مسئلہ تحریف قرآن (ممتازقریشی/ابوھشام ) قسط 1
جعفر صادقمسئلہ تحریف قرآن (ممتاز قریشی/ابو ھشام ) قسط 1
گذشتہ دنوں شیعہ عالم سے تحریف قرآن پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اصول کافی کی ایک صحیح السند روایت اور اس کی توثیق کی روشنی میں کی گئی گفتگو مکمل دیانتداری کے ساتھ اصل اسکینز اور دلائل اور وضاحتوں کو شامل کر کے پانچ قسطوں میں محفوظ کردی گئی ہے۔
عوام الناس کی آگاہی کے لئے اور شیعیت کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کے لئے اس سلسلے کو شروع کیا جا رہا ہے۔
پہلی قسط بمعہ اہم نکات ملاحظہ فرمائیں۔
قسط 1 خلاصہ اہلِ سنت مؤقف
اہل تشیع کی صحیح السند روایت میں تحریف القرآن کا بیان ہونا اور اس روایت کی توثیق اور وضاحت میں شیعہ جیّد علماء کا اقرار کہ قرآن کریم میں نقص، تغییر ہوا ہے اور قرآن کا کچھ حصہ ساقط کردیا گیا ہے۔
شیعہ عالم سے سوال
اگر شیعہ تحریف قرآن کا عقیدہ نہیں رکھتے تو صریح تحریف بیان کرنے والی روایات کی توثیق اور تحریف کی تائید شیعہ جیّد علماء نے کیوں بیان کی ہے؟ جبکہ شیعہ اصول کے مطابق قرآن کے خلاف کوئی روایت قبول نہیں کی جاتی۔
شیعہ عالم ابوھشام نے پہلے صورت اور علمی حیثیت پر تنقید کی۔ داڑھی کی اہمیت بتاتے ہوئے مجھے فاسق کہہ کر اپنے حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا۔
میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور تسلیم کیا کہ نہ صرف سنت بلکہ فرائض پر بھی عمل درآمد میں کوتاہیاں ہوتی ہیں اور بقول قرآن انسان سراسر خسارے میں ہے اور اپنی جانوں پر ظلم کرتا ہے۔
اس کے بعد یہ شکایت ختم کر کے ابو ھشام کو اصل اختلافی موضوع پر گفتگو کرنا تھی، لیکن اس کے بعد ابو ھشام اس فکر میں رہے کہ میں اہلِ تشیع کتب کے بارے میں کیا جانتا ہوں، شیعہ اصول حدیث کونسے ہیں۔ مجھے عربی آتی ہے کہ نہیں، اعراب کے ساتھ عربی پڑھ سکتا ہوں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ
قسط 1 میں ابوھشام کے لرزہ خیز اعترافات
1- قول معصوم کی تصحیح اور تحریف قرآن کا اقرار کرنے والے علماء کو ان کی ذاتی رائے قرار دے دیا، اور ان کی مذمت نہیں کی! یعنی اگر کوئی شیعہ قرآن میں تحریف کا قائل ہو تو کوئی مسئلہ نہیں، اس کی مرضی ہے جو چاہے سمجھتا رہے!!
2- اہل تشیع کے ہاں سند ثانوی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اصل اہمیت متن کی ہے ، سند ضعیف بھی قبول ہے ۔
قسط 1 میں ابو ھشام نے مندرجہ ذیل باتیں کہہ کر وقت ضائع کیا
ذاتی حملے اور فریق مخالف کی علمیت پر بار بار تنقید۔
کسی اور مناظرے کا قصہ۔د
فاع سے پہلے اہل سنت پر جوابی اعتراضات۔
قسط 1 میں شیعہ عالم کا اعتراض جس کا فورآ تحقیقی رد پیش کردیا گیا
بسم اللہ کی حیثیت پر علماء اہلِ سنت کا اختلاف تحریف قرآن ہے معاذاللہ (ابو ھشام)
بسم اللہ کی حیثیت پر علمائے اہلِ سنت کے باہمی اختلاف (ایک تحقیق)
سب سے پہلے اس مشہور اختلاف کو سمجھتے ہیں کہ علمائے اہل سنت کے درمیان یہ اختلاف اصل میں کیا ہے۔
سب سے پہلے یہ بات واضح ہو جائے کہ اہلِ سنت کے تمام علماء کرام اور اہل تشیع کے تمام علمائے کرام کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ
آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) قرآن پاک کی سورہ نمل کی ایک آیت ہے۔
اِنَّهٗ مِنۡ سُلَيۡمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسۡمِ اللّٰهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ سورت النمل آیت نمبر 30
اس کے علاوہ تمام مسالک کے تمام علمائے کرام کی ایک ہی رائے ہے کہ نبی کریم اور صحابہ کرام نے اللہ کی کتاب کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا۔
اس حقیقت سے اہلِ تشیع کا انکار اور بار بار صراحت سے یہ کہنا کہ امت کی اکثریت بسم اللہ کی منکر ہے، نہ صرف بدنیتی، بلکہ واضح طور پر تمام مسالک کے تمام علمائے کرام بشمول اہل تشیع علمائے کرام کی رائے کو بھی رد کرنا ہے۔
اب آتے ہیں اس مؤقف یا استدلال پر جو اہل تشیع عام طور پر پیش کر کے امت مسلمہ پر بہتان لگاتے ہیں کہ وہ تحریف قرآن کی قائل ہے۔ (معاذاللہ ثم معاذ اللہ)
بسم اللہ کی حیثیت پر علمائے اہلِ سنت کے بیچ یہ اختلاف ہرگز نہیں کہ بسم اللہ قرآن پاک کی آیت ہے یا نہیں، کیونکہ سورت نمل کی آیت 30 کا انکار کوئی بھی نہیں کرتا۔
بسم اللہ کی ہر سورت سے پہلے موجودگی
یہ بات بھی متفق علیہ فریقین ہے کہ قرآن پاک حفاظ کے ذریعہ اور تحریری صورت میں دور نبویﷺ سے آج تک ہر دور میں متواتر موجود رہا ہے۔ بسم اللہ بھی قرآن پاک میں ہر سورت سے پہلے لکھی اور پڑھی جاتی رہی ہے۔
یہاں تک یہ بات کلیئر ہوگئی کہ بسم اللہ بحیثیت آیت یا بحیثیت ہر سورت سے پہلے موجودگی کا منکر پوری امت مسلمہ میں کوئی بھی نہیں اور اس بنیاد پر امت کی اکثریت پر تحریفِ قرآن کا الزام لگانا خیانت کے سوا کچھ نہیں۔
بسم اللہ کے مسئلہ پر آخر اختلاف کس بات پر ہے ؟
جو بسم اللہ ہر سورت سے پہلے لکھی اور پڑھی جاتی ہے ، اس کی “حیثیت” کے متعلق علمائے کرام کی تین مختلف آراء ہیں۔
1- بسم اللہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے۔
2- بسم اللہ ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے یعنی ہر سورت کی پہلی آیت ہے۔
3- بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں،یعنی ایک سورت کو دوسری سورت سے جدا کرنے کے لئے نبی کریمﷺ نے لکھوائی ہے۔
ان تمام حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بسم اللہ کی حیثیت پر علمائے اہلِ سنت کے بیچ اختلاف رائے ہرگز ہرگز تحریف قرآن کے زمرے میں نہیں آتی۔
اس پر مزید دلائل بھی پیش کئے جاتے ہیں۔
ہر سورۃ کے آغاز میں بسم اللہ، اس سورۃ کا حصہ ہے یا نہیں ہے، اس سے قرآن کی ’’اصل حیثیت‘‘ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ الحمدلللہ قرآن پاک الحمد سے لے کر والناس تک اُسی صورت میں من و عن موجود ہے، جس طرح کہ یہ نازل ہوا تھا۔
ابتدا میں جب قرآنی مصحف کو تحریری صورت میں یکجا کیا گیا تھا تو نہ تو اس پر اعراب موجود تھے، نہ ہی ہر آیت پر نمبر شمار لگائے گئے تھے۔ بلکہ بعض اسکالرز کے مطابق تو ابتدائی نسخوں میں تو تمام حروف بھی ’’غیر منقوط‘‘ (بغیر نقطوں والے) تھے۔
زمانہ کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کو محفوظ کرنے کے لئے حفاظ کو یاد شدہ قرآن کے عین مطابق بعض حروف میں نقطے لگا کر غیر منقوط حروف سے الگ کردیا گیا تاکہ بعد میں آنے والے مسلمان قرآن کو اصل قرآت کے ساتھ پڑھ سکیں۔
اسی طرح یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن مین اعراب بھی بہت بعد میں لگائے گئے۔ لیکن ان اعراب کے لگانے سے قرآن کی اصل قرآت پر کوئی فرق نہین پڑا۔
یہی معاملہ آیات کے نمبر شمار کا ہے۔ جب قرآنی آیات پر نمبر شمار لگائی گئیں تو الگ الگ ادوار یا علاقوں میں تین مختلف طریقے اختیار کئے گئے۔
1- ایک میں ہر سورت کے آغاز میں لکھی ہوئی بسم اللہ کو بھی نمبر شمار دیا گیا۔
2- دوسری میں ایسا نہیں کیا گیا
3- تیسری میں یہ بھی اختلاف ہے کہ بعض لوگوں میں اس امر پر بھی اختلاف تھا کہ ایک آیت مقام الف پر ختم ہوتی ہے یا مقام ب پر ۔
اس طرح قرآن کے کل آیات کی تعداد بھی تین مختلف بیان کی جاتی ہیں۔ لیکن ان تین مختلف ’’کل نمبر شمار‘‘ کے باوجود قرآن پاک کا معجزہ ہے کہ ان سب مختلف نسخوں میں قرآنی آیات، الفاظ، بلکہ حروف تک سب میں یکساں ہیں۔
ان دلائل سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بسم اللہ کی ہر سورت سے پہلے موجودگی کا منکر کوئی بھی نہیں، بلکہ اس کو ہر سورت کا حصہ سمجھنا یعنی پہلی آیت، یا الگ سے مستقل آیت سمجھنا وغیرہ ہر دور میں موجب اختلاف بنا رہا۔
بسم اللہ کی حیثیت پر مختلف آراء ہونے کے باوجود یہ مسئلہ کبھی بھی اور کسی بھی دور میں تحریف قرآن نہیں سمجھا گیا اور نہ کبھی اس مسئلہ پر فتنہ یا فساد ہوا۔
میں نے اہلِ تشیع کی کئی تفاسیر بھی چیک کی ہیں اور کسی ایک میں بھی بسم اللہ پر اختلاف رائے کو تحریف قرآن نہیں بیان کیا گیا۔
قسط 1 میں ابوھشام کے دعوے جو آخر تک ثابت نہ کئے جا سکے
علمائے اہلِ سنت نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کر کے تحریف قرآن کو تسلیم کرتے ہیں۔
صحیحین میں ایسی روایات ہیں جو کھلم کھلا قرآن کی مخالفت میں ہیں
اہل سنت کے عقائد قرآن کریم کے خلاف بنائے گئے ہیں۔
تحریف قرآن قسط1 آڈیو