دلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہداء (شہید لوگ)
نقیہ کاظمیدلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین الشُّهَدَاءِ (شہید لوگ)
وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيۡنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيۡقًا ۞
(سورۃ النساء: آیت، 69)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖۤ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصِّدِّيۡقُوۡنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّهِمۡؕ لَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ وَنُوۡرُهُمۡ وَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ ۞
(سورۃ الحدید: آیت،19)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں، وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا، وہ دوزخی لوگ ہیں۔
تشریح: صدیق کے معنیٰ ہیں وہ شخص جو اپنے قول و فعل کا سچا ہو اور یہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد پرہیزگاری کا سب سے اونچا درجہ ہے، جیسا کہ سورة النساء: آیت، 70 میں گزرا ہے، اور شہید کے لفظی معنیٰ تو گواہ کے ہیں، اور قیامت میں امتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) کے پرہیزگار افراد پچھلے انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں گواہی دیں گے جیسا کہ سورة البقرۃ: آیت، 143 میں گزرا ہے، نیز شہید ان حضرات کو بھی کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی پیش کریں، یہاں یہ بات منافقوں کے مقابلے میں فرمائی جا رہی ہے کہ صرف زبان سے ایمان کا دعویٰ کر کے کوئی شخص صدیق اور شہید کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا بلکہ وہی لوگ یہ درجہ حاصل کرسکتے ہیں جو دل سے سچا اور پکا ایمان لائے ہوں، یہاں تک کہ اس ایمان کے آثار ان کی عملی زندگی میں پوری طرح ظاہر ہوں۔ اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کا صلہ بتلایا جا رہا ہے اس لیے حدیث میں آتا ہے۔ آدمی انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی سیدنا انسؓ فرماتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جتنی خوشی اس فرمانِ رسول اللہﷺ کو سن کر ہوتی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی، کیونکہ وہ جنت میں بھی رسول اللہﷺ کی رفاقت پسند کرتے تھے۔
اس کی شانِ نزول کی روایات میں بتایا گیا ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبیﷺ سے یہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا اور ہمیں اس سے فروتر مقام ہی ملے گا اور یوں ہم آپﷺ کی صحبت و رفاقت اور دیدار سے محروم رہیں گے۔ جو ہمیں دنیا میں حاصل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر ان کی تسلی کا سامان فرمایا۔
(ابنِ کثیر)
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بطورِ خاص نبی کریمﷺ سے جنت میں رفاقت کی درخواست کی: "اسالک مرافقتک فی الجنۃ" جس پر نبی کریمﷺ نے انہیں کثرت سے نفلی نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی "فأعنی علی نفسک بکثرۃ السجود" پس تم کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔
صحیح مسلم میں سیدنا ربیعہ بن کعب سلمیٰؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ جنت میں آپﷺ کا ساتھ نصیب ہو آپﷺ نے فرمایا: کثرتِ سجود، کثرتِ نوافل سے میری مدد کرو ترمذی کی ایک حدیث میں ہے التاجر الصدوق الامین النبیین والصد یقین والشہداء کہ امانت دار اور سچ بولنے والا تاجر قیامت کے دن انبیاء اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔
(ابنِ کثیر، رازی)
علاوہ ازیں ایک اور حدیث ہے:
التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء۔
(ترمذی: کتاب البیوع باب ماجاء فی التجار و تسمیۃ النَّبِیﷺ ایاھم)
راست باز، امانت دار، تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا صدیقیت، کمال ایمان و کمال اطاعت کا نام ہے، نبوت کے بعد اس کا مقام ہے امتِ محمدیہ میں اس مقام میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سب سے ممتاز ہیں۔ اور اسی لیے بالاتفاق غیر انبیاء میں وہ نبی کریمﷺ کے بعد افضل ہیں، صالح وہ ہے جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کامل طور پر ادا کرے اور ان میں کوتاہی نہ کرے۔
صدیق یہ صدق سے مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو جملہ امورِ دین کی تصدیق کرنے ولا ہو اور کبھی کسی معاملہ میں خلجان اور رشک اس کے دل میں پیدا نہ ہو یا وہ جو رسول اللہﷺ کی تصدیق میں سبقت کرنے کی وجہ سے دوسرے کے لیے اسوہ بنے اس اعتبار سے اس امت کے صدیق سیدنا ابوبکرؓ ہی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ دوسرے افاضل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے نمومہ بنتے ہیں.
سیدنا علیؓ بھی اول مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں مگر چھوٹے بچے ہونے کی وجہ سے دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے چونکہ نبی کریمﷺ کے بعد صدیق کا درجہ ہے اس لیے علمائے اہلِ سنت کا اجماع ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ آنحضرتﷺ کے بعد سب سے افضل ہیں۔
شہداء یہ شہید کی جمع ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جان دی اور امت محمدﷺ کے بھی شہداء ہونے کا شرف حاصل ہے اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو عقیدہ و عمل کے اعتبار سے ہر قسم کے فساد سے محفوظ رہے۔
(رازی)