دھوکہ نمبر 38
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 38
یہ ہے کہ ایک گھڑی ہوئی حدیث حضورﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے کہ آپﷺ نےفرمایا کہ شیعان علی کے کسی چھوٹے بڑے گناہ کے بارے میں اُن سے باز پرس نہیں کی جائے گئی۔ بلکہ ان کی برائیاں اچھائیوں میں بدل دی جائیں گی۔ نیز یہ بھی کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ﷲ تعالٰی فرماتا ہے۔ لا أُعَذِّبُ أَحَدًا وَ إِلَى عَلِيًّا وَإِنْ عَصَانِي (علی سے محبت والوں میں سے میں ایک کو بھی عذاب نہیں دوں گا خواہ اس نے میری نافرمانی ہی کی ہو ۔)
ان گھڑی ہوئی روایات نے ہوا و حرص کے بندوں ، آزاد خیال لوگوں کو گمراہی کی کھلی چھوٹ دے دی ۔ اب وہ دھڑے سے بدکاریوں کے مرتکب ہوئے اور خوب دادِ عیش دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس سند موجود ہے۔
کیا یہ احمق اتنا نہیں سمجھتے کہ جن بزرگوں سے صرف اظہارِ محبت جو محض زبانی و کلامی ہے۔ گناہوں کو نیکیوں میں بدل سکتا ہے تو ان بزرگوں اور پاکباز ہستیوں کو خود طاعت و بندگی کی تکلیف و مشقت برداشت کرنے کی کیا ضرورت تھی اور ہمیشہ گرفت اور باز پرس کے خوف و ہراس میں زندگی کیوں گزارتے تھے۔ اقرباء، اہل خاندان، احباب ، خدام اور متبعین کو طاعت و عبادت کی ترغیب و تحریص کیوں دلاتے، کیوں تاکید فرماتے؟ گناہ اور محرمات کے ارتکاب پر دھمکیاں دیتے اور سختیاں کیوں کرتے اور شروع ہی سے لوگوں کو نماز، روزہ، حج اور جہاد اور دوسری مشقتوں کے لئے کیوں دعوت دیتے ۔ اور ان کی طبعی خواہشات و مرغوبات کے چھڑانے کا سبب کیوں بنتے؟ نجات کا آسان و قریب ترین راستہ صرف محبت کیوں نہ بتا دیتے؟ اور اسی کو نجات کا دار و مدار اور دعوت کا مقصد اصلی کیوں نہ ٹھہراتے کہ آسان راستہ ہوتے ہوئے مشکل راستہ اختیار کرنے کا الزام لازم نہ آتا۔ اور مکلفین کے حق میں اختیار اصلح کا اصول بھی ہاتھ سے نہ جاتا۔
اسی طرح قرآن مجید میں باوجود انتہائی رحمت و شفقت الٰہی کے نجات کے اس راستہ کا پتہ کیوں نہیں دیا۔ اور دعوت کو اعمال طاعت و تقویٰ کے تنگ دائرہ میں کیوں محصور رکھا ؟
حاصل کلام یہ کہ ان افتراء آمیز روایات سے ان کی عرض یہ ہے کہ شریعیت کے احکام کا شیرازہ بکھیرا جائے۔ اور اس کے بجائے لادینیت اور لامذہبیت کو رواج دیا جائے ۔