دھوکہ نمبر 39
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 39
یہ ہے کہ شیعہ کہتے ہیں! اہل بیت کے بارے میں یا خاص طور سے امامت و فضائل امیر المؤمنین کے سلسلہ میں جو آیات و احادیث وارد ہوئی ہیں ان کی صحت پر دونوں فریقوں سنی و شیعوں کا اتفاق ہے ۔ البتہ خلفائے ثلاث رضوان اللّٰه علیہم یا خلافت کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ مختلف فیہ ہے ۔ اب عقل کا تو یہ تقاضا ہے کہ جن باتوں پر اتفاق ہے ان کو لے لیا جائے ، اور مختلف فیہ کو ترک کر دیا جائے تاکہ تردد اور شک سے بچ جائیں ۔ اور حديث دع ما يريبك إلى ما لا يريبك(مشکوک بات کو چھوڑ کر یقینی بات اختیار کرو) پر بھی عمل ہو سکے ۔
(الزاماً ہم کہتے ہیں کہ) شیعوں کا مذکورہ بالا شبہ یہود و نصاریٰ کا چربہ ہے کیونکہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت، فضائل و مناقب پر یہودیت ، نصرانیت اور اسلام ، تینوں مذاہب کا اتفاق ہے، اور نبوت، فضائل و مناقب پیغمبر آخر الزمانﷺ پر اختلاف عقلمندوں کو چاہیے کہ متفق علیہ کو لیں اور مختلف فیہ کو چھوڑ دیں۔
اور پھر خوارج کا نظریہ اور شبہ بھی اسی طرح کا ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ حضرات شیخین رضی اللّٰه عنہما کی خلافت اور ان کے مناقب پر ان کے زمانہ میں سب متفق تھے ان کے ساتھیوں میں سے نہ کسی نے مخالفت کی نہ ان کے خلاف بغاوت کی اور نہ ان کی شان میں لعن طعن کی زبان دراز کی ۔ اب عرصہ دراز اور مدت مدید کے بعد جب کہ جھوٹ پھیل چکا ہو ان پر کوئی تہمت دھرے اس کا کوئی اعتبار نہیں، اسے نظر انداز کر دیا جائے کیونکہ ان پر اعتبار نہ کرنے والوں نے وہ زمانہ تو دیکھا ہی نہیں ، صرف یہ گھڑی ہوئی جھوٹی باتیں سن کر بداعتقادی میں مبتلا ہو گئے۔ اس کہ برخلاف حضرات حسنین رضی اللّٰه عنہما کی خلافت خود ان کے زمانہ ہی میں مخالفتوں اور جھگڑوں کا شکار ہو گئی اور
اور ان کے ساتھی بلکہ ان کے عزیز و اقارب اور اہل خاندان ان کی خلافت کے منکر ہوئے اور ان کی بزرگی پر طعن کرنے لگے۔ اور تقاضائے عقل یہ ہے کہ متفق علیہ کو لے لیا جائے مختلف فیہ کو نظر انداز کر دیا جائے ۔
اس قسم کے سارے شکوک و شبہات کا جو شیعہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جواب صرف ایک ہے وہ یہ کہ متفق علیہ کو لینا اور مختلف فیہ کو چھوڑ دینا عقلاً اس وقت ضروری ہوتا ہے جب ان دو باتوں پر سوائے اتفاق و اختلاف کے کوئی اور دلیل موجود ہی نہ ہو۔ اور اگر کوئی قوی دلیل ایسی مل جائے جو کسی ایک جانب کو ترجیح دیتی ہو، تو پھر اتفاق و اختلاف والی صورت سے کوئی سروکار نہ ہو گا ۔ بلکہ اسی قوی دلیل کو قابل اتباع اور لائق جہت مانا جائے گا۔
کیونکہ حق بہر حال حق ہے۔ اگرچہ اس کے حامی ومددگار تھوڑے ہی ہوں ، اور باطل باطل ہی ہے چاہے اس کے ، نقل کرنے والے بکثرت کیوں نہ ہوں ۔
اور کاش شیعہ حضرات اپنے مقرر کردہ اس قاعدہ و اصول پر جمے رہیں مگر ان کا حال تو اس آیت کا مصداق ہے۔
کہ يَقُولُونَ مَا لا يَفْعَلُونَ ( یہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں)۔
خود ان کے فقہ کا مقرر اور تسلیم شدہ قاعدہ و اصول ہے کہ جب ائمہ سے دو روایتیں منقول ہوں، ایک عام خیال کے مخالف، دوسری موافق۔ تو مخالف روایت کو لینا چاہیے نہ کہ موافق کو ، اس لئے کہ حقیقت کی بناء مخالفت عام ہی پر تو ہے۔
ان کے اس مقرہ اصول پر غور کر کے ذرا ان کی سوجھ بوجھ فہم وفراست اور عقل و دانش کا اندازہ لگا لیا جائے۔ آگے چل کر ہم ان شاء اللّٰه باب امامت اور باب مطاعن میں وضاحت کے ساتھ آپ کو بتائیں گے کہ خلفائے ثلاثہ ، بلکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب پر سنی اور شیعہ روایات، سب کا اتفاق ہے۔ اور ان بزرگوں کی برائیاں صرف بعض شیعی روایات میں آئی ہیں۔ ایسی صورت میں اب عقل کا کیا تقاضا ہے، وہ آپ کو معلوم ہی ہے ۔