متولی ہوئے ذوی القربی کے حصہ میں کیا کیا، فرمایا وہ بھی عمرؓ کے مسلک کے مطابق عمل کرتے رہے۔