Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 36

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 36

اہل سنت کے مقتداؤں کے اشعار میں ملاوٹ اور جعل سازی بھی ان کی فریب کاری کا ایک طریق ہے۔ ان اشعار کے ہموزن و ہم قافیہ، ایک دو شعر اپنے مفید مطلب گھڑ کر، ان کے اشعار میں شامل کر دیتے ہیں، جن کا مضمون وضاحت سے شیعہ مذہب کی موافقت اور اہل سنت کے مذہب کی مخالفت کرتا ہے اور پھر بے شرمی اور ڈھٹائی سے یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت نے شرمندگی اور خفت سے بچنے کے لئے ان اشعار کو اپنی نظم سے نکال دیا ہے۔

اس قسم کی حرکت اکثر و پیشتر اہل سنت کے مشہور اور مقبول شعرائے کرام کے کلام میں کرتے ہیں۔

مثلاً شیخ فریدالدین عطار، شیخ اوحدی، شمس تبریز , حکیم سنائی، مولانا روم، حافظ شیرازی اور حضرت خواجہ قطب الدین دہلوی ، وغیرہ ان سے قطع نظر پہلوں میں سے امام شافعی رحمۃ اللّٰہ کے ساتھ بھی انہوں نے یہی سلوک کیا ہے، اور ان کے اشعار میں بھی اپنے گھڑے ہوئے اشعار خلط ملط کر دیئے ہیں ۔

امام شافعی رحمۃ اللّٰہ کے یہ اشعار ہیں ۔

یٰارٰاکِباً قِفْ بِالْمُحَصَّبِ مِنْ مِنیٰ

وَاھْتِفْ بِسٰاکِنِ خِیْفِھٰا وَالنّٰاھِضِ

سَحَراً اِذَا افَاضَ الْحَجِیْجُ اِلٰی مِنیٰ

فَیْضاً کَمُلْتَطَمِ الْفُراتِ الْفٰائِضِ

اَنْ کٰانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّد

فَلْیُشْھَدِ الثَّقَلاٰنِِ اِنِّیْ رٰافِضِیْ

(1) اے شتر سوار، منٰی کی مد پر وادی محصب میں ٹھہر کے نشیب میں رہنے والوں کو پکار اور وہاں سے اٹھنے والے۔

(2) حجاج کو جو صبح کے وقت نہر فرات کے پانی کی طرح موج در موج منیٰ کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں بتا۔

(3) کہ اگر محمدﷺ کے اہل بیت سے محبت رفض ہے تو میں جن و انس کو گواہ بنا کر بیان کرتا ہوں کہ میں رافضی ہوں۔

نواصب ، اور خارجی محض حضورﷺ کے اہل بیت سے محبت رکھنے والے کو رافضی کہتے تھے ان اشعار

میں امام شافعی رحمۃ اللّٰہ نے ان کو مقابلہ میں للکارا ہے۔

مگر شیعوں کی بد باطنی اور موقعہ سے غلط فائدہ اٹھانے کی خصلت دیکھئے کہ چند ابیات اپنی طرف سے گھڑ کر انہیں بھی امام شافعی رحمۃ ﷲ کے سر منڈھ دیا۔ اور شرم وحیاء بالاے طاق رکھ کر انہیں اشعار کی بنا پر امام صاحب موصوف کو بھی شیعہ ثابت کرنے لگے ، وہ جعلی اشعار یہ ہیں:

قف ثم ناد باننی لمحمد

وَوَصِيهِ وَيَنِيهِ لَسْتُ بباغض

أَخْبِرْهُمُ أَني مِنَ النَّفر الَّذِي

لولاء اھل البیت لیس بناقض

وَقُلْ ابْنِ إِدْرِيس بِتَقْدِيمِ الَّذِي

قَدَّمْتُمُوهُ عَلَى عَلِى مَا رَضِي

(1) اس کے بعد یہ بھی پکار کہ میں محمدﷺ ان کے وصی، اور وصی کے بیٹوں سے بغض نہیں رکھتا ۔

(2) اور یہ بھی بتا دے کہ میں ان میں سے نہیں ہوں جو اہل بیت سے رشتہ توڑنے والے ہیں۔

(3) اور یہ بھی کہہ کہ ابن ادریس (شافعی) اسے پسند نہیں کرتا کہ علی (رضی اللّٰه عنہ) پر کسی کو ترجیح دے۔

امام شافعی رحمہ اللّٰہ کے اصل کلام اور ان گھڑے ہوئے اشعار میں جو فرق ہے وہ عربی زبان کے ماہرین پر روز روشن

کی طرح عیاں و ظاہر ہے۔ اور ان کی یہ دھوکہ بازی بیہودہ اور لچر ہے ۔ اس لئے کہ ان بزرگوں کا تو تمام کام ، اور بناء شریعت و طریقت از سر تا پا اہل سنت کے مذہب پر ہے۔ پھر محض ایک دو شعر کی وجہ سے انکو شیعہ سمجھنا ایسی حماقت ہے۔ جس کی توقع کسی طفل مکتب سے بھی بعید ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایسا بھی کرتے ہیں کہ کسی کے اشعار میں الحاق کئے بغیر ان کا کوئی شاعر خود اپنے کہے ہوئے اشعار کو اہل سنت کے کسی بزرگ شاعر کی طرف منسوب کر کے انہیں ان اشعار کا مصنف بنا دیتا ہے ۔ مثلاً ان شیعوں کی کتابوں میں ان اشعار کو امام شافعی کے اشعار بتا کر درج کر دیا گیا۔

شفیعی نَبِي وَالْبَتُولَ حَیدَرُ

وَسَبْطَاهُ وَالسّحاد وَالْبَاقِرُ الْمَجْدِى

وَجَعْفَرُ وَالثَّاوي بَغْدَادَ وَ الرَّضَا

وَفَلَذِنَهُ وَالْعَسْكَرِ يَّانِ وَالمَهْدِى

(1) میرے شفیع بنی ، بتول اور حیدر ہیں، اور ان کے دونوں نواسے اور سجاد و باقر سخی (بھی)

(2) اور بغداد کے رہنے والے جعفر اور علی رضا اور ان کے دونوں بیٹے ، عسکری و مہدی ! ( یہ سب میرے شفیع ہیں)

اب قدرت کی طرف سے اس جھوٹ کی پردہ دری ملاحظہ ہو، کہ تاریخ ان کی عقلوں پر ماتم کر رہی ہے۔

امام علی نقی رحمۃ اللّٰہ 214ھ میں پیدا ہوئے، اور امام حسن عسکری رحمۃ اللّٰہ کی پیدائش تو ان کے بھی بہت بعد کی ہے ۔ اور امام تقی کی وفات 204ھ میں ہوئی اور وہ کرخ میں مدفون ہوئے۔

اور امام شافعی رحمۃ اللّٰہ کی وفات 204ھ میں ہو چکی تھی، تو کیا ان حضرات کی مدح میں یہ اشعار دوبارہ زندہ ہو کر کہے، اس کے علاوہ امام حسن عسکری کا قیام سر من رائے میں تھا جسے اب سامرہ کہتے ہیں اور جو معتصم کا بسایا ہوا تھا ۔ حالانکہ امام شافعی رحمہ اللّٰہ نے معتصم کا زمانہ پایا ہی نہیں ۔ سچ ہے دروغ گورا حافظہ نباشد ( اور خیر حافظہ نباشند میں تو گنجائش ہے اور بھول چوک کہہ کر معاملہ رفع دفع ہو سکتا ہے مگر یہ مکار اور عیار گروہ تو یہ سب کچھ جانتے بوجھتے، دھڑے سے علی الاعلان جھوٹ بولتا ہے کہ لعنت الٰہی اس کا محبوب طرہُ امتیاز ہے۔ (نعمانی)

البتہ اتنی بات صحیح ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللّٰہ کو اپنے زمانہ میں جن اہل بیت کرام کا پتہ چلا تو ان کے فضائل و مناقب انہوں نے بیان کئے ہیں، اور یہ بات امام شافعی رحمۃ اللّٰہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ تمام اہل سنت نے ان کی مدح سرائی کو ایک عبادت سمجھا ہے ۔ اور اہل سنت کی کتابوں میں ائمہ کرام رحمہم ﷲ سے بہت سی احادیث بھی روایت کی گئی ہے اور اہل بیت کے اسی سلسلہ روایات کو سلسلۃ الذہب کے نام سے موسوم کیا ہے۔

(اغوا اور دھوکہ دہی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہم نامی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کفریہ اور شرکیہ مضامین پر مشتمل اشعار کو بزرگان اہل سنت کی طرف نسبت دینے کو بڑی شہرت دیتے ہیں ، مثلاً فارسی کی یہ رباعی بہت مشہور ہے۔

شاه است حسین الخ اس رباعی کو سرگروہ چشتیاں خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللّٰہ کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے ۔ اور کیا عوام اور کیا خواص ، سب کے سب اس رباعی کو خواجہ صاحب کا کلام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس رباعی کے مضمون کو دیکھتے ہوئے معمولی عقل رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ خواجہ اجمیری رحمۃ اللّٰہ ایسے جاہلانہ عقیدہ سے ہزار بار پناہ مانگتے ہیں۔ ۔

یہ اشعار دراصل ایک ایرانی شاعر معین الدین حسن سنجری نامی کے ہیں جو شیعہ تھا ! اور اہل سنت نا دانستہ طور پر اور شیعہ دانستہ طور پر خواجہ اجمیری رحمۃ اللّٰہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ (نعمانی)