Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 41

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 41

اہل سنت کو الزام دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے مذہب میں ایسے لوگوں کا اتباع کرتے ہیں کہ جو معصوم نہیں ہوتے اور جب غیر معصوم کو خود اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا یقین نہیں وہ دوسرے کو کیا ہدایت کرے گا اللّٰه تعالٰی فرماتا ہے ۔ أَفَمَن يَهْدِى إِلَى الْحَقِّ أَحَق أَن يَتَبَّعَ أَمَنَ لَا يَهْدِي إِلَّا أَنْ يَهْدِى فَمَا لَكُمْ كيف يحکمون ( جو شخص حق کا راستہ بتائے وہ اتباع کا زیادہ مستحق ہے یا وہ جو اس وقت تک راستہ نہ پائے جب تک کوئی دوسرا اس کو راستہ نہ بتائے پس تمہیں کیا ہو گیا ہے یہ کیسے فیصلے کرتے ہو۔)

اہل سنت کی مثال تو اس اندھے کی سی ہے جس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو، اور وہ اپنے گھر پہنچنا چاہتا ہے مگر راستہ بھٹک جانے کا ڈر ہے ۔ اس تردد و حیرانی کے وقت اسے ایک شخص ملتا ہے جو اس کے گھر سے واقف نہیں اور اندھا اپنا ہاتھ اسکو تھما دیتا ہے اور بے کھٹکے اس کے پیچھے ہو لیتا ہے۔ اب جو شخص اس کو کھینچ کر ایسے مہلک و خاردار جنگل میں جا چھوڑ دیتا ہے ۔ جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا تھا اور کہہ دیتا ہے تیری منزل مقصود یہی ہے ۔

اس طعن کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت صرف حضور اکرمﷺ کی اتباع کرتے ہیں۔ اور اس قرآن مجید کی جو حبل الله المتين ہے۔ لیکن احادیث کی روایت کرنے اور قرآن مجید کے معانی سمجھنے میں صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم اجمعین اور اہل بیت کی روایت کے محتاج رہتے ہیں۔ جن کے حق میں رسول ﷲﷺ نے صداقت، صلاح اور نجات و فلاح کی گواہی دی ہے۔ ایسے ہی ان حضرات کرام نے اپنے برگزیدہ شاگردوں اور بزرگ ہمعصروں کے حق میں شہادت دی ہے۔ چنانچہ اسی طرح صدی بعد صدی ایک دوسرے کی تصدیق کرتے چلے آتے ہیں۔ بخلاف شیعہ کے کہ انہوں نے ائمہ اور اپنے درمیاں جھوٹے مفتری اور دنیا طلب لوگوں کو واسطہ بنایا ہے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ خود ان کی صحیح کتابوں میں یہ بھی مروی ہے کہ ائمہ عظام نے ان بدبخت (واسطوں) سے بہزار زبانی بیزاری ظاہر کی، ان پر تبریٰ بھیجا اور لعنت برسائی۔ ان میں اکثر مجسمیہ، مشبیہ، اباحیہ اور علولیہ ہوئے ہیں۔

اہل سنت کی مثال ایسے شخص کی ہے جو بادشاہ کی ملازمت کا ارادہ کر کے بادشاہ کے مقرب اور دربار رس سے ملے، وہ کسی امیر کے سپرد کرے اور امیر بادشاہ کے وزیر خاص سے ملائے اور ان واسطوں کے متعلق مشہور یہ ہو کہ ان سب کو بادشاہ کا تقرب خاص حاصل ہے اور یہ بھی زبان زدہ خلائق ہو کہ بادشاہ کی مہربانیاں اور عنایتیں ان پر پیہم ہوتی ہیں (ایسے شخص کے متعلق کون کہے گا کہ وہ منزل سے بھٹکا ہوا ہے)

رہے شیعہ تو ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو بلا اطلاع ، بے سند اور غائبانہ ، بادشاہ سے کوئی جاگیر، جائیداد حاصل کرنے کا پروانہ حاصل کرنا چاہیے اور اس کے مکاروں ، دغا بازوں ، جعلسازوں اور جعلی مہریں بنانے والوں سے خفیہ ساز باز کر لے جو خود ہی بادشاہ کے خوف سے لرزاں ترساں رہتے ہوں اور چھپے چھپے پھرتے ہوں اور جن کے متعلق شاہی فرامین یہ ہوں کہ ان کے ہاتھ قلم ہوں، ناک، کان کاٹے جائیں۔ (نا مرادی اس کی دیکھا چاہیئے۔)

تِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (ہم یہ مثالیں لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں شاید وہ ان پر غور کریں۔)