Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

راوی پر جرح یا اسباب ضعف

  سید ابوالحسین احمد نوری

راوی پر جرح یا اسباب ضعف

راوی پر جرح یا اسباب ضعف تقریبا 10 ہیں ۔ جن میں 5 کا تعلق عدالت سے اور 5 کا تعلق ضبط سے ہے۔

عدالت سے متعلق طعن

کذب حدیث رسول ﷺ پر جھوٹ ۔ ( موضوع )

مہتم بالکذب عام بول چال میں جھوٹ (متروک)

فسق۔گناہ کبیرہ کرنا یا صغیرہ پر اصرار کرنا۔ (منکر)

جہالت یا ابہام

بدعت

ضبط سے متعلق طعن

فحش الغلط (منکر یا متروک)

فحش غفلت (منکر)

بکثرت وہم ۔(معلل)

ثقاہت کی مخالفت کرنا۔ ( مدرج مقلوب مضطرب)

حافظہ کا خراب ہونا ( سوء الحفظ)

کچھ لوگ فسق اور بدعت کو ایک ہی سمجھتے ہیں مگر یہ بات غلط ہے کیونکہ ایک شخص فاسق ہوسکتا ہے مگر بدعتی نہیں ہوتا جبکہ ہر بدعتی ضرور بہ ضرور فاسق ہوتا ہے مگر ہر فاسق بدعتی نہیں ہوتا۔

یادر ہے کہ جرح او مفسر جرح یا علت قادعہ میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کیونکہ ہر جرح پر محدثین اعتبار نہیں کرتے بلکہ اسکی علتوں پر اعتبار کرتے ہیں جو قابل اعتبار ہوتی ہیں۔

أخبرنا محمد بن عمر بن بكير، أنا عثمان بن أحمد بن سمعان الزراز، ثنا هيثم بن خلف، ثنا محمود بن غيلان، ثنا وهب بنجرير قال :قال شعبة» أتيت منزل المنهال بن عمرو فسمعت فيه صوت الطنبور ۔ 

(الکفایہ فی علم الرویہ ۱۱۲)

مثلا شعبہ نے زاذان راوی پر جرح کی اور اس سے روایت لینے کو ترک کر دیا مگر جب شعبہ کے شاگرد نے پوچھا کہ اس زاذان سے روایت کیوں نہیں لیتے تو جواب دیا کہ اس کے گھر سے طنبورے کی آوازیں سنیں تھیں۔ لہذا محدثین نے امام شعبہ کی اس جرح کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

تفضیلیہ کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ متفقہ اصول کو ترک کر کے شاذ اقوال سے استدلال کرتا ہے ۔ محدثین نے جرح میں ایسے اسباب کا سہارا لینا جو مجروح کرنے کے لیے کافی نہ ہوں ،ان سے جرح ثابت نہ ہونا لکھا ہے۔

مثلا بعض راویوں پر اس لئے جرح کی گئی ہے کہ وہ بادشاہوں اور امراء کی مجلسوں میں شریک  ہوتے تھے۔ علی بن عامر پر اس لئے جرح کی گئی کہ وہ چھوٹے بڑے ہر ایک سے روایت کرتے تھے، حالانکہ اپنے سے چھوٹے آدمی سے روایت کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔

أخبرنا علي بن طلحة بن المقرئ، ثنا أبو الفتح محمد بن إبراهيم الطرسومي، أنا محمد بن محمد بن داود الكرخي، ثنا عبدالرحمن بن يوسف بن خراش، ثنا أبو حفص عمرو بن علي ثنا أمية بن خالد عن شعبة قال :قلت للحكم بن عتيبة :لم لم تزوعنزاذان ؟ قال : كان كثير الكلام "۔

(الکفایہ فی علم الرویہ ص 112)

مزید مثالیں:

 حکم بن عتیبہ سے پوچھا گیا کہ زاذان سے کیوں روایت نہیں کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ 

کان کثیر و الکلام 

یعنی بہت زیادہ بولتے تھے ۔

ما أخبرني عبد الله بن يحيى الشكري، أنا محمد بن عبد الله بن إبراهيم الشافعي، ثنا جعفر بن محمد بن الأزهر، أنا ابنالغلابي ،قال» :وسيل بحبي يعني ابن معين عن حجاج بن الشاعر فبرق لما سئل عنه

(الکفایہ فی علم الرویہ ص 113)

صالح المری کا ذکر حماد بن سلمہ کے سامنے اور حجاج الشاعر کا ذکر ابن معین کے سامنے آیا تو تھوکنے لگے۔ ( یعنی اظہار ناپسندیدگی کیا)۔

أخبرنا أحمد بن أبي جعفر، أنا أبو بكر محمد بن عدي بن زخر البصري في كتابه إلينا، ثنا أبو عبيد محمد بن على الأجزي،ثنا أبو داود سليمان بن الأشعب ثنا الحسن بن علي عن شبابة قال : " ثلث أوقيل لشعبة : ما شأن حسام بن مصلك؟ قال : رأيته يبول مستقبل القبلة" قال أبوداؤد سمعت يحيى بن معين يقول : ترك شعبة أبا غالب أنهرآه يحدث في الشمس وضعة شعبة علی انہ تغیر عقلة۔

(الکفایہ فی علم الرویہ ص 113)

امام شعبہ نے ابو غالب سے روایت نہیں کیا اس لئے کہ انہوں نے ایک مرتبہ ان کو دیکھا کہ وہ دھوپ میں حدیث بیان کرتے تھے۔

اس طرح کی دیگر بہت ساری مثالیں کتب جرح وتعدیل میں موجود ہیں کہ جب محدث سے کسی کے جرح کے بارے میں اسفسار کیا گیا تو اس طرح کی کمزور بات انہوں نے ذکر کی ۔ اور یہ بات مسلمہ ہے کہ اس طرح کے اسباب راوی کو مجروح کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں ۔

اختلاف مشرب یا اختلاف عقیده :

محدثین نے بدعتی روایت کے قبول اور عدم قبول کے سلسلے میں اصول وضع کیے ہیں۔ عقائد میں اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے پر جرح غیر مقبول نہیں ہے ورنہ اس ضابطہ کو متقدمین علماء کے بیان کرنے کیکیا ضرورت تھی؟ بلکہ کچھ فرقے تو ایسے ہیں جنھوں نے اپنے مذہب کی تائید کے لیے جھوٹ کو جائز سمجھا اور اسی وجہ سے امام شافعی نے خطابیہ کی شہادت کو نا قابل قبول قرار دیا ہے ۔

(اختصارعلوم الحدیث ص 99)

جرح کے اصول:

یہ بات یاد رہے کہ جارح کی ہر جرح معتبر نہیں ہوتی، بلکہ جرح کے کچھ اصول بھی ہیں ۔

وقد ذكر أن الشافعي إنها أوجب الكشف عن ذلك لأنه بلغة أن إنسانا جرح رجلا فسئل عما جرحه به فقال : رأيته يبول قائمافقيل له : وما في ذلك ما يوجب جزحة؟ فقال :لأنه يقع الرشش عليه وعلى ثؤبه ثم يصلي فقيل له : رأيته صلي كذلك؟ فقال : لا ،فهذا ونخوه جرح بالتأويل، والعالم لا يجرح أحدا بهذا وأمثاله فوجب بذلك ما قلناه۔

 (الکفایہ فی علم الرویہ ص 108) 

امام شافعی فرماتے ہیں : اسباب جرح کو بیان کرنا ضروری ہے اس لیے کہ بسا اوقات جرح کرنے والا ایسی چیز کو جرح کا سبب قرار دیتا ہے جو موجب جرح نہیں ہوتی۔ مجھے ایک شخص پر جرح کی خبر پہنچی تو میں نے ناقد سے اس کاسبب دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ میں نے اس کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہے اب اس کے کپڑے ناپاک ہوئے ہوں گے اور اس حالت میں اس نے نماز پڑھی ہوگی تو صدوق کہاں رہا؟

میں نے اس سے کہا کہ تم نے اسے ان کپڑوں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟ اس نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

اس طرح کی جرح فن مطلع الحدیث سے ناواقفی پر مبنی ہے۔ کوئی علم کسی کو اس طرح کی جرح سے مجروح قرارنہیں دیتا۔

بدعتی کی روایت کے بارے میں اصول یہ ہے کہ بدعت مکفرہ کی روایت قابل قبول نہیں اور اگر بدعت مفسقہ ہے تو اسکی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے ۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ روایت کی تصحیح اور قبول کا دارومدار اس راوی کے سچے ہونے پر ہے ۔ درحقیقت  بدعتی کی روایت صرف اسکی بدعت کی وجہ سے رد نہیں ہوتی بلکہ اس کی صرف وہ روایت رد ہوتی ہے جو کہ اس کی بدعت کو تقویت دے ۔

 حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ۔

بدعت مفسقه

 ( بدعت صغری ) سے متصف راوی کی روایت دو شرطوں سے مقبول ہوتی ہے۔

اول: راوی اپنی بدعت کی طرف داعی نہ ہو ۔

دوم : اپنی بدعت کی موئید اور اس کو رواج دینی والی کسی حدیث کی روایت نہ کرے ۔

(شرح نخبة الفکر 101)

لہذا بدعتی (مفسق) راوی کی روایت مشروط قابل قبول ہوتی ہے نہ کہ مطلقا رد ہوتی ہے اور نہ ہی مطلقا قبول کی جاتی ہے۔

اب مقام تحقیق یہ ہے کہ بدعتی راوی کو ثقہ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ تو ان مذکورہ شرائط کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ ثقہ کی تعریف میں عدالت و اتقان میں فسق جبکہ بدعت میں بدعت مفسقہ کی تخصیص ہوگئی یعنی بدعت اور فسق سےبدعت صغری یا بدعت مفسقہ خارج ہو جاتی ہے اور روایت قبول کرنے کا معیار وہ دو شرائط ہیں جو حافظ ابن حجر نےذکر کی ہیں ۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ کسی بدعتی کو مطلاقا کبھی بھی ثقہ کے الفاظ سے متصف نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ محدثین ، بدعتی راوی کی ثقاہت کے ساتھ اسکی بدعت کی بھی وضاحت کر دیتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ روایت کرنے کی شرائط پر پورا اترتا ہے مگر اس کا مذ ہب بدعت ہے ، اس لئے وہ راوی مطلقا ثقہ متصور نہیں ہوگا۔ 

(بشکریہ سید ابوالحسین احمد نوری ، مولانا محمد حارث ،علامہ عاطف سلیم نقشبندی )