جنازہ نبی کریمﷺ اور خلیفہ بلافصل کا انتخاب
جعفر صادقکیا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام میں سے کسی ایک نبی کی بھی مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر کے انتقال پر امت میں اپنے نبی کے جنازے پر خلیفہ کے انتخاب کو فوقیت دی ہو اگر ایسی کوئی مثال ماسلف میں نہ ملے تو امت مصطفی نے ایسا کرنا کیوں کر مناسب سمجھا
الجواب:
صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے بغض میں کس قدر چالاکی اور عیاری سے سوال مرتب کیا گیا ہے ورنہ خلافت صدیقی تو خود کتب شیعہ سے بھی ثابت ہے۔
تدفین سے قبل ہی ہر نبی کے خلیفہ پر امت کا اتفاق ہوتا تھا اور نبی کے اس خلیفہ کی موجودگی میں ان کی تجہیز و تکفین کا بندوبست ہوتا تھا
کوئی شیعہ بتائے کہ گذشتہ کسی پیغمبر کی تدفین خلیفہ کے تقرر و تعین کے بغیر ہوئی ہے؟
بلکہ ہم کہتے ہیں کہ دیگر انبیاء کی مثال ہی موقع محل پر نہیں ہے اس لئے کہ وہاں ایک پیغمبر کے بعد دوسرا پیغمبر اس کا خلیفہ بنتا تھا اس کی نبوت اور خلافت پرنص جلی کا ہونا ضروری تھا مگر شریعت محمدیہ کئی اصول وفروع میں ان سے مختلف ہے، یہاں تو اس شریعت کے صاحب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم کر دی گئی لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ دوسرے انبیاء کے خلفاء کے مثل نہیں ہے یہاں نص جلی کی ضرورت نہیں ہے فقط نص خفی اور پیشگوئی کے ساتھ امت کا اتفاق کافی ہے مگر سابقہ امتوں کی طرح یہاں بھی یہی اصول ہے کہ امت امام و خلیفہ کے بغیر نہ ہو چناچہ مزاج شناسان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور فضل البستان نبوت صحابہ کرام نے تدفین سے قبل چند لمحات میں سرکار صدیق اکبرؓ کی بیعت کرکے یستخلفنھم فی الارض کا وعدہ باری تعالی سچ کر دکھایا۔
عمروبن حریث اپنے سرکار سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ من عشرہ مبشرہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال باکمال کے وقت آپ موجود تھے فرمایا ہاں عمرو نے عرض کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کب ہوئی فرمایا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال باکمال کے روز صحابہ کرام نے اسے مکروہ جانا دن کا کچھ حصہ بغیر جماعت ما تحت خلیفہ رہیں۔ اس میں عرض کیا ہے کیا کسی نے مخالفت بھی کی۔ فرمایا نہیں اس نے عرض کیا کہ کیا مہاجرین میں سے کوئی پیچھے رہا فرمایا نہیں بلکہ تمام مہاجرین نے خود بیعت کرلی۔
۔اگلی متصل روایت میں ہے سرکار علی رضی اللہ علیہ وسلم گھر میں تھے جب ان کو خبر ملی تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور تاخیر کو ناپسند کیا بیعت کی اور آپ کے پاس بیٹھے رہے
طبری جلد 3 صفحہ 207
خود شیعہ کے ہاں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نبی امام کا خلیفہ اس کے آخری لمحات میں بنایا جاتا ہے۔
۔اصول کافی میں ہے کہ اس سوال پہ اور دائم امت کب ملتا ہے کہ جواب میں امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کے پہلے امام کی زندگی کے آخری لمحات میں
اصول کافی جلد 1 صفحہ 275
سرکار علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ہی سرکار امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ نے ممبر پر جلوہ گر ہو کر خطبہ دیا پھر حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ ممبر سے اترے تو حاضر لوگوں نے آپ کی بیعت امامت کی۔
جلاء العیون صفحہ 219
جب شیعہ مذہب میں امام پہلے کی شہادت تو موت کے بعد ہی امام بن جاتا ہے اور اس کی بیعت بھی ہو جاتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کے تقرر پر کیا اعتراض ہے حالانکہ یہ سنت انبیاء ہے ۔
خلیفہ کا تقرر اس لیے بھی ضروری تھا کہ منافقین اور دیگر دشمنان اسلام کے منصوبوں کی وجہ سے اسلام کو خطرہ تھا اور اس لیے بھی کہ امت کا ہر کام خلیفہ کی نگرانی میں ہو ، کسی امر میں اختلاف نہ ہوجائے شورش نہ ہو۔ اس موقعے پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین مبارکہ میں اختلاف پیدا ہوگیا تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالئ عنہ کے ارشاد نبی پیش کرنے ۔ پر اختلاف ختم ہوا
شمائل ترمذی صفحہ 27 طبری جلد 3 صفحہ 213
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تجہیز و تکفین کے متعلق وصایا سرکار صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ھی فرمائے تھے جو بامر نبوی آپ نے دوسروں پر تقسیم فرمائے
جلاء العیون صفحہ 70 حیات القلوب جلد 2 صفحہ 695
بیعت امام ایک اسلامی فریضہ تھا جو بہرحال ادا کرنا ہی تھا۔ اگر تدفین سے قبل سرانجام پا گیا تو شیعہ کو کیا تکلیف ہے۔ اس لئے کہ سرکار علی رضی اللہ عنہ نے تو اس میں دخل اندازی نہ کی بلکہ خود اس موضوع پر سرکار صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت کا اعلان مسجد نبوی میں مجمع عام میں فرمایا ۔
شیعہ کی تفسیر قمی وصافی میں مرقوم ہے سرکار امام باقر سے مروی ہے کہ سرکار علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال باکمال کے بعد مسجد میں لوگوں کے بھرےاجتماع میں ہی آیت کریمہ الذین کفرواصدواعن سبیل اللہ اضل اعمالھم کی تلاوت فرماتے ہیں۔
سرکار ابن عباسؓ تلاوت کا مقصود دریافت کرتے ہیں ، سرکار علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا جو تمہیں رسول دیں وہ لے لو جس سے منع کریں رک جاؤ تو تم رسول ۔اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گواہ ہو جاؤ کہ آپ نے سرکار ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا ہے
تفسیر صافی جلد 2 صفحہ 561
تفسیر قمی جلد 2 صفحہ 301