Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 49

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 49

ان کے بعض راوی اپنے ائمہ پر بہتان باندھتے ہیں ۔ چنانچہ اپنے امام سے یوں روایت منسوب کرتے ہیں کہ

" میں نے خواب میں رسول اللّٰہﷺکی زیارت کی ، تو آپ ایک شیعہ شاعر کی بڑی ستائش فرما رہے تھے اور اس کے لئے دعائے خیر فرما رہے تھے، کیونکہ اس نے ایک قصیدہ لکھا ہے۔ جس میں محبت اہل بیت کا خلفائے ثلاثہ و دیگر صحابہ کرامؓ پر تبریٰ کا مضمون باندھا ہے اور وہ حضور بار ربا پڑھ اور اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔"

چنانچہ سہل بن دینار نے اسی قسم کا ایک واقعہ لکھا ہے ، وہ کہتا ہے کہ میں ایک روز اور شیعوں کے آنے سے پہلے امام رضا کی خدمت میں باریاب ہوا امام اس وقت تنہا اور تخلیہ میں تھے میری آمد پر امام نے مجھے خوش آمدید کہی اور فرمایا ابن دینار تم خوب آئے میں تم کو کسی کے ذریعہ ابھی بلوانے والا تھا۔

امام اس وقت انگشت بر زمیں ، کسی سوچ میں غرق تھے۔ میں نے عرض کیا جناب مجھے کسی غرض سے یاد فرما رہے تھے، فرمایا میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس نے مجھے مضطرب و بے چین کر رکھا ہے؟ اور میری نیند اڑا دی ہے ۔ میں نے عرض کیا خیر تو ہے ، بات کیا ہے۔ فرمایا کہ میں نے سوزینوں کی ایک سیڑھی دیکھی جس پر میں چڑھ گیا ہوں میں نے عرض کیا مبارک ہو کہ آپ سو سال تک ذندہ رہیں گے۔ فرمایا پھر میں نے دیکھا کہ سبز رنگ کا ایک برج ہے جو اتنا صاف و شفاف ہے کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے صاف نظر آتا ہے اور اس برج میں رسول اللّٰہﷺ رونق افروز ہیں۔ آپ کے دائیں بائیں دو خوش جمال جوان رعنا، بیٹھے ہیں۔ ان میں ایک نے ایک بوڑھے کے زائد کا تکیہ لگایا ہوا ہے ۔ بوڑھا اتنا ضعیف و عمر رسیدہ ہے کہ اس کی بھنویں آنکھوں پر پڑی ہوئی ہیں حضورﷺ مجھ سے ارشاد فرما رہے ہیں اپنے دادا حسن وحسین رضی اللّٰه عنہا کو سلام کرو ، چنانچہ میں نے ان کو سلام کیا۔ پھر فرمایا اور اس شاعر کو بھی سلام کرو۔یہ ہمارا شاعر اور دین و دنیا میں ہمارا مصاحب اور دوست ہے۔ یعنی اسمعیل بن محمد حمیری میں نے ان کو بھی سلام کیا ۔ اس گفتگو کے بعد حضورﷺ نے شاعر سے کہا ہاں !لا، وہی قصیدہ جس میں ہم مشغول تھے۔ بوڑھے شاعر نے ایک طویل قصیدہ پڑھنا شروع کیا۔ جب اس شعر پر پہنچا

قَالُوا لَهُ لَوشِئْتَ أَهْلَمْتَنَا

إلى مَنِ الْغَايَةِ وَالْمَقزَعُ

(انہوں نے اس سے کہا کہ تو اگر چاہتا تو ہم کو بتا دیتا کہ مال کار اور جائے پناہ کیا ہے)

تو رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا اسمعیل ذرا ٹھہر ! پھر آپ نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا "اے میرے خدا اے میرے سردار ! تو گواہ ہے کہ میں نے ان کو باخبر کر دیا تھا۔ کہ خوف کے وقت کس کے پاس جائیں۔ اور کس کی پناہ لیں، اور آپ اس وقت ہاتھ کا اشارہ امیر المؤمنین (رضی اللّٰه عنہ) کی طرف فرماتے جا رہے تھے۔ پھر میری طرف رخ کر کے فرمایا کہ اے علی، اس قصیدہ کو تو خود بھی یاد کرے اور ہمارے شیعوں سے کہہ دے کہ وہ بھی یاد کر لیں۔ اس قصدہ کو جو بھی یاد کر لے گا اس کا بہشتی ہونے کا میں ضامن ہوں۔

امام رضا کہتے ہیں کہ میرے دادا رسول اللّٰہﷺ وہ قصیدہ بار بار دہرا کر مجھے یاد کرواتے رہے تاآنکہ مجھے وہ یاد ہو گیا۔ "

وہ قصیدہ جس کے چار شعر ایسے ہیں کہ ان میں صحابہ کرامؓ کی شان ارفع میں نہایت گندی اور سب وشتم سے لبریز زبان استعال کی گئی ہے کوئی بھی مسلمان اس کو زبان پر لانا تو در کنار نوک قلم پر لانا بھی گوارہ نہ کرے۔

مگر ہم ( نقل کفر کفر نباشد کے مصداق ) اس کو اس لئے نقل کر رہے ہیں کہ شیعوں کی طرف سے نرم گوشہ رکھنے والے اور غیر جانبدارانہ رویے والے افراد کہیں اسے محض تہمت سمجھ کر ان کے جرم میں گستاخی کو نظر انداز کر کے ان سے کسی چیز کے متوقع نہ ہو بیٹھیں اور وہ از راہِ انصاف اس پر غور فرمائیں کہ ان لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم اجمعین کے خلاف کتنا کینہ اور بعض وعناد بھرا ہوا ہے جو بات اہل عقل و مروت ، کے نزدیک فرعون و ہامان کے لئے بھی کہنا جائزہ نہیں ۔ ان اساطین اسلام کو ان کا ہدف بنانا کب جائز اور کہاں کی شائستگی اور شرافت ہے۔ اور پھر اس نازیبا حرکت اور معاندانہ طرزِ عمل کو بہشت کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔ تو ہے اس جسارت و گمراہی کا کوئی جواب ؟۔

وہ قصیدہ یہ ہے

لام عمر و با للوى مُرَبِّع

طَامِسهُ أَعلامُهُ بلقع

ام عمرو کا ریگستان میں مسکن تھا جو اب بے نشان و ویران پڑا ہے ۔

كمَا وَقَفْتُ العِيسَ فِي رَسُمهَا

وَالْعَيْنُ مِنْ عَرَفَاتِهِ تَدْمَعُ

(دورانِ سفر) جب میں نے وہاں پڑاؤ کیا تو اس کی یاد مجھے رلانے لگی۔

وَكَرْتُ مَن كُنتُ الْهُوبِہ

قبت وَالْقَلَبُ شَجی مُوجع

مجھے یاد آیا کہ میں اس کے ساتھ یہاں کھیلا کرتا تھا، تو اس یاد نے رات بھر مجھے چین نہ لینے دیا۔

كَان با النَّارِ لِمَا شَقنِي

مِنْ حب أَرْوى كَبِدِي تَلْذح

گویا اس کی طرف سے مجھے جو محبت ملی اس کی آگ میرے دل کو جلا رہی ہے۔

عجبْتُ مِنْ قَوْمِ اتوا أَحْمَدًا

بِخُطةٍ لَيْسَ لَهَا مَوْضَعَ

مجھے اس قوم کے حال پر تعجب ہے جو احمد کے پاس ایسی خصلت کے ساتھ آئی جس کی وہاں گنجائش نہیں۔

قَالُوا لَما شِئْتَ أَعْلَمْتَنَا

إِلَى مَنِ الْغايَةُ وَالْمَفْزَعُ

انہوں نے اس سے کہا کہ اگر تم چاہتے تو ہمیں باخبر کر سکتے تھے کہ قال کار اور جائے پناہ کہاں ہیں ۔

إِذَا تَوَفَّيتَ وَنفار قتَنَا

وَفِيهِمْ فِي المُلْكِ مَنْ يَطْمَعُ

جب آپ وفات پا جائیں اور ہم سے جدا ہو جائیں اور لوگوں میں کوئی ایسا ہو جو سلطنت کا لالچ رکھتا ہوا تو ہم کیا کریں)

قَالَ لَوْ اهْلَمتُكَ مَفْزَعا

كُنْتُمْ عسَيْتُم فیہ أَن تَصْنَعُوا

فرمایا اگر میں تم سے فزع کا مرجع بیان کر دوں تو قریب ہے کہ تم اس کے حق میں وہ کام کرو گے۔

قال لو اعلمتک مفزعا

کنتم عسیتم فیہ ان تصنعوا

فرمایا اگر تم سے فزع کا مرجع بیان کر دوں تو قریب ہے کہ تم اس کے حق میں وہ کام کرو گے۔

صنع اهل العجملِ إِذا فار توا

هَارُونَ فَالتَركُ لَه اودع

جو گوسالہ پرستوں نے ہارون سے جدا ہوتے وقت کیا تھا۔ اس لئے اس ذکر کو جانے دو۔

و فِي الَّذِي قَالَ بِيَانُ لِمَن

كَانَ ذَا يَعْقِلُ أَو يَسْمَعُ

اس کلام میں گوش ہوش رکھنے والوں کے لیے بیان ہے۔

ثم اتته بعدہ جزمۃ

من ربه لَيْسَ لَهَا مُدفع

اس کے بعد پیغمبر کے پاس ان کے رب کی طرف سے تاکید آئی کہ اس میں رعایت کی کوئی گنجائش نہیں۔

ابلغ والا لم تكن مبلغاً

والله منهم عاصم ينع

(جو تم سے کہا گیا وہی) پہنچاؤ ورنہ تم پہچانے والے نہیں ہو گئے، خدا تعالٰی ان سے تم کو بچانیوالا ہے۔

فَمِندَهَا قَام النبى الذى

كَانَ بِمَا يَا مُرة يھدع

پس اسوقت پیغمبر اللّٰه کے حکم کو صاف صاف بیان کرنے کے لئے اٹھے۔

يخطب مامورا وفي كفه

كَفَ عَلَى طَاهِرُ يَلْسح

اور خدا کے حکم سے خطبہ دینا شروع کیا۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں علی کا چہکتا ہوا ظاہری ہاتھ تھا۔

رافعها اكرم بكف الذي

يرُلَمُ الكَ الَّذِي يَرُنَعُ

اس ہاتھ کو اٹھایا ۔ اور کیا کہنا اس ہاتھ کی برکت کا جو اٹھاتا ہے اور اٹھتا ہے۔

مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَهَذا لَهُ

مَوْلًا فَلَمْ يَرْضُوا وَکمْ يَقْتَعُوا

اور کہا جس کا میں دوست ہوں یہ اس کا مولیٰ ہے۔ پس وہ اس پر راضی نہیں ہوئے نہ اس پر قناعت کی ۔

وظل قوم غاظھم فعله

کانا انا لهم تجدع

اور وہ ایسے لوگ ہو گئے جن کو پیغمبر کا یہ فعل کینہ میں مبتلا کر گیا اس حال میں گویا ان کی ناکیں کاٹی جا رہی ہیں۔

حتیٰ اذا واعدو انی لحدہ

ونصروا ممن مدفنه فیتعوا

حتیٰ کہ جب پیغمبر علیہ السلام کو قبر میں رکھ کر دفن سے فارغ ہوئے تو انہوں نے بھلا دیا۔

ما قال في الامس وأوصى بِهِ

وَاشْتَرُوا الفَر بِمَا يَنْفَعُ

وہ قول جو کل کہا گیا ہے اور جس کی وصیت کی گئی تھی۔ اس طرح انہوں نے نفع کے بجائے نقصان خریدا۔

وتطعوا ارحامهم بعدَهُ

فَسَوْف يُجْزَونَ بِمَا تَطعُوا

اس طرح اپنا رشتہ قرابت کاٹ ڈالا، اور عنقریب اس قلع کا بدلہ پائیں گے ۔

واز معوا مكرا بمولاهم

تبا لِمَا كَانُوا بِهِ ازمَعُوا .

اور انہوں نے اپنے مولیٰ کے بارے میں فریب کیا ہو۔ انہوں نے ٹھانا ہے خدا اس میں انہیں ہلاک کرے۔

لاهم عليه يردو احواضہ

غدًا وَلَا هُوَ لَهُمْ یشِفَعُ

ایسے لوگ کل نہ پیغمبر کے پاس حوض پر آسکیں گے اور نہ پیغمبر ان کی شفاعت کریں گے ۔

وَحَوضُ لَما بَين صنعا الی الیۃ

طولُ وَالْعَرْض مِنْهُ أَوْمعُ

پیغمبر کے اس حوض کا طول صنعار سے ایلہ تک ہے بلکہ اس سے بھی وسیع تر۔

يُنصَبُ فيهِ عَلَم للهُدَى

والحوض من مآ عله مترع

وہاں نشان ہدایت قائم ہو گا ۔ اور وہ حوض اپنے پانی سے لبالب پر ہو گا ۔

حصَالَ يَا قُوت وَمَرْجَانَةٌ

وَلُوا لُولَمْ تَحَهُ أَصْبَعُ

اس کے سنگریرے یا قوت و مرجان اور در ناسفتہ ہوں گے۔

وَالْعِطَرُ والریحان انواحہ

ذاكَ وَقَد هَبَّتْ به زعزع

اس کی خوشبو عطر دریحان کی قسم کی ہوگی، اور تیز ہوا اس پر ملتی ہو گی کہ خوشیو بر طرف اڑائے۔

ریح من الجنة ما مورۃ

ذاعية ليس لها مرجع

جنت کی ایک ہوا اس (حوض) پر مامور ہے ۔ جو ہر وقت رہے گی واپس نہیں ہو گی۔

أفَا ذلوا مِنْهُ لَكَى يَشْرَبُوا

بل تباتكم نار رحبوا

جب یہ لوگ پانی پینے حوض کے قریب آئیں گے تو ان سے کہا جائے گا۔ تمہارا ناس ہو یہاں سے ہٹو۔

ودنكم فالتمسوا مثھلا

یرويكُم أَو مَطعمًا يَشْبَعُ

یہ پانی تمہارے لئے نہیں ہے، اپنی سیرابی کے لئے کوئی اور حوض ڈھونڈ لو ، اور اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کوئی اور طعام خانہ تلاش کرو -

هذا لمن والى بَنِي أَحْمَد

وَلم يَكُن غَيْرَهُم يَتَّبِعُ

یہ پیشہ تو ان کے لئے ہے جو آل احمد سے محبت رکھتا اور ان کے غیر کا تابع نہیں ہے۔

فالفورُ لِلشَّارِبِ مِن حَوضِ

وَالوَيْلُ وَالوَيلُ لِمَن یمْنَعُ

پس اس حوض سے پینے والے کے لئے کامیابی ہے اور ان کے لئے ہلاکی ہے جن کو اس سے روک دیا گیا ۔

والناس يوم الحشرر اياتھم

خس فينها هالك الربع

قیامت کے دن لوگوں کے لئے پانچ علم ہوں گے ان میں سے چار کے لئے ہلاکی ہے۔

نَرَايَة العجل وفرهونها

سامرى الأمة الشنح

ایک علم گو سالہ سامری کا ہے۔ اور اس بدکردار گروہ کا سامری فرعون ہے۔

ورأية يُقدمها جبتم

لا بدوله والله منعح

اور ایک نشان کا پیشوا جیتر و باطل شی ہے خدا کرے اس کی قبر ٹھنڈی نہ ہو ۔

ورأية فقد مُهَا تَعْشَل

كَلْبٌ بن كَلْبِ نعَلَهُ مُقَطع

لاهم عليه يردو احواضہ

غدًا وَلَا هُوَ لَهُمْ یشِفَعُ

ایسے لوگ کل نہ پیغمبر کے پاس حوض پر آسکیں گے اور نہ پیغمبر ان کی شفاعت کریں گے ۔

وَحَوضُ لَما بَين صنعا الی الیۃ

طولُ وَالْعَرْض مِنْهُ أَوْمعُ

پیغمبر کے اس حوض کا طول صنعار سے ایلہ تک ہے بلکہ اس سے بھی وسیع تر۔

يُنصَبُ فيهِ عَلَم للهُدَى

والحوض من مآ عله مترع

وہاں نشان ہدایت قائم ہو گا ۔ اور وہ حوض اپنے پانی سے لبالب پر ہو گا ۔

حصَالَ يَا قُوت وَمَرْجَانَةٌ

وَلُوا لُولَمْ تَحَهُ أَصْبَعُ

اس کے سنگریرے یا قوت و مرجان اور در ناسفتہ ہوں گے۔

وَالْعِطَرُ والریحان انواحہ

ذاكَ وَقَد هَبَّتْ به زعزع

اس کی خوشبو عطر دریحان کی قسم کی ہوگی، اور تیز ہوا اس پر ملتی ہو گی کہ خوشیو بر طرف اڑائے۔

ریح من الجنة ما مورۃ

ذاعية ليس لها مرجع

جنت کی ایک ہوا اس (حوض) پر مامور ہے ۔ جو ہر وقت رہے گی واپس نہیں ہو گی۔

أفَا ذلوا مِنْهُ لَكَى يَشْرَبُوا

بل تباتكم نار رحبوا

جب یہ لوگ پانی پینے حوض کے قریب آئیں گے تو ان سے کہا جائے گا۔ تمہارا ناس ہو یہاں سے ہٹو۔

ودنكم فالتمسوا مثھلا

یرويكُم أَو مَطعمًا يَشْبَعُ

یہ پانی تمہارے لئے نہیں ہے، اپنی سیرابی کے لئے کوئی اور حوض ڈھونڈ لو ، اور اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کوئی اور طعام خانہ تلاش کرو -

هذا لمن والى بَنِي أَحْمَد

وَلم يَكُن غَيْرَهُم يَتَّبِعُ

یہ پیشہ تو ان کے لئے ہے جو آل احمد سے محبت رکھتا اور ان کے غیر کا تابع نہیں ہے۔

فالفورُ لِلشَّارِبِ مِن حَوضِ

وَالوَيْلُ وَالوَيلُ لِمَن یمْنَعُ

پس اس حوض سے پینے والے کے لئے کامیابی ہے اور ان کے لئے ہلاکی ہے جن کو اس سے روک دیا گیا ۔

والناس يوم الحشرر اياتھم

خس فينها هالك الربع

قیامت کے دن لوگوں کے لئے پانچ علم ہوں گے ان میں سے چار کے لئے ہلاکی ہے۔

نَرَايَة العجل وفرهونها

سامرى الأمة الشنح

ایک علم گو سالہ سامری کا ہے۔ اور اس بدکردار گروہ کا سامری فرعون ہے۔

ورأية يُقدمها جبتم

لا بدوله والله منعح

اور ایک نشان کا پیشوا جیتر و باطل شی ہے خدا کرے اس کی قبر ٹھنڈی نہ ہو ۔

ورأية فقد مُهَا تَعْشَل

كَلْبٌ بن كَلْبِ نعَلَهُ مُقَطع

اب واضح رہنا چاہیے کہ اس قصہ کی رو سے دو بزرگوں اور لائق صدا حرام ہستیوں پر الزام آتا ہے۔

اول تو جناب رسالت مآبﷺ پر دوسرے جناب امام علی رضا پر اس لئے کہ آنحضرتﷺ کے خواب سچے اور مبنی بر حقیقت ہوتے ہیں۔ اسی طرح امام معصوم کے خواب بھی نفسانی اور شیطانی نہیں ہوتے۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان خوابوں میں منکرات و کفریات دین داخل ہو جائیں۔

پس لا محالہ ماننا پڑے گا کہ یہ اشعار ایسے ناکارہ اور کھوٹے سکے ہیں جو ابن دینار جیسے عبد الدراهم و الدنانیر کی تحصیل سے نکلے اور اس کی اختراع محض صد فی صد جھوٹے ہیں۔

فہم صحیح اور عقل سلیم رکھنے والے کیلئے یوں تو قصیدہ کا ہے ہر مصرع افتراء وبہتان کی پوٹ ہے مگر ہم بارہ اماموں کی گنتی کے مطابق تبرکا بارہ وجوہ بیان کرتے ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ یہ قصہ سراسر خلاف عقل مخالف قرآن و حدیث خلاف دین اور خلاف واقعہ ہے ۔

1_ یہاں بسم اللّٰہ ہی غلط ہو گئی کہ اس شیعہ نے سوزینوں والی سیڑھی کی تعبیر یہ دی تھی کہ امام رضا کی عمر سو سال ہو گی۔ سو یہ تعبیر غلط نکلی اور دونوں فرقوں کے مورخین کے مطابق ان کی عمر سو سال تک نہیں پہنچی گو تعبیر کی غلطی خواب کے غلط ہونے کی دلیل نہیں ہے مگر اس کو کیا کہا جائے کہ یہی رادی کہتا ہے کہ جب میں نے امام کے سامنے یہ تعبیر بیان کی تو امام نے اس پر سکوت فرمایا اور کسی غلطی پر ایسے موقع پر معصوم کا سکوت جہاں تقیہ کی گنجائش نہ ہو جائز نہیں اسکا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قصہ جھوٹا اور گھڑا ہوا ہے ۔

(2) دوسرے یہ کہ اس خواب میں جناب رسالت مآبﷺ نے معصوم واجب الاطاعت امام کو حکم دیا کہ وہ ایسے شاعر کو سلام کرے جس کے متعلق تاریخ کا فیصلہ ہے کہ وہ فاسق در فاجر اور شرابی تھا۔ تو یہ امام معصوم کی تحقیر ہوئی اور جناب رسالت مآبﷺ کی شان میں خلاف شرع امر کے ارتکاب کی نسبت ہوئی۔ اور قلب موضوع و معاملہ الٹ دینا کہ بد نیک کو سلام کرے، نہ کہ نیک بد کو سلام کرے، الزام آیا ۔

(3) راوی نے اس قصہ میں یہ بھی بیان کیا کہ خواب دیکھنے سے امام کو قلق اور بے چینی ہوئی اس سے پتہ چلا کہ خلفائے ثلاثہ پر تبریٰ کا جواز امام کو پہلے معلوم نہ تھا بلکہ وہ تو اس کے خلاف اس حرکت بد کو حرام اور کبیرہ گناہ سمجھتے رہے ۔ اب خواب میں اس کے جواز کا انکشاف ہوا تو اس پر قلق، اضطراب، تشویش اور بے چینی کا یہ پیدا ہونا لازم تھا۔ اس پر پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ واجب کا وجوب محرمات کی حرمت اور جائز چیزوں کا جواز امام کو معلوم ہونا امامت کے خواص میں سے ہے۔ اگر ان باتوں کا علم نہ ہو گا تو درجہ امامت سے گر جائے گا۔ اب اگر اس قصے کو سچ مانتے ہیں تو امام علی رضا کی امامت ہاتھ سے جاتی ہے۔ بلکہ کلینی نے تو کتاب کافی میں اس امر کے اثبات کے لئے ایک مستقل باب قائم کیا ہے ۔ کہ امام کو چاہیے کہ گذشتہ و آئندہ معاملات کا ان کو علم حاصل ہو تو یہاں یہ کیسے ہوا کہ امام اس شاعر کے حال سے اور اس کے اس قدر مقبول قصیدہ سے بے

خبر تھے کہ جس کے ایک مرتبہ پڑھنے سے جنت کے داخلے کی ضمانت مل جائے اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے، اور امام کو ایسے اہم معاملہ کا پتہ تک نہ ہو۔

امام کی بعثت تو ہوتی ہی اس لئے ہے کہ وہ خدا سے دور کرنے والی باتوں یا اس سے قرب کرنے

والے امور کو وضاحت سے بیان کرے یہی نہیں یہ عیب تو گذشتہ ائمہ پر بھی لگتا ہے کہ وہ ایسے اہم امر سے غافل رہ کر دنیا سے چلے گئے اگر کوئی یہ کہے کہ ان ائمہ کو علم تھا تو یہ سوال ہوتا ہے کہ ان حضرات نے امام علی رضا کو اس کی تبلیغ کیوں نہ کی ان کو بے خبر کیوں رکھا۔

(4) اس قصیدہ میں یہ سفید جھوٹ بھی ہے کہ صحابہ کرامؓ اکٹھے ہو کر حضورﷺ کی خدمت میں تعیین امام کیلئے گئے اور آپ سے درخواست کی اس لئے کہ یہ بات کسی بھی مورخ نے خواہ وہ سنی ہو یا شیعہ نہ تو کہی

نہ اپنی کسی کتاب میں لکھی ۔ بلکہ اس قسم کا جھوٹ جوڑنا، پھر اس کی تکرار پر بہشت کی ضمانت دینا اسلوب نبوت و رسالت کے سراسر خلاف ہے۔ بلکہ باعث توہین بھی۔ کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام جھوٹ سے بالکل پاک ہوتے ہیں ان کے کلام میں کذب کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔

(5) قصیدہ کے جھوٹے ہونے کی پانچویں وجہ یہ ہے کہ قصہ میں ایک صریح جھوٹ آنحضرتﷺ کی زبان مبارک سے ادا کرایا گیا کہ آپ نے شاعر مذکور کے بارے میں فرمایا کہ وہ دین دنیا میں ہمارا مصاحب و رفیق ہے حالانکہ اس حمیری شاعر نے نہ حضورﷺ کی صحبت پائی نہ ہی اس کو رفاقت حاصل رہی اور یہ بات کون نہیں جانتا تو نبی کی نسبت ایسا جھوٹ تراشنا ان کے پاک دامن پر دھبہ لگانا ہے۔

(6) اس قصیدہ میں ایک اور کھلا کفر بھی ہے کہ جہالت بیوقوفی اور ناعاقبت کی نسبت اللّٰه تعالٰی کی طرف کی گئی ہے، اور پیغمبر کی عقل کو علم الٰہی سے کامل تر مستقیم تر قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ تعین امام کے سلسلے میں حضورﷺ کو جن نقصانات و خطرات کا اندیشہ تھا وہ سب واقع ہوئے، امن کا شیرازہ بکھر گیا کتاب کی تحریف ہوئی اور مسلمانوں کی ایک جماعت جس کی جمیعت و قوت سے دین کی اشاعت و شوکت کی امید کی جا سکتی تھی وہ مرتد ہوئی۔ اور اللّٰه تعالیٰ نے محض حکمرانی کی غرض سے صبر و اکرام سے کام لے کر پیغمبر علیہ السلام سے تعیین امام کرائی اس کے بعد جو سانحات پیش آئے اس کا (نعوذ باللّٰہ) یا تو اللّٰه تعالیٰ کو علم ہی نہ تھا اگر تھا تو انکو دفع کرنے کا قصد نہ فرمایا اور نبی کے کئے کرائے کو بلکہ خود اپنی سابقہ تائیدات و توفیقات کو یک قلم و یک حرف حرف غلط کی طرح مٹا ڈالا اور پھر وہ حالت ہوئی کہ جاہلیت اولیٰ بھی اس کے سامنے ماند پڑ گئی۔

(7) ساتویں وجہ یہ کہ ترک اصلح ، و ترک لطف کی رعایت جو بلحاظ اصول مذہب شیعہ اللّٰه تعالیٰ کے ذمہ ناگزیر ہے، اور جن کی قباحت شیعوں کے نزدیک معلوم و مسلم ہے۔ اس میں اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے کوتاہی لازم آتی ہے اور یہی وہ بات ہے جس کا شیعہ بار بار اہل سنت کو الزام دیتے ہیں ۔ ( تو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا ۔)

(8) جھوٹ کی آٹھویں وجہ یہ ہے کہ صاحب قصیدہ نے لوگوں کو پانچ نشانوں (علموں) میں محصور کیا ہے حالانکہ یہود، نصاریٰ، مجوس، ہنود، صائبیں، اہل خطا، اہل حبش، اور یا جوج و ماجوج ، بظاہر ان میں سے کسی بھی نشان میں نہیں ہیں ۔ پھر اس کھلے جھوٹ کو پیغمبر علیہ السلام اپنی زبان مبارک سے کسی طرح دہرائیں اور اس پر لطف اندوز ہوں ۔

(9) خلفائے ثلاثہ اور ایسے ہی ان کے پیرو عقیدے اور عمل میں باہم کسی بھی حیثیت سے مختلف نہ تھے تو پھر ان کے نشانات جدا جدا قرار دینا سراسر خلاف عقل ہے۔ پس اگر یہ کہا جائے کہ یہی اشخاص بعینہ دوسرے نشان میں بھی تھے تو ایک ہی ذات کا ایک ہی وقت میں دو جگہ ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر ان میں سے بعض کو ایک نشان میں اور بعض کو دوسرے نشان میں مانیں تو یہ ترجیح بلا مرجح ہے (یعنی ایک چیز کو بلا معقول وجہ کے دوسرے پر برتری دینا ) اور یہ دونوں صورتیں عقل کے نزدیک یا بالبداہت باطل و لغو ہیں ہاں شاعر کا کلام اس حد تک تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ الناس (لوگ) سے مراد محض شیعہ ہوں کیونکہ دوسروں کو بد دیانتی کی وجہ سے ناس سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اور پھر یہ پانچ نشان یوں ہوں۔ کہ شیعہ اولیٰ نشان حیدری کے تحت کیسانیہ نشان دوم میں، امامیہ نشان سوم میں زیدیہ نشان چہارم میں اور غلاہ نشان پنجم میں، تو ایسی صورت میں نشانات کا تعدد کچھ معقول ہو سکتا ہے، اس لئے کہ تبوعین اور متبعین آپس میں مختلف ہیں۔

(10) قرآن مجید میں حضورﷺ کی شان میں فرمایا۔ وَمَا عَلَّمْنَهُ الشَّعْرَ وَ مَا ينبغى له ( ہم نے ان کو نہ شعر سکھایا اور نہ وہ فن ان کے شایان شان تھا۔ اور اہل سیرت شیعہ و سنی اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ جناب پیغمبر علیہ السلام ایک شعر بھی وزن و قافیہ کی درستگی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے تھے، پھر اتنے طویل قصیدہ کو نہ صرف خود یاد کرنا بلکہ امام رضا کو بار بار پڑھ کر یاد کرانا اس کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔

(11) تاریخ کے آئینہ میں بھی اس شاعر کا چہرہ دیکھ لیا جائے کہ یہ کسی درجہ خبیث، فاسق اور شراب خور تھا۔ پھر ایسے لعین کی عالم قدس میں آنجناب تک رسائی یعنی چہ ؟

(12) اللّٰہ تعالٰی نے شعراء کے بارے میں فرمایا ہے ۔

والشعراء یتبعھم الغاوون۔ الم ترانھم فی کل واد یھیمون وانھم یقولون مَا لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَکر الله کثیرا۔ شاعر گمراہوں کے پیرو ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ شاعر ہر میدان میں سرگشتہ ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، نیک کام کئے اور خوب اللّٰه کی یاد کی ایسے شاعر گمراہوں کے پیرو نہیں۔

اور یہ حمیری شاعر تمام مؤرخین کے نزدیک نا اہل صلاح تھا نہ اہل ذکر میں سے تھا( بلکہ کھلا فاسق و فاجر تھا) پس ایسے شخص کی اتباع بالکل گمراہی ہے اور رسول اللّٰہﷺ حکم کا ایسے شخص کی اتباع کا حکم دینا محال و ممتنع ہے۔