غیر پابندِ شرع کو مسجد کا متولّی بنانا
غیر پابندِ شرع کو مسجد کا متولّی بنانا
سوال: فاسق اور غیر پابند شرح کو مسجد کا متولی بنا سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: مسجد شعاںٔرِ اسلامی میں سے ہے، جو آدمی اسلامی شعاںٔر کا محافظ، شریعت کا پابند ہو، جس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت اور ڈر سے گھر لیا ہو، وہی اس کا محافظ اور متولّی بن سکتا ہے۔ جو شعاںٔرِ اسلام کا محافظ نہ ہو، شریعت کا پابند نہ ہو، نماز باجماعت کا پابند نہ ہو، فاسق ہو یعنی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو یا گناہ صغیرہ پر مصر ہو، شراب پینے کا عادی ہو، سود خور ہو وہ اللہ تعالیٰ کے گھر کا متولّی نہیں بن سکتا۔ فاسق اور بے دین کو اللہ تعالیٰ کے گھر کا محافظ بنانے میں مسجد، شعاںٔرِ دین، امام اور مؤذن کی نیز نمازیوں کی بھی توہین اور تحقیر لازم آتی ہے۔
چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: انما یعمر مسجد الله من امن بالله و الیوم الاخر و اقام الصلوة و اتى الزكوٰة و لم یخش الا الله (سورۃ توبہ 18)
بے شک اللہ تعالیٰ کے گھر کو آباد کرنے کا کام ان پاک لوگوں کا ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر ایمان لائے، نماز کی پابندی کرے، زکوٰۃ ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں مولانا ابوالکلامؒ لکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم نے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت گاہ کی تولیت کا حق متقی مسلمانوں کو پہنچتا ہے اور وہی اسے آباد رکھنے والے ہیں۔
یہاں سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ فاسق و فاجر مسجد کا متولّی نہیں ہو سکتا، کیونکہ دونوں (اللہ تعالیٰ کے گھر اور فاسق اور فاجر) میں کوئی مناسبت باقی نہیں رہتی بلکہ دونوں متضاد باتیں جمع ہو جاتی ہیں (وہ یہ کہ مسجد خدا پرستی کا مقام ہے اور فاسق و فاجر متولّی خدا پرستی سے خالی ہے).
فتاوٰی ابنِ تیمیہؒ میں ہے کہ نیک، دیندار، پرہیزگار متولّی ملنے کے باوجود فاسق (غیر پابندِ شرع) کو متولّی بنانا درست نہیں ہے.
حدیث شریف میں ہے کہ جو آدمی کسی اہم کام کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے حوالے کرے جبکہ جماعت میں کوئی ایسا آدمی موجود ہو جو اس سے زیادہ خدا کی رضامندی چاہنے والا ہو اللہ تعالیٰ کے احکام کی زیادہ پابندی کرنے والا ہو تو منتخب کرنے والے نے اللہ تعالیٰ کی خیانت کی اور اس کے رسول اللہﷺ کی خیانت کی اور تمام مسلمانوں کی خیانت کی۔
در مختار شامی وغیرہ میں ہے کہ جب متولّی میں شرعی اعذار اور قباحتیں پیدا ہو جائیں تو اسے عہدے سے برطرف کر دیا جائے جیسے غیر مامون ہو، عاجز ہو، فاسق و فاجر ہو یا اسے شراب نوشی کی عادت ہو گئی ہو، تو اسے تولیت سے ہٹا دینا ضروری ہے۔
(مسائل رفعت قاسمی مسائل مساجد، جلد 6 صفحہ 205/206)