دھوکہ نمبر 37
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 37
جب شیعوں نے تاریخ وسیرت کی کتابوں میں یہ پڑھا کہ بعض عرب کاہنوں ستارہ شناسوں اور دانشمندوں نے اہل کتاب سے معلوم کر کے یا علم نجوم کی مدد سے جو کہ اس وقت تک حقیقت کے کچھ قریب تھا اس لئے کہ اس وقت تک شیطانوں کو کن سوٹیاں لے کر آسمانی باتوں کی سن گن لینے کی مانعت نہیں کی گئی تھی۔ بت پرستی چھوڑ دی تھی اور نبی موعود کے لئے چشم براہ تھے۔ آپﷺ کی تشریف آوری کی خبریں سنایا کرتے اور لوگوں کو ترغیب دلایا کرتے کہ جب آپ تشریف لے آئیں تو آپ کی متابعت کی سعادت سے مستفید ہوں ۔ تو ان شیعوں کی رگ جعلسازی پھڑکی اور ان قصوں کے ضمن میں چند ایسی باتوں کا بھی اضافہ کر دیا جن سے مذہب رفض کی تائید ہوتی ہو، اور اس کو اسی مرد جاہل کے سر تھوپا۔ بعض جگہ اسی قول کی تصدیق میں آنحضرتﷺ کی روایت کا پیوند بھی لگا دیا۔ اور پھر ان روایات و حکایت پر فخر کرتے اور خوشی سے بغلیں بجاتے ۔ ایسی ہی باتوں میں سے جارود عبدی کا ایک قصہ ہے، جو ان کی کتابوں میں مشہور و معروف ہے اور ان کی حدیث کی کتابوں میں بڑے طمطراق اور دھوم دھڑکے سے بیان کیا جاتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ :-
بارود عبدی ایک نصرانی شخص تھا جو سال صلح حدیبیہ میں اسلام لایا۔ اس نے حضورﷺ کی شان میں کچھ اشعار بھی کہے ہیں، ان میں کا ایک شعر یہ ہے۔
أَنْبَأَنَا الأَوَّلُونَ بِاسمك فينا وباسم اوصياء كرام
یعنی ہمارے اگلوں نے ہمیں آپ کے نام سے آگاہ گیا ۔ اور آپ کے بزرگ وصیوں کے نام بھی۔
پس حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا ہے جو قیس بن ساعدہ کو جانتا ہو ؟ جارود بولا حضرت یوں تو ہم سے ہر شخص اس کو جانتا ہے مگر میں اس کے حالات اور پردہ واقعات سے بخوبی واقف ہوں ، اس مجلس میں حضرت سلمان فارسی بھی موجود تھے۔ انہوں نے جارود سے کہا کہ ہم کو اس کا کچھ حال و اشعار سناؤ۔ پھر حضورﷺ نے بھی یہی خواہش ظاہر فرمائی تو اس نے کہا ۔
یا رسول اللّٰہ انی شھدت قسّا وقد خرج من نادٍ من افدیۃ ایاد قلی صحصح ذی قتاد وثمر وعتاد وھو مشتمل بنجاد فوقف فی اغحیان الیل کا الشمس رافعا الی السماء وجھه واصبعہ فد فوت منه فسمعته یقول اللھم رب السموات الارفعۃ والارضین الممرعۃ بحق محمد والثلثۃ المحامید معه والعلمین الاربعۃ وفاطمہ والحسنین الابرعۃ وجعفر و موسیٰ التبعۃ سمی الکلیم الضرعۃ اولیئک النقاء الشفعۃ و الطرق المھیعۃ درسۃ الاناجیل ونفاۃ الاباطیل والصَّادِقُوا الْقِيلَ عَدَدَ النَّقَبَاءِ مِنْ بَنِي إِسْرَآیل فھم اول البدلیہ وعلیھم تقوم الساعۃ ورھم تَنالُ الشَّفَاعَةُ وَلَهُم مِنَ اللَّهَ فرْضُ الطَّاعَةِ اسْقِنَا غیثا مغیثا ثم قال لیتنی ادرکھم ولو بعد لا مئے عُمرِى وَمَحْيَايَ ثُمَّ اَنْتَا يَقُولُ اَقسم قس قسماً ليس به مكما لو مَاشَ الفَى سَنَةٍ لَم يُلْقِ مِنهُ و سَاءَ ما حَتَّى يلاتي مُحَمَّد والنَّجَباء الحكماء هم أوصياء احمد افضل من تَحتَ السَّمَاءِ يَعمي الأنام عَنهُم وهو ضِيَاءُ العَمى لَسْتَ بِنَاسِي ذِكرِهِمْ حَتَّى أَحَكَ الرضما قال الجار ودقلت یا رسول اللّٰہ انبئنا بغیر ھذا الاسماء التی لم نشھدھا واشھدنا قس فَقَالَ سُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا جَارُودُ ليلة أسرى فى إلى السَّمَاءِ اَرحَى الله تعالٰى إِلَى إِن سَلُ من أرسَلَنَا مِن قَبلِكَ مِنْ تُرَسُلِنَا عَلَى مَا بَعُثوا قَلتَ عَلَى ما بعثوا قال بعنتھم عَلَى نُبُوتِكَ وَوَلاية على بن ابى طالب والامعةُ مُنْكَمَا ثمَ ضَنِي اللهُ تَعَالَى بِأَسْمَانِهِم ثم ذکر رسول اللّٰہﷺ اسانھم واحد بعد احد الی المہدی ثم قَال قَالَ الله تَعَالَى هؤُلاَءِ اوليائي وهذا من احد الى يعني المهدي.
یعنی جب قِس قوم آیاوی کی کسی مجلس سے ایک ایسے فراغ میدان کی طرف باہر نکلا جس میں تناد ۔ میوہ اور اسباب کے درخت تھے تو میں اس کے پاس ہی تھا وہ پر تلہ ڈالے ہوئے چاندنی رات میں اس طرح کھڑا تھا جیسے آسمان میں سورج۔ اس کا چہرہ اور انگلیاں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں ہیں اس کے کچھ اور قریب ہوا تو اس کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ اے خدا تہ برتہ آسمانوں اور کاشت شدہ زمینوں کے مالک پروردگا بحرمت خاص محمدﷺ اور ہر سہ محمد و ہر چہار علی فاطمہ حسنین کاملین ، جعفر اور موسیٰ ۔ جو سب کے متبوع بلند مقام ہیں۔ اور موسیٰ علیہ السلام کے ہمنام یہ سب سرداروں کا گروہ ہے ۔ شفاعت کرنے والے اور وحی کی سیدھی راہ کی طرف بلانے والے جھوٹ کو مٹانے والے، سچ کہنے والے ، جن کی تعداد سرداران اسرائیل سے ملتی ہے انہیں سے دنیا کی ابتدا ہے اور انہیں پر قیامت قائم ہو گی ، شفاعت یہی کریں گے اور اللّٰه کی طرف سے انکی اطاعت فرض ہے پس نصیب کر ہم کو فریاد کو پہنچنے والی بارش، پھر کہا کاش میں ان کو پاتا اگرچہ میری عمر اور زندگی کے بدلے میں وہ ملتے۔ پھر کہنے لگا کہ قیس صاف صاف قسم کھاتا ہے کہ اگر یہ دو ہزار برس بھی زندہ رہے تو بھی ان سے تنگ دل نہ ہو گا، یہاں تک کہ ملاقات کرے محمد سے ۔ وہ لوگ شرفاء ہیں، حکماء اور وصی ، آسمان کے نیچے سب سے زیادہ بزرگ ۔ لوگ ان کی طرف سے اندھے ہیں اور یہ لوگ بینائی کے نور۔ تا آنکہ میں قہر میں نہ آؤں۔ ان کی یاد بھلانے والوں میں سے نہیں۔ جارود نے کہا میں نے رسول اللّٰہﷺ سے عرض کی مجھے ان ناموں سے آگاہ فرمائے جن کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ قیس ہی نے مجھے ان کے حالات سے واقف کرایا ہے۔ حضور نے فرمایا اے جارود معراج کی رات اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر وحی نازل ہوئی کہ ان پیغمبروں سے پوچھئے جو آپ سے پہلے مبعوث ہوئے کہ آپ کی بعثت کسی پر ہوئی۔
میں نے کہا کس پر ہوئی تو اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی نبوت پر اور علی اور ان کی اولاد میں سے ائمہ کی ولایت پر پھر اللّٰه تعالیٰ نے مجھے ان کے نام بتائے اور پھر یہی نام امام مہدی تک بالترتیب حضور نے مجھے بتائے پھر اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا
کہ یہ میرے دوست ہیں اور یہ (مہدی) میرے دشمنوں سے بدلہ لینے والے ہیں. "
اب اس روایت کا تجزیہ کیا جائے تو بناوٹ ، جھوٹ کے آثار اتنے واضح اور صاف ہیں گویا وہ خود ببانگ دھل اپنی تردید آپ کا مصداق ہیں ۔
ماہر عربیت کو اس آیت کے الفاظ کا پھس پھسا پن اس کے من گھڑت ہونے کی چغلی کھاتا نظر آتا ہے۔ کیونکہ وہ آپﷺ کے کلام بلیغ سے ادنیٰ مناسبت بھی نہیں رکھتے۔ دوسری بات یہ وہی جارود تو ہے جس کا بیٹا منذر نامی جناب امیر کی خلافت میں عامل تھا اور وہ تمام متعلقہ علاقوں کا خراج وصول کر کے فرار ہو گیا اور جناب امیر کے دشمنوں سے جا ملا۔ جناب امیر نے سرزنش و ملامت کے بہت سے خطوط لکھے۔ مگر اس نے کسی ایک کو بھی قابل توجہ نہ سمجھا اور ساری رقم ہضم کر گیا ۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اس کا باپ جناب امیر رضی اللّٰه عنہ اور آپ کی اولاد سے اتنا واقف اور معتقد تھا۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کو آپ کی جلالت شان سے واقف نہ کر دیا ہو۔ اور پھر ایسے باپ کا بیٹا ان کے ساتھ ایسی غداری کرتا اور بے حیائی سے پیش آتا ۔ پھر اسی جارود کے بیٹے نے جو حضرت انس بن مالک رضی اللّٰه عنہ کا مصاحب خاص تھا اور شاگرد بھی۔ اس نے ائمہ اطہار سے علم کیوں حاصل نہیں کیا ۔ انس بن مالک کی شاگردگی ہی پر قانع ہو کر کیوں بیٹھا رہا۔
صحیح اور قابل اعتبار کتابوں سے جارود کا صرف اتنا سا حال معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کہا
وَ الَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ وَجَدْنَا وَصَفَكَ فِي الْإِنْجِيلِ وَلَقَدْ بَشَرَنَا بِكَ ابْنُ البتول- (اس ذات کی قسم جس نے آپ کو دین حق کے
ساتھ مبعوث فرمایا کہ آپ کا وصف ہم نے انجیل میں موجود پایا اور ابن مریم علیہ السلام نے ہم کو آپ کی بشارت دی ) ۔
البتہ قِس بن ساعده الایادی کا حال حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰه عنہ کی روایت سے یوں معلوم ہوا ہے ۔
قال إن وند بكر بن وائل قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا نَزَعُوا مِنْ حَرَاجهِمْ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم هَلْ فيْكُمُ احَدٌ يَعْرِفُ قس بن ساعدة الآيَادِي قَالُوا قُلْنَا نَعْرِفُهُ قَالَ مَا فَعَلَ قَالُوا هَلَكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وسلمَ کا فِي بِهِ عَلَى جَمَلِ أَحْمَرَ بِعکاظ قَائِمَا يَقُولُ أَيُّهَا النَّاسُ إِجْمَعُوا وَاسْمَعُوا دوموا فكل مَنْ مَاشَ مَاتَ وكُلِّ مَنَ مَاتَ وَكُل ما هو ات ات انَّ فِي السَّمَاءِ لَخَيْراً وَإِنَّ فِي الأَرضِ لعبرا عاد موضوعُ وَسَقْفُ مَرْفُوعَ وَبِجَارُ تَمُورُو تجارة لن تبور - ليل واجٍ وَسَماء ذَاتَ أَبْرَاج اقسم قس حَقًّا لئن كان فِي الأَمْورضی ليَكُونَنَّ بَعْدَهُ سَخَطُ وان الله عزتُ قدُ رَاتُهُ دِينَا هُوَ احَب إِلَيْهِ مِنْ دينكم الذي انتُم عَلَيْهِ مَالِي أَرَى النَّاسِ يَذْهَبُونَ ولا يرجعون أَرَضُوا فَا قامو امرک كُم اننا مواثم ائشد أبو بكر شعرًا كَانَ يَحْفَظُ لَهُ - بيت في النَّاهِبِيْنَ الْأَوَّلِينَ مِنَ الْقُرُونِ لَنَا بَصَارُ كمان ایت موارِ والكُمُوتِ لَيْسَ لَهَا مَصَادر درایت توفِي نحوهَا يَسْعَى الأَصَاغِرُ و الاكابر لا يرجع الماضي إلى وَلَا مِنْ بادِينَ عَابر ايقنت أني لا محالة حيث صَارَ القومُ صَارك
آپﷺ کی خدمت میں بکر بن وائل کا ایک وفد آیا۔ جب وہ اپنے کاموں سے فارغ ہو چکے تو رسولﷺ نے ان سے فرمایا کیا تم میں سے کوئی قِس بن ساعدہ کو جانتا ہے انہوں نے کہا ہم سب اس کو جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اب اس کا کیا حال ہے۔ وہ کہنے لگے اس کا تو انتقال ہو گیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا، میری نظروں میں وہ منظر ابھی تک ہے کہ وہ عکاظ میں سرخ اونٹ پر بیٹھ کر وہ کہہ رہا ہے۔ لوگو! آؤ سنو اور یاد رکھو کہ جو زندہ ہے وہ مرے گا اور جو مر گیا وہ فنا ہو گیا ۔ اور جو آنے والا ہے وہ ضرور آئے گا۔ البتہ آسمان میں بھلائی ہے اور زمین کی عبرتیں! ایک ستون ہے گڑا ہوا۔ اس پر چھت ہے ڈالی ہوئی سمندر مو بران ہے سودا ہے بے نقصان ! رات اندھیری ہے اور آسمان پر برجوں والا ہے اور قِس قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس وقت اگر کام میں خوشی ہے تو بعد میں اس میں نا خوشی ہو گی اور اس اللّٰه کے نزدیک جس کی قدرت سب پر غالب ہے ایک دین ہے جو اس کو تمہارے دین سے زیادہ پسند اور محبوب ہے ۔ کیا بات ہے کہ نہیں لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ دنیا سے چلنے جا رہے ہیں اور پھر واپس نہیں ہوتے۔ کیا ان کو کوئی ایسی چیز ملی ہے کہ وہیں رک گئے ! یا معاف کر دیئے گئے تو سکون سے وہیں سو رہے۔
پھر بو بکر نے ایک شعر پڑھا جو اس کو یاد تھا۔ (ترجمہ یہ ہے)
"پچھلی صدیوں کے گزرے ہوئے لوگوں میں ہمارے لئے عبرت و نصیحت ہے کہ موت ایک دن آئے گی، اور اس پر اترنے کی جگہ تو ہے مگر واپسی کی جگہ نہیں اور میں نے دیکھا کہ میری قوم کے چھوٹے اور بڑے اسی کی طرف دوڑے جا رہے ہیں نہ گیا ہوا کوئی لوٹتا ہے اور نہ ہی بقیہ میں سے کوئی باقی رہے گا۔ تو میں نے یقین کر لیا کہ میں بھی ضرور وہیں جاؤں گا جہاں میری قوم چلی گئی۔ "
اب اس عبارت اور پچھلی عبارت میں جو قِس کی بتائی جاتی ہے زمین و آسمان کا فرق ہے عربی لغات کا انبار لگا دینے سے بھی کہیں کلام میں بلاغت پیدا ہوتی ہے، قس کا شمار عرب کے چوٹی کے بلغاء میں تھا اور پچھلی عبارت میں بلاغت و فصاحت کا شائبہ تک نہ تھا صرف قاموس کے لغت اکٹھے کر دیئے گئے اور بس اور جن کو فصاحت و بلاغت میں زرا بھی درک ہے وہ اسے خوبی سمجھ لیں گے۔
در اصل وہ قصہ سر تا پا ، من گھڑت اور جھوٹ کی پوٹ ہے ۔ اس کے جھوٹا ہونے کی پہلی دلیل تو یہ ہے کہ جناب امیر اور آپ کی اولاد کی ولایت شب معراج میں طے پا جاتی تو حضورﷺ با التفصیل اور بالترتیب ان ائمہ کے نام بتاتے اور وہ بطریق تواتر تم تک پہنچتے جس طرح نماز کی فرضیت اور دیگر واقعات معراج بوضاحت بیان فرمائے اور وہ بطریق تواتر ہم تک پہنچے، یا کم از کم جناب امیر اور آپ کا خاندان تو اس سے مطلع ہوتا تاکہ یہ پھر امت کے معاملہ میں آپس میں نہ جھگڑتے۔ اور اگر کتب سابقہ میں یہ قصہ مذکور ہوتا تو یہود و نصارٰی تو باخبر ہوتے، جبکہ جاہلیت اولیٰ کے عربوں کو بھی ضرور اطلاع ہوتی ۔ اور وہ اس کی خبر دیتے ۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ شیعوں کے سارے فرقے یہ روایت بیان کرتے اور کیسانیہ ، اسماعیلیہ، وافقیہ ، زیدیہ، اس معاملہ میں اثنا عشریوں کے ساتھ موافق ہوتے ۔
اس کے علاوہ اسی قِس کی طرف منسوب کردہ کلام میں ائمہ کی طرف نفاة الاباطیل سے کی گئی ہے۔ یعنی برائیوں اور لغویات کے مٹانے والے، جب کہ ان حضرات کرام کو تو باطل کے مٹانے کی قدرت ہی حاصل نہ ہو سکی اس لئے کہ اثنا عشری شیعوں کے گمان و خیال کے موافق تو ان حضرات کی ساری زندگی تقیہ اور دشمنوں کے خوف میں بسر ہوئی۔ ان کے زمانہ میں عباسی اور مروانی لغویات کا رواج و چرچا ہوتا رہا۔ مگر یہ ایک حرف زبان سے نہ نکال سکے۔
اسی طرح ان کو صادق القیل ( کہ وہ سچ بولنے والے ہیں) کہا گیا۔ حالانکہ بقول ان ہی شیعوں کے کہ تقیہ کی وجہ سے ان ائمہ کو عمر بھر حرف سچ زبان پر لانے کا موقعہ ہی نہیں ملا ۔
پھر ان کی مدح میں درستہ الانجیل (انجیل کے پڑھنے پڑھانے والے ہیں) کے الفاظ بھی ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کسی ایک صاحب سے بھی انجیل کا پڑھنا پڑھانا ثابت نہیں۔