Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 59

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 59

اس حدیث کو حضرت علی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

سمعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ نحن شَجَرَةً انا أَصْلُهَا وَفَاطِمَةُ نَوْمُهَا وَأَنْتَ لقاعھا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنَ ثمرْتُهَا وَ الشیعة ورقھا وَ كُلُهَا فِي الْجَنَّةِ (میں نے رسول اللّٰہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہم ایک ایسا درخت ہیں جس کی جڑ میں ہوں فاطمہ اس کی شاخ ، تم اس کے پھل حسن و حسین اس کے میوے اور شیعہ اس کے پتے ہیں۔ اور یہ پورا درخت جنت میں ہے، اسی مضمون کو کسی شیعی شاعر نے یوں نظم کیا ہے ۔

يا حَبَّذ شجرة في الخُلْدِنَا بَتۃ مَا مثلُهَا انَبَتَتْ فِي الْأَرْضِ مِن شجَرَ

وہ درخت جو جنت میں اُگا ہوا ہے کیا ہی اچھا ہے کہ زمین میں اس جیسا کوئی درخت نہیں اُگا۔ المصطفیٰ اصلُهَا وَالْفَرْعُ فَاطِمَةُ ثُمَّ اللقاح عَلى سَيِّدُ الْبَشَرِ

جس کی جڑ مصطفیٰﷺ ہیں تو فاطمہ رضی اللّٰه عنھا شاخ ، پھر پھل سید البشر علی ہیں ۔

وَالْهَا شِميَانِ سِبْطَاهُ لَهَا ثَمَرُ وَالشِّيْعَة الْوَرَقُ الْمُلتَفُ بِالشجر

پیغمبر کے دو ہاشمی نواسے اس کا میوہ ہیں اور شیعہ اس درخت کے لپٹے ہوئے پتے ۔

هذَا مَقَال رَسُولِ اللهِ جَاءَبہ أَهْلَ الرَّوَايَةِ فِي عَالِ مِنَ الْخَيْرِ

رسول اللّٰہ کا یہ وہ قول ہے جس کو بلند سند راویوں نے روایت کیا ہے۔

اني بحبھم أرجوا النجاة بھم وَالْفوز فِي زمرَةٍ مِنَ الفضل الزمم

میں ان کی محبت کے صدقہ نجات کی امید رکھتا ہوں اور کامیابی اسی جماعت کے لئے ہے جو سب جماعتوں سے افضل ہے ۔

اس روایت کے سلسلہ میں پہلی بات تو یہ کہ اس حدیث کی صحت پر کوئی قطعی دلیل نہیں۔ اور دلیل ہو بھی تو اس سے شیعوں کی مطلب برآری نہیں ہوتی ۔ اس لئے کہ یہ نام کے شیعہ نہیں بلکہ وہ اصلی شیعہ مراد ہیں جو در اصل اہل سنت تھے اور ابتدائے عہد میں جو شیعہ اولیٰ کے لقب سے مشہور تھے اس لئے کہ اس درخت سے لپٹے ہوئے پتے وہی تھے کہ باوجود حوادث کے جھگڑا اور آندھیاں بھی ان کو شہر نبوت سے جھاڑنے میں نا کام ہو گئیں۔ وہ جناب امیر کے سچے ساتھی اور خوشی و غمی کے جان نثار دوست اور رفیق تھے ۔

لیکن جب رافضیوں نے جو جناب امیر و اہل بیت کے دوست نما دشمن تھے یہ لقب ہتھیا لیا۔ تو اہل سنت نے اس سے دست برداری دیدی ( کیونکہ اس وقت یہ لقب لائق افتخار نہیں قابل مذمت بن گیا تھا۔ اس لئے کہ اس کے حاملین محبان و جان نثاراں اہل بیت نہیں تھے۔ سبائیوں کا ایک غول تھا جس پر امیر المؤمنین اور ائمہ کرام نے ہمیشہ لعنت بھیجی ۔

دار قطنی نے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰه عنہا سے روایت کی ہے کہ ۔

قَالَ رَسُول الله صلَى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلِي أَنتَ وَ شِيعَتِكَ فِي الْجَنَّةِ إِلَّا أَنَّ مِمَّنْ يَزعَمُ أَنَّهُ يُحِبُّكَ اقوام يُصَفرُونَ الْإِسْلَامَ يَلْفِظُونَهُ يَقْرَهُرْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِز تَرَاقيهِمْ لَهُمْ نَبْز يُقَالُ لَهُمُ الرَّافِضةُ فجاھدھم فانهُمْ مُشْرِكُرُونَ قَالَ عَلى يَا رَسُولَ اللهِ مَا الْعَلَامَةُ فِيهِم قَالَ لَا يَشْهَدُوَنَ جُمْعَةً وَلَا جَمَاعَةً وَيُطْعِنُونَ عَلَى السَّلَفِ۔

( حضورﷺ نے حضرت علی رضی اللّٰه عنہ سے فرمایا کہ تم اور تمہارے متبعین جنت میں جائیں گے۔ مگر ان میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو تمہاری محبت کے دعویدار تو ہوں گے مگر زبان سے اسلام کی توہین کریں گے۔ قرآن پڑھیں گے۔ مگر قرآن ان کے حلق سے نہیں اترے گا رافضی لقب سے وہ مشہور ہوں گے ایسے لوگوں سے تم جہاد کرنا کیونکہ وہ مشرک ہوں گے جناب علی کرم ﷲ۔ وجہہ نے دریافت کیا یا رسول اللّٰہﷺ ان کی ظاہری نشان کیا ہے ۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز جمعہ و جماعت میں حاضر نہیں ہوں گے۔ اور اسلاف پر لعن طعن کریں گے۔

افاضل اہل بیت جناب موسیٰ بن علی بن حسین بن ابی طالب (رضی اللّٰه عنہم) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ سے اور وہ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے، کہ ہمارے شیعہ وہ ہیں جنہوں نے ﷲ کی اطاعت کی اور ہمارے جیسے کام کئے۔