تحریف قرآن پر خیر طلب سے فیس بک پر مکالمہ
رانا مظہرتحریف قرآن پر خیر طلب سے فیس بک پر مکالمہ
ایک شیعہ عالم کے ساتھ عقیدہ تحریف پر ایک طویل بحث پیش خدمت ھے ،جس کا پس منظر یہ ہےکہ خیر طلب نامی شیعہ نے ایک پوسٹ پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ،جس پر میں نے جواب لکھا ،بس اس سے ایک بحث شروع ہوی ،پوری بحث خالص علمی پیرائے میں ھے ،یقیناً اس میں قاریین کے لیے خاصا علمی مواد ھو گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق کا راستہ دکھا دے ،اور صحابہؓ و اہل بیتؓ کے مسلک کا پیرو کار بنا دے۔ آمین
خیر طلب ایک اچھی کوشش ہے برادر۔ لیکن ہمیں عموماً اہلِسنت علماء سے یہ شکایت رہی ہے چاہے اس میں شاہ ولی اللہؒ ہو، شیخ احمد سرہندیؒ ہوں یا دیگر علماء اہلِسنت، انہوں نے تشیع کے موقف کو سمجھے بغیر، ان کے تراث علمی کی تنقیح کئے بغیر ہمیشہ اپنی کتب کو میزان بناکر شیعوں پر فتاوی بازی کی ہے۔ جدید محققین کو جب آپ پڑھیں تو اس چیز کا اندازہ ہوگا کہ انہوں نے جب غیر جانبدار ہوکر تراث تشیع کا مطالعہ کیا تو انہوں نے کافی تہمتوں کا رد کیا۔ جیسے تحریف قرآن کی بابت علامہ رحمت اللہ ہندی نے عیسائیوں کی رد میں جو کتاب لکھی اس میں واضح طور پر تشیع کے علماء کے اقوال نقل کئے جس میں عدم تحریف قرآن پر زور تھا۔ اس کا ترجمہ بھی حالیہ مفتی تقی عثمانی نے شائع کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ افغانی نے علوم قرآن پر کتاب لکھی اس میں بھی یہی بات ہے۔ اس حوالے سے علماء اہلِسنت کے طویل اقوال در رد بہتانات پیش کئے جاسکتے ہیں، لیکن کیا علامہ شاہ ولی اللہؒ و شیخ احمد سرہندیؒ کی کتب میں کہی آپ کو شیعہ کتب سے احتجاج بھی دکھا ہے؟ البتہ شاہ عبدالعزیز دھلویؒ نے اپنی تائیں کوشش کی، جس پر فی الحال اپنا تبصرہ کسی اور دن کے لئے محفوظ رکھتا ہوں۔ البتہ سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نام سے اس کتاب کو شائع کرنے کے بجائے 'غلام حلیم' نامی مجہول شخص کا نام کا کیوں انتخاب کیا؟
ان شاء اللہ آپ سے استفادہ جاری رہے گا، سلام علیکم
خیر طلب صاحب آپ کی بات بالکل درست ہے کہ کسی کی بات کی تنقیح کیے بغیر فتویٰ صادر نہیں کرنا چاہیے لیکن آپ بتایں جب آپ کے اکابر و اسلاف سے اتنی صراحت کے ساتھ تحریف کا اقرار مروی ہو تو اب اس میں ہم کیا تاویل کریں چند اقوال ملاحظہ ہو
۱۔7) أبو الحسن العاملي
قال في المقدمة الثانية لتفسير مرآة الأنوار ومشكاة الأسرار ص 36 (وهذا التفسير مقدمه لتفسير " البرهان " للبحراني ط دار الكتب العلمية - قم - ايران.
• ملاحظة : قامت دار الهادي - بيروت - في طباعة تفسير
قال في المقدمة الثانية لتفسير مرآة الأنوار ومشكاة الأسرار ص 36 (وهذا التفسير مقدمه لتفسير " البرهان " للبحراني ط دار الكتب العلمية - قم - ايران.
• ملاحظة : قامت دار الهادي - بيروت - في طباعة تفسير
قال في المقدمة الثانية لتفسير مرآة الأنوار ومشكاة الأسرار ص 36 (وهذا التفسير مقدمه لتفسير " البرهان " للبحراني ط دار الكتب العلمية - قم - ايران.
• ملاحظة : قامت دار الهادي - بيروت - في طباعة تفسير
قال في المقدمة الثانية لتفسير مرآة الأنوار ومشكاة الأسرار ص 36 (وهذا التفسير مقدمه لتفسير " البرهان " للبحراني ط دار الكتب العلمية - قم - ايران.
• ملاحظة : قامت دار الهادي - بيروت - في طباعة تفسير البرهان
" اعلم أن الحق الذي لا محيص عنه بحسب الأخبار المتواترة الآتية وغيرها ، أن هذا القرآن الذي في أيدينا قد وقع فيه بعد رسول صلى الله عليه وسلم شيء من التغييرات ، وأسقط الذين جمعوه بعده كثيرا من الكلمات والآيات ، وأن القرآن المحفوظ عما ذكر الموافق لما أنزله الله تعالى ، ما جمعه علي عليه السلام وحفظه الى أن وصل الى ابنه الحسن عليه السلام ، وهكذا إلى أن وصل إلى القائم عليه السلام ، وهو اليوم عنده صلوات الله عليه. ولهذا كما ورد صريحاً في حديث سنذكره لما أن كان الله عز وجل قد سبق في علمه الكامل صدور تلك الأعمال الشنيعة من المفسدي ۲۔ الفیض الکاشانیوأما اعتقاد مشايخنا رضي الله عنهم في ذلك فالظاهر من ثقة الإسلام محمد بن يعقوب الكليني طاب ثراه أنه كان يعتقد التحريف والنقصان في القرآن ، لأنه كان روى روايات في هذا المعنى في كتابه الكافي ، ولم يتعرض لقدح فيها ، مع أنه ذكر في أول الكتاب أنه كان يثق بما رواه فيه، وكذلك أستاذه علي بن إبراهيم القمي ـ رضي الله عنه ـ فإن تفسيره مملوء منه ، وله غلو فيه ، وكذلك الشيخ أحمد بن أبي طالب الطبرسي رضي الله عنه فإنه أيضا نسج على منوالهما في كتاب الإحتجاج ۳، یوسف البحرانی0) العلامة المحدث الشهير يوسف البحراني :
بعد أن ذكر الأخبار الدالة على تحريف القرآن في نظره قال :
بعد أن ذكر الأخبار الدالة على تحريف القرآن في نظره قال :
بعد أن ذكر الأخبار الدالة على تحريف القرآن في نظره قال :
بعد أن ذكر الأخبار الدالة على تحريف القرآن في نظره قال :
بعد أن ذكر الأخبار الدالة على تحريف القرآن في نظره قال :
بعد أن ذكر الأخبار الدالة على تحريف القرآن في نظره قال :
بعد أن ذكر الأخبار الدالة على تحريف القرآن في نظره قال :
بعد أن ذكر الأخبار الدالة على تحريف القرآن في نظره قال :
" لايخفى ما في هذه الأخبار من الدلاله الصريحه والمقاله الفصيحة على ما أخترناه ووضوح ما قلناه ولو تطرق الطعن إلى هذه الأخبار(أي الأخبار التي تطعن بالقرآن الكريم) على كثرتها وانتشارها لأمكن الطعن إلى أخبار الشريعه (أي شريعة مذهب الشيعة) كلها كما لايخفى إذ الاصول واحدة وكذا الطرق والرواة والمشايخ والنقله ولعمري ان القول بعدم التغيير والتبديل لا يخرج من حسن الظن بأئمة الجور( يقصد الصحابة رضوان الله عليهم) وأنهم لم يخونوا في الأمانة الكبرى(يقصد القرآن الكريم) مع ظهور خيانتهم في الأمانة الأخرى(يقصد امامه على رضي الله عنه ) التي هي أشد ضررا على الدين " - الدرر النجفيه للعلامه المحدث يوسف البحراني مؤسسة آل البيت لاحياء التراث ص 298۳۔ الطبرسیويزعم الطبرسي أن الله تعالى عندما ذكر قصص الجرائم في القرآن صرح بأسماء مرتكبيها ، لكن الصحابة حذفوا هذه الأسماء ، فبقيت القصص مكناة. يقول : (( إن الكناية عن أسماء أصحاب الجرائر العظيمة من المنافقين في القرآن ، ليست من فعله تعالى ، وإنها من فعل المغيرين والمبدلين الذين جعلوا القرآن عضين ، واعتاضوا الدنيا من الدين )) المصدر السابق 1/249.
یہ صرف چند نمونے ہیں اب آپ انصاف سے بتایں کہ ان صریح اقوال کی کیا توجیہ کی جائے، آپ کے مسلک والوں نے تو نوری الطبرسی کو بھی بڑے اعزاز کے ساتھ نجف اشرف میں دفن کیا اور اسے خاتم المحدثین کا لقب دیا حالانکہ وہ واضح صراحت کے ساتھ تحریف کے قائل تھے اور اس کے اثبات پر ضخیم کتاب لکھی۔
خير طلب :امید ہے آپ بخیر و عافیت سے ہوں گے۔ برادر محترم اگر واقعی بحث و مناظرہ کرنا ہو تو ہم حاضر ہیں البتہ فی الحال ان اعتراضات کے جوابات دینے سے پہلے ایک بات کی توضیح کرلوں
اول: کیا قرآن میں نقص یا زیادتی کا قائل جو اپنی تحقیق کے بعد ہوا ہو،، اس پر کفر کا فتویٰ لگانا چاہئے؟ کیا اہلسنت علماء کا اس پر تکفیر کرنے کا 'اجماع' ہے۔؟ شیخ ابن تیمیہ الحرانی کو ذھن میں رکھ کر جواب دیجئے گا
دوم: کیا ایک دو اشخاص کی آراء پورے مذہب کی متفقہ رائے تصور کی جاتی ہے، شیخ امداد اللہ مہاجر مکی کو ذہن میں رکھ کر جواب دیجئے گا۔
سوم: ان علماء اہلسنت محققین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جنہوں نے تشیع پر سے تحریف کے اتہام کو مردود قرار دیا۔ علامہ رحمت اللہ و افغانی کو ذہن میں رکھ کر جواب دیجئے گا۔
چہارم: ان شیعان حیدر کرار کے بارے میں آپ کا کیا فیصلہ ہے جو امت کے ساتھ عدم تحریف قرآن کے عقیدہ کو برحق سمجھتے ہیں۔ ان کی مساجد، لائبریری،گھر، اسکول میں وہی قرآن محترم و مقبول ہے جو بین الدفقین رائج ہے۔
پنجم: ان اکابرین و سلف کے بارے میں کیا کہنا ہے جو معوذتین کو محذوف مانتے یا سورہ حفد و سورہ خلع یا آیت رجم کو قرآن کا حصہ مانتے؟ جو قرآن میں بعض الفاظ کو کاتب کی غلطی قرار دیتے ہیں۔
خير طلب :محترم ان شاء اللہ ان سوالات کے جوابات کے تناظر میں ہم جلد آپ کی پیش کردہ تنقیحات کی طرف آئیں گے۔ محترم چونکہ مقصد مناظرے کا یا بحث کا مقصد صواب و حق کی نشاندہی ہوتا ہے۔ اس لئے روایتی مناظرہ بازی سے بالاتر ہوکر ہمیں مستفید کیجئے گا۔
ترم آپ کی مہذب سنجیدہ گفتگو سے میں بہت متاثر ھوا ،اور یقیناً ایسے مسائل کا سنجیدہ انداز میں ہی حل تلاش کرنا چاہیے کیونکہ مقصد شیعہ یا سنی ہونا نہیں ہے بلکہ ایک سچا مسلمان بننا ہے جو عقائد و اعمال میں آپﷺ کا متبع ہو۔ اب میں آپ کے امور خمسہ پر تبصرہ کرنا چاہوں گا۔
امر اول ۔قرآن پاک اللہ کی آخری نازل کردہ کتاب ہے اور سب کو پتہ ہے کہ اس کتاب کے بعد نہ کوئی وحی آئے گی اور نہ کوئی کتاب ، یہی اب قیامت تک انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے ۔اب جو بندہ اس میں کمی بیشی کا قائل ہوا تو آپ بتائیں کہ وہ اس کے ضمن میں کتنی باتوں کا قایل ہوا۔
¹۔اللہ کا آخری پیغام چونکہ مکمل محفوظ نہیں ہے اس لیے اس کے ذریعے انسانیت کے مکمل فلاح کا دعویٰ بے کار ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اہم ترین چیزیں غائب ہوگئی ہوں۔
²۔اللہ کو جب پتا تھا کہ یہ کتاب محفوظ نہیں رہ سکے گی تو پھر نبوت کا دروازہ کیوں بند کر دیا ؟
³۔اللہ نے انا لہ لحفظون میں اس کی حفاظت کا وعدہ کیا لیکن یہ تو محفوظ نہیں رہ سکا تو اب جو رب اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکا اسے رب ماننے کی حیثیت کیا ہو گی؟
⁴۔آپﷺ کو سب سے آخر میں مبعوث کیا گیا تاکہ آخری دین کو انسانیت تک سب سے احسن انداز میں پہنچائے لیکن آپﷺ تئیس برس میں کوئی ایسا آدمی تیار نہیں کر سکے جو کم از کم آپ کے دین کی بنیادی کتاب ہی کی حفاظت کر سکے تو پھر آپ کی تربیت و تبلیغ و رسالت کی افضلیت و کاملیت کا کیا جواز رہ سکے گا⁵
⁵۔ جب اس دین کے بنیادی مصدر کی حفاظت نہیں ہو سکی اور اس کے بانی کے اٹھتے ہی اس میں تبدیلیاں ہو گئیں تو اب تیرہ سو برس میں اس میں کتنی تبدیلیاں ہوئی ہونگی اس کا کیا کوئی شمار کر سکتا ہے ؟
محترم یہ اور اس جیسے بے شمار سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اگر ایک لمحے کے لیے بھی تبدیلی کا قول اپنایا اور اس دین کی جس حیثیت و افضلیت و کاملیت کا ہم دعویٰ کرتے نہیں تھکتے وہ خس و خاشاک ہو جائے گا ،اس لیے اس دین کی مجموعی حیثیت کو دیکھتے ہوئے قائل تحریف اور اسلام کو جمع کرنا کسی طرح سے ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں صرف اختصار ایک نص کی نہیں ایسے بے شمار نصوص کی تکذیب لازم آتی ہے ،جن کی طرف کچھ اوپر اشارہ ہو گیا ،لہٰذا اہلِ سنت و الجماعت کا بنیادی و اساسی اصول ہے کہ قرآن ہر قسم کی کمی بیشی سے پاک ہے اور وہ آدمی کافر ہے اور صریح نصوص کا مکذب ہے جو تعریف کا مدعی ہو ، یہی وجہ ہے اہلِ سنت کے علماء ہر اسی روایت کی تاویل کرتے ہیں جن سے تحریف کا وہم ہوتا ہو، باقی ابن تیمیہؒ کی کس عبارت اور فتویٰ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں اگر آپ اسے پیش کردیں تو اس وقت ہی اس سے متعلق کچھ عرض کیا جا سکتا ہے اس وقت تو شیخ کی کتاب الصارم المسلول کا یہ حوالہ پیش خدمت ہے۔
قال شيخ الإسلام ابن تيمية: وكذلك من زعم منهم أن القرآن نقص منه آيات وكتمت أو زعم أن له تأويلات باطنة تسقط الأعمال المشروعة ونحو ذلك، وهؤلاء يسمَّون القرامطة والباطنية، ومنهم التناسخية، وهؤلاء لا خلاف في كفرهم. انظر: الصارم المسلول. (3/ 1108 -1110).،باقی امور آئندہ کسی اور مجلس میں
ٹھیک ھے پھر میں صرف آپ کے کمنٹس کے جواب دینے کا پابند ہوں گا۔اب آپ کے امر دوم سے متعلق گزارشات :
آپ نے لکھا تھا: کیا ایک دو اشخاص کی آراء پورے مذہب کی متفقہ رائے تصور کی جاتی ہے، شیخ امداد اللہ مہاجر مکی کو ذہن میں رکھ کر جواب دیجئے گا۔ محترم یقینا ایک دو افراد کی آراء پورے مذہب کی متفقہ رائے نہیں سمجھی جاتی ، لیکن اولا کیا تحریف کے مدعی مذہب شیعہ میں سے صرف ایک دو افراد ہیں؟
کیا آپ اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں کہ تحریف کے مدعی صرف چند افراد ہیں ؟
صرف نوری نے دو درجن کے افراد ذکر کیے ہیں اور وہ سارے وہ افراد ہیں جن کی مدح سے کتب رجال بھری پڑی ہیں؟؟
ثانیا دستور یہ ہے کہ جب مذہب میں سے کچھ لوگ عمومی مسلک کے بنیادی اصولوں سے ہٹ کر رائے اختیار کریں تو مذہب کے علماء اس سے برأت ظاہر کرتے ہیں اس کے بارے میں گمراہی یا کفر کے فتاویٰ جاری کرتے ہیں ،آپ کو علم ہوگا کہ جب سر سید احمد خان نے قرآن کی صرف معنوی تحریف کا ارتکاب کیا تو علماء نے اپنے فتووں میں اس کا کیا حشر کیا؟
لیکن آپ پوری تاریخ شیعہ میں قائلین تحریف کے بارے میں اہل تشیع کی جانب سے کفر یا خطرناک گمراہی کا کوئی ایک فتویٰ دکھا سکتے ہیں ،کیا کبھی کیسی شیعہ عالم نے ان افراد سے براءت کا اعلان کیا ہے ؟
آپ کے مسلک والوں کا تو حال یہ ہے کہ نوری نے فصل الخطاب میں کتنے زور سے تحریف کی صداء بلند کی اور وہ تاریخ اسلام میں وہ واحد شخصیت ہے جس نے تحریف قرآن کا صرف عقیدہ اختیار نہیں کیا بلکہ اس کے اثبات پر ایک ضخیم کتاب لکھی (اگرچہ شیعہ تاریخ میں مزید کتب بھی لکھی گی لیکن بعض ہل تشیع کے انکار کی وجہ سے صرف اس کا ذکر کیا)لیکن اہل تشیع نے اسے کافر تو کجا گمراہ بھی نہیں کہا بلکہ اس کے بارے میں عباس القمی نے الکنی و الالقاب میں ، آغا بزرگ نے اعلام الشیعہ میں جو اوصاف ذکر کئے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے دیکھیں۔
(الشيخ الأجل ثقة الإسلام والمسلمين، مروج علوم الأنبياء والمرسلين والأئمة الطاهرين عليهم السلام، الثقة الجليل، العالم الكامل، النبيل المتبحر الخبير، المحدث الناقد البصير، المدقق، المنقب، ناشر الآثار، وجامع شمل الأخبار، صاحب التصانيف الكثيرة والمؤلفات الشهيرة والعلوم الغزيرة، الباهر بالرواية والرافع لخميس المكارم أعظم راية، وهو أشهر من أن يذكر، أما علمه فأحسن فنه الحديث، وعلم الرجال، والإحاطة بالأقوال وشدة تبحره في العلوم والأخبار والسنن والآثار)
بلکہ مردود کے مرنے کے بعد اسے بڑے اعزاز سے نجف اشرف میں دفن کیا جسے اشرف البقاع کیا گی۔
ثالثا جن افراد نے تحریف کا دعویٰ کیا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ صرف میری ذاتی اور انفرادی رائے ہے بلکہ انہوں نے اسے پورے مذہب شیعہ کی طرف منسوب کیا یہ دیکھیں آپ کے دو بڑے محقق کیا کہتے ہیں
²۔گیارہویں صدی کے معروف شیعہ محقق و مفسر ابو جعفر محمد بن الحسن الحر العاملی جنہیں شیعہ علماء افضل المتبحرین و شیخ المحدثین کے لقب سے یاد کرتے ہیں،اپنی تفسیر مراۃالانوارو مشکاۃ الاسرار"
کے مقدمے میں تحریف قرآن کے مسئلے پر مفصل بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وعندی فی وضوح صحۃ ہذالقول بعد تتبع الاخباروتفحص الاثاربحیث یمکن الحکم بکونہ من ضروریات مذہب التشیع و انہ من اکبر مفاسد غصب الخلافۃ(۴) صحفہ ۴۹
ترجمہ:میرے نزدیک آثار و روایات کے تتبع و جستجو کے بعد اس قول (تحریف قرآن )کی وضاحت وصحت اس درجے میں ہے کہ یہ شیعہ مذہب کی ضروریات میں شمار ہوتا ہے اور خلافت کو غصب کرنے کے مفاسد میں سے یہ سب سے بڑا مفسدہ ہے (کہ قرآن پاک میں تحریف ہوگئی)
³۔بارہویں صدی کے مشہور شیعہ عالم یوسف البحرانی اپنی معروف و ضخیم کتاب جملۃ من مشائخنا المتقدمین والمتاخرین(۵)۱۰۳
۔محترم پہلے ان دو ’’حدائق الناظرہ فی احکام العترۃ الطاہرۃ‘‘
میں لکھتے ہیں:
ثم اقول مما یدفعوہ ایضاً استفاضۃ الاخباربالتغییر و التبدیل فی جملۃ من الایات من کلمۃباخری زیادۃعلی الاخبار المتکاثرہ بقوع النقص فی القرآن و الحذف منہ کما ھو مذہ مور
پر جو گزارشات میں نے پیشکیں آپ اگر اب ان پر تبصرہ کریں تو پھر اگے امر کی طرف بڑھیں گے
امر سوم آپ نے لکھا ہے کہ جن علماء اہلِ سنت نے شیعہ سے عقیدہ تحریف کے اتہام کو دور کیا ان کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے ،تو عرض یہ ہے کہ دنیا کا اصول ہے کہ ہر میدان کے شاہسوار الگ الگ ھوتے ہیں ،تو دراصل اس میں یہ دیکھنا چاہیے کہ جو علماء اس کے منکر ہیں وہ کس میدان کے فرد ہیں ؟
کیا تردید شیعییت ان کا مشن تھا یا وہ دراصل دوسرے میدوانوں کے آدمی تھے؟
تو سامنے یہ بات آتی ہے کہ یہ عموماً ان علماء کا قول ہے جن کا اصل موضوع شیعیت نہیں تھا ، چنانچہ رحمت اللہ کیرانوی صاحب عسائیت کی تردید کے آدمی تھے ،جب کہ شمس الحق صاحب کا بھی اصلی موضوع تردید شیعیت نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ جب مولانا تونسوی صاحب نے افغانی صاحب کو اس عقیدے کی تفصیلات سے اگاہ کیا تو افغانی صاحب نے اس سے رجوع کیا (بحوالہ نقوش زندگی سوانح حضرت تونسوی)اس لئے اس حوالے سے ان علماء کی بات معتبر ہوگی جن کا موضوع شیعیت تھا ، جسیے حضرت لکھنوی ، حضرت قاضی مظہر حسین وغیرہ،لہٰذا ہم ان علماء کے انکار کو قلت تتبع کتب شیعیت پر محمول کرتے ہیں ، اور لکل فن رجال اس معاملے میں ان افراد کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہیں ،جنہوں نے پوری زندگی کتب شیعہ کی ورق گردانی میں گزاری۔
امر چہارم ،آپ نے لکھا تھا
چہارم: ان شیعان حیدر کرار کے بارے میں آپ کا کیا فیصلہ ہے جو امت کے ساتھ عدم تحریف قرآن کے عقیدہ کو برحق سمجھتے ہیں۔ ان کی مساجد، لائبریری،گھر، اسکول میں وہی قرآن محترم و مقبول ہے جو بین الدفقین رائج ہے۔
وہ شیعہ حضرات جو عدم تحریف کے مدعی ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پم قرآن پاک میں کسی قسم کی تحریف کے قایل نہیں ہیں،وہ اس بارے میں چند وضاحتیں کریں
:اولاً عدم تحریف کا عقیدہ شیعہ مذہب کی ضروریات مسلک میں سے ہے ، اور کیا ایک قطعی و ضروری عقیدہ ہے؟
ثانیاً جو لوگ تحریف کے قائل ہیں ، تو ان کا حکم کیا ہے ،کافر ہیں یا نہیں؟
ثالثاً یہ بات متفقہ ہے کہ اس وقت جو قرآن پاک امت میں رائج ہے ،اس کا اولین نقش حضرت ابوبکرؓ کاجمع کردہ ہے اور ثانی اور آخری نقش حضرت عثمان کا جمع کردہ ہے ،تو ان جامعین قرآن کا کیا حکم ہے ،آپ کے مذہب کے مطابق تو وہ کا کافر ہیں،چنانچہ مجلسی لکھتے ہیں ::
الاخبار الدالة على كفر أبي بكر وعمر وأضرابهما وثواب لعنهم والبراءة منهم، وما يتضمن بدعهم أكثر من أن يذكر في هذا المجلد أو في مجلدات شتى،(بحار)
توکیا یہ ممکن ہیں کہ یہ حضرات جب کافر تھے اور انہوں نے امامت سے متعلق نصوص بھی چھپاے تو انہوں نے قرآن پاک میں ایک حرف کی کمی بیشی کییے بغیر مکمل جمع کیا؟نیز یہ بات عقل سے بھی بعید ہے کہ ایک آدمی ہر اعتبار سے آپﷺ کے دین کا دشمن ہو لیکن اس دین کے بنیادی مصدر کی حفاظت کا نہ صرف اہتمام کرے ،بلکہ اسے بلا کسی تبدیلی کے جمع بھی کرے ؟
رابعاً جن لوگوں نے یہ عقیدہ پورے مذہب تشیع کی طرف منسوب کیا ،ان کے اس قول کی حقیقت کیا ہے ؟وہ مدعی تھے کہ قرآن پاک میں کمی بیشی شیعہ مذہب کا عقیدہ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ عدم تحریف شیعہ مذہب کا عقیدہ ہے تو اس عظیم تعارض و تناقض کا حل پیش کردیں؟
خامساً قرآن پاک پڑھنے کے باوجود آپ کے مسلک میں قرآن پاک کے ظواہر کی کوئی حیثیت نہیں ہے چنانچہ آپ کے اصول کی کتب میں لکھا ھے:
ومن المعلوم ضرورة من مذهبنا تقديم نص الامام، عليه السلام، على ظاهر القرآن، كما أن المعلوم ضرورة من مذهبهم العكس.
تو قرآن اپک کی عدم تحریف کا عقیدہ اختیار کرنے کے بوجود تم نے اسے وہ حیثیت نہیں دی اور اس پر قول امام کو حاکم بنا دیا تو ماننے کا کیا فائدہ؟
امر پنجم آپ نے لکھا تھا
پنجم: ان اکابرین و سلف کے بارے میں کیا کہنا ہے جو معوذتین کو محذوف مانتے یا سورہ حفد و سورہ خلع یا آیت ،محترم رجم کو قرآن کا حصہ مانتے؟ جو قرآن میں بعض الفاظ کو کاتب کی غلطی قرار دیتے۔
میں اس امر پر خود گفتگو کرنے والا تھا یہاں دو باتیں الگ الگ اہیں انہیں خلط نہیں کرنا چاھیے:
¹۔ایسی روایات جن کے ظاہری مفہوم سے یہ لگتا ہے کہ شاید قرآن پاک میں کچھ رد وبدل ھوی ہے یا کچھ حصہ اختلافی ہے ۔
²۔ان روایات کو صحیح و صریح جانتے ہوئے یہ مؤقف اپنانا کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے اور تحریف کا قول اپنانا تو اس سلسلے میں چند باتیں پیش خدمت ہیں
¹۔جب ہم اہلِ تشیع کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ تحریف کے قایل ہیں تو ہمارا مقصد صرف یہ نہیں ہوتا کہ ان کی کتب میں روایات تحریف ہیں ،بلکہ مقصد یہ ھوتا ہے کہ اہل تشیع کے ایک بڑے اور معتبر طبقے نے تحریف کا قول اپنایا اور اس پر ان کی صریح عبارات ہیں ،اس لیے اگر اہل تشیع ہم پر تحریف کا الزام لگاتے ہیں تو انہیں بھی اہل سنت کے ایسے معتبر علماء دکھانے ھونگے جنہوں نے روایات موھمہ تحریف کو صریح سمجھ کر تحریف کا قول اپنایا ،لیکن افسوس ہے اس سلسلے میں جتنی اہل تشیع کی طرف سے کتب لکھی گی ان میں ایسی روایات کا ایک انبار ہے ،جن کو وہ روایات تحریف سمجھتے ہیں (حلانکہ ان روایات سے آج تک کسی معتبر اہلِ سنت عالم نے تحریف اخز نہیں کی البتہ مستشرقین نے تحریف اخز کی تھی اور اب شیعہ مستشرقین کی تحقیقات کی اتباع میں تحریف اخز کر رھے ہیں )،جسیے آپ نے بھی روایات کا ذکر کیا ،لیکن کسی اہل سنت سے تحریف کا قول نہیں ذکر نہیں کر سکے۔
²۔ہر مذہب کے اپنے اصول ھوتے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ کوئی ان اصولوں کو صحیح نہیں سمجھتا)ان اصولوں کی روشنی میں ان کی کتب کو سمجھنا چاھییے ،جو بھی روایات اس سلسلے میں ہماری کتب میں نقل ہوی ہیں ،ان سب کو اہل سنت علماء نے اپنے محمل پر محمول کیا ،مثلا نسخ ،اختلاف قراءت ،رسم مصحف ،و کذب روات ،تو اہلِ سنت کے ان علماء کی تاویلات و جوابات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ راگ اپنا نا کہ اہلِ سنت تحریف کے قایل ہیں ،تحقیق کے منافی بات ہے۔
³۔اگر آپ یہ کہیں کہ ہم نے بھی روایات تحریف کی تاویلات کی ہیں ،تو عرض یہ کہ چند ایک نے تاویلات کی ہونگی لیکن ہر کسی نے نہیں کی ،جیسے الکلینی نے ایک باب باندھا ہے
العنوان : باب انه لم يجمع القرآن كله الا الائمة عليهم السلام وانهم يعلمون علمه كله
اب آپ اس کی تشریح اور اس کا مقصد خود الکافی کے شارح مجلسی کی زبانی دیکھیں
و ذهب الكليني و الشيخ المفيد قدس الله روحهما و جماعة إلى أن جميع القرآن عند الأئمة عليهم السلام، و ما في المصاحف بعضه، و جمع أمير المؤمنين صلوات الله عليه كما أنزل بعد الرسول صلى الله عليه و آله و سلم و أخرج إلى الصحابة المنافقين فلم يقبلوا منه،آگے شیخ مفید کی عبارت نقل کرتے ہیں قال شيخنا السديد المفيد روح الله روحه في جواب المسائل السروية أن الذي بين الدفتين من القرآن جميعه كلام الله و تنزيله، و ليس فيه شي ء من كلام البشر و هو جمهور المنزل، و الباقي مما أنزله الله تعالى قرآنا عند المستحفظ للشريعة المستودع للأحكام، لم يضع منه شي ء
اب اپ سے سوال ہے کہ جن روایات کو آپ نے نقل کیا کیا آپ کسی اہل سنت کی زبانی تحریف کی ایسی تصریح دکھا سکتے ہیں ؟
خير طلب : تمام برادران و خواہرانِ اسلام کو السلام علیکم۔ امید ہیں آپ تمام بخیر و عافیت سے ہوں گے، تحیاتی للاخ العزیز سمیع اللہ جان۔ ان شاء اللہ ہم کوشش کریں گے کہ اس شائستگی سے بحث کریں کہ پڑھنے والے اور دونوں متخاصمین کو پڑھنے میں بھی لطف آئے۔ آپ تمام سے دعاؤں کی گذارش ہیں کہ خدا جو صراط مستقیم پر نہیں اسے کامل ہدایت نصیب فرمائے اور جو اس صراط پر ہے اس کو ثابت قدم رکھے، آمین یا رب العالمین۔
اب ہم فاضل محترم کے جملہ اشکالات و تنقیحات کو نقل کرتے ہیں اور اس پر اپنا تبصرہ نقل کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ
عزیزی چونکہ آپ عربی کو جانتے ہیں، اس لئے آپ سے گذارش کروں گا کہ شیعہ مکتب کا مسلک کامل سمجھنے کے لئے ایک دو کتب تو کافی نہ ہوں گی لیکن پھر بھی ذوق طبعیت کے لئے بعض اہم کتب کی طرف متوجہ کروں گا جو فائدے سے خالی نہیں۔ چنانچہ درج ذیل کتب کا اگر مطالعہ کرسکیں تو ضرور کریں
إعلام الخلف بمن قال بتحريف القرآن من أعلام السلف
صيانة القرآن من التحريف -
عدم تحريف القرآن
لنک
اس کے علاوہ اردو قارئین علامہ سید علی نقی نقوی جن کی تصویر میری پروفائل پر لگی ہوئی ہے، ان کی ایک مختصر اور جامع کتاب سے مستفید ہوسکتے ہیں
لنک
ان تمام کتب سے اگر استفادہ نہ کرسکیں تو ہم نے جو تفاسیر لکھی ہیں اس کے مقدمہ میں جو ابحاث موجود ہیں اس کا مطالعہ کریں بالخصوص متاخر علماء کیں۔ چونکہ ہمارا تعلق برصغیر سے ہے اور اردو ہماری زبان ہے اس لئے فقط دو تفاسیر کی طرف اشارہ کروں گا:
علامہ حسین بخش جاڑا کی تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف جو پندرہ جلدوں پر ہے اس کی پہلی جلد کا لنک یہ رہا
لنک
علامہ سید علی نقی نقوی مجتہد فی عصرہ کی تفسیر 'فصل الخطاب' ہے اس کا لنک فی الحال میرے پاس نہیں لیکن اس کا مقدمہ بہترین ہے۔ یہ کتاب بندہ احقر کے پاس گھر میں موجود ہے اس لئے اگر ثقہ سمجھیں تو یقین کرلیں ورنہ انتظار کرلیں کہ یہ ویب سائٹ پر آپلوڈ ہوجائے تو پھر استفادے میں آسانی ہو۔
تمام برادارن و خواہران سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ اگر واقعی مقصد احقاق حق و تحقیق حق ہے تو ہمارے نقطہ نظر ہمارے منہ و قلم سے سنیں تو بہتر ہے کیونکہ استاد/مناظر/علامہ وغیرھم کی غلطیوں کا احساس عموما جب ہوتا ہے جب بندہ دوسروں کی بھی سنتا ہے اور پھر عقل و خرد کا استعمال کرکے فیصلہ کرتا ہے
إعلام الخَلف بمن قال بتحريف القرآن من أعلام السّلف
فصل الأول : الشيعة الإمامية وتحريف القرآن - فصل الثاني : أهل السنة وتحريف القرآن - الفصل الثالث : الله عز وجل صان القرآن على يد الشيعة
اب ہم دوسرے نکتہ کی طرف آتے ہیں اور بالترتیب دو ایسے حوالے جات پیش کرتے ہیں جو ضیافت طبع کے لئے کافی اہم ہوں گے اور اسی حوالے جات نقل کرنے میں بعض ضمنی باتوں کا بھی جواب آ جائے گا۔
محترم میرے پیش نظر
'النقد التحلیلی لکتاب فی الادب الجاھلی'
جو ہمارے سلفی براداران یعنی وہ حضرات جن کا سلسلہ محمد بن عبدالوھاب نجدی سے ملتا ہے اور جن کے عقائد کو علامہ رشید احمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ میں عمدہ لکھے ہیں، ان کے مکتب سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کے مصنف 'محمد احمد الغمراوی' ہے اور اس کے مقدمہ کو علامہ مشرق 'امیر شکیب ارسلان' ہے۔ چنانچہ وہ مقدمہ میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں
وان بعض الغلاة من الشيعة لا جمهورهم يزعمون ان القران الكريم ايضا حذف منه و اضيف اليه
یعنی شیعوں میں سے بعض حد سے بڑھ جانے والے افراد نے نہ کہ جمہور نے قرآن کریم میں نقصان اور زیادتی کا دعوی کیا ہے-
حوالہ: النقد التحلیلی لکتاب فی الادب الجاھلی، مقدمہ، ص لا، طبع سلفیہ، قاہرہ، ۱۳۴۸ ہجری۔
تبصرہ: ہم علامہ شکیب ارسلان کی رائے سے من حیث الکل متفق نہیں لیکن استدلال کے لئے نقل کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ جمہور کا عقیدہ بالکل مختلف ہے اس عقیدے سے جو پورے مکتب سے منسوب کیا جاتا ہے-
دوسری شہادت شیخ ازھر کے مشہور استاد شیخ محمد غزالی کی ہے جو یوں گویا ہوتے ہے:
[ سمعت واحداً من هؤلاء يقول في مجلس علم: إنّ للشيعة قرآنا آخر يزيد وينقص عن قرآننا المعروف فقلت له: أين هذا القرآن ؟ إنّ العالم الإسلامي الذي امتدّت رقعته في ثلاث قارات ظلّ منذ بعثة محمد (ص) الى يومنا هذا بعد أن سلخ من عمر الزمن أربعة عشر قرناً لا يعرف إلا مصحفاً واحداً مضبوط البداية والنهاية، معدود السور والآيات والالفاظ، فأين هذا القرآن الآخر ؟! ولماذا لم يطّلع الإنس والجن على نسخة منه خلال هذا الزمن الطويل ؟! لماذا هذا الافتراء ؟ ولحساب من تفتعل هذه الاشاعات وتلقى بين الأغرار ليسوء ظنّهم باخوانهم وقد يسوء ظنّهم بكتابهم.إنّ المصحف واحد يطبع في القاهرة فيقدسه الشيعة في النجف أو في طهران ويتداولون نسخه بين أيديهم وفي بيوتهم دون أن يخطر ببالهم شيء البتة، إلا توقير الكتاب ومنزّله - جل شأنه - ومبلّغه (ص)، فلم الكذب على الناس وعلى الوحي ... ؟ ومن هؤلاء الأفاكين من روّج أن الشيعة أتباع علي ، وان السنيين اتباع محمد ، وأن الشيعة يرون عليا أحق بالرسالة ، أو أنها أخطأته الى غيره ! وهذا لغو قبيح وتزوير شائن
چونکہ برادر محترم آپ عربی سے واقف ہیں اس لئے آپ کے گوش گذار کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن قارئین کے فہم کے لئے ہم اس کا خلاصہ پیش کر دیتے ہیں کہ علامہ محمد غزالی نے ایک محفل میں یہ سنا کہ شیعہ قرآن میں زیادتی و نقصان کے قائل ہے تو اس کے جواب میں شیخ غزالی گویا ہوئے کہ پھر وہ قرآن کہاں؟ جب کہ عالم اسلام میں چودہ سو سال سے فقط ایک مضبوط مصحف واحد کی طرف مراجعت ہوتی جس کے سورے و آیات معیین ہیں، اور اگر وہ دوسرا مصحف موجود بھی ہے تو انسان و جن اس سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟ بھلا اس کذب و جھوٹ و افترا کا کیا مقصد کہ شیعوں کا الگ قرآن ہے؟ یہی وہ قرآن ہے جو طہران، نجف قاہرہ ہر جگہ ایک جیسا ہی ملے گا۔ اور ایسی بات کرکے لوگ وحی الہٰی پر کذب منسوب کرنے میں بھی نہیں ڈرتے الی الاخر کلامہ۔۔۔۔
حوالہ: دفاع عن العقيدة والشريعة ضد مطاعن المستشرقين، ص ۲۱۹-۲۲۰، طبع دار نهضة مصر، ۲۰۰۵ الطبعة السابعة
لنک
لنک
لنک
عزیزی یہ کلام جمیل واقعی بہت ساروں کے لئے مشعل راہ ہے۔ ہمارے پاس علماء برصغیر کی مزید حوالے جات ہیں لیکن فی الحال ان دو پر اکتفاء کرتے ہیں اور اکثریت کے عقیدے تحریف و دیگر موضوعات کے ابطال کے لئے یہ کافی ہے۔
محترم اب ہماری پچھلی پوسٹ سے مربوط ہی ایک اعتراض جو آپ نے کیا اس کا جواب ملاحظہ ہو:
دنیا کا اصول ہے کہ ہر میدان کے شاہسوار الگ الگ ہوتے ہیں ،تو دراصل اس میں یہ دیکھنا چاہیے کہ جو علماء اس کے منکر ہیں وہ کس میدان کے فرد ہیں؟ کیا تردید شیعییت ان کا مشن تھا یا وہ دراصل دوسرے میدانوں کے آدمی تھے؟
عزیزی میٹھا میٹھا ہپ اور پیکھا پیکھا تھو والی مثال صادق ہے۔ محترم انہوں نے سرسری طور پر نہیں لکھا بلکہ اس کے پیچھے علمائے امامیہ کی رائے کو نقل کیا ہے، جو تحقیق پر دال ہے۔ ہم کوئی حوالہ ہوا میں تیر چلانے کے طریق پر نہیں دیتے بلکہ تحقیق و صفحات کے تصفح کے بعد دیتے ہیں، ہماری پیش نظر وہ کتب ہیں۔ غلام دستگیر قصوری جن کی تعریف 'مجلس ختم نبوت' کے علامہ اللہ وسایا صاحب نے کی ہے، وہ بھی تشیع سے اس عقیدے کی نفی کرتے ہیں۔ علامہ رحمت اللہ کیانوی بھی اس عقیدے کی تشیع سے نفی کرتے ہیں، حوالے جات کی کثرت ہیں ہمارے پاس، بس ذوق تحقیق ہونا چاہئے، اس کے علاوہ علاوہ عبدالستار تونسوی، علامہ عبدالشکور لکھنوی، علامہ قاضی مظہر حسین، علامہ یوسف لدھیانوی کی کتب بندہ احقر نے پڑھیں ہیں۔ اول ذکر کا مناظرہ باگڑسرگانہ بنظر عمیق بندے احقر کی نظر سے گذرا ہے۔ دوم الذکر کے کم سے کم ۵ سے اوپر رسالے پڑھے ہیں جس میں مطلقا یا جزوی طور پر تحریف پر بات ہوتی جس میں اقامتہ الرھان اور علامہ سید علی حائری کے رد میں رسالہ قابل ذکر ہیں، سوم الذکر علامہ صاحب کے بہت چھوٹے اور ضخیم کتب بندہ احقر نے پڑھے ہیں جس میں اتحادی فتنہ، اور سنی مذھب حق ہے قابل ذکر ہیں جن میں مبحث تحریف بھی ہے، اور علامہ یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم جو نئی طباعت کے ساتھ بنوری ٹاون سے بندہ احقر لایا تھا 'روشن حقائق' کے نام سے غالبا۔ اس کے علاوہ علامہ منظور نعمانی مدیر الفرقان کی 'ایرانی انقلاب'، علامہ عبدالغفور ندیم، علامہ فلان و فلان۔۔۔۔ طویل لسٹ ہوجائے گی۔ ان تمام رسائل کو پڑھا ہے لیکن مع الاسف شدید ان میں تعصب بہت ہیں۔ آپ کے احترام کی خاطر فی الحال ہم نے ان کے دئے ہوئے مال استدلال پر بحث نہیں کرتے لیکن جہاں یہ حضرات ہیں تو وہاں مفتی شفیع، مفتی تقی عثمانی و دیگر علماء اہلسنت نے تشیع پر تکفیر سے پہلو تہی کی ہے اگرچہ وہ اس عقیدے تحریف القرآن کو جانتے تھے، تو دو صورت میں سے ایک ہے کہ آیا ان کے نزدیک تحریف قرآن کا قائل کافر نہیں جو ممتنع لگتی ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان کے نزدیک تشیع سے تحریف ثابت نہیں جو ممکن لگتی ہے۔ خیر اللہ بہتر جانے۔ برادر محترم کسی کو کافر قرار دینا اول یہ بڑی جسارت ہے، بندہ احقر آج کل اصول تکفیر پر ایک چترال کے دیوبند عالم دین کی کتاب سے استفادہ کررہا ہے انہوں نے اس روش کی اتنی نفی کی ہے جس کی کوئی حد نہیں اور اصول تکفیر کے اصول و قوانین کے تحت بہت ساری باتوں پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ یقینا اس کو پڑھ کر احساس ہوا کہ یہ مناظرین و شہسواران میدان تو ایک طرف خود افتاء و مفتیان کی حالت قابل رحم ہے، اگرچہ ان میں سے کافیوں نے تشیع کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا۔
برادر ویسے تردید مذاھب باطلہ اگر معیار میزان تحقیق و افتاء ہے تو اس اصول کے مطابق علامہ امین صفدر اوکاڑوی، علامہ الیاس گھمن، علامہ اسماعیل محمدی، علامہ عابد، علامہ ابوبکر غازی پوری کے نزدیک غیر مقلد یعنی اہلحدیث چھوٹے رافضی ہیں تو اس فتوے کے صغری کبری ملا لیجئے اور ان ہر بھی فتویٰ تکفیر لگا دیں۔ اسی طرح تردید بریلویت شہسوار علامہ حماد نقشبندی وغیرہ کے نزدیک تو بعض علماء بریلوی قطعی طور پر کافر تھے۔ چنانچہ اس فتوے کو بھی مان لیں۔ اب آج کل مماتیت کی نفی میں حیاتی علماء اہلسنت بڑھ چڑھ کر ان کو معتزلی، منکر حدیث واللہ اعلم کیا کیا فتاوے دے رہے ہیں چنانچہ ان شہسواران تردید کے نزدیک بعید نہیں یہ بھی کافر ہو تو باقی مسلمان کون بچے گا۔۔۔ فقط و فقط دیوبندی حضرات۔ خیر یہ بڑا کج اصول وضع کیا ہے۔
رادر اب ایک اہم بات کی طرف توجہ کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے ہاں شیخ الاسلام علامہ تقی الدین ابن تیمیہ الحرانی کا قول آپ کے سامنے پیش کریں۔ جو تحریف قرآن کے معتقدین کے بارے میں حد فاصل ہے- سردست یہ بتاتے چلیں کہ اس تحریف قرآن کی بعض صورتوں کے قائل کو خطاء سے تعبیر کیا گیا ہے-
چنانچہ علامہ ابن تیمیہ رقم طراز ہے:
وَكَانَ الْقَاضِي شريح يُنْكِرُ قِرَاءَةَ مَنْ قَرَأَ: {بَلْ عَجِبْتَ} وَيَقُولُ: إنَّ اللَّهَ لَا يَعْجَبُ؛ فَبَلَغَ ذَلِكَ إبْرَاهِيمَ النَّخَعِي فَقَالَ: إنَّمَا شريح شَاعِر يُعْجِبُهُ عِلْمُهُ. كَانَ عَبْد اللَّه أُفُقه مِنْهُ فَكَانَ يَقُولُ: {بَلْ عَجِبْتَ} فَهَذَا قَدْ أَنْكَرَ قِرَاءَةً ثَابِتَةً وَأَنْكَرَ صِفَةً دَلَّ عَلَيْهَا الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَاتَّفَقَتْ الْأُمَّةُ عَلَى أَنَّهُ إمَامٌ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَكَذَلِكَ بَعْضُ السَّلَفِ أَنْكَرَ بَعْضُهُمْ حُرُوفَ الْقُرْآنِ مِثْلَ إنْكَارِ بَعْضِهِمْ قَوْلَهُ: {أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا} وَقَالَ: إنَّمَا هِيَ: أو لَمْ يَتَبَيَّنْ الَّذِينَ آمَنُوا وَإِنْكَارِ الْآخَرِ قِرَاءَةَ قَوْلِهِ: {وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إلَّا إيَّاهُ} وَقَالَ: إنَّمَا هِيَ: وَوَصَّى رَبُّك. وَبَعْضُهُمْ كَانَ حَذَفَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ وَآخَرُ يَكْتُبُ سُورَةَ الْقُنُوتِ. وَهَذَا خَطَأٌ مَعْلُومٌ بِالْإِجْمَاعِ وَالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ وَمَعَ هَذَا فَلَمَّا لَمْ يَكُنْ قَدْ تَوَاتَرَ النَّقْلُ عِنْدَهُمْ بِذَلِكَ لَمْ يُكَفَّرُوا وَإِنْ كَانَ يَكْفُرُ بِذَلِكَ مَنْ قَامَتْ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ بِالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ.
قاضی شریح قرآن مجید کی اس آیت بَلْ عَجِبْتَ کی قرات کا انکار کرتے اور کہتے کہ بتحقیق خدا کبھی تعجب نہیں کرتا، جب یہ بات علامہ ابراھیم النخعی کو پہنچی تو انہوں نے کہا کہ شریح ایک شاعر اور اس کے علم نے اس کو معجب کردیا ہے، درحالآنکہ عبداللہ ان سے زیادہ علم و فہم والے ہے جو بل عجبت کی قرات کیا کرتے تھے۔ پس اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جو ثابت شدہ قرات تھی اور جو صفت قرآن اور سنت سے ماثور تھی اس کا انکار شریح نے کیا، حالاںکہ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ آئمہ میں سے ایک امام تھے- اسی طرح بعض سلف نے بعض حروف قرآنی کا انکار کیا۔ جیسا کہ:
1۔ بعض سلف نے قرآن مجید کی آیت
''أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا''
کا انکار کیا اور وہ یوں قرات کرتے
'' أو لَمْ يَتَبَيَّنْ الَّذِينَ آمَنُوا ''۔
2۔ بعض سلف نے قرآن مجید کی آیت
''وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إلَّا إيَّاهُ''
کا انکار کیا اور وہ یوں قرات کرتے
''وَوَصَّى رَبُّك أَلَّا تَعْبُدُوا إلَّا إيَّاهُ''
3۔ بعض سلف معوذتین یعنی سورہ فلق اور سورہ الناس کو قرآن مجید کا حصہ نہیں مانتے تھے
4۔ بعض سلف سورہ القنوت کو لکھا کرتے تھے۔
نیز یہ تمام باتیں اجماع اور متواتر روایات کی بنا پر صریح غلطیاں ہیں۔ چناچنہ یہ اس لئے کہ یہ تمام چیزیں ان حضرات کے نزدیک تواتر روایات سے ثابت نہیں تھیں۔ پس وہ کافر نہیں قرار دئے جاسکتے، تکفیر اس شخص کی، کی جائے گی جس کے نزدیک تواتر روایات کے واشگاف ہونے کے بعد حجت قائم ہو جائے اور وہ جب بھی انکار کرے-
حوالہ: مجموع الفتاوى، جز 12 صحفہ 493، الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية
تبصرہ: علامہ ابنِ تیمیہؒ نے ایسا قول فیصل پیش کیا ہے جس کے تناظر میں ہم آرام سے یہ تاویل کرسکتے ہیں کہ بالفرض صحت انتساب تحریف اگر بعض لوگوں سے ثابت بھی ہو جائے تو اس کو زیادہ سے زیادہ خطاء سے تعبیر کیا جائے۔
اب ہم ایک اہم فتویٰ آپ کے گوش گذار کرتے ہیں، فتاوی عالمگیری، 'الباب التاسع فی احکام المرتدین' میں یہ عبارت واضح موجود ہے:
إذَا أَنْكَرَ الرَّجُلُ كَوْنَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ مِنْ الْقُرْآنِ لَا يَكْفُرُ وَقَالَ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ: يَكْفُرُ لِانْعِقَادِ الْإِجْمَاعِ بَعْدَ الصَّدْرِ الْأَوَّلِ عَلَى أَنَّهُمَا مِنْ الْقُرْآنِ وَالصَّحِيحُ هُوَ الْأَوَّلُ؛ لِأَنَّ الْإِجْمَاعَ الْمُتَأَخِّرَ لَا يَرْفَعُ الِاخْتِلَافَ الْمُتَقَدِّمَ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ.
اگر کوئی شخص یہ انکار کرے کہ معوذتین قرآن کا حصہ نہیں تو اس نے کفر نہیں کیا، اگرچہ بعض متاخرین علماء نے یہ کہا ہے کہ صدر اول میں اجماع ہونے کی وجہ سے اس کا قرآنیت کا منکر کافر ہوگا، لیکن صحیح بات یہی ہے وہ کافر نہیں ہوگا، کیونکہ بعد والوں کا اجماع متقدمین کے اختلاف کو ختم نہیں کرسکتا جیسے کہ ظہیریہ میں لکھا ہے-
حوالہ: فتاوی عالمگیریہ، جز 2، ص 267، الباب التاسع، تحت مطلب فِي مُوجِبَاتُ الْكُفْرِ أَنْوَاعٌ مِنْهَا مَا يَتَعَلَّقُ بِالْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ، مطبوعہ دار الکفر بیروت۔
عزیزی یہ مسئلہ خود مختلف فیہ ہے کہ آیا جو حضرات بعض ظنی دلائل کی وجہ سے تحریف کے قائل ہوں ان پر فتویٰ تکفیر لگایا جائے گیا یا نہیں، عوام کے جوش کو ورغلانے کے لئے اگرچہ فتویٰ تکفیر اور واجب القتل کے فتاویٰ لگائے جاسکتے ہیں لیکن جب بات کتب فتاویٰ کی ہو تو اس میں اختلاف کثیرہ آپ کے سامنے ہی ہے۔ ہم چونکہ افتاء و فتویٰ دینے کے اہل نہیں اس لئے ہم اس معاملہ میں اپنی رائے دینا پسند نہیں کرتے-
خير طلب :محترم یقیناً ایک دو افراد کی آراء پورے مذہب کی متفقہ رائے نہیں سمجھی جاتی ،لیکن اول کیا تحریف کے مدعی مذہب شیعہ میں سے صرف ایک دو افراد ہیں ،کیا آپ اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں کہ تحریف کے مدعی صرف چند افراد ہیں ؟صرف نوری نے دو درجن کے افراد ذکر کیے ہیں اور وہ سارے وہ افراد ہیں جن کی مدح سے کتب رجال بہری پڑی ہیں؟؟
محترم علامہ محمد حسین نوری کی تحقیق اور دیگر اصحاب کی تحقیق میں فرق آںا بعید نہیں۔ علامہ صاحب نے جن حضرات سے تحریف کو منسوب کیا ہے، ہمارے نزدیک ان سے وہ تحریف کا صدور ہی ثابت نہیں۔ اب اگر چاہیں تو ہر کسی کے بارے میں بحث کی جاسکتی ہے۔ ان متضافر و کثیر افراد کی نفی تو کم سے کم ہماری تحقیق کے مطابق پایہ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے جس میں ہمیں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ مجرد دعویٰ شاید دعوے کے اثبات میں کافی نہیں-
اب تفضیل امام علی ع بر جناب ابوبکر کا مسئلہ ہی لے لیجئے۔ اس میں آپ لوگ کتنے مختلف فیہ ہیں، سردست ہمیں اس مسئلہ سے بحث نہیں لیکن بات کو سمجھانے کے لئے ایک زاویہ سے بات کررہا ہوں۔ اب جناب ابوبکر کی افضلیت بر سائر الصحابہ پر بڑی شدومد کےساتھ اجماع و قطعی کا دعویٰ بھی ہے اور وہی بعض متکلمین کے نزدیک یہ مسئلہ مختلف فیہ بھی ہے۔ چنانچہ علامہ اشعری، علامہ ملا علی قاری، علامہ احمد سر ہندی، علامہ احمد رضا خان بریلوی و کثیر علماء کے نزدیک قطعی و اجماعی ہے- اس کا منکر اہلسنت سے خارج ہے وہی ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ قاضی باقلانی متکلم اہلسنت نے اس کو 'ظنی' قرار دیا اور ان اصحاب کی لسٹ دی جو جناب علی ع کو تمام اصحاب پر فضیلت دیتے ملاحظہ ہو ان کی کتاب ''مناقب الأئمة الأربعة'' اور اس کے علاوہ ابن عبدالبر نے الاستعیاب میں تو ان اصحاب کے نام بھی گنوائے جو جناب ابوبکر کی افضلیت کے بجائے مولائے کائنات امیر المومنین ع کی افضلیت کے قائل تھے۔ چنانچہ ہمیں اس سے سردست کوئی بحث نہیں آیا ان محققین اہلسنت کا اصحاب سے مذھب تفضیل کا نقل کرنا صحیح تھا یا نہیں، لیکن انہوں نے اس 'اجماعی و قطعی' مسئلہ کے برخلاف بعض اصحاب سے اس عقیدے کو منسوب کیا، اب ایک محقق اس مسئلہ کی تحلیل کے لئے ان کے منسوب کرنے پر اکتفاء نہیں کرے گا بلکہ اس کی تنقیح کرے گا اور دعوے پر دلیل طلب کرے گا۔ چنانچہ محدث نوری کا ان لوگوں سے تحریف کو منسوب کرنا خود عند التحقیق ہے-
ثانیا دستور یہ ہے کہ جب مذہب میں سے کچھ لوگ عمومی مسلک کے بنیادی اصولوں سے ھٹ کر راے اختیار کریں تو مذہب کے علماء اس سے براءت ظاہر کرتے ہیں اس کے بارے میں گمراہی یا کفر کے فتاویٰ جاری کرتے ہیں
محترم میں اس جواب کو بات کو بالفرض مانتے ہوئے دوں گا کہ 'فصل الخطاب' کتاب میں فقط شیعہ روایات کا تذکرہ ہیں اور اس سے تحریف کا اثبات کیا گیا ہے۔ اس پر کلام جلد آگے آرہا ہے۔ محترم معاف کیجئے گا، ہمارے ہاں فتاوی اتنے سستے نہیں۔ یہ بات اظہر و واضح ہے کہ ہمارے علماء نے اس کتاب کا رد بھی لکھا اور اس کتاب کے مندرجات کا خوب ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ اگر آپ ان اشخاص و عبارات کے طالب ہوں جنہوں نے محدث نوری کا خوب رد کیا ہے تو آپ کو وہ میں بقید جلد نمبر و صفحہ نمبر مع مطبوعات دے سکتا ہوں۔ بس انصاف شرط ہے۔
یہ فتاویٰ جات کا ہی ماحصل ہے کہ آپ احناف دو عظیم گروہ میں بٹ گئے یعنی بریلوی/دیوبندی- علمی اختلاف ہونا بعید نہیں اور ہوتا ہے۔ لیکن ان فتووں کی کثرت کا نتیجہ ہے آج بعض مشدد بریلوی حضرات حفظ الایمان، براہین قاطعہ، تقویتہ الایمان، صراط مستقیم، تحذیر الناس، یک روزہ، فتاوی رشیدیہ وغیرھم کی عبارات اٹھائے پھیرے اچھے خاصے فتاویٰ سے نوازتا ہے، دوسری طرف دیوبندی حضرات ملفوظات، دیوان محمدی، جاء الحق، فوائد فریدیہ کتب اٹھائے فتاوی کفر و شرک سے نوازتے ہیں۔ خیر ہم دخل در معقولات سے پرہیز کرتے الزامی جواب سے برھانی جواب پر آتے ہیں۔ محترم آپ کے سلف میں بھی بعض ایسے گذرے ہیں جن سے شدید قبیح الفاظ قرآن مجید کے لئے سرزد ہوئے، ان شاء اللہ حوالہ مانگنے پر دیا جائے گا لیکن ابنِ تیمیہؒ نے ان پر 'خطا کار' کا فتویٰ لگایا اور تکفیر سے پرہیز کی، معوذتین کے منکرین پر عدم تکفیر کا فتویٰ بھی علماء احناف میں موجود ہیں، بسم اللہ کے عدم جز قرآن پر بھی فتوے عدم تکفیر موجود ہے- چنانچہ محترم ان عدم تکفیر کے فتاوے جات بتاتے ہیں کہ 'سقیم فہم' کو تکفیر پر محمول نہیں کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ محدثین و سلف اہلسنت کے نزدیک خدا کے صفات میں تاویل کرنا ایک ایسا عظیم جرم تھا جو جہمی و حشویہ بنانے کے لئے کافی تھیں اور ان کی تکفیر کی بھی۔ البتہ متاخرین میں آپ دیکھیں کہ تاویل و تفویض کو کس طرح قبول کیا گیا۔ اس ضمن میں بھی متاخرین کے نزدیک نوبت تکفیر کی نہیں آئی۔ لہذاء مروجہ دستور سے ہٹ جانا ہرگز کبھی بھی فتوے تکفیر و گمراہ کو لازم نہیں کرتی۔ جب ہی آپ دیکھیں کہ جمہور تشیع کا عقیدہ ہے کہ نبی محمد ع پر سھو مطلقا جائز نہیں لیکن شیخ ابن ولید، شیخ صدوق وغیرھما سھو نبی ص کے قائل تھے۔ اس وقت بھی اس عقیدے پر کڑی تنقید ہوئی لیکن نہ وہ دائرہ تشیع سے خارج ہوئے اور نہ دائرہ اسلام سے؟آپ کے مسلک والوں کا تو حال یہ ہے کہ نوری نے فصل الخطاب میں کتنے زور سے تحریف کی صداء بلند کی اور وہ تاریخ اسلام میں وہ واحد شخصیت ہے جس نے تحریف قرآن کا صرف عقیدہ اختیار نہیں کیا بلکہ اس کے اثبات پر ایک ضخیم کتاب لکھی (اگرچہ شیعہ تاریخ میں مزید کتب بھی لکھی گی لیکن بعض ہل تشیع کے انکار کی وجہ سے صرف اس کا ذکر کیا)لیکن اہل تشیع نے اسے کافر تو کجا گمراہ بھی نہیں کہا
برادر محترم، آپ کی باتوں سے کافی لطف اندوز ہوئے، آپ بعض گذارشات ہماری بھی اس مسئلے پر سنئے، اس سلسلے میں ہم یہ بات بتاتے چلیں کہ ہم قطع و یقین کے ساتھ کوئی حتمی رائے اس معاملے میں نہیں دیں گے بلکہ ہم علماء کی تحقیقات کو آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور فیصلہ آپ کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں۔
اولاً: علماء امامیہ کا اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا یہ کتاب تحریف کے اثبات میں لکھی گئی ہے یا عدم تحریف کے اثبات میں۔ اس سلسلہ میں ہماری پیش نظر جو اہم بات ہے وہ یہ کہ آیا یہ کتاب تحریف کے اثبات میں لکھی بھی گئی ہے یا نہین۔ بعض ثقات کے تحت آیت اللہ مرعشی نجفی اعلی اللہ مقامہ کے نزدیک جو کتب، رسائل و مخطوطات کے جم غفیر کے جامع ہیں (یہاں تک علامہ ابن تیمیہ کی بعض کتب بھی ان کے مکتب سے اخذ کردہ مخطوطات کی مدد سے دوبارہ چھاپی گئی ہیں)، اس کتاب میں دراصل عدم تحریف کا بیان ہے جس کو نام کی اشتباہ کی وجہ سے غلط رنگ دیا گیا۔
دوم: علماء امامیہ کی کتب کا موسوعہ جمع کرنے والے اور شیخ محدث محمد نوری کے شاگرد بزرگوار آغا بزرگ طہرانی نے الذريعة إلى تصانيف الشيعة کے جز 16 صحفہ 231 میں فصل الخطاب کتاب کے ذیل میں رقم طراز ہیں کہ 'جب علامہ محدث نوری کے جواب میں کتاب لکھی گئی تو علامہ نے اس کتاب کے جواب میں فارسی میں ایک رسالہ لکھا اور یوں گویا ہوئے:
فكان شيخنا يقول: لا ارضى عمن يطالع (فصل الخطاب) ويترك النظر إلى تلك الرسالة
یعنی میں اس بات پر راضی نہیں کہ کوئی شخص میری کتاب فصل الخطاب تو پڑھے اور اس رسالہ کا مطالعہ نہ کرے۔
اس رسالہ میں علامہ محدث نوری نے کہا:
ان الاعتراض مبنى عل المغالطة في لفظ التحريف، فانه ليس مرادى من التحريف التغيير والبديل، بل خصوص الاسقاط لبعض المنزل المحفوظ عند اهله، وليس مرادى من الكتاب القرآن الموجود بين الدفتين، فانه باق على الحالة التى وضع بين الدفتين في عصر عثمان، لم يلحقه زيادة ولا نقصان
یعنی یہ جو جملہ اعتراض کیا جارہا ہے وہ ایک مغالطہ کے تحت ہے جو لفظ تحریف میں پنہاں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اس لفظ سے مراد تغییر و تبدیلی نہیں، بلکہ بعض اہم منازل کا اسقاط ہے جو ان کے اہل کے ہاں تھی، اور میری مراد اس کتاب سے یہ ہمارے ہاتھوں میں موجود قرآن مجید نہیں، کیونکہ یہ وہی قرآن مجید ہے جو جناب عثمان کے عہد زمانہ سے اب تک بغیر کسی زیادتی و نقصان کے باقی ہے۔
آگے صحفہ 232 میں لکھا ہے کہ اس کتاب کا بہتر نام یہ ہونا چاہئے تھا فصل الخطاب في عدم تحريف الكتاب
اسی طرح شیخ بزرگ طہرانی شاگرد رشید نوری فرماتے ہیں اپنے استاد کے بارے میں
وسمعناه من لسانه في أواخر أيامه فإنه كان يقول: أخطأت في تسمية الكتاب وكان الأجدر أن يسمى ب (فصل الخطاب) في عدم تحريف الكتاب لأني أثبت فيه أن كتاب الاسلام (القرآن الشريف) الموجود بين الدفتين المنتشر في بقاع العالم - وحي آلهي بجميع سوره وآياته وجمله لم يطرأ عليه تغيير أو تبديل ولا زيادة ولا نقصان من لدن جمعه حتى اليوم وقد وصل الينا المجموع الأولي بالتواتر القطعي ولا شك لاحد من الامامية فيه فبعد ذا امن الانصاف أن يقاس الموصوف بهذه الأوصاف -
اور ہم نے ان کی زبانی زندگی کے آخری حصہ میں کہ میں نے اس کتاب کے نام رکھنے میں غلطی کی، زیادہ بہتر ہوتا کہ اگ میں اس کا نام (فصل الخطاب) في عدم تحريف الكتاب رکھتا کیونکہ اسلام کی کتاب قرآن مجید جو بین الدفتین موجود ہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں جلوہ افروز ہے، وہی وحی الہٰی ہے اپنی تمام سورتوں اور آیات سمیت، اور اس کی جمع آوری سے لے کر اب تک اس میں تغیر، تبدیلی، زیادتی اور نقصان نہیں۔ اور یہ ہمارے پاس یہ تواتر قطعی کے توسط سے آیا اور اس میں سے کسی امامی شیعہ کو شک نہیں۔ اس کے بعد بحی لوگوں ان کو اس طرح کے اوصاف سے نوازتے ہیں-
حوالہ: مستدرك الوسائل ومستنبط المسائل، جز 1، صحفہ 50، حاشیہ علامہ بزرگ طہرانی، تحقیق: موسستہ آل بیت
عزیزی۔ یہاں بر صراحت سے رجوع کہہ لیجئے یا عدم عقیدہ تحریف قرآن ثابت ہے، اور رجوع کے بعد کسی شخص پر پہلے گناہ کا الزام یا خطاء کا الزام دینا انصاف نہیں۔
سوم: برادر آپ کا یہ کہنا کہ علماء تشیع نے اس کتاب پر تعاقب نہیں کیا، یقینا یہ صحیح نہیں۔ برادر محترم، چونکہ ہم سردست اپنے حافظے اور بعض مختصر مطالعہ کے بعد کچھ لکھ رہے ہیں۔ ان شاء اللہ کبھی موقعہ مییسر ہوا تو ایک تحریر اس موضوع پر ضرور لکھوں گا۔ لیکن بعض حوالے جات آپ کی نظر کرتا ہوں۔
برادر محترم اگر ہوسکے تو کچھ وقت نکال لیجیے گا اور اس بہترین تفسیر الاٰء الرحمان فی تفسیر القران کے مقدمہ کا مطالعہ کیجئے جو شیخ محمد جواد البلاغی کی تحقیق عنیق کا نتیجہ ہے۔ علامہ نے کافی مبسوط اور بہترین رد فصل الخطاب کا کیا ہے۔ ہمارے پیش نظر نسخہ جو بیروت سے طبع شدہ ہے 'الامر الخامس' کا مطالعہ فائدے سے خالی نہیں جو ص 24 سے شروع ہوکر ص 29 پر منتہی ہوتا ہے-
اسی طرح آیت اللہ روح اللہ خمینی اپنی کتاب میں رقم طراز ہے:
وأزيدك توضيحا: أنه لو كان الأمر كما توهم صاحب فصل الخطاب الذي كان كتبه لا يفيد علما ولا عملا، وإنما هو إيراد روايات ضعاف أعرض عنها الأصحاب،
اور میں ایک بات کی مزید توضیح کر دوں۔ اگر یہ بات ایسی ہے جیسے کہ صاحب فصل الخطاب کو وہم ہوا تو یہ کتاب علم و عمل دونوں میں مفید نہیں بلکہ اس کتاب میں تو ضعیف روایات کا اندراج ہیں جس سے علماء و اصحاب نے قابل اغماض نہیں سمجھا-
حوالہ: انوار الهداية، جز اول، ص 244، مبحث في حجية الظهور، طبع قم۔
برادر محترم ہم فی الحال یہی کہیں گے کہ علامہ نوری کی کتاب جو طبع حجریہ تھی اس کے بعد اس کی طبع کسی شیعہ مکتب سے نہ ہوئی بلکہ بعد میں اہلسنت و دیگر حضرات نے کاپیاں بنا بنا کر اصل صورت کو مسخ کردیا۔ چنانچہ میرے پاس کم سے کم اس کے اصلی نسخہ تک رسائی جو طبع حجریہ ہو۔
دوم یہ کہ اس کے مندرجات پر بھی اختلاف کثیر ہیں، آیا اس میں فقط شیعہ روایات ہیں یا فریقین کی روایات؟ سوم موضوع کتاب بھی مختلف فیہ ہے، نام پر مت جائیں کیونکہ نام توجہ دلانے کے لئے ہوتا ہے اور مندرجات اہم ہوتی ہیں ورنہ بہت ساری 'تقویتہ الایمان' ایمان کو بگاڑ دیتی ہے اور 'زلزلہ' کافی حقائق کو طشت از بام کردیتا ہے۔ خیر بالفرض مندرجات تحریف ان کی آخری رائے (جو شرعی طور پر حجت ہے) عدم تحریف ہی کی تھی
آپ کے بعض سوالات کا جواب دیتا ھوں:اولا عدم تحریف کا عقیدہ شیعہ مذہب کی ضروریات مسلک میں سے ہے ،اور کیا ایک قطعی و ضروری عقیدہ ہے؟
جواب: قرآن پر ایمان لانا ضروریات مذہب سے زیادہ ضروریات دین میں ہے جو قرآن کو خدا کی کتاب نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ ہمارے نزدیک تواتر طبقاتی، آئمہ ع کا سکوت اس بات پر دال ہے کہ یہ قرآن وہی قرآن ہے جو نبی کریمﷺ پر نازل ہوا، البتہ ہمارے نزدیک اس کی تفسیر، حواشی، ناسخ، منسوخ وغیراہم تمام باتوں کو مولا علی ع نے جمع کیا تھا جس کو امت نے قبول نہیں کیا۔ اگر اسقاط و زیادتی سے تفسیر قرآن میں مراد لی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھتا۔
یاًجو لوگ تحریف کے قایل ہیں ،تو ان کا حکم کیا ہے ،کافر ہیں یا نہیں
جواب؛ ہمارے نزدیک ان پر سخت خطاء کار کا فتوی ہے۔ تکفیر کا نہیں لیکن اگر وہ اصلا قرآن ہی کے منکر ہوجائیں تو کافر ہےثالثا ًیہ بات متفقہ ہے کہ اس وقت جو قرآن پاک امت میں رایج ہے ،اس کا اولین نقش حضرت ابوبکر کاجمع کردہ ہے اور ثانی اور آخری نقش حضرت عثمان کا جمع کردہ ہے ،تو ان جامعین قرآن کا کیا حکم ہے ،
جواب: برادر اس کا جواب ذیل کی سطور میں ملاحظہ ہو
اولا اس امر پر ہی اختلاف ہے کہ اس کے جامعین ثلاثہ ہیں یا رسول اللہﷺ بذات خود تھے؟ بعض علماء اس کے قائل ہے کہ خود زمانہ رسول اللہﷺ میں اس کو جمع کردیا گیا تھا۔دوم یہ کہ ہمارے آئمہ کا سکوت اس بات پر دلال ہے اور اس کی طرف لوگوں کو تشویق دلانا اس بات کا غماض ہے کہ ہمارے نزدیک یہ قرآن بالکل صحیح ہے-
سوم یہ کہ صحیح بخاری کی روایت کے نزدیک خدا اس دین کی مدد فاجروں کے ذریعے بھی کراتا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو صحیح بخاری، کتاب الجھاد، باب إن الله يؤيد الدين بالرجل الفاجر۔ تو اگر ثلاثہ نے یہ کام کیا بھی ہو تو اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اس کے قبول کرنے میں کچھ تامل نہیں ہوگا جب کہ ہمارے آئمہ ع کا سکوت رضائی شامل ہو-
چہارم: حجاج نے مصاحف عثمانی سے اختلاف کیا اور بعض کاوشات قرآن کے حوالے سے کی مثلا اعراب وغیرہ تو حجاج بن یوسف علامہ شمس الدین ذھبی نی تصریح کے مطابق ظالم و ناصبی تھا تو بطور جدل ہم یہی کہیں گے کہ جب وہ ساری چیزیں قبول ہیں تو دوسروں پر اعتراض کیوں۔ علامہ ابو داود السجستانی کی کتاب المصاحف میں پورا ایک باب یوں ہے:
باب ما غيّر الحجاج في مصحف عثمان
حوالہ: المصاحف، ص ۱۱۸، طبع موسستہ القرطبہ۔
البتہ مع الاسف شدید جب نیا ایڈیشن چھپا تو اس باب کا نام ہی اڑا دیا گیا ملاحظہ ہو المصاحف، مجلد اول، ص 363، طبع دار البشار الاسلامیہ۔
خیر ہمارا مقصد ثلاثہ کی ہر چیز پر اعتراض کرنا نہیں ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک جو باتیں صحیح کی اس پر بے وجہ تنقید بھی مناسب نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے نزدیک علامہ مجلسی کے کلام اور ان کے مسلمان ہونے میں کوئی فرق نہیں کیونکہ منافق میں بیک وقت دونوں صفات جمع ہوتی ہیں۔ ایک صفت اسلام اور دوسری صفت کفر۔ پہلے کا تعلق ظاہر سے ہوتا ہے اور دوسرے کا تعلق باطن سے-
رابعاً جن لوگوں نے یہ عقیدہ پورے مذہب تشیع کی طرف منسوب کیا ،ان کے اس قول کی حقیقت کیا ھے ؟وہ مدعی تھے کہ قرآن پاک میں کمی بیشی شیعہ مذہب کا عقیدہ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ عدم تحریف شیعہ مذہب کا عقیدہ ہے تو اس عظیم تعارض و تناقض کا حل پیش کردیں۔
ان کے نام دیجئے۔ باقی اگر انہوں نے یہ کہا تو غلط کہا
خامساً قرآن پاک پڑھنے کے باوجود آپ کے مسلک میں قرآن پاک کے ظواہر کی کوی حیثیت نہیں ھبںاگی ںہجھے چنانچہ آپ کے اصول کی کتب میں لکھا ھے: ومن المعلوم ضرورة من مذهبنا تقديم نص الامام، عليه السلام، على ظاهر القرآن، كما أن المعلوم ضرورة من مذهبهم العكس.تو قرآن اپک کی عدم تحریف کا عقیدہ اختیار کرنے کے بوجود تم نے اسے وہ حیثیت نہیں دی اور اس پر قول امام کو حاکم بنا دیا تو ماننے کا کیا فایدہ؟
عزیزی خدا آپ کو سلامت رکھے اور نقل عبارت میں امانت دے۔ برادر محترم۔ اس سے قبل میں اس پر گفتگوں کروں۔ محترم اول تو اس کا تعلق تحریف کے موضوع سے بتائیں کیا ہے؟ کیونکہ اگر آپ ایسی چیزیں پیش کریں گے تو میرے پاس بھی بہت سارے شواہد ہیں جو اگر طشت از بام کئے جائیں تو اصل موضوع سے باہر نکل جائیں گے۔ لیکن میں اس موضوع سے چونکہ باہر نکلنا نہیں چاہتا اس لئے سردست اس کا حلی جواب عنایت کرتا ہوں۔ اور الزامی جواب سے پرہیز کروں گا۔
برادر جس طرح آپ کے ہاں دو طبقات پائے جاتے ہیں اہلحدیث اور اہل رائے۔ ہمارے ہاں بھی دو منھج تفکیر پائے جاتے ہیں اخباری گروہ و اصول گروہ۔ اول الذکر ظواہر قرآن کی حجتیت کے قائل نہیں اور حدیث و اخبار ع کو تمام چیزوں پر مقدم سجھتے ہیں۔ اور اصولی حضرات ظواہر قرآن کو حجت سمجھتے ہیں محکمات میں۔ اور متشابھات میں آئمہ ع کی روایات کو مقدم سمجھتے ہیں ان کے ظاہری معنی لینے سے۔ چنانچہ جو عبارت آپ نے پیش کی اس کے اوپر علامہ مرتضی انصاری اعلی اللہ مقامہ رقم طراز ہے:
ويرشد إليه: المروي عن مولانا الصادق (عليه السلام)، قال في حديث طويل: " وإنما هلك الناس في المتشابه، لأنهم لم يقفوا على معناه ولم يعرفوا حقيقته، فوضعوا له تأويلا من عند أنفسهم بآرائهم، واستغنوا بذلك عن مسألة الأوصياء (عليهم السلام) فيعرفونهم " (1).
وإما الحمل على ما يظهر له في بادئ الرأي من المعاني العرفية واللغوية، من دون تأمل في الأدلة العقلية ومن دون تتبع في القرائن النقلية، مثل الآيات الاخر الدالة على خلاف هذا المعنى، والأخبار الواردة في بيان المراد منها وتعيين ناسخها من منسوخها.
ومما يقرب هذا المعنى الثاني وإن كان الأول أقرب عرفا: أن المنهي في تلك الأخبار المخالفون الذين يستغنون بكتاب الله تعالى عن أهل البيت (عليهم السلام)، بل يخطئونهم به، ومن المعلوم ضرورة من مذهبنا تقديم نص الإمام (عليه السلام) على ظاهر القرآن، كما أن المعلوم ضرورة من مذهبهم العكس.
خير طلب :اور اس مدعے کے اثبات میں امام صادق ع کا قول ذیشان موجود ہے جو ایک طویل حدیث کا ایک حصہ ہے کہ لوگوں کو متشابھات نے ہلاک کردیا، چونکہ وہ ان متشابھات قرآنی کے معنی کو نہیں جانتے تھے اور اس کو کون حقیقت تک رسائی نہیں رکھتے، تو انہوں نے اپنی تاویلات کا سہارا اپنے بودی آراء سے لیا، اور پیغمبر کے حقیقی خلف و اوصیاء ع جو اس کے اصل مغز کو جانتے تھے اس سے مستغنی ہونے کی کوشش کی۔
(شیخ انصاری کا کلام شروع ہوتا ہے اس روایت کی تفسیر میں) یعنی ایسے لغوی اور عرفی معانی میں ان متشبہات کو حمل کرنا بغیرعقل کے استمعال کئے یا بغیر روایات منقولہ میں غور و خوض کئے، حالانکہ دوسری آیات اس متشابہ آیت کے لغوی و عرفی مفہوم کے خلاف ہو، یا رویات کا ہونا جو اس کے تعیین معانی پر دال ہو اور ناسخ و مسنوخ کے تعیین میں مدد کرے۔
پس دوسرا معنی شرعی طور پر زیادہ قریب ہو بنسبت پہلے لغوی معنی جو عرفا زیادہ قریب ہو، پس ان اخبار و روایات (جن میں تفسیر بالرائے کی ممانعت کا ذکر ہے) سے اس بات کا منع کیا گیا ہے کہ ہم مطلقا اور من حیث الکل کتاب خداوندی کو اہلبیت ع سے مستغنی قرار دیں، بلکہ (جو ایسا کرے) وہ اس فعل کی وجہ سے خطاء کار قرار پائے گا۔ (اب وہ عبارت شروع ہوتی ہے جس سے محترم سمیع اللہ نے استدلال کیا اور جس کا موضوع متشبہات ہیں) اور ہمارے مذھب کی ضروریات میں سے ہے کہ امام ع کی روایات و نص کو ظاہر قرآن پر فوقیت دیں حالانکہ ہمارے مخالفین کا مذھم اس کے برعکس ہے
حوالہ: فرائد الأصول، ج ۱، ص ۱۴۳، طبع قم۔
تبصرہ: محترم بیشک اس کلام میں کوئی شک نہیں۔ میرا منھج جو اصول منھج ہے وہ اسی کا حکم دیتا ہے کہ جو محکمات قرآنی ہوں اس کے ظاہر کو مقدم رکھا جائے اور روایات کو ان کے اصول و قوانین کے پیش نظر دیکھا جائے اور جو متشبہات ہوں انہیں روایات آئمہ ع کے تناظر میں دیکھا جائے کیونکہ قرآن خود اکیلا کافی نہیں بلکہ حدیث ثقلین کے پیش نظر قرآن و اہلبیت ع دونوں سے تمسک لازمی ہے۔ مثال دیتا ہوں تاکہ آسانی ہو، قرآن مجید میں رسول ص کے 'ذنب' کی مغفرت کا ذکر ہے، قرآن میں خدا کے لئے ید، وجہ، ساق وغیرھم کا ذکر ہے، مع الاسف شدید ان متشبہات کو محدثین اہلسنت کے مقدمین طبقے نے ظاہری معانی میں لے کر خدا کے حقیقی پاوں، ہاتھ، چہرے، پنڈلیاں وغیرھم ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں چھوڑا۔ جس سے خدا کا جسم و مرکب ہونا لازم آتا تھا۔ یہی حالت علامہ اشعری نے ابانتہ میں اختیار کی لیکن بات نہیں بن سکی تو بعد میں آنے والے مزعوم اشعریوں و ماتریدیوں کو بالاخر ان متشبہات کے ظواہر سے دستبردار ہونا پڑا اور شدومد کے ساتھ اس کے ظواہر کے معتقد پر فتاوی دئے۔
باقی برادر ہم نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور غیر متعلق موضوعات کو نہیں لا رہے اور آپ سے گذارش کرتے ہیں کہ ایسا مت کیجئے گا۔
برادر محترم آپ نے کہا
تو انہیں بھی اہل سنت کے ایسے معتبر علماء دکھانے ھونگے جنہوں نے روایات موھمہ تحریف کو صریح سمجھ کر تحریف کا قول اپنایا ،لیکن افسوس ہے اس سلسلے میں جتنی اہل تشیع کی طرف سے کتب لکھی گی ان میں ایسی روایات کا ایک انبار ہے ،جن کو وہ روایات تحریف سمجھتے ہیں
اول تو برادر آپ مجھے بتائیں کیا یہ الفاظ تحریف پر دلالت کرتے ہیں ان اصول و قوانین کے تحت جس آپ ہمیں الزام دیتے ہیں:
'یحک'
'أخطأ الكاتب'
'لا یکتب'
'لحنا'
' كتب الكاتب الأخرى وهو نـاعـس '
'والله لأنزلها الله كذلك '
' أخطئوا في الكِتاب '
'قد ذهب منه'
محترم ہم جانتے ہیں کہ تاویل تو ہر اعتراض پر ہوتی اور یقیناً آپ بھی کریں گے، انشاء اللہ اگر وہ تاویل آئیں گی تو اس پر ہماری طرف سے پہلی ہی سے تیاری ہوئی ہے۔ برادر محترم جن الفاظ کی مدد سے آپ شیعوں پر تحریف کا الزام دیتے ہیں ان میں سے اکثر الفاظ تو آپ کے ہاں بھی موجود ہیں۔ بلکہ ہمارے ہاں تو اضعاف، متروکات و متہم راویان کی روایات ہیں، آپ کے ہاں تو 'بسند حسن' 'بسند صحیح' وغیرھما کے سابقے لاحقے بھی بہت ہیں۔
برادر محترم آپ نے کہا
ان سب کو اہل سنت علماء نے اپنے محمل پر محمول کیا ،مثلا نسخ ،اختلاف قراءت ،رسم مصحف ،و کزب روات ،تو اہل سنت کے ان علماء کی تاویلات و جوابات سے صرف نظر کرتے ہوے یہ راگ اپنا نا کہ اہل سنت تحریف کے قایل ہیں ،تحقیق کے منافی بات ہے
برادر عزیز ان شاء اللہ میں روایات کا مضمون پیش کروں گا، آپ تاویل کریں اور پھر میرا کام اس تاویل کا جواب دینا ہوگا، تاویل فقط کافی نہیں بلکہ تاویل میں جو اصول کو استعمال کیا جاتا ہے ان اصول و قوانین کا منطبق ہونا بھی لازمی ہے۔ اب علماء اہلسنت کے بقول خدا کو خالق الخنزیز کہنا کفر ہے لیکن اگر کوئی تاویل کرے کہ خالق کل شئی کیا خنزیر کا خالق نہیں؟ تو اس تاویل کو قابل التفات اہلسنت نہیں سمجھتے اور کفر کے فتوے پر باقی رہتے ہیں۔ اس لئے ہم یہی کہتے ہیں کہ تاویل کیجئے لیکن وہ متعلق ہو تو قبول کی جائے گی۔
برادر آپ نے کہا
،۳۔اگر آپ یہ کہیں کہ ہم نے بھی روایات تحریف کی تاویلات کی ہیں ،تو عرض یہ کہ چند ایک نےتاویلات کی ھونگی لیکن ہر کسی نے نہیں کی ،جیسے الکلینی نے ایک باب باندھا ھے العنوان : باب انه لم يجمع القرآن كله الا الائمة عليهم السلام وانهم يعلمون علمه كله اب آُ پ اس کی تشریح اور اس کا مقصد خود الکافی کے شارح مجلسی کی زبانی دیکھیں ۔
محترم برادر مجھے لگتا ہے آپ نے ارادہ کیا ہے کہ سارے اقوال آج ہی نقل کردیں گے، خدا آپ کو خوش رکھے، برادر محترم، اگر ممکن ہو اور طبعیت پر گراں نہ گزریں تو ہم سے ایک ایک شیعہ عالم کی فردا فردا بات کرلیں۔ سو بسم اللہ ہم راضی۔ اوثق الناس شیخ کلینی ہوں، متکلم امامیہ شیخ مفید ہوں، صاحب بحار الانوار علامہ مجلسی ہوں، صاحب انوار النعمانیہ علامہ جزائری ہوں، صاحب وسائل شیخ حرعاملی ہوں یا دیگر امامی علماء۔
ہم نے الحمد للہ کافی حضرات کے موقف پر تحقیق عنیق کی ہیں اور آپ سے تبادلہ خیال ضرور کریں گے۔ البتہ ایک اصول کو ذھن میں رکھیں 'ہم قرآن و اخبار اہلبیت ع' کے پیروکار ہیں۔ ایک دو اشخاص کے اقوال نقل کرنا ہم پر حجت نہیں ہوں گے۔ ہم ان پر خطاء فاحش کا فتوی ضرور لگائیں گے اگر کسی سے مستقلا تحریف کا عقیدہ ثابت ہوگیا جیسے کہ علامہ ابن تیمیہ کا تھا۔
خير طلب :برادر ہماری گذارشات اور بھی تھیں لیکن طوالت کے باعث ہم فی الحال مزید رائے دہی سے پرہیز کرتے ہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ ہماری گفتگوں سے جن حضرات کے ذھن میں شکوک و شبہات چاہے شیعوں میں ہو یا سنیوں میں، ان تمام کا ازالہ ہو۔ اور خدا آپ کو خوش رکھے آمین
محترم آپ کی طویل تحریر میں کیء امور قابل تنقیح و قابل تبصرہ ہیں ،مثلا
۱۔علامہ ابن تیمیہ کی عبارت اور فتوی عالمگیری کی عبارت سے یہ استنباط کرنا ؎
تبصرہ: علامہ ابن تیمیہ نے ایسا قول فیصل پیش کیا ہے جس کے تناظر میں ہم آرام سے یہ تاویل کرسکتے ہیں کہ بالفرض صحت انتساب تحریف اگر بعض لوگوں سے ثابت بھی ہوجائے تو اس کو زیادہ سے زیادہ خطاء سے تعبیر کیا جائے۔
حالانکہ ابن تیمیہ صاحب کی عبارت کا تعلق صرف صدر اول کے ساتھ ہے کہ صدر اول میں تواتر کا درجہ ابھی قران اپک کو حاصل نہیں ھوا تھا ،اس لیے آخر میں انہوں نے کہا
إِنْ كَانَ يَكْفُرُ بِذَلِكَ مَنْ قَامَتْ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ بِالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ>
تو اسے بعد والوں پر چھسپا کر نا توجیہ القول بما لا یرضی بہ القایل کے قبیل سے ہے ،کیونکہ انہوں نے خود بعد والوں کے بارے میں فرمایا
قال شيخ الإسلام ابن تيمية: وكذلك من زعم منهم أن القرآن نقص منه آيات وكتمت أو زعم أن له تأويلات باطنة تسقط الأعمال المشروعة ونحو ذلك، وهؤلاء يسمَّون القرامطة والباطنية، ومنهم التناسخية، وهؤلاء لا خلاف في كفرهم. انظر: الصارم المسلول. (3/ 1108 –
نیز فتویٰ عالگیری کی عبارت کا تعلق بھی صرف معوذتین کے ساتھ ہے نہ کہ پورے قرآن پاک کے ساتھ،اور وہ بھی ایک قول ہے ،نیز تحریف و تغیر ایک الگ چیز ھے جب کہ کسی سورت کا انکار ایک الگ مبحث ھے عالگیریہ کا تعلق پہلے کے ساتھ ھے نہ کے دوسرے کے ساتھ
۲۔اُپ کا یہ کہنا کہ ہمارے ہاں فتاوی سستے نہیں ہیں تو محترم آُ پ کے مذہب میں سب سے سستے ہیں کہ آپ کے فتاوی کے زد سے امت کا کوی فرد نہیں بچا حتی کہ اصحاب پیغمبر بھی آپ کے فتاوی کی زد میں آے چنانچہ دیکھیں؎واتفقت الإمامية على أن من أنكر إمامة أحد الأئمة وجحد ما أوجبه الله تعالى من فرض الطاعة فهو كافر ضال مستحق للخلود في النار؎من شک فی کفر اعداءنا فھو کافر؎اور اخبار کفر اصحاب ،ہاں اتنی بات ھے کہ آپ اپنے مذہب والوں کے لیے مداہنت کرتے ہیں خواہ وہ جو بھی عقیدہ رکھے
۳۔نوری کے بارے میں آغا بزرگ کا یہ قول نقل کرنا
وسمعناه من لسانه في أواخر أيامه فإنه كان يقول: أخطأت في تسمية الكتاب وكان الأجدر أن يسمى ب (فصل الخطاب) في عدم تحريف الكتاب لأني أثبت فيه أن كتاب الاسلام (القرآن الشريف) الموجود بين الدفتين المنتشر في بقاع العالم - وحي آلهي بجميع سوره وآياته وجمله لم يطرأ عليه تغيير أو تبديل ولا زيادة ولا نقصان من لدن جمعه حتى اليوم وقد وصل الينا المجموع الأولي بالتواتر القطعي ولا شك لاحد من الامامية فيه فبعد ذا امن الانصاف أن يقاس الموصوف بهذه الأوصاف –
اگر یہ قول صحیح ھے تو نوری کی تناقضی فطرت کے کمال پر دال ہے ،کیونکہ اس میں نوری کہہ رہے ہیں کہ میرا مقصد اثبات حفاظت ہے اور پوری کتاب اثبات تحریف سے لبریز ھے جس کا انکار کتاب دیکھنے کے بعد کوی منصف نہیں کر سکتا۔نیز اگر بات یہی ھے تو شیعہ علماء بے اس کے رد میں کتب کیوں لکھی؟نیز آپ کا اسے رجوع کہنا عذر گناہ بدتر از گناہ کے قبیل سے ھے ،کیونکہ نوری نے رجوع نہیں کیا بلکہ اپنے کتاب کو غلط معانی پہنائے کہ کتاب پوری اثبات تحریف پر مشتمل ھے اور نوری کہہ رھے ہیں کہ میں نے اس میں رد تحریف کیا ھے ،یقیناً تقیہ کے قایلین سے ہی ایسی تضاد بیانی کا صدور ھو سکتا ھے ،
۴۔آپ کا یہ کہنا؎لیکن جہاں یہ حضرات ہیں تو وہاں مفتی شفیع، مفتی تقی عثمانی و دیگر علماء اہلسنت نے تشیع پر تکفیر سے پہلو تہی کی ہے ۔حلانکہ ان حضرات نے خود تکفیر شیعہ کے فتاوی جاری یے ہیں وہ الگ بات ھے یہ فتاوی مطلق کی بجاے مقید تھے کہ فلاں فلاں عقاید رکھنے والے شیعہ کافر ہیں اس میں تحریف کا عقیدہ بھی شامل ھے مانگیں گے تو لنک دوں گا۔
۵۔آپ کا یہ کہنا کہ فواید الاصول کی عبارت کا تعلق صرف متشابھات سے ھے ،حلانکہ یہ بحث مطلق ظواہر کتاب کے بارے میں ھے ،میں پوری بحث تو نقل نہیں کر سکتا ،عنوان نقل کیے دیتا ھوں ،آپ دیکھ لیں ،متشابہات کی روایت صرف بطور مثال کی ھے
؎قسم الاول وهو ما يعمل لتشخيص مراد المتكلم
وإنما الخلاف والاشكال وقع في موضعين:
أحدهما: جواز العمل بظواهر الكتاب.
والثاني: أن العمل بالظواهر مطلقا في حق غير المخالطب بها قام الدليل عليه بالخصوص بحيث لا يحتاج إلى إثبات إنسداد باب العلم في الاحكام الشرعية أم لا
محترم اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کیا ،مزید بھی آپ کی باتیں قابل تبصرہ ہے ،جن کو فی الحال چھوڑ دیتا ھوں ،اب ہمیں اصل موضوع کی طرف آنا چاھیے ۔محترم اس وقت آپ کے ساتھ دو باتوں پر بحث مقصود ھے ایک شیعہ مذہب میں سے قایلین تحریف کا تعین دوسرا اہل تشیع کے اس موقف پر بحث کہ قایل تحریف صرف خطا کار ہے کافر نہیں ھے ،اب میں پہلی بحث سے متعلق کچھ عرض کرتا ھوں
محترم ،سب سے پہلے قابل غور بات یہ ھے کہ اہل تشیع قرآن پاک میں تحریف و تغیر و تبدیلی کے وقوع و عدم وقوع سے متعلق اپنے عقیدے کو قطعی شکل نہیں دے سکے اور اس بارے میں ان کے عقیدے کے بارے میں انتہای متعارض و متضاد روایات ہیں ،میں اس حوالے سے آپ کے سامنے تین قسم کی روایات پیش کرتا ھوں تا کہ آپ ہی ان میں تطبیق کی کوی راہ نکالیں۔
شیعہ مذہب کی بنیادی کتب کی طرف رجوع کرنے اور ان کے محقیقن کے اقوال کا بغور جائزہ لینے سے تحریف قرآن کے حوالے سے شیعہ مذہب کے تین مختلف موقف سامنے آتے ہیں ،ان تینوں نظریات میں تطبیق کسی طرح سے ممکن نہیں ہے ،ہم قارئین کے سامنے یہ تینوں موقف پیش کرتے ہیں تاکہ وہ خود ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کریں اور ان متضاد و متعارض نظریات میں تطبیق یا ترجیح کی کوئی راہ نکالیں:
پہلا قول :تحریف قرآن پر اہل تشیع کا اتفاق
شیعہ مذہب کے بعض محقیقین کا یہ دعوی ہے کہ قرآن پاک میں تحریف پر اہل تشیع کا اتفاق ہے اور عقیدہ تحریف شیعہ مذہب کے بنیادی عقائد میں سے ہے چنانچہ:
۱۔ پانچویں صدی ہجری کے مشہور شیعہ محقق ،فخر الشیعہ ابو عبداللہ محمد المعروف شیخ مفید اپنی کتاب
’’اوائل المقالات فی المذہب و المختارات‘‘
لکھتے ہیں :
واتفقوا ان ائمۃ الضلال خالفوا فی کثیر من تالیف القرآن و عدلوا فیہ عن موجب التنزیل و سنۃالنبی صلی اللہ علیہ و سلم ،و اجمعت المعتزلۃ،الخوارج،والزیدیہ ،والمرجۂ،واصحاب الحدیث علی خلاف الامامیۃ فی جمیع ما عددناہ(۲)
ترجمہ:شیعہ امامیہ کا اتفاق ہے کہ گمراہی کے سرغنوں(خلفائے ثلاثہ)نے قرآن پاک کو جمع کرنے میں بہیت سارے امور میں مخالفت کی اوراس معاملے میں قرآن پاک کے مقتضی اور آپ ﷺ کی سنت سے ہٹ گئے ،جبکہ باقی فرق یعنی معتزلہ ،خوارج ،زیدیہ ،مرجۂ اور محدثین کا ان باتوں میں امامیہ کے خلاف اجماع ہے۔
۲۔گیارہویں صدی کے معروف شیعہ محقق و مفسر ابو جعفر محمد بن الحسن الحر العاملی جنہیں شیعہ علماء افضل المتبحرین و شیخ المحدثین کے لقب سے یاد کرتے ہیں،اپنی تفسیر
"مراۃالانوارو مشکاۃ الاسرار"
کے مقدمے میں تحریف قرآن کے مسئلے پر مفصل بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وعندی فی وضوح صحۃ ہذالقول بعد تتبع الاخباروتفحص الاثاربحیث یمکن الحکم بکونہ من ضروریات مذہب التشیع و انہ من اکبر مفاسد غصب الخلافۃ(۳)
ترجمہ:میرے نزدیک آثار و روایات کے تتبع و جستجو کے بعد اس قول (تحریف قرآن )کی وضاحت وصحت اس درجے میں ہے کہ یہ شیعہ مذہب کی ضروریات میں شمار ہوتا ہے اور خلافت کو غصب کرنے کے مفاسد میں سے یہ سب سے بڑا مفسدہ ہے (کہ قرآن پاک میں تحریف ہوگئی)
۳۔بارہویں صدی کے مشہور شیعہ عالم یوسف البحرانی اپنی معروف و ضخیم کتاب ’’حدائق الناظرہ فی احکام العترۃ الطاہرۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
ثم اقول مما یدفع ماادعوہ ایضاً استفاضۃ الاخباربالتغییر و التبدیل فی جملۃ من الایات من کلمۃباخری زیادۃعلی الاخبار المتکاثرہ بقوع النقص فی القرآن و الحذف منہ کما ھو مذہب جملۃ من مشائخنا المتقدمین والمتاخرین(۴)
ترجمہ:میں کہتا ہوں ان حضرات کے مذکورہ دعوی کا رد اس سے بھی ہو تا ہے کہ متواتر روایات اس بارے میں مروی ہے کہ قرآن پاک کے کلمات میں تغیر و تبدیلی ہوئی ہے ،نیز قرآن پاک میں حذف و کمی پر بھی روایات موجود ہیں ،نیز یہی ہمارے سب متقدمین و متاخرین کا مذہب بھی ہے ۔
۴۔مشہور شیعہ عالم طیب الموسی الجزائری ’’تفسیر قمی ‘‘کے مقدمہ تحقیق میں تحریف القرآن کا عنوان باندھ کر لکھتے ہیں :
بقی شیء یہمنا ذکرہو ھو ان ھذالتفسیر کغیرہ من التفاسیر المتقدمہ یشتمل علی روایات مفادہاان المصحف الذی بین ایدینالم یسلم من التحریف و التغییر،وجوابہ انہ لم ینفرد المصنف بذکرہابل وافقہ فیہ غیرہ من المحدثین المتقدمین و المتاخرین عامۃ و خاصہ(۵)
ترجمہ:ایک اہم چیز کا ذکر باقی ہے کہ یہ تفسیر بقیہ تفاسیر (یعنی اہل تشیع کی تمام تفاسیر تحریف کی روایات پر مشتمل ہے)کی طرح ایسی روایات پر مشتمل ہے ،جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو قرآن پاک ہمارے سامنے ہے تغیر و تحریف سے محفوظ نہیں رہا ،لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ صرف مصنف نے ان روایات کو ذکر نہیں کیا ،بلکہ اس کے ذکر کرنے میں متقدمین و متاخرین ،خاص علماء میں سے ہو یا عام ،سب نے مصنف کی موافقت کی ہے ۔
۵۔معروف شیعہ محقق اپنی کتاب ’’مشارق الشموس الدریہ ‘‘میں تحریف قرآن پر مفصل بحث کر کے آخر میں لکھتے ہیں :
واجماع الفرقۃ المحقۃ و کونہ من ضروریات مذہبہم و بہ تضافرت الاخبار (۶)
ترجمہ:اس قول (تحریف قرآن )پر فرقہ حقہ (شیعہ )کا اجماع ہے اور یہ ضروریات مذہب میں سے ہے اور اسی بارے میں متواتر روایات ہیں
Samiullah Jan دوسرا قول :عدم تحریف پر اہل تشیع کا اتفاق
پچھلے قول کے برخلاف بعض شیعہ محقیقین کا دعوی ہے کہ اہل تشیع کا قرآن پاک کے عدم تحریف پر اتفاق ہے اور شیعہ مذہب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن پاک میں کبھی کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ۔اب قارئین ہی ان دونوں دعوؤں میں تعارض و تضاد کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں اور اہل تشیع کے نامی گرامی علماء کی دیانت اور اپنے مذہب کے ’’متفقہ عقائد‘‘کے بارے میں ان ’’محقیقن‘‘کے ’’کامل علم‘‘ کا اندازہ لگائیں چنانچہ:
۱۔ چوتھی صدی کے مشہور شیعہ عالم ابو الحسن بن الحسین المعروف ابن بابویہ الصدوق اپنی کتاب ’’الاعتقادات‘‘ میں لکھتے ہیں :
اعتقادنا ان القرآنالذی انزلہ اللہ تعالی علی نبیہﷺھو مابین الدفتین۔۔ومن نسب الینا انا نقول انہ اکثر من ذلک فھو کاذب (۷)
ترجمہ:ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو قرآن پاک اللہ نے اپنے نبیﷺ پر نازل کیا ،وہی ہے جو اسوقت مابین الدفتین موجود ہے ،اور جو ہماری طرف یہ منسوب کرے ،کہ ہم اس سے زیادہ کے قائل ہیں ،وہ جھوٹا ہے۔
۲۔ساتویں صدی کے معروف عالم رضی الدین علی بن طاؤوس لکھتے ہیں :
لا یتوجہ الطعن و القداح علی الامامیہ بوجود نقصان و تبدیل و تغییر فی القرآن لانہم یقولون بعدم التحریف مطلقاً(۸)
ترجمہ:قرآن پاک میں تغیر وکمی کے بارے میں امامیہ پر کسی قسم کی طعن و تشنیع نہیں کی جا سکتی ،کیونکہ امامیہ مطلقاً عدم تحریف کے قائل ہیں ۔
۳۔مشہور شیعہ عالم اور امام ابن تیمیہ کے ہم عصر ابن مطہر الحلی قرآن پاک کے بارے میں اہل تشیع کا عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں :
واتفقو علی ان ما نقل الینا متواترا من لقران فھو حجۃ ،واستدل بانہ سند النبوۃ و معجزتہا الخالدہ(۹)
ترجمہ:شیعہ کا اتفاق ہے کہ قرآن پاک جو متواتراً ہم تک منقول ہے ،حجت ہے ،دلیل یہ ہے کہ یہ کلام سند نبوت اور دائمی معجزہ ہے۔
۴۔عصر حاضر میں اہل تشیع کے مجتہد اعظم سید محسن الامین العاملی اپنی ضخیم کتاب اعیان الشیعہ میں لکھتے ہیں :
لا یقول احد من الامامیہ ،لا قدیماً ولا حدیثاًان القرآن مزید فیہ ،قلیل او کثیر ،فضلا عن کلہم،بل کلہم متفقون علی عدم الزیادہ،ومن یعتد بقولہ من محقیقیہم متفقون علی انہ لم ینقص منہ(۱۰)
ترجمہ:امامیہ میں سے کوئی بھی متقدمین میں سے ہو یا متاخرین میں سے،قرآن پاک میں کسی قسم کی زیادتی کا قائل نہیں ہے ۔اور امامیہ کے معتبر محقیقین کا اتفاق ہے کہ قرآن میں کمی بھی نہیں ہوئی ہے۔
۵۔معروف و مشہور شیعہ عالم سید ابراہیم الموسوی اپنی مفصل کتاب ’’عقائد الامامیہ الاثنی عشریہ‘‘ میں قرآن پاک کے بارے میں مذہب شیعہ کا عقیدہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
اتفق الامامیہ الاثنی عشریہ بکلمۃ واحدۃ علی انہ لا زیادۃ فی القرآن و جزمو بکلمۃ قاطعۃ ان بین الدفتین ھو القرآن المنزل دون زیادۃ و نقصان ولیوم اصبح ھذ القول ضرورۃ من ضروریات الدین(۱۱)
ترجمہ:امامیہ اثنا عشریہ کا کلی اتفاق ہے کہ قرآن پاک میں کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوئی ہے ،اور سب کا قطعی طور پریہ ایقان ہے کہ بلا کسی کمی و زیادتی کے یہ قرآن وہی ہے، جسے اللہ تعالی نے نازل کیا تھا اور آج یہ قول ضروریات میں سے شمار ہوتا ہے۔
ناطقہ سر بگریباں ھے کہ کس ’’اتفاق‘‘ سے اتفاق کیا جائے اور کس کو جھوٹا کہا جائے ،اپنے بنیادی عقیدے کے بارے میں اتنا واضح تضاد شیعہ مذہب کا ہی خاصہ ہے ،ان ’’مجتہدین ملت‘‘اور محقیقین مذہب‘‘کی یہ تضاد بیانیاں شیعہ مذہب کی ’’حقیقت‘‘اور اس کی ’’اصلی صورت ‘‘کو جس طرح واضح کر رہی ہیں ،وہ کسی صاحب فہم و شعور پر مخفی نہیں ہے۔
تیسرا قول :عقیدہ تحریف میں اہل تشیع کا اختلاف
ان دو قولوں کے علاوہ ’’شیعہ محقیقن ‘‘کے ہاں ایک تیسرا قول بھی ملتا ھے کہ شیعہ مذہب میں تحریف قرآن کا عقیدہ ان عقائد میں سے ہے ،جس میں اہل مذہب کے علماء کا اختلاف ہے ،بعض تحریف کے قائل ہیں ،جبکہ بعض نے عدم تحریف کو ترجیح دی ہے ،’’اختلاف‘‘اور ’’اتفاق‘‘کے یہ دعوے مذہب شیعہ کی ’’صداقت و دیانت‘‘مذہب شیعہ میں قرآن پاک کی ’’اہمیت و عظمت ‘‘اور علمائے شیعہ کے ’’علم ومعرفت‘‘پر وہ انمٹ داغ ہیں ،جو اس’’ خود ساختہ مذہب ‘‘ کی حقیقت سے اہل فکر و نظر کو آگاہ کرتے رہیں گے چنانچہ:
۱۔شیعہ مذہب کے خاتم الفقہاء و المحدثین علامہ نوری الطبرسی اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’فصل الخطاب ‘‘ میں تحریف قرآن کے حوالے سے اہل تشیع کا مسلک یوں بیان کرتے ہیں :
المقدمۃ الثالثہ فی ذکر اقوال علمائنا فی تغییر القرآن وعدمہ،فاعلم ان لھم فی ذلک اقوالاً ،المشہور اثنان:
الاول:وقوع التغییر والنقصان فیہ۔۔۔۔۔۔والثانی:عدم وقوع التغییر والنقصان (۱۲)
ترجمہ:مقدمہ ثالثہ :قرآن پاک میں تغیر کے بارے میں علمائے شیعہ کے اقوال کے بیان میں ہے ،تو اس بارے ان کے مختلف اقوال ہیں ،ان میں سے دو مشہور ہیں :پہلا قرآن پاک میں کمی بیشی کا قول ،دوسرا عدم تحریف کا قول۔
۲۔معروف شیعہ عالم علامہ علی فانی الاصفہانی اپنی کتاب ’’آراء حول القرآن ‘‘میں لکھتے ہیں :
الا مر الخامس :ھل اعتصم القران من التغییر؟اختلفت الاقوال فی تغییر القران بازیادۃ والنقصان و عنوان البحث تحریف القرآن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔من ھم القائلون بالتحریف وماھو ادلتہم؟
الجواب ان جماعۃ من المحدثین و حفظۃ الاخبار استظھروا التحریف بالنقصیۃ من الاخبار ولذلک ذہبوا الی التحریف بالنقصان
ترجمہ:امر خامس:کیا قرآن پاک تغیر و تبدیلی سے محفوظ ہے؟جواب یہ ہے کہ قرآن پاک میں کمی بیشی ،تغیر و تبدیلی کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ،اور اس مسئلہ کا عنوان تحریف قرآن ہے۔۔۔تحریف قرآن کے قائلین کون ہیں اور ان کے کیا دلائل ہیں ؟جواب یہ ہے کہ محدثین و اخباریوں کے ایک گروہ نے قرآن پاک میں کمی کی روایات نقل کئے ہیں اور اس وجہ سے انہوں نے تحریف کا قول اختیار کیا ہے ۔
۳۔معروف شیعہ عالم حسین البحرانی کی کتاب ’’الانوار الوضیہ‘‘ کے محقق و محشی العصفور البحرانی مذکورہ کتاب کے حاشیے میں لکھتے ہیں :
قد اختلف علمائنا الابرار فی ھذہ المسئلۃ :فمن ھم من جعل الحفظ لاجل ۔۔۔ومن ھم من لم یسلم فیہ الحفظ لا فی المعانی ولا فی المبانی(۱۴)
ترجمہ:ہمارے علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے ،بعض نے کچھ وجوہات کی بنا پر حفاظت والا قول لیا ہے ،اور کچھ ایسے ہیں ،جنہوں نے الفاظ اور معانی دونوں میں اس کی حفاظت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
۴۔عصر حاضر کے مشہور شیعہ عالم اپنی تفسیر ’’آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن ‘‘ کے مقدمے میں عقیدہ تحریف سے متعلق لکھتے ہیں :
اختلفوا فی وقوع الزیادۃ والنقصان فیہ ،اوالصحیح ان القرآن العظیم محفوظ عن ذلک (۱۵)
ترجمہ:علمائے شیعہ کا قرآن پاک میں کمی بیشی کے بارے میں اختلاف ہے ،صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک تبدیلی سے محفوظ ہے۔
۵۔عصر حاضر میں عدم تحریف کے سب سے بڑے وکیل اور مشہور شیعہ عالم سید ابو القاسم الخولی اپنی تفسیر ’’البیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں عقیدہ تحریف پر مفصل بحث کر کے آخر میں لکھتے ہیں :
وجملۃ القول ان المشہور بین علماء الشیعہ و محقیقیھم،بل المتسالم علیہم بینہم،ھو القول بعدم التحریف،نعم ذہب جماعۃمن المحدثین من الشیعہ و جمع من علماء اہل السنۃ الی وقوع التحریف(۱۶)
ترجمہ:خلاصہ یہ ہے کہ شیعہ محقیقین کا قریب قریب عدم تحریف پر اتفاق ہے ،البتہ شیعہ محدثین کی ایک جماعت اور اہل سنت کا ایک گروہ(یہ جناب خوئی صاحب کا افتراء محض ہے ،مزید تفصیل آئے گی )تحریف کے قائل ہیں۔
محترم تینوں قسم کے موقف پیش کر دیے کہ ایک قول یہ ہے کہ تحریف پر اہل تشیع کا اتفاق ہے ،دوسرا قول ہے کہ عدم تحریف پر اتفاق ہے تیسرا قول ھے کہ اختلاف ھے تو آنجناب سے سوال ھے کہ ان تینوں قسم کی عبارات میں تطبیق دیں کہ اس بارے میں آپ کا اصل مذہب کیا ھے ،باقی آئندہ
خیر طلب محترم سلام علیکم۔ بہت خوشی ہوئی آپ کی تعلیقات دیکھ کر۔ آپ کے جب جواب مکمل کرلیں تو بتائے گا۔
فی الحال یہی ھے ،جب اس پر بحث مکمل ھوگی تو باقی پھر۔
خیر طلب عزیزی ممکن ہوسکے تو ہماری دیگر تعلیقات پر اپنی تنقیح کردیں تاکہ ہمیں اپنے استدلال کے نقص کا علم ہو جائے۔
باقی جب آپ مکمل کرلیں گے تو میں انشاء اللہ اگر وقت نے ساتھ دیا تو ہفتہ/اتوار کو جواب دوں کیونکہ میں عام دنوں میں بہت زیادہ مصروف ہوتا ہوں۔
محترم آپ کی باقی تعلیقات میں قابل تبصرہ باتیں نہیں ہیں مثلا ،عدم تحریف کی کتب کے حوالے، دو اہل سنت افراد کی شہادت کہ شیعہ تحریف کے قایل نہیں ہیں،وغیرہ ایسی باتیں ہیں کہ ان پر تبصرہ کی ضرورت میں نہیں سمجھتا ھاں کچھ اہم نکات پر گفتگو کر چکا ھوں اور دوسرا ہم موضوع سے نکل جایں گے ،آپ کی وسعت ظرفی ھے کہ آپ خود تبصرہ کا حکم دے رھے ہیں۔باقی اپ جب فارغ ھوں جواب دیں تاخیر میں کوی مضایقہ نہیں ھے میری اپنی بھی کافی مصروفیات ہیں والسلام
خیر طلب چلیں جیسی آپ کی مرضی۔ میں ان شاء اللہ ہفتہ یا اتوار کو کوشش کروں گا جواب دوں۔
برادر سلام علیکم
گھر میں شفٹنگ و دیگر مصروفیات کی وجہ سے تاخِیر جواب میں معذرت۔
امید ہے آپ بخیر و عافیت سے ہوں گے۔ خدا سے دعا ہے کہ آپ اور تمام قارئین اور میں جانتا ہوں کہ کچھ سنجیدہ مزاج کے حامل افراد اس کو پڑھ رہے ہیں، ان تمام کو تحقیق حق کی سنجیدہ توفیق دے۔
برادر محترم چونکہ ہماری بحث علمی پیرائے میں ہورہی ہے اور مجھے بہت سارے تحفظات و شکایات ہیں لیکن فقط ماحول کی سنجیدگی کو برقرار رکھنے کے لئے فی الحال ان پر کوئِی تبصرہ نہیں کرتا کیونکہ بحث پھر سمیٹنے کے بجائے مزید پھیل جائے گی۔
برادر محترم اگرچہ ہم طفل مکتب ہی صحیح لیکن ایسے الفاظ استعمال کرنا:
ناطقہ سر بگریباں ھے کہ کس ’’اتفاق‘‘ سے اتفاق کیا جائے اور کس کو جھوٹا کہا جائے ،اپنے بنیادی عقیدے کے بارے میں اتنا واضح تضاد شیعہ مذہب کا ہی خاصہ ہے ،ان ’’مجتہدین ملت‘‘اور محقیقین مذہب‘‘کی یہ تضاد بیانیاں شیعہ مذہب کی ’’حقیقت‘‘اور اس کی ’’اصلی صورت ‘‘کو جس طرح واضح کر رہی ہیں ،وہ کسی صاحب فہم و شعور پر مخفی نہیں ہے ۔
،جو اس’’ خود ساختہ مذہب ‘‘ کی حقیقت سے اہل فکر و نظر کو آگاہ کرتے رہیں گے
تبصرہ از خیر طلب: برادر محترم یقینا میں جانتا ہوں کہ یہ الفاظ استعمال کرنا جب آپ اپنوں میں تقریر کررہے ہیں یا کسی 'جلے بھنے سب و شتم رافضی' سے بات کررہے ہیں تو سمجھ آتے ہیں۔ لیکن جب ایک سنجیدہ بحث چل رہی ہو تو یقینا ایسے الفاظ میں نہیں سمجھتا کوئی اچھا تاثر دیتے ہیں۔ اگر انہی الفاظ پر زور دینا ہے تو عزیزی مجھے عبدالشکور لکھنوی کی کتب کے دوبارہ مطالعہ کا ہی کہہ دیتے میں ان کی تحریرات کو میدان طنز و سب میں بہتیروں کی طرف سے واجب کفایہ سمجھتا ہوں۔۔ خیر مقصد ہرگز ہرگز آپ جیسے فہیم شخص کی بیخ کنی کرنا نہیں بلکہ فقط کچھ باتوں کے احساس کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ خوب۔
اب ہم بحث کے اصل مرکز پر آتے ہیں۔ برادر محترم و اخی العزیز ہم فردا فردا ہم ایک ایک حوالہ کی تنقیح پر آئیں گے البتہ یہ بات بتاتے چلیں جو قارئین کی ذوق طبع کے لئے خوب رہے گی کہ کبھی کبھار انتساب مذھب میں انسان کو غلطی لگ جاتی ہے۔
خیر طلب میں بڑی بڑی عربی کتب سے حوالے دینے کے بجائے مسلک دیوبند کے محقق شہیر و شیخ الحدیث علامہ سرفراز صفدر گھگڑوی کی ایک حکایت کو نقل کرتا ہوں۔ علامہ سرفراز صفدر جو مسلک دیوبند کے مدافعین میں صف اول کے علماء میں شمار ہوتے ہیں، اور اتحاد اہلسنت کی ہمہ وقت کاوشوں میں سرگرم عمل رہتے تھے، ایک بار مولانا طارق جمیل صاحب کو یوں خط لکھتے ہیں:
اکیسواں الزام۔ حیات النبیﷺ کا عقیدہ امت کا اجماعی ہے۔ سب سے پہلے انکار مولانا حسین علیؒ نے کیا۔
(علامہ سرفراز صفدر اس الزام کا جواب دیتے ہیں)
ایک مدت تک اس غلط فہمی میں حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی نور اللہ مرقدہ بھی مبتلا رہے۔ اور اپنے ایک مضمون میں اسے انہوں نے امام المفسرین مولانا حسین علی صاحب قدس اللہ سرہ کا تفرد لکھا۔ اس کے جواب میں میں نے ایک مضمون لکھا اور باحوالہ ثابت کیا حضرت مولانا حسین علیؒ ہرگز حیات النبیﷺ کے منکر نہ تھے۔
حوالہ: صبح کی آنکھ لالہ فام ہوئی از سرفراز حسن خان ہمزہ احسانی۔
لنک
برادر محترم۔ اس میں واضح بات لکھی ہے کہ مولانا شامزئی صاحب نے کسی پروپیگنڈے میں آکر کسی کی طرف مذھب کو غلط منسوب کردیا جس کے بعد جب انہیں اطلاع دی گئی تو اس سے مراجعت کی۔
ہم اس ایک حوالہ اور مختصر تمہید کے بعد ایک بات کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھیں گے، ہم نے پچھلے دنوں کافی مبسوط تحریر لکھی جو ایک اہلسنت کے جواب الجواب میں تھی اس کا ابتدائی حصہ 'ابطال الاشکالات فی قضیتہ المتعتہ' تھا اور پھر جواب الجواب 'شرح ابطال الاشکالات فی قضیتہ المتعتہ' تھا جو کافی طویل تھا اور اس میں مذھب ابن عباس رضی اللہ عنہ اور نکاح متعہ پر سیر بحث کی۔ اس میں احقر العباد نے روش قیل و قال کو نکل کرنے کے ساتھ ساتھ واقعی انتساب مذھب میں پوری دیانت کے ساتھ تحقیق کی اور خود اقرار قائل کو بارہا جگہ نصیب کیا اور بعض الناس کے انتساب رجوع پر سیر بحث کی۔ چنانچہ مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے بہت کچھ جگہ خود قائلین کے اصل الفاظ نقل کئے اور کہی کہی آپ نے دوسرے مولفین کے انتساب مذھب پر اکتفاء کیا۔
عزیزی بندہ احقر یہ بتاتا چلے کہ میں نے تحریف کی ابحاث میں تشیع کے موقف سے زیادہ تسنن کے موقف کو سمجھنے کے لئے کتنے رسائل و کتب جات کو چھانٹا ہے اس کی تفصیل بتانا مقصود نہیں لیکن میں نے ہمہ وقت یہ کوشش کی کہ انصاف و دیانت کے ساتھ فریقین کے دلائل کو پڑھوں۔
کچھ دنوں پہلے ہی میں نے ایک ۱۱۴ صفحات پر مشتمل 'دفاع عن الحدیث' مقالہ لکھا جس میں شیخ علی بن ابراہیم استاد شیخ کلینی سے جو تحریف قرآن کے عقیدے کا انتساب کیا جاتا ہے اس پر سیر بحث کی۔ اب ہم نے جہاں جہاں فقط انتساب کو نقل کیا ہوگا اس پر اس تمہید کی روشنی میں، میں معذرت چاہوں گا، کیونکہ میری تحقیق اکثر مصنفین کے بارے میں کافی مختلف ہیں جو دلائل باہرہ پر مشتمل ہیں۔ انشاء اللہ اس کا نمونہ جلد آپ شیخ مفید والی بحث میں دیکھیں گے۔
خیر طلب شیخ مفید و بحث تحریف۔
برادر محترم سب سے پہلے آپ نے عمدتہ المکلمین شیخ مفید کا قول پیش کیا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم 'شیخ الحدیث صفدر گھگڑوی' کی روش جو انہوں نے 'عبارت اکابر' کتاب میں اپنائی اس کے تحت ہم پہلے ان کا تعارف شیخ مصادر کے بجائے اہلسنت مصادر سے دے دیں۔ چناچنہ علامہ شمس الدین ذھبی رقم طراز ہے:
عَالِمُ الرَّافِضَة، صَاحِبُ التَّصَانِيْفِ، الشَّيْخُ المُفِيْد، وَاسْمُهُ: مُحَمَّدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ النُّعْمَانِ البَغْدَادِيُّ، الشِّيْعِيُّ، وَيُعْرَفُ: بِابْنِ المُعَلِّمِ.
كَانَ صَاحِبَ فُنُوْنٍ وَبُحُوثٍ وَكَلاَمٍ، وَاعْتِزَالٍ وَأَدَبٍ
یعنی شیخ مفید روافض کے عالم تھے، مختلف تصانیف کے مالک، ان کا اسم گرامی محمد بن محمد بن نعمان ہے اور بغداد سے تعلق رکھتے تھے، شیعہ تھے اور ان کو ابن معلم سے بھی پہچانا جاتا۔ ان کا مختلف فنون، مباحث، کلام، اعتزال اور ادب میں ملکہ تھا۔
اس کے بعد ابن ابی طئی سے نقل کرتے ہیں:
كَانَ أَوْحَدَ فِي جَمِيْع فُنُوْن العِلْمِ: الأَصْلَين، وَالفِقْهِ، وَالأَخْبَارِ، وَمَعْرِفَةِ الرِّجَال، وَالتَّفْسِيْرِ، وَالنَّحْوِ، وَالشِّعرِ.
وَكَانَ يُنَاظِرُ أَهْلَ كُلِّ عَقِيْدَةٍ مَعَ العَظَمَة فِي الدَّوْلَة البُوَيْهِيَّة، وَالرُّتبَةِ الجَسِيْمَةِ عِنْدَ الخُلَفَاء، وَكَانَ قَويَّ النَّفْسِ، كَثِيْرَ البِرِّ، عَظِيْمَ الخُشُوعِ، كَثِيْرَ الصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ، يَلْبَسُ الخَشِنَ مِنَ الثِّيَابِ، وَكَانَ مُدِيْماً للمُطَالعَة وَالتَّعلِيم، وَمِنْ أَحْفَظِ النَّاسِ.
قِيْلَ: إِنَّهُ مَا تَرَكَ لِلمُخَالفين كِتَاباً إِلاَّ وَحَفِظَه، وَبهَذَا قَدَر عَلَى حَلِّ شُبَه القَوْم، وَكَانَ مِنْ أَحرصِ النَّاسِ عَلَى التَّعْلِيمِ، يَدُورُ عَلَى المكَاتبِ وَحوَانيتِ الحَاكَةِ، فَيَتَلَمَّحُ الصَّبيَّ الفَطِنَ، فَيستَأْجِرُهُ مِنْ أَبَويه - يَعْنِي فَيُضِلُّهُ - قَالَ: وَبِذَلِكَ كَثُرَ تَلاَمِذَتُهُ.
وَقِيْلَ: رُبَّمَا زَارَهُ عَضُدُ الدَّوْلَة، وَيَقُوْلُ لَهُ: اشْفَعْ تُشَفَّعْ. وَكَانَ
رَبعَةً نَحِيْفاً أَسمرَ، عَاشَ سِتاً وَسَبْعِيْنَ سَنَةً، وَلَهُ أَكْثَرُ مِنْ مائَتَي مُصَنَّف - إِلَى أَنْ قَالَ:
مَاتَ سَنَةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَع مائَة، وَشَيَّعَهُ ثَمَانُوْنَ أَلْفاً۔
مفہوم: یعنی علم عقائد، فقہ، علم تاریخ، علم رجال، علم تفسیر، علم النحو، علم اشعار تمام کی تمام شیخ مفید میں جمع تھیں۔ اور شیخ ہر عقیدے کے ماننے والے سے مناظرہ کرتے۔ اور خلفاء کے نزدیک صاحب عزت تھے، قوی شخصیت کے حامل تھے اور ساتھ ساتھ بہت نیک تھے، خشوع و خضوع کے پیکر، کثرت سے نماز و روزوں کو انجام دیتے۔ اور سادے کپڑوں کو زیب تن کرتے، مطالعہ و تعلیم میں بہت مسلسل طبعیت کے حامل تھے، اور لوگوں میں سے سب سے بہترین حافظے والے۔ کہا گیا کہ کہ انہوں نے مخالفین کی کسی کتاب کو نہیں چھوڑا مگر یہ کہ اس کو حفظ کرلیا، اور جب ہی اپنے گروہ کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش تھے۔ اور تعلیم کے معاملے میں سب سے زیادہ توجہ و ملتفت کرنے والے اور اکثر دکانون پر کتب کو لینے جایا کرتے۔۔۔۔۔ الی الاخر۔
برادر محترم سب سے عجیب جملہ مجھے شیخ ذھبی کا لگا جو آخر میں یوں گویا ہوتے ہے:
وَقِيْلَ: بَلَغَتْ تَوَالِيفُهُ مائَتَيْنِ ، لَمْ أَقِفْ عَلَى شَيْءٍ مِنْهَا - وَلله الحَمْدُ
اور کہا گیا ہے کہ ان کی کتب و تصیفات کی تعداد ۲۰۰ کے لگ بھگ ہے۔ اور میں نے ان تصانیف میں سے کسی کو نہیں پڑھا اور نہ ہی جانتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے۔
عجیب ثم العجیب۔ عزیزی ایک طرف سلف صالح تھے جو مذھب امامیہ کی کتب کو نہ پڑھانے کو سرمایہ حیات سمجھتے اور دوسری طرف خلف ہیں جو مذھب حقہ کی کتب کو پڑھ بھی رہے ہیں تو کاملا نہیں بلکہ تقلید در تقلید پڑھ رہے ہیں جس کا نمونہ عنقریب دیکھیں گے۔
خدا کی عظیم کڑوڑوں رحمتیں ہو شیخ مفید اعلی اللہ مقامہ پر۔ واقعی شیخ کے ترجمہ کو پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ بندہ ہو تو اس متبحر عالم کی طرح۔ یہ ساری عبارات ہم نے سیر اعلام النبلاء، جز ۱۷، ص ۳۴۴-۳۴۵، طبع لبنان سے نقل کیں ہیں۔
خیر طلب خیر اب اصل مدعے پر آتے ہیں۔ برادر محترم آپ نے شیخ کا یہ قول نقل کیا
قرآن پاک کو جمع کرنے میں بہیت سارے امور میں مخالفت کی اور اس معاملے میں قرآن پاک کے مقتضی اور آپﷺ کی سنت سے ہٹ گئے ،جبکہ باقی فرق یعنی معتزلہ ،خوارج ،زیدیہ ،مرجۂ اور محدثین کا ان باتوں میں امامیہ کے خلاف اجماع ہے۔
عزیزی محترم۔ ہمارے پیش نظر شیخ مفید کی کتاب اوائل المقالات موجود ہے جو قم سے طبع شدہ ہے۔ آپ نے جو عبارت نقل کی ہے وہ اس عنوان کے تحت ہے
'القول في الرجعة والبداء وتأليف القرآن'۔
شیخ رقم طراز ہے:
واتفقوا على أن أئمة الضلال خالفوا في كثير من تأليف القرآن، وعدلوا فيه عن موجب التنزيل وسنة النبي (ص).
اور مذھب حقہ امامیہ کا اتفاق اس امر پر ہے کہ آئمہ ضلال نے 'تالیف قرآن' میں تنزیل و سنت نبوی ص سے عدول کرتے ہوئے کافی مخالفت کی ہے-
حوالہ: اوائل المقالات، ص 46، طبع قدم مقدسہ-
عزیزی و برادر محترم و اخی الجلیل۔ اب 'تالیف قرآن' مہم امر ہے۔ تالیف قرآن میں غلطی سے مراد کیا اصلا تحریف و نقصان/زیادتی کا ہونا مراد ہے۔ اس سلسلے میں ہم شیخ مفید ہی سے پوچھتے ہیں کہ اس سے مراد کیا ہے:
فأما القول في التأليف فالموجود يقضي فيه بتقديم المتأخر وتأخير المتقدم ومن عرف الناسخ والمنسوخ والمكي والمدني لم يرتب بما ذكرناه
تالیف قرآن کے حوالے سے جو بات ہے وہ کہ موجودہ مصحف میں قدیم آیات کو متاخر کردیا گیا ہے اور متاخر آیات کو پہلے لایا گیا ہے، اور ناسخ، منسوخ، مکی و مدنی کا لحاظ نہیں کیا گیا جمع آوری میں جیسے کہ ہم نے اس کا ذکر کیا ہے
حوالہ: اوائل المقالات، ص ۸۱، طبع قم۔
عزیزی اس سے مراد تحریف الفاظی بالکل نہیں بلکہ قرآن کی بمطابق تنزیل کی عدم جمع آوری مراد ہے۔ ناسخ و منسوخ آیات کا نہ ہونا مراد ہے۔
باقی عزیزی ہمارے پاس الحمد للہ آپ کے مسلک میں بھی بعض حضرات کی ترتیب موجودہ قرآن سے مختلف تھی جیسے کہ علماء اہلسنت کی تصریحات موجود ہیں۔ حوالے جات موجود ہیں آپ کے حکم کی دیر ہیں۔
ہم ایک اثر ابن عمر سے استدلال کریں گے جس پر علامہ عبدالشکور کاکوری لکھنوی کی تنقیح بھی پیش کریں گے۔ علامہ سید علی حائری و علامہ سید حامد لکھنوی نے ایک اثر ابن عمر سے استدلال کیا جس کے جملے یہ تھے:
قال أبوعبيد : ، حدثنا : إسماعيل بن إبراهيم ، عن أيوب ، عن نافع ، عن إبن عمر قال : ليقولن أحدكم قد أخذت القرآن كله وما يدريه ما كله : قد ذهب قرآن كثير ولكن ليقل قد أخذت منه ما ظهر
بحذف سند ابن عمر نے کہا تم میں سے ہرگز ہرگز کوئی یہ دعوی نہ کرے کہ اس نے سارے قرآن کو لے لیا ہے اور پھلا ایسا کہنے والے کو کیا پتا کہ پورا قرآن کیا ہے، بتحقیق قرآن بہت سارا 'ذھب' چلا گیا ہے۔ مگر قائل یہ کہے کہ میں نے اس 'قرآن' میں سے بعض کو لیا جو مجھے جو ظاہر ہوا۔
حوالہ: الاتقان، جز ۳، ص ۸۲، طبع مصر۔
سردست عزیز من ہمیں فی الحال اس کے مدلول پر بحث نہیں کیونکہ یہ کسی اور دن کی بحث رہی لیکن شیخ مفید پر اعتراض کے جواب میں یہ اثر اور اس کی تشریح مفید ہے۔ چنانچہ 'امام اہلسنت عبدالشکور کاکوری لکھنوی' رقم طراز ہے:
مقصود حضرت ابن عمر کا درحقیقت یہی ہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ منسوخ ہوجانے کی وجہ سے اس مصحف میں نہیں ہے- لہذا یہ کہنا کہ قرآن پورا مجھے یاد ہے جھوٹ ہوگا۔
حوالہ: تنبیہ الحائرین لحمایتہ الکتاب المبین، ص ۷۰، ناشر مکتب فاروقیہ دریائی ٹولہ لکھنو، سنہ طباعت: ۱۴۰۲ ہجری-
عزیزی یہی مراد شیخ مفید کی اگر لی جئے جیسا کہ ان کے کلام سے متشرح ہے تو کوئی قباحت لازم نہ آئے گی کیونکہ منسوخ آیات کا نہ ہونا کلیت کے قائدے کو ختم کررہا ہے بقول ابن عمر کے و تشریح عبدالشکوری کے مطابق۔ اب فیصلہ آپ کے اوپر چھوڑتا ہوں۔
خیر طلب عزیزی اب ہم علامہ یوسف البحرانی کے قول کی طرف ملتفت ہوتے ہیں۔ آپ نے علامہ یوسف البحرانی کی کتاب الحدائق الناضرة سے نقل کیا۔ میرے پیش نظر شیخ الاخباریین محدث امامیہ شیخ یوسف البحرانی کی کتاب 'الحدائق الناضرة في احكام العترة الطاهرة' جو 'دار الاضواء بیروت' سے ۱۹۸۵ میں چھپی۔ فقہ امامیہ میں اخباری نکتہ نگاہ سے یہ ایک بہترین و صف اول کی کتاب کہی جاسکتی ہے۔ اخباری منھج کی پوری غماز یہ کتاب ہے۔ بندہ احقر نے ایک بار 'سید کمال الحیدری' کے درس کو سنا تو سید کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے اس کتاب کو حرف بحرف پڑھا ہے اور استدلال فقہ اخباری کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ خدا علماء امامیہ پر رحمت نازل کرے۔ واقعی جو لوگ اس مذھب کو 'سیاسی مذھب' کا طعنہ دیتے ہیں انہیں چاہئے کہ علماء امامیہ کے تراث فقہی، اصولی، تفسیری و دیگر علوم جات کا مطالعہ کریں۔ خیر بحث پر واپس آتے ہیں۔
برادر اس کی جلد نمبر ۸ بندہ احقر کے پیش نظر ہے جو آپ ادھر سے ڈانلوڈ کرسکتے ہیں:
لنک
یقین جانیں میں پوری کوشش کررہا ہوں کہ اپنے حسن ظن جو آپ کے لئے ہے، اس کو قائم و دائم رکھوں لیکن بعض مال و صورت استدلال کو دیکھتے ہوئے اس کو چوٹ ضرور لگتی ہے لیکن میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ ایک اسلامی برادر کے بارے میں برا نہیں سوچوں، بہت ممکن ہے اس سے کوئی سھوا غلطی ہو۔
برادر محترم حدائق کے جز ۸ کے صفحہ ۹۵ میں علامہ یوسف البحرانی ایک باب قائم کرتے ہیں
هل القرءات السبع متواترة
یعنی کیا سات قرآت متواتر ہیں؟
اس پر علامہ یوسف نے سیر بحث کی ہے، جو بندہ احقر کی نظر میں مستحسن ہے۔ البتہ اس پر مزید تحقیق اگر کرنی تو آیت اللہ خوئی کی 'البیان فی تفسیر القرآن' و دیگر کتب امامیہ کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
اب جو عبارت آپ نے نقل کی ہے جس کی توضیح عنقریب آئے گی وہ اس باب میں ہے۔ چنانچہ باب کو دیکھ کر مراد کا تعیین کرنا چاہئے۔ فقط الفاظ سے کوئی نتیجہ بغیر سیاق و سباق کو دیکھے نکالنا صحیح نہیں۔
علماء امامیہ میں قرآت سابعہ کے حوالے سے دو نظریات ہیں۔ متقدمین و متاخرین میں سے کافی علماء کا نظریہ ہے کہ قرآن فقط ایک حرف واحد پر نازل ہوا ہے اور ساتھ قرات قارئین کی اجتہاد ہیں جس کو اگرچہ پڑھنے کی رخصت تو ہے لیکن اصلا اس پر جزم و قطع کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ دوسرا نظریہ جس میں شہید ثانی کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ وہ قرات سابعہ کو من جانب خدا مانتے تھے۔
علامہ یوسف البحرانی نے پہلے نظریے کے اثبات میں دلائل دئیے ہیں اور دوسرے نظریے کے کمزور ہونے پر دلائل دئیے ہیں۔ علامہ نے ان قرات کے عدم تواتر پر روایات و اخبار اہلبیت علیھم السلام، علمائے امامیہ کے اقوال نقل کئے اور بالاخر اس حوالے سے علامہ یوسف البحرانی نے علمائے عامہ یعنی اہلسنت علماء کے اقوال سے استشہاد بھی کیا ہے۔ چنانچہ علامہ فخر الدین رازی کے ایک قول سے ص ۹۷ پر استدلال قائم کیا۔ علامہ فخر الدین رازی کا کامل کلام ان کی تفسیر کبیر میں بایں موجود ہے:
الْمَسْأَلَةُ الثَّالِثَةَ عَشْرَةَ: اتَّفَقَ الْأَكْثَرُونَ عَلَى أَنَّ الْقِرَاءَاتِ الْمَشْهُورَةَ مَنْقُولَةٌ بِالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ وَفِيهِ إِشْكَالٌ:
وَذَلِكَ لِأَنَّا نَقُولُ: هَذِهِ الْقِرَاءَاتُ الْمَشْهُورَةُ إِمَّا أَنْ تَكُونَ مَنْقُولَةً بِالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ أَوْ لَا تَكُونُ، فَإِنْ كَانَ الْأَوَّلَ فَحِينَئِذٍ قَدْ ثَبَتَ بِالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ خَيَّرَ الْمُكَلَّفِينَ بَيْنَ هَذِهِ الْقِرَاءَاتِ وَسَوَّى بَيْنَهَا فِي الْجَوَازِ، وَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ كَانَ تَرْجِيحُ بَعْضِهَا عَلَى الْبَعْضِ وَاقِعًا عَلَى خِلَافِ الْحُكْمِ الثَّابِتِ بِالتَّوَاتُرِ، فَوَجَبَ أَنْ يَكُونَ الذَّاهِبُونَ إِلَى تَرْجِيحِ الْبَعْضِ عَلَى الْبَعْضِ مُسْتَوْجِبِينَ لِلتَّفْسِيقِ إِنْ لَمْ يَلْزَمْهُمُ التَّكْفِيرُ، لَكِنَّا نَرَى أَنْ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ هَؤُلَاءِ الْقُرَّاءِ يَخْتَصُّ بِنَوْعٍ مُعَيَّنٍ مِنَ الْقِرَاءَةِ، وَيَحْمِلُ النَّاسَ عَلَيْهَا وَيَمْنَعُهُمْ مِنْ غَيْرِهَا، فَوَجَبَ أَنْ يَلْزَمَ فِي حَقِّهِمْ مَا ذَكَرْنَاهُ، وَأَمَّا إِنْ قُلْنَا إِنَّ هَذِهِ الْقِرَاءَاتِ مَا ثَبَتَتْ بِالتَّوَاتُرِ بَلْ بِطَرِيقِ الْآحَادِ فَحِينَئِذٍ يَخْرُجُ الْقُرْآنُ عَنْ كَوْنِهِ مُفِيدًا لِلْجَزْمِ وَالْقَطْعِ وَالْيَقِينِ، وَذَلِكَ بَاطِلٌ بِالْإِجْمَاعِ، وَلِقَائِلٍ أَنْ يُجِيبَ عَنْهُ فَيَقُولَ: بَعْضُهَا مُتَوَاتِرٌ، وَلَا خِلَافَ بَيْنِ الْأُمَّةِ فِيهِ، وَتَجْوِيزُ الْقِرَاءَةِ بِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهَا، وَبَعْضُهَا مِنْ بَابِ الْآحَادِ وَكَوْنُ بَعْضِ الْقِرَاءَاتِ مِنْ بَابِ الْآحَادِ لَا يَقْتَضِي خُرُوجَ الْقُرْآنِ بِكُلِّيَّتِهِ عَنْ كَوْنِهِ قَطْعِيًّا، وَاللَّهُ أَعْلَمُ
.
حوالہ: مفاتیح الغیب، جز اول، ص ۷۰، طبع دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
چنانچہ جب یہ واضح ہوگیا کہ علامہ یوسف البحرانی کا مقصد قرات سابعہ پر بحث کرنا تھا۔ علامہ نے مختلف روایات کا ذکر کیا، عقلی دلائل دئے، مخالف روایات کی توجیہ پیش کی۔ علامہ نے اپنے شیخ کی سند سے علامہ جار اللہ زمخشری کے قول کو نقل کیا جو سات قرات کے منکر تھے۔ ملاحظہ ہو ص ۱۰۲۔
خیر طلب چنانچہ اس قول کو نقل کرکے اس قول کو پسند کیا۔ اس کے بعد فرمایا اس عبارت کو جو آپ نے نقل کی ہے:
ثم اقول: ومما يدفع ما ادعوه ايضا استفاضة الأخبار بالتغيير والتبديل في جملة من الآيات من كلمة باخرى زيادة على الأخبار المتكاثرة بوقوع النقص في القرآن والحذف منه كما هو مذهب جملة من مشايخنا المتقدمين والمتأخرين
شیخ جار اللہ زمخشری کی دعوے کا اثبات ان مستفیض اخبار و روایات سے بھی ہوتی ہیں جو آیات میں ایک کلمہ کا دوسرے میں تغییر و تبدیل جملات پر دال ہیں۔ ایسی روایات بہت ساری ہیں جو نقص اور حذف پر دال ہوں اور یہی ہماے مشائک متقدمین اور متاخرین کا مذھب ہے۔
حوالہ: الحدائق، جز ۸، ص ۱۰۲، طبع لبنان۔
برادر محترم اس کے بعد علامہ نے اختلاف قرات کی روایات کو نقل کیا۔ برادر عزیز اب اس سیاق و سباق کو دراصل قرات سابعہ کے تناظر میں دیکھیں تو حقیقت کھل جائے گی۔ اس سے اصلا اثبات تحریف مراد لینا مشکل ہیں کیونکہ خود شیخ طوسی، شیخ طبرسی، شیخ صدوق، سید مرتضی و دیگر علماء سے صراحت کے ساتھ قرآن کے عدم تحریف پر اقوال موجود ہیں تو شیخ کی یقینا مراد تحریف قرآن نہیں بلکہ اختلاف قرات ہیں۔ شیخ یوسف البحرانی نے کچھ سطور پہلے ہی شیخ طوسی و شیخ طبرسی کے اقوال سے استشہاد کیا تھا قرآن کے ایک حرف واحد کے استدلال پر۔
اب ہم یہ کیوں کہہ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر علامہ کے نزدیک قرآن محرف ہوتا تو وہ لائق احتجاج نہیں ہوتا۔ چنانچہ علامہ یوسف البحرانی الحدائق کے جز اول میں رقم طراز ہے:
۔ وعرض ما يرد من جهتهم على الكتاب العزيز والسنة النبوية وترك ما خالفهما
آئمہ علیھم السلام نے شیعوں کو ہدایت کی ہے کہ جو بھی اخبار ان کی طرف سے ائے انہیں خدا کی کتاب اور سنت نبوی کے آئینہ میں دیکھیں اور جو بھی ان کے خلاف ہو اسے غیر مقبول و مردود قرار دیں۔
حوالہ: الحدائق، جز ۱، ص ۹، طبع لبنان
خیر طلب برادر محترم آپ نے کہا:
حالانکہ ابن تیمیہ صاحب کی عبارت کا تعلق صرف صدر اول کے ساتھ ہے کہ صدر اول میں تواتر کا درجہ ابھی قران اپک کو حاصل نہیں ھوا تھا ،اس لیے آخر میں انہوں نے کہا
؎إِنْ كَانَ يَكْفُرُ بِذَلِكَ مَنْ قَامَتْ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ بِالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ>
تو اسے بعد والوں پر چسپاں کرنا
توجیہ القول بما لا یرضی بہ القایل
تبصرہ: برادر عزیز یہی استدلال ہمارا ہے جو چیز شرک و کفر ہوگی وہ ہمیشہ ہوگی اور وہ کسی اجماع وغیرہ کی محتاج نہیں۔ اب مثال لیجئے اگر رسول ص خاتم النبیین ہے تو اب مزید کسی اتمام حجت و دلیل کی احتیاج نہیں۔ لہذاء اب اجماع ہو یا نہ ہو جو بھی اس کا مخالف ہوگا وہ کافر ہے، یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی زمانے میں اجماع ہوا اور اس کے بعد کافر ہوگا اور اس سے پہلے خاطی۔ عزیزی یہ واضح و بدیہی غلطی ہے۔
اب اگر اصل علت کو دیکھیں تو ابن تیمیہ کے نزدیک ان پر اتمام حجت نہ تھی لہذاء ان کا تردو و اغلاط فقط خطاء کی جنس میں ہے اور متاخرین کے لئے وہ نوع کفر میں ہے۔ تو عزیزی یہی استدلال اگر ہم ان حضرات کے لئے پیش کردیں کہ شاید ان پر بھی اتمام حجت نہ ہوئی ہو اور ان کی تحقیق اتنی وسیع نہ ہو جب ہی ان کے قائل کو زیادہ سے زیادہ خاطی کا لقب دیا دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اصل علت ادھر خاطی کہنے کی یہ ہے کہ اس پر حجت قائم نہیں ہوئی۔
میں ایک بات پوچھتا ہوں کہ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلاں چیز از قبیل شرک تھی کسی نبی ص کی امت میں اور رسول ص کی امت میں وہ مستحسن ہوگئی، یا اس کے برعکس کوئی چیز کسی نبی ص کی امت کے لئے مستحسن تھی اور رسول ص کی امت کے لئے شرک و کفر۔ بات کا تعلق چونکہ عقیدے سے ہے اس لئے جو فتوی آخرین کے لئے ہوگا وہی متقدمین کے لئے بھی۔
خیر طلب عزیزی آپ نے کہا
نیز فتوی عالگیری کی عبارت کا تعلق بھی صرف معوذتین کے ساتھ ہے نہ کہ پورے قرآن پاک کے ساتھ،اور وہ بھی ایک قول ہے ،نیز تحریف و تغیر ایک الگ چیز ھے جب کہ کسی سورت کا انکار ایک الگ مبحث ھے عالگیریہ کا تعلق پہلے کے ساتھ ھے نہ کے دوسرے کے ساتھ
تبصرہ: عزیزی قرآن ایک کل حقیقت ہے جس کے اجزاء آیات، مختلف سورتیں ہیں ۔ اب بقول آپ کے جو قرآن میں نقص کا قائل ہو وہ کافر یا قرآن میں زیادتی کا قائل ہو وہ کافر۔ یہ ساری قبیل تحریف لفظی میں آتی ہے۔ یعنی جو چیز اصل مصحف میں موجود نہ تھی اس کا اضافہ کردیا گیا یا جو چیز اصل مصحف میں تھی اس کو نکال دیا گیا۔ اب معوذتین قرآن کی دو سورتوں کے مجوعہ کا نام ہے۔ جو اس کا انکار کرے گا کیا وہ اس بات کا بزبان حال اقرار نہیں کررہا ہے کہ قرآن میں زیادتی ہوئی ہے۔ اب یہ عجیب توضیح پیش کی گئی کہ تحریف و تغییر الگ چیزیں ہیں اور معوذتین کا معاملہ دیگر ہے۔ کیا معوذتین اتنی مظلوم ہیں کہ ان کے انکار پر کوئی مناظر اہلسنت نہ اٹھے؟
صاف کہہ دیجئے کہ چونکہ معوذتین کے منکر کو کافر نہیں کہا اور ایک کافر کو کافر نہ کہنا کفر ہے لہذاء قائل اس عبارت کی وجہ سے کافر ہے۔ ہم تو فقط یہی بات کررہے ہیں کہ محترم علماء اسلام میں اختلاف موجود ہے کہ آیا کفر کا فتوی لاگو ہوگا یا خطاء کا۔
خیر طلب اگر یہ قول صحیح ھے تو نوری کی تناقضی فطرت کے کمال پر دال ہے ،کیونکہ اس میں نوری کہہ رھے ہیں کہ میرا مقصد اثبات حفاظت ھے اور پوری کتاب اثبات تحریف سے لبریز ھے ///
تبصرہ: عزیزی اگر طبعیت پر گراں نہ گزرے تو بات عرض کروں۔ یہ مسئلہ بہت واضح ہے کہ ہماری تحریر میں جو لطیف نکات ہیں اس سے اغماض کرکے فقط بعض باتوں کے جواب پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ محترم برادر یہ چیز ذھن میں رہے کہ موجودہ 'فصل الخطاب' طبع حجریہ نہیں بلکہ اہلسنت مکاتب کی چھاپ ہے۔ اب اس کتاب پر اعتبار کتنا کیا جائے یہ خود ایک اہم سوال ہے۔ میں تدلیس عن الثقات جو محدثین کے ہاں مجروح نہیں، اس تک سے احتزار کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور ہمیشہ میں کافی حوالوں کو فقط اس لئے دے نہیں پاتا کیونکہ میرے پاس اصل کتاب موجود نہیں ہوتی، میری بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ اصل معتمد علیہ کتاب سے جس کے صحت پر اعتبار ہو اس سے استدلال و احتجاج کیا جائے، چنانچہ جس دن میرے پاس طبع حجریہ کا نسخہ موصول ہوگا اس وقت میں اس نہج پر ہوں گا کہ کوئی کلام کرسکوں۔ فصل الخطاب کے مندرجات کے بارے میں، میں نے اتنی قیل و قال دیکھی ہے کہ میں فی الحال کسی پر بالقطع اعتماد نہیں کرسکتا۔ اگرچہ میرے پیش نظر موجودہ نسخہ کتاب فصل الخطاب ہے جو طبع حجریہ نہیں۔
نیز اگر بات یہی ھے تو شیعہ علماء بے اس کے رد میں کتب کیوں لکھی؟
جواب: عزیزی شکر کریں کہ آپ نے مان لیا۔ اول تو یہی طعنہ دیا جاتا تھا کہ اس کتاب پر شیعہ واویلا نہیں کرتے بلکہ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آج ہم سرفخر بلند کرکے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ معیار ہمارے ہاں 'قرآن' ہے نہ کہ شخصیات۔ جواب کتاب لکھنا واضح ہے کہ اس کا نام تحریف پر دال ہے۔ اور اسماء کتب کے ایسے نام ہونا بعید نہیں۔ کچھ دن پہلے بندہ احقر کی نگاہوں سے 'بدعات صحابہ' نامی کتابچہ فیض احمد اویسی صاحب گزرا۔ تو یوں لگا کہ اس میں صحابہ کی تنقیص ہے لیکن جب مغز کتاب پر نظر پڑی تو مختلف پایا۔
خیر طلب /نیز آپ کا اسے رجوع کہنا عذر گناہ بدتر از گناہ کے قبیل سے ھے ،کیونکہ نوری نے رجوع نہیں کیا بلکہ اپنے کتاب کو غلط معانی پہناے کہ کتاب پوری اثبات تحریف پر مشتمل ھے اور نوری کہہ رھے ہیں کہ میں نے اس میں رد تحریف کیا ھے ،یقیناً تقیہ کے قایلین سے ہی ایسی تضاد بیانی کا صدور ھو سکتا ھے ،
تبصرہ: برادر عزیز جب خود شاگرد بات نقل کررہا ہے جو واقعی اوثق الناس فی زمانہ تھا تو مجھے جیسے بندہ کو شک کرنے میں گنجائش نہیں رہتی۔ میں نے پہلے بھی جواب دیا تھا جس پر شاید آپ نے اپنی توجہ کو مرکوز نہیں کیا یا کیا تو جواب الجواب دینے سے احتزار کیا۔ ہم نے واشگاف الفاظ میں نوری محدث کے قول سے ثابت کیا کہ ان کا موقف دیگر تھا۔ اگر بالفرض دو موقف میں تعارض بھی واقع ہو تو علماء اہلسنت کی منطق کے تحت ہم رجوع کے قول کو اول مانیں گے۔ ابن عباس کے بہت سارے فقہی مسائل میں یہ روش علماء اہلسنت رہی ہے۔ جب وہ ابن عباس کے دو متضاد اقوال کو پاتے ہیں تو وہ رجوع سے استفادہ کرتے ہیں۔ کیا یہ حق فقط آپ کا ہے یا ہمارا بھی۔ قارئین کی ذوق طبعیت کے لئے وہ کلام طویل ہم پھر سے نقل کئے دیتے ہیں تاکہ انکار و جحد کی گنجائش نہ رہے۔
علماء امامیہ کی کتب کا موسوعہ جمع کرنے والے اور شیخ محدث محمد نوری کے شاگرد بزرگوار آغا بزرگ طہرانی نے الذريعة إلى تصانيف الشيعة کے جز 16 ص 231 میں فصل الخطاب کتاب کے ذیل میں رقم طراز ہیں کہ 'جب علامہ محدث نوری کے جواب میں کتاب لکھی گئی تو علامہ نے اس کتاب کے جواب میں فارسی میں ایک رسالہ لکھا اور یوں گویا ہوئے:
فكان شيخنا يقول: لا ارضى عمن يطالع (فصل الخطاب) ويترك النظر إلى تلك الرسالة.
یعنی میں اس بات پر راضی نہیں کہ کوئی شخص میری کتاب فصل الخطاب تو پڑھے اور اس رسالہ کا مطالعہ نہ کرے۔
اس رسالہ میں علامہ محدث نوری نے کہا:
ان الاعتراض مبنى عل المغالطة في لفظ التحريف، فانه ليس مرادى من التحريف التغيير والبديل، بل خصوص الاسقاط لبعض المنزل المحفوظ عند اهله، وليس مرادى من الكتاب القرآن الموجود بين الدفتين، فانه باق على الحالة التى وضع بين الدفتين في عصر عثمان، لم يلحقه زيادة ولا نقصان
یعنی یہ جو جملہ اعتراض کیا جارہا ہے وہ ایک مغلطہ کے تحت ہے جو لفظ تحریف میں پنہاں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اس لفظ سے مراد تغییر و تبدیلی نہیں، بلکہ بعض اہم منازل کا اسقاط ہے جو ان کے اہل کے ہاں تھی، اور میری مراد اس کتاب سے یہ ہمارے ہاتھوں میں موجود قرآن مجید نہیں، کیونکہ یہ وہی قرآن مجید ہے جو جناب عثمان کے عہد زمانہ سے اب تک بغیر کسی زیادتی و نقصان کے باقی ہے-
آگے ص 232 میں لکھا ہے کہ اس کتاب کا بہتر نام یہ ہونا چاہئے تھا فصل الخطاب في عدم تحريف الكتاب
اسی طرح شیخ بزرگ طہرانی شاگرد رشید نوری فرماتے ہیں اپنے استاد کے بارے می
وسمعناه من لسانه في أواخر أيامه فإنه كان يقول: أخطأت في تسمية الكتاب وكان الأجدر أن يسمى ب (فصل الخطاب) في عدم تحريف الكتاب لأني أثبت فيه أن كتاب الاسلام (القرآن الشريف) الموجود بين الدفتين المنتشر في بقاع العالم - وحي آلهي بجميع سوره وآياته وجمله لم يطرأ عليه تغيير أو تبديل ولا زيادة ولا نقصان من لدن جمعه حتى اليوم وقد وصل الينا المجموع الأولي بالتواتر القطعي ولا شك لاحد من الامامية فيه فبعد ذا امن الانصاف أن يقاس الموصوف بهذه الأوصاف
اور ہم نے ان کی زبانی زندگی کے آخری حصہ میں کہ میں نے اس کتاب کے نام رکھنے میں غلطی کی، زیادہ بہتر ہوتا کہ اگ میں اس کا نام (فصل الخطاب) في عدم تحريف الكتاب رکھتا کیونکہ اسلام کی کتاب قرآن مجید جو بین الدفتین موجود ہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں جلوہ افروز ہے، وہی وحی الہی ہے اپنی تمام سورتوں اور آیات سمیت، اور اس کی جمع آوری سے لے کر اب تک اس میں تغیر، تبدیلی، زیادتی اور نقصان نہیں۔ ا
اور یہ ہمارے پاس یہ تواتر قطعی کے توسط سے آیا اور اس میں سے کسی امامی شیعہ کو شک نہیں۔ اس کے بعد بحی لوگوں ان کو اس طرح کے اوصاف سے نوازتے ہیں-
حوالہ: مستدرك الوسائل ومستنبط المسائل، جز 1، ص 50، حاشیہ علامہ بزرگ طہرانی، تحقیق: موسستہ آل بیت
عزیزی۔ یہاں بر صراحت سے رجوع کہہ لیجئے یا عدم عقیدہ تحریف قرآن ثابت ہے، اور رجوع کے بعد کسی شخص پر پہلے گناہ کا الزام یا خطاء کا الزام دینا انصاف نہیں
خیر طلب ۔آپ کا یہ کہنا لیکن جہاں یہ حضرات ہیں تو وہاں مفتی شفیع، مفتی تقی عثمانی و دیگر علماء اہلسنت نے تشیع پر تکفیر سے پہلو تہی کی ہے ۔حلانکہ ان حضرات نے خود تکفیر شیعہ کے فتاوی جاری یے ہیں وہ الگ بات ھے یہ فتاوی مطلق کی بجاے مقید تھے کہ فلاں فلاں عقایدرکھنے والے شیعہ کافر ہیں اس میں تحریف کا عقیدہ بھی شامل ھے مانگیں گے تو لنک دوں گا۔///
تبصرہ: محترم۔ اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم فتاوے کی عبارت نقل کردیں۔
چناچنہ مفتی شفیع رقم طراز ہے
روافض میں بہت مختلف العقائد و الخیال ہیں۔ اور اسی بناء پر ہمیشہ متقدمین و متاخرین علماء ان کے بارے میں مختلف رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ جو لوگ ایسا کوئی عقیدہ نہیں رکھتے صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دوسرے صحابہ پر افضل کہتے ہیں، وہ کافر نہیں البتہ اہلسنت سے خارج ہے اور تبرا کرنے والا شیعہ بھی صحیح قول یہ ہے کہ کافر نہیں فاسق ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبارات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ جو روافض قطعیات اسلام کے خلاف کوئی عقیدہ نہیں رکھتے وہ کافر نہیں مگر اس میں شبہ نہیں کہ فاسق ہیں۔
حوالہ: فتاوی دار العلوم دیوبند، جلد دوم، از مفتی شفیع، ص ۴۲۳، ناشر: دار الاشاعت کراچی۔
اسی طرح شیعہ عورت سے نکاح کے بارے میں کہتے ہیں:
الغرض رافضی عورت سے بشرط مذکور نکاح صحیح نہیں۔
اس کو کہنے کے بعد علامہ شفیع عثمانی نے شامی سے ایک عبارت نقل کی جو رد المختار، جز ۴، ص ۲۳۷، طبع دار الفکر، تحت مَطْلَبٌ تَوْبَةُ الْيَأْسِ مَقْبُولَةٌ دُونَ إيمَانِ الْيَأْسِ میں بایں ہے:
وَذَكَرَ فِي الْمُحِيطِ أَنَّ بَعْضَ الْفُقَهَاءِ لَا يُكَفِّرُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ. وَبَعْضُهُمْ يُكَفِّرُونَ الْبَعْضَ، وَهُوَ مَنْ خَالَفَ بِبِدْعَتِهِ دَلِيلًا قَطْعِيًّا وَنَسَبَهُ إلَى أَكْثَرِ أَهْلِ السُّنَّةِ،
تبصرہ: عزیزی یہاں پتا چلا کہ روافض کی تفکیر مطلقا نہیں ہے بلکہ اس میں تفصیل ہے۔ اس کی مزید منطقی توضیح عنقریب آئے گی۔
چنانچہ اس عبارت کو روافض کی شان میں لکھنا یقینا ان شرعی اہل قبلہ میں لے جانے کے لئے کافی ہے جو قطعیات کے منکر نہ ہوں۔
اب ہم حکیم الامت علامہ اشرف علی تھانوی صاحب کے ایک فتوی کی طرف ملتفت ہوتے ہیں جس میں علامہ صاحب سے اس رافضی کے بارے میں جو صحابہ پر طعن کرتا ہے اور اہل اسلام سے مذھبی تعصب رکھتا ہے کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ تو علامہ صاحب جواب دیتے ہیں
بنا بر روایت مذکورہ و دیگر قواعد معروفہ مسلمہ جواب میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ رافضی عقائد کفر کے رکھتا ہے جیسے قرآن مجید میں کمی بشی کا قائل ہونا یا حضرت عائشہ صدیقہ رض پر تہمت لگانا یا حضرت علی رض کو خدا مانتا یا یہ اعتقاد رکھنا کہ جبرائیل علیہ السلام غلطی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وجی لے آئے تب تو کافر ہیں اور اس کا نکاح سنیہ سے صحیح نہیں اور محض تبرائی کے کفر میں اختلاف ہے علامہ شامی نے عدم کفر کو ترجیح دی ہے جلد ۳ ص ۴۵۳ مگر اس کے بدعتی ہونے میں کچھ شک نہیں تو اس صورت میں گو وہ کافر نہ ہوگا مگر بوجہ فسق اعتقادی کے سنیہ کا کفو نہ ہوگا۔
حوالہ: امداد الفتاوی، جلد دوم، کتاب النکاح، ص ۲۵۳-۲۵۴۔ ناشر: مکتبہ دار العلوم کراچی۔
تبصرہ: ادھر بھی ہم نے دیکھا کہ روافض کو مطلقا کافر نہیں کہا گیا بلکہ تفصیل کی گئی اور چار عقائد کی بنا پر کفر کے مقید پر فتوی کفر ہے۔
دیوبندی عالم دین شیخ خالد سیف اللہ سنی شیعہ نکاح کے بارے میں رقم طراز ہے:
شیعہ حضرات کے مختلف فرقے ہیں، جن میں بعض کو مسلمان کہا جاسکتا ہے اور بعض پر علماء نے کفر کا فتوی لگایا ہے
حوالہ: کتاب الفتاوی، چوتھا حصہ، ص 356، کتاب النکاح، طبع زمزم پبلشرز۔
تبصرہ: ادھر بھی روافض کے بارے میں مطلقا تکفیر سے پرہیز کیا گیا۔
علامہ مفتی تقی عثمانی کا فتوی بھی واضح ہے جو روافض کی تکفیر کے عدم پر اور الامان میسج میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے جس کا اعادہ ضروری نہیں۔
اس کے علاوہ علامہ ثناء اللہ امرتسری جنہیں ختم نبوت کے مولانا اللہ یار وسایا دیوبندی نے فاتح قادیان کہا اور اپنے آپ کو خاکپائے حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری کہا اور رحمتہ اللہ علیہ جیسے دعائیں کلمات سے نوازہ۔ انہوں نے ایک رسالہ قادیانیوں کے کفر کے اثبات میں لکھا اور اس کے ٹائٹل صفحہ پر شیعوں کو مسلمان لکھا۔ یہ رسال میری نظر سے گذرا تھا اگرچہ ابھی اس کا پورا حوالہ و سن اشاعت یاد نہیں۔ لیکن علامہ ابو وفا ثناء اللہ امرتسری نے ان ایک استیفتاء تیار کیا 'علمائے اسلام' کی خدمت میں جس میں مرزائیوں کے کفر کا ثبوت تھا۔ اس میں انہوں نے لاہور کے 'شیعہ سنی علماء' کے اقوال نقل کئے اور لکھنو کے شیعہ مجتہدین کے اقوال نقل کئے۔
حوالہ: فسخ نکاح مرزائیاں۔ ص 12 و ص 16 ایضا احتساب قادیانیت جلد 8 ص 454 و 458، ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان۔
تبصرہ: ادھر بالعموم مطلقا آپ کے ہاں کے فاتح قادیان نے شیعوں کو مسلمان لکھا۔
خیر طلب علامہ ابراہیم سیالکوٹی جن کے بارے میں مولانا اللہ یار وسایا ختم نبوت والے کہتے ہے کہ وہ مزاجا معتدل اور صالح طبعیت کے انسان تھے۔ ایک اچھے انسان کی تمام خوبیوں کے مالک تھے۔ حق تعالی نے ان کو خلوص و للھیت کی نعمت سے بھرپور نوازا تھا۔ علامہ ابراہیم سیالکوٹی رقم طراز ہے:
تو شہر میں منادی کرادی اور متشہر بھی کردیا کہ کوئی مسلمان مرزائیوں کے جلسے میں نہ جائے- ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ ان کے عقائد کفریہ کو چپ چاپ ہوکر سنیں۔ کیونکہ خدا ئے تعالی اور اس کا رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم ایسی مجالس میں شریک ہونے اور ان کی رونق کو بڑھانے اور کفریات کو خاموشی سے سننے سے منع فرماتے ہیں۔ دوسری طرف انحمن اہل حدیث نے کھلے میدان میں اپنا جلسہ منعقد کردیا۔ جس میں مقامی علماء حنفی اور کیا اہلحدیث اور کیا شیعہ سب بالاتفاق شریک ہوئے۔ کیونکہ مسائل قادیانیہ سب مسلمانوں کے خلاف ہیں۔
حوالہ: کشف الحقائق ص ۳ نقلت من الاحتساب قادیانیت، جلد ۱۹، ص ۱۱۰، ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان۔
تبصرہ: ادھر بالعموم مسلمان تسلیم گیا گیا۔
مولانا لال حسین اختر جن کو 'مناظر اہلسنت' علامہ عبدالستار تونسوی دعائے رحمت کرتے ہیں اور مناظرہ باگڑسرگانہ میں اہلسنت کے علماء میں شریک تھے۔ وہ رقم طراز ہے:
چنانچہ ارتداد روکنے کے لئے جمعیت العلماء ہند، خلافت کمیٹی، مدرسہ عالیہ دیوبند، حنفی، اہلحدیث، اہلحدیث اور شیعہ جملہ مکاتب فکر کے مسلمان علماء، وزعما، آریہ سماج کے مقابلے میں میدان تبلیغ میں نکل آئے۔
حوالہ: احتساب قادیانیت، جلد اول، ص ۲۱، ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان
تبصرہ: اہلسنت کے مایہ ناز عالم دین ایک ارتداد کو روکنے کے لئے جن شیعوں کو سہارا لے رہے ہیں ان کے مطلقا مسلمان ہونے میں کوئِی شک نہیں رہتا۔
ان زعماء و علماء اہلسنت جو متاخرین و معاصرین میں سے ہیں، ان کی تحقیق کو نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بقول عبدالشکور لکھنوی و دیگر علمائے اہلسنت پچھلے زمانے کے علماء اہلسنت کو کچھ معلوم ہی نہیں تھا مذھب شیعہ کے بارے تو ہم نے سوچا کہ متاخرین کا ہی حوالہ دے دیں۔ اب استدلال یوں کہ:
1 تحریف کا قائل کافر
2 سارے شیعہ کافر نہیں
نتیجہ: سارے شیعہ تحریف کے قائل نہیں
یہ آسان نتیجہ ہر کسی کے سمجھ میں آںے والا ہے۔ فیصلہ خود کریں۔
خیر طلب یعنی المختصر ہم نے 'وقت کی انتہائی قلت' کے باوجود آپ کی اہم باتوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ میں نے بطور مثال شیخ مفید اور شیخ یوسف البحرانی کی رائے پر اپنی جوابی رائے کا اظہار کیا ہے۔ باقی مزید باتیں بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم نے سردست ان پوسٹ میں یہ ثابت کیا ہے
1۔ بعض علمائے اہلسنت کے مطابق اہل تشیع میں سے کوئی تحریف کا قائل نہیں اور اگر قائل بھی ہے تو فقط شاذ و نادر علماء۔
2۔ سنی علماء کا اقرار کہ تحریف کا قائل کافر نہیں بلکہ خاطی ہے اور کافر وہ ہے جس پر اتمام حجت ہوگئی جیسے ابن تیمیہ نے کہا لیکن ہم اس ہی طریق پر سوال کرتے ہے کہ یہی بات تو شیعہ علماء کے لئے سوچی جاسکتی ہے۔
3۔ سنی علماء میں سے بعض نے مطلقا اور بعض نے قیدا مسلمان کہا۔ یہ کل یا بعض کو مسلمان بتانا یہ غماز ہے کہ ان میں سے کل یا بعض تحریف قرآن کے قائل نہیں ورنہ قائلین تحریف کو کافر کہنے والے ہرگز بطور فرقہ مسلمان نہ کہتے۔
4۔ میری گذارش ہے برادر سمیع اللہ سے کہ اگر ممکن ہوسکے تو شخصیت شخصیت بات کریں، مذھب منسوب کرنے میں کبھی کبھی غلطی ہوجاتی ہے۔
باقی برادر مزید بہت کچھ لکھنا چارہا تھا لیکن سردست بہت ساری وجوہات کی بنا بر نہیں لکھ پایا۔ ایک وجہ وقت کی شدید تنگی ہے اور جب ہی آپ اتنی ساری چیزیں ہماری ٹائم لائن پر لکھتے ہیں لیکن عموما میں کسی کا جواب اس لئے نہیں دیتا کہ میرے پاس وقت نہیں۔
میں کوئی نام نہاد مناظر بھی نہیں جس کی دکان ہی چیلنج بازی ہی میں گذرے۔ کوئی موضوع رکھنا ہو تو رکھ لیں۔ مفتی زاہد و دیگر حضرات کو مدعو کریں اسکائپ پر تحریف پر بات کرلیں۔
Samiullah Jan محترم آپ کی تحریر نظر نواز ھوی ،اپنی عادت کے مطابق اگرچہ کافی طویل اور کچھ غیر متعلقہ مباحث پر بھی مشتمل تھی ،لیکن اسلوب علمی ہونے کی وجہ سے دل خوش ھوا، محترم سب سے پہلے تو میں ان عبارات پر معذرت کرتا ھوں ،جو آپ کی طبع خاطر پر گراں گزریں۔لیکن ایک وجہ سے اپنے آپ کو مجبور بھی پاتا ھوں ،جب آپ کے امام کامل مفید کی زبان سے خلفاے ثلاثہ کے بارے میں ایمۃ الضلال کے الفاظ پاتا ھوں یا خمینی جسے امام انقلاب اسلامی کی زبان سے حضرت عایشہ و دیگر صحابہ و تمام اہلسنت کے لیے اخبث من االکلب و الخنزیر کے الفاظ پاتا ھوں۔اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ کے الفاظ میں یہ ایمہ "جلے بھنے سب و شتم رافضی"میں آتے ہیں یا نہیں؟
۲۔امام ابن تیمیہ و فتاوی عالمگیری کی عبارت پر مزید بحث نہیں کروں گا،کیونکہ بھر حال اس بات میں آپ کو بھی شک نہیں ھو گا کہ اہل سنت کے نزدیک با الاتفاق (یہ وہ متضاد اتفاق نہیں ھے جو تحریف کے بارے میں شیعہ کا ھے)کافر ھے ،اور خود جو فتوی آپ نے نقل کیے ہیں اس میں بھی قایل تحریف کو کافر کہا گیا ہے ،باقی ان عبارات سے آپ کا استدلال مختلف وجوہ کی بنا پر تام نہیں ھے ،مختصرا یہ کہ دعوی عام ھے اور دلیل خاص ھے ،و غیر ذلک من الو جوہ الدالۃ علی تزییف استدلالک وللہ اعلم با لصواب
Samiullah Jan ۳۔اب میں اصل مقصد کی طرف آتا ھوں ،محترم مفید کی عبارت سے متعلق میں صرف دو سوال کرتا ھوں ،
ایک یہ کہ شیخ مفید نے اپنی عبارت میں قرآن پاک جمع کرنے سے متعلق دو مخالف اجماع ذکر کیے ،ایک امامیہ کا ،دوسرا بقیہ تمام امت کے جملہ فرق کا ،اب اگر اس اجماع سے بقول آپ کے مراد یہ ھو کہ امامیہ صرف اس بات پر متفق ہیں کہ قران پاک ترتیب نزولی کے مطابق جمع نہیں ھوا اور نہ ہی اس میں منسوخ آیات شامل ہیں ،تو اس کا مطلب یہ ھوگا یہ بقیہ تمام امت کے فرق کا اتفاق ھے کہ قران پاک ترتیب نزولی کے مطابق جمع ھوا اور اس میں منسوخ آیات شامل ہیں ،کیا یہ مطلب درست ھوگا ؟(ہر گز نہیں کیونکہ تمام امت اس بات میں امامیہ کے ساتھ ھے )خلاصہ یہ کہ آپ اس عبارت میں اس اختلافی نقطے کی وضاحت کریں ،جو امامیہ و دیگر فرق امت کے درمیان اختلافی ھے ؟جس پر مفید نے دو مخالف اجماع نقل کیے ؟
دوسرا شیخ مفید نے کہا ھے کہ خالفوا فی کثیر "تو آپ ان کثیر مخالفتوں کی نشاندہی کریں جو خلفاے ثلاثہ نے کیں ،آپ نے ابھی تک صرف دو مخالفتیں نقل کی ہیں ،ایک ترتیب نزولی کے مطابق جمع نہ ھونا ،دوسرا منسوخ آیات شامل نہ ھونا ،بان دو کے علاوہ باقی مخالفتیں کیا ہیں ؟کیا صرف دو مخالفتوں پر کثیر کا اطلاق درست ھے ؟؟
باقی شیخ مفید کی جو دوسری عبارت آپ نے نقل کی وہ ا س باب کی نہیں ھے ،وہ دوسرے باب کی ھے ،جس پر بحث اس وقت آیگی جب مفید کے مسلک پر بحث کریں گے ،کیونکہ وہاں اس عبارت کے علاوہ بقیہ کافی قابل اعتراض مواد ھے ۔وسوف یاتی ان شاللہ
Samiullah Jan ۴۔آپ نے البحرانی کی عبارت پہ تبصرہ کیا ،جبکہ میری تحریر میں یہ تیسرے نمبر پر ھے ،العاملی کی عبارت جو دوسرے نمبر ھے ،شاید آپ نے قصدا چھوڑ دی ،کیونکہ اس کی کوی توجیہ ممکن نہیں ھے ،نہ عنوان کے اعتبار سے اور نہ معنون کے اعتبار سے کما انت اعلم بہا منی
۵۔البحرانی کی عبارت کی توجیہ کا خلاصہ یہ ھے کہ آپ کے بقول یہاں مراد اختلاف قراءت ھے ،کما یدل علیہ عنوان البحث ،میں عبارت دو بارہ درج کرتا ھوں،البحرانی لکھتے ہیں:
م اقول: ومما يدفع ما ادعوه ايضا استفاضة الأخبار بالتغيير والتبديل في جملة من الآيات من كلمة باخرى زيادة على الأخبار المتكاثرة بوقوع النقص في القرآن والحذف منه كما هو مذهب جملة من مشايخنا المتقدمين والمتأخرين۔
محترم اس عبارت میں دو چیزوں کے بارے میں اخبارہ کثیرہ کا ذکر ھے ایک اختلاف قراءت کے بارے میں وھو ھذا" ا استفاضة الأخبار بالتغيير والتبديل في جملة من الآيات من كلمة" دوسرا قران پاک میں حزف و کمی کے بارے میں وھو ھذا" زيادة على الأخبار المتكاثرة بوقوع النقص في القرآن والحذف منه كما هو مذهب جملة من مشايخنا المتقدمين والمتأخرين۔"اور اس دوسرے یعنی حذ ف فی القران و نقصہ کے بارے میں فرمایا ۔کما ھو مذھب جملۃ مشایخنا المتقدمین و المتاخرین ،یہی وجہ کہ اس عبارت سے متصل بعد لکھتے ہیں ،ومن الاول ۔۔۔۔۔۔۔اور اختلاف قراءت کی روایات نقل کیں ،بہت ساری روایات نقل کر کے آ گے لکھتے ہیں: واما اخبار القسم الثاني فهي اكثر واعظم من ان يأتي عليها قلم البيان في هذا المكان
اگر آپ کی بات مان لیں کہ یہاں دونوں قسم کی اخبار سے مراد اختلاف قراءت ہے تو یہ ظاہر عبارت کے ایک تو بالکل خلاف ھے کیوا نکہ اختلف قراءت میں حزف و کمی کی بجاے تغیر و تبدیلی ھوتی ھے کما لا یخفی ،نیز اس میں یہ لازم آیگا کہ اختلاف قراءت جملہ مشایخ شیعہ متقدمین و متاخرین کا مذہب ھے ، حا لانکہ خود آپ اقرا کر چکے ہیں کہ ایک قراءت اکثر متقدمین و متاخرین شیعہ کا مسلک ھے اور البحرانی بھی اسی کو ثابت کر رھے ہیں ،فما جواب ھذا التناقض الازم من تاویلیک نیز اگر آپ کو اس پر اصرار ھے تو پھر الدر ر النجفیہ کی یہ عبارت ملاحظہ فرمایں اس صریح عبارت میں کیا تاویل کریں گے
اقول لا يخفى ما في هذه الأخبار من الدلالة الصريحة والمقالة الفصيحة على تحريف القرآن وبشكل واضح، ولو تطرق الطعن إلى هذه الأخبار على كثرتها وانتشارها لأمكن الطعن إلى أخبار الشريعة كلها كما لا يخفى إذا الأصول واحدة، وكذا الطرق والرواة والمشايخ والنقلة، ولعمري أن القول بعدم التغيير والتبديل لا يخرج من حسن الظن بأئمة الجور، وأنهم لم يخونوا في الأمانة الكبرى مع ظهور خيانتهم في الأمانة الأخرى التي هي أشر ضرراً على الدين علی ان ھذہ الا خبار لا معارض لھا کما عرف سوا مجرد الدعاوی الغاویہ القلیل الذی لا یخرج عن القیل و القال۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے لکھتے ہیں
وأما ما احتج به الصدوق في اعتقاداته وكذا المرتضى في جملة كلامه أوهن من بيت العنكبوت وإنه لأهون البيوت
سبحان اللہ کیا اب بھی کسی تاویل کی گنجایش رہ گی ھے ؟؟؟نیز الحدایق کی یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمایں
وليس بالبعيد ان هذه القراءة كغيرها من المحدثات في القرآن العزيز، لثبوت التغيير والتبديل فيه عندنا زيادة ونقصانا. وان كان بعض اصحابنا ادعى الاجماع على نفي الاول، إلا ان في اخبارنا ما يرده ۲۹۱ /
۳محترم اب آپ بتایں کہ عندنا کا مطلب کیا ھوتا ھے کیونکہ عدم تحریف میں بھی تم لوگ صدوق کے عندنا کے الفاظ سے استدلال کرتے ھو، ان دونوں عندنا میں یقینا تعارض و تضاد یقینی ھے ؟ تو میرا مدعا تو ثابت ھوا
Samiullah Jan ۶۔اس کے علاوہ آپ بار بار یہ کہہ رھے ہیں کہ چونکہ فصل الخطاب کا طبع حجریہ نہیں ھے اور بقیہ طبعات ناقبل اعتبار ہیں تو میں آپ کو حجریہ کا لنک دیتا ھوں ،آپ اس کو پڑھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ نوری کا مقصد کیا تھا اور آغا بزرگ کا قول کتنی حد تک درست ھے
لنک
۷۔باقی انہی عبارت پر ایک ایک کرکے ہم بحث کریں گے تا کہ ایک تو شیعہ کا مسلک بالکل منقح ھو جاے ،نیز جو عبارت آپ کے نزدیک بیان مذہب معلوم نہیں ھوتیں ،ان کی تعیین ھو جاے ،کیونکہ تعارض و تضاد سے شیعہ مسلک کی کتب مالا مال ہیں
کما اعترف الطوسی فی اول التھذیب
الحمد لله ولي الحمد ومستحقه وصلواته على خيرته من خلقه محمد وآله وسلم تسليما ذاكرني بعض الاصدقاء أيده الله ممن أوجب حقه (علينا)(1) بأحاديث أصحابنا أيدهم الله ورحم السلف منهم، وما وقع فيها من الاختلاف والتباين والمنافاة والتضاد، حتى لا يكاد يتفق خبر إلا وبازائه ما يضاده ولا يسلم حديث إلا وفي مقابلته ما ينافيه، حتى جعل مخالفونا ذلك من أعظم الطعون على مذهبنا، وتطرقوا بذلك إلى إبطال معتقدنا، وذكروا أنه لم يزل شيوخكم السلف والخلف يطعنون على مخالفيهم بالاختلاف الذى يدينون الله تعالى به ويشنعون عليهم بافتراق كلمتهم في الفروع، ويذكرون أن هذا مما لا يجوز أن يتعبد به الحكيم، ولا أن يبيح العمل به العليم، وقد وجدناكم أشد اختلافا من مخالفيكم وأكثر تباينا من مباينيكم، ووجود هذا الاختلاف منكم مع اعتقادكم بطلان ذلك دليل على فساد الاصل حتى دخل(2) على جماعة ممن ليس لهم قوة في العلم ولا بصيرة بوجوه النظر ومعاني الالفاظ شبهة، وكثير منهم رجع عن اعتقاد الحق لما اشتبه عليه الوجه في ذلك، وعجز عن حل الشبهة فيه
نیز اکثر یہ ھوتا ھے کہ جب کسی شیعہ سے بات ھوتی ھے تو جھٹ ایک عبارت پیش کر دیتا ھے کہ ہمارا مذہب یہ ھے اور اس کے متعارض اقول سے پہلو تہی اختیار کرتا ھے ،مثلا صدوق کی عبارت ہر کوی عدم تحریف میں پیش کرتا ھے یہ نہیں جانتا یا قصدا غافل بن جاتا ھے کہ العاملی نے مراۃ الانوار میں اسے صدوق کا وہم کہا ھے ،الجزایری نے اسے تقیہ و مصالح پر محمول کیا ھے ،نوری نے اسے تقیہ کہا ھے نیز کھا ہے کہ شیخ صدوق نے ایسے امور کے بارے میں بھی اعتقادنا کھا ھے ،جو صرف چند لوگوں کا مذہب ھے اور مزید یہ تاویل کی ھے کہ شاید ان کی مراد علماء قم ھوں نہ کہ پوری جما عت شیعہ (فصل ص ۳۳)،اسی طرح البحرانی نے الدرر النجفیہ میں صدوق و مرتضی کے قول عدم تحریف کو کبیت العنکبوت کہا ہے،تو جب خود آپ کے محقیقین انہیں رد کرھے ہیں تو ہم پر کیسے حجت ھے۔
حمِّل كتاب " فصل الخطاب في إثبات تحريف كتاب رب الأرباب " للطبرسي
لنک
Samiullah Jan ۸۔ آخری بات یہ ھے کہ آپ نے کھا ھے کہ نسبت مذہب مییں کبھی غلطی ھو جاتی ھے ،تو محترم ایسا کسی خاص فرد کے مسلک کے بیان میں تو ممکن ھے ،لیکن کسی مذھب کے بنیادی و اساسی اصول سے تو عوام بھی میں سے بھی کوی غافل نہیں ھوتا ،طہ جایکہ اہمہ معتبرین اپنے مذہب کے اساسی عقیدے کو سمجھنے میں اتنی بڑی غلطی کریں۔
Samiullah Jan امید ھے کہ آپ ان عبارات پر میری گزارشات کے ساتھ بقیہ عبارات پر بھی اپنی راے پیش کریں گے
Tariq Usmani کاش تمام مسلمان اپنے مسائل پر اسی خوش اسلوبی سے گفتگو کریں سلامت رھیں برادران۔۔
خیر طلب عزیزی سلام علیکم۔
برادر بڑی معذرت۔ مجھے واقعی بہت کم وقت ملتا ہے آنے کا اور جو وقت تھوڑا فارغ ملتا ہے اس میں دیگر دروس وغیرہ ہی پڑھ پاتا ہوں لہذاء تاخیر جواب کے لئے معذرت۔
دیکھیں چند باتوں پر جو مجھے آپ سے شکایت ہے وہ یہ کہ
اول: آپ کے محققین علماء سے اقوال نقل کئے گئے ہیں جو شیعوں کی تحریف کےا عتقاد پر دال ہیں۔ لیکن اس سے چشم پوشی کی جارہی ہے
دوم: ان علماء کے اقوال نقل کئے گئے جو تحریف قرآن کی تکفیر کے قائل ہیں لیکن شیعوں کو من حیث الکل کافر نہیں کہتے بلکہ مسلمانوں کے دائرے میں رکھتے ہیں تو عقلا نتیجہ یہی نکلا کہ شیعہ جو مسلمان ہیں وہ تحریف کے قائل نہیں
سوم: مجموع الفتاوی و فتاوی عالمگیری سے جو عبارات پیش کی گئی وہ دعوی خاص و دلیل عام وغیرہ کے لاحقے کے ساتھ اس کو رفع کیا جارہا ہے۔ حالانکہ قرآن کل میں سے اگر کوئی ایک آیت کی بھی کمی یا زیادتی کا قائل ہو وہ آپ کے نزدیک کافر ہے تو محترم یہ کلیہ ہر جگہ کا استعمال کردہ ہے۔
چہارم: ان علماء کا کیا کہنا جو تحریف کے عدم کے قائل ہیں شیعوں میں سے؟ کیا ان کی پیروی کرتے ہوئے اہلسنت خیر مقدم نہیں کرسکتے؟ لیکن اگر خبط تکفیر سوار ہو تو زبردستی ایک عقیدہ کو منسوب کرنا کوئی بعید بات نہیں۔
خیر طلب برادر یہ فصل الخطاب کا نسخہ میرے پاس موجود ہے لیکن فصل الخطاب کے اس نسخہ میں ٹائٹل ہی نہیں بلکہ اصل کتاب شروع ہورہی ہے۔ کیا اس میں تصریح کے نسخہ حجریہ ہے؟ دوم یہ کہ کراچی میں ایک لائبریری میں بندہ احقر جایا کرتا تھا جو بالکل یہی نسخہ کی مانند فصل الخطاب کو دیکھا لیکن ناشر کا نام ہی مفقود ہے ٹائٹل پر سے۔ باقی ہماری جو پیش کردہ فصل الخطاب پر عرائض ہیں ان سے صرف نظر نہیں کی جاسکتی۔
خیر طلب شیخ مفید کی عبارت کا کافی تشفی بخش جواب دیا جاچکا ہے۔ مزید وضاحت کے لئے کچھ قضیوں کے ذھن میں رکھیں
تالیف قرآن سے مراد کیا؟
ابن حجر رقم طراز ہے
قوله : ( باب تأليف القرآن ) أي : جمع آيات السورة الواحدة ، أو جمع السور مرتبة في المصحف
بخاری کا 'باب تالیف قرآن' کہنا یعنی ایک ایک سورت کی آیات کو جمع کرنا یا سوروں کو مصحف شریف میں ترتیب وار جمع کرنا۔
حوالہ: فتح الباری، جز 9، ص 36، مطبوعہ دار المعرفہ۔
دوسرا قضیہ کیا ترتیب قرآنی منصوص ہے؟
اس کا جواب ہم شیخ ابن تیمیہ کی کتاب کی روشنی میں لیتے ہے۔ شیخ فرماتے ہے
وَالْقُرْآنُ فِي زَمَانِهِ لَمْ يُكْتَبْ وَلَا كَانَ تَرْتِيبُ السُّوَرِ عَلَى هَذَا الْوَجْهِ أَمْرًا وَاجِبًا مَأْمُورًا بِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ بَلْ الْأَمْرُ مُفَوَّضٌ فِي ذَلِكَ إلَى اخْتِيَارِ الْمُسْلِمِينَ. وَلِهَذَا كَانَ لِجَمَاعَةِ مِنْ الصَّحَابَةِ لِكُلِّ مِنْهُمْ اصْطِلَاحٌ فِي تَرْتِيبِ سُوَرِهِ غَيْرُ اصْطِلَاحِ الْآخَرِ
قرآن رسول س کے زمانے میں مدون یا کتاب کی صورت میں نہ تھا۔ اور ترتیب سورہ قرآن بھی ایسی نہیں تھی جسیے اب ہے یعنی من حیث الحکم الوجب خدا کی طرف سے۔ بلکہ یہ ترتیب سورہ کا کام مسلمانوں کی دانست کو تفویض کردیا گیا تھا۔ جب ہی آپ دیکھتے ہیں کہ ہر صحابی کا طریقہ کار ترتیب دوسرے سے مختلف ہوتی تھی۔
حوالہ: مجموع الفتاوی، جز 22۔ ص 353، طبع سعودیہ
نتیجہ بحث: شیخ مفید کی تالیف قرآن میں مخالفت کے یہی معانی لیتے معتبر ہے جیسا کہ ہم نے کتب اہلسنت کی روشنی میں بتایا کہ شیخ ہرگز تحریف کے قائل نہیں تھے۔ وہ موجودہ مصحف کی ترتیب وغیرہ سے متفق نہیں تھے اور ایسا کرنا کوئی گناہ نہیں۔
خیر طلب باقی عزیز اختلاف قرآت کے بارے میں اگر شیخ بحرانی کے حوالے سے بحث کرنا چاہیں تو فبھا۔ آپ نے بعض کتب سے جو حوالے جات نقل کئے ہیں وہ ساری کتاب براہ کرم دے دیجئے کیونکہ بعض کتب کا حصول فی الحال ممکن نہیں۔ انشاء اللہ وقت اگر ملے گا تو مزید بات ہوگی۔ فی الحال وقت کی تنگی کے تحت معذور سمجھیں۔
اگر بالفرض ایک سوال ہے کہ بعض شیعہ علماء تحریف کے معتقد آپ کے زعم کے مطابق ثابت ہو بھی جاتے ہیں تو کیا شیعوں کو من حیث الکل تحریف قرآن کا معتقد کہنا صحیح ہے یا نہیں؟
واللہ میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں لیکن وقت کی شدید تنگی اجازت نہیں دیتی۔ آپ مجھ سے براہ راست بات کرلیں تو وقت بھی بچے گا ور معاملہ سہل رہے گا۔ انشاء للہ
Samiullah Jan محترم آپ کی تحریر پڑھ لی ،جس جوش اور جس جذبے کے ساتھ آپ نے شیعہ کے عقیدہ تحریف پر بحث شروع کی تھی ،اس تحریر میں اس کا واضح فقدان ہے ،اور آپ کی تحریر کے انداز و خدو خال سے لگ رہا ہے کہ آپ اس موضوع پر بحث کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے ،تو اس بحث کے آخر ...See More
Samiullah Jan ۴۔محترم اس بات میں تو آپ کے نزدیک بھی کسی قسم کے شک کی گنجایش نہیں ھوگی کہ اہل تشیع سے ایمہ معصومین سے مروی روایات میں بے انتہا تعارض ھے ؟خود اہل تشیع کے بنیادی روات جیسے زرارہ بن اعین ،برید العجلی ،محمد بن مسلم ،ابو بصیر لیث مرادی ،اور احول وغیر ہ کی تو ثیق میں ایک ہی امام معصوم سے متضاد رویات ہیں ؟نیز ایمہ کے حق میں غلو ،تکفیر صحابہ اور ان کی توہین میں غلو ،مھدی مزعوم کی ولادت و غیبوبت میں تضاد و غلو ،تقیہ کے عجیب احکامات ،زیارات ایمہ کے بارے میں حیرت انگیز فضایل جو بیت اللہ کی زیارت سے بھی بدرجھا بڑے ھوے ہیں ؟فضلیت ایمہ علی الانبیاء میں عجیب استدلالات ،اور عصمت ایمہ کےدور دراز کے دلایل (موخر الذکر دو مضوعات کا بہترین نمونہ مرکز الا بحاث العقایدیہ کے رسایل ہیں)اس کے علاوہ بے شمار ایسے اہل تشیع کے عقاید و مسایل ہیں ،جن کو اگر کسی شیعہ نے بھی بنظر غایر دیکھا تو اس نے بے شمار غلطیوں کی نشاندہی کی ،جیسے شیعہ مجتھد ابو الفضل البرقعی کی کسر الصنم ،جس میں کافی کا محققانہ جایزہ ھے ،موسی الموسی کی کتب الشیعہ و التصحیح ،یا شیعۃ العالم استیقظوھ وغیرہ دیگر کتب ،احمد کسروی کی دراسۃ التشیع ،محمد باقر سجودی کی تضاد فی العقیدہ ،احمد الکاتب کی نظریہ امامت پر بے نظیر تنقید ،اور دیگر شیعہ کے وہ علماء جنہوں نے تقلیدی ذہن سے ھٹ کر جب شیعہ مذہب کا من حیث الکل جایزہ لیا تو بہت کچھ سوچنے پر مجبور ھوے ،آپ جیسے فہیم و عقیل آدمی سے بھی مجھے وہی توقع ھے کہ آپ عقل عام اور قرآن پاک کے بتاے ھوے بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنے مذہب کا تنقیدی جایزہ لیں تو شاید آپ کے نتایج اس سے مختلف ھوں ۔
۴۔آخر میں پھر آپ کو دعوت دیتا ھوں کہ اس جاری بحث کو نہ چھوڑیے ،بقیہ تیرہ اقوال پر اپنی آراء پیش فرمایں اور صحیح و غلط اقوال کی نشاندہی اکبر کے اقوال کی روشنی میں کریں،پھر قایلین تحریف پر بحث ھوگی ،پھر ان کے حکم پر وغیرہ ،اس کے علاوہ میرا ارادہ تھا کہ امامت ،تکفیر صحابہ ،وغیرہ دیگر مسایل پر بھی آپ سے تبادلہ خیال کروں گا ،لیکن لگتا ھے کہ یہ خواہش پوری نہیں ھوگی ،کیوں کہ اس کی آپ کی مصروفیت کے علاوہ بھی وجوہات ہیں ،و نت اعلم بھا منی ؟؟و السلام آپ سے مل کر بڑی خوشی ھوی اور مختلف النوع تجربات حاصل ھوے ،نیز اپنے عقاید حقہ اور اہل تشیع کے عقاید و مذہب کی مزید حقیقت سامنے آٰی ،فللہ الحمد سب سے آخر میں علی شریعتی کا اہل تشیع کا قرآن پاک کے ساتھ تعلق کے بارے میں محققانہ تبصرہ پیش خدمت ھے
وأنه مذهب تجليد القرآن وتذهيبه وإكباره وليس البحث في القرآن وتفسيره.. إنه مذهب أغلق القرآن لأن فتحه أمر عسير وموجد للمسئوليات!! (التضاد فی العقیدہ ص۶)وقال عن علماء الشيعة: إنهم يبدلون الأشياء المشتركة إلى اختلافات عن طريق التوجيهات والتأويلات المنحرفة والمغرضة، ويقوّمون القرآن على أنه كتاب مليء بالشتائم الموجهة للخلفاء تحت نقاب الرمز والكناية والمجاز والاستعارة!
خیر طلب برادر سمیع اللہ جان۔ افسوس تو مجھے آپ پر ہے کہ جن دلائل کا آپ سے جواب بن ہی نہ سکا اس کا تو آپ نے چھیڑنا ہی گوارہ نہ کیا۔ باقی غیر متعلق چیزوں کو لانا کہ فلاں نے یہ لکھ دیا فلاں نے وہ کتاب لکھی دی، عزیزی یہ طرز محققین نہیں۔ آپ نے 5-6 کتب کے نام بتائے، میں اہلسنت کے افراد میں سے ہی اٹھنے والے افراد اور ان کی کتب و تعارف کا کام شروع کروں تو وہ بہت زیادہ شمار ہوں گے۔
شخصیات کا تفرد اور تشیع کی تنزیہ کوئی عجب مسئلہ نہیں۔ جتنی نظیر آپ کے مکتب میں ملتی ہے اتنی تو کہی نہیں ملتی۔ بیشک و بیشک میں اس بات کا قائل ہوں کہ مذھب کو منسوب کرنے میں لوگوں کی آراء میں اختلاف ہیں لیکن عزیزی ایسا اختلاف آپ کے پاں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ یا تو آپ نے اپنی کتب کو نہیں پڑھا یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔
کبھی تحریف کی بحث لاتے ہیں، کبھی تضاد کی لاتے ہیں۔ یا للعجب۔ برادر عزیز کیونکہ آپ کی پوسٹ میں موضوع سے متعلق کوئی نئی بات نہیں تھی اور وہی باتیں تھیں جن کے پیچھے جواب دیا جاچکا ہے اس لئے باتوں کو محدود رکھا، یہ بھی عجب چیز ہے کہ کبھی طوالت کی شکایت ہوتی ہے اور کبھی مختصر ہونے کی۔
خیر عزیزی میں کہہ چکا ہوں کچھ کتب جیسے فصل الخطاب کا اصلی نسخہ طبع حجریہ مجھے دیں، جو ابھی تک موصول نہیں ہوا۔ باقی جن کتب سے حوالے جات دئیے ہیں ان میں سے کچھ میری دسترس میں ہے اور کچھ نہین۔
خیر بات کو مختصر کرتے ہیں کہ میرا ایک بنیادی سوال ابھی بھی قائم ہیں جس کا جواب ہنوز نہیں مل پارہا:
کیا کسی شخص یا کچھ اشخاص کا تحریف قرآن کا قائل ہونا پورے مذھب پر اطلاق کے لئے کافی ہوتا ہے یا نہیں؟
با لکل نہیں ،جب وہ اسے اپنی انفرادی راے کہیں لیکن اگر وہ اسے تشیع کی ضروریات مذہب میں شمار کریں کما قال العاملی قد سبق ذکرہ ،یا اسے صریح اجماع کے لفظ سے تعبیر کریں کما قال صاحب شموس الدریہ و قد مر یا اسے مذہب جملۃ مشایخنا من المتقدمین و المتاخرین سے ذکر کریں کما قال البحرانی ،یا یہ کہیں کہ چار کے علاوہ قدماء شیعہ میں کوی تحریف کا قایل نہیں ھے کما قال النوری یا قد اطبقوا اصحابنا و التصدیق بھا کے الفاظ ذکر کریں کما قال الجزایری یا روایات تحریف کو متواتر و مستفیض کہیں کما قال عدۃ مشایخ الشیعہ ،یا قایلین تحریف کو تقیہ و مصالح پر محمول کریں کما قال الجزایری و النوری تو پھر اسے تشیع کی طرف منسوب کرنا عین انصاف ھے ،اس پر مستزاد یہ کہ عدم تحریف کے مدعی قایلین تحریف کو ان القابات سے نوازیں
کما قال الطھرانی فی حق النوری الشيخ الأجل ثقة الإسلام والمسلمين، مروج علوم الأنبياء والمرسلين والأئمة الطاهرين عليهم السلام، الثقة الجليل، العالم الكامل، النبيل المتبحر الخبير، المحدث الناقد البصير، المدقق، المنقب، ناشر الآثار، وجامع شمل الأخبار، صاحب التصانيف الكثيرة یا قایلین تحریف کو گمراہ کہنے کی زحمت گوارانہ کی جاے اور اسے مغالط او مشابہ کے الفاظ سے تعبیر کیا جاے کما قال الغطاء فی اصل الشیعہ
باقی میں نے طبع حجریہ کا لنک دیا لیکن آپ نے بلا دلیل سے رد کر دیا ،تو میں اب کیا کروں ،
خیر طلب عزیزی۔ زعم زعم کا فرق ہوتا ہے۔ خود آپ کے ہاں 'اجماع' جو باقاعدہ مستقل دلیل ہے اس کا دعوی کافی لوگوں نے کیا لیکن کافی علماء نے دعوائے اجماع کا رد بھی کیا ہے۔ مثالیں بہت ساری ہیں لیکن کم سے کم آپ سے امید کی جاتی ہے کہ آپ کو معلوم ہوگا۔
ضروریات مذھب کا نام دینا کوئی آسان بات نہیں۔ اگر انہیں نے ایسا کہا اور وہ تحریف کے معتقد تھے تو میں بے بانگ دھل کہتا ہوں کہ انہوں نے شدید غلطی کی اور وہ خدا کے سامنے اس چیز کے جوابدہ ضرور ہوں گے۔
کسی کا ضروریت مذھب کہہ دینا خود دعوی ہے جس کی دلیل مھم ہے
خیر طلب باقی میں نے شاید فصل الخطاب کا طبع حجریہ والے کا پہلا ہی کہا تھا کہ اس کا ٹائٹل پیچ تو دے دیتے برادر تاکہ تسکین ہوتی۔ باتیں دھرانا بیکار۔ بندہ احقر کے پاس ایک گمنام ناشر کا فصل الخطاب کا نسخہ بعینہ لائبیریری میں موجود ہے اور جو آپ نے دیا اس سے ملتا جلتا۔
طبع حجریہ کا براہ کرم ہوں تو دیجئے
خیر طلب بات کو تردید کی نظر کے بجائے عقلی پیرائے میں دیکھیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر ضروریت مزھب ہوتا یہ تو خلافت بلا فصل کی طرھ واشگاف ہوتا اور جو اس کا منکر ہوتا وہ تشیع سے خارج ہوتا۔ لیکن ایسا دیکھانا محال ہے کہ شیخ صدوق، سید مرتضی وغیرھما کو تشیع سے اخراج کیا گیا ہو۔
شیخ مفید کی عبارت کی مزید توضیح دیکھنا تو تصحیح الاعتقاد دیکھیں جس میں انہوں نے شیخ صدوق سے بہت ساری باتوں میں اختلاف کیا لیکن اس بات پر ہرگز اختلاف نہیں کیا ورنہ وہ ضرور کرتے اگر تحریف کے قائل ہوتے۔
اس کے علاوہ خود علماء اہلسنت جس میں شمس الحق افغانی، شکیب ارسلان، غزالی،علامہ محمد اسلم وغیرھم نے تشیع کی تنزیہ لی ہے تحریف سے۔
ٹھیک ھے محترم اس مسلے پر مزید تحقیق کریں جب متضاد و متعارض اقول کا جواب مل جاے،نیز جب ثقلین میں اتنے عظیم فرق کی توجیہ آُ پ کو مل جاے تو دوبارہ آنا احقر خدمت کے لیے تیار ھے ،باقی مفید کو مجلسی نے مراۃ میں،البحرانی نے الدر رنجفیہ میں ،نوری نے فصل میں قایلین تحریف میں شمار کیا ھے ،تو پہلے ان سے پوچھیں کہ انہوں نے کیا تصحیح الا عتقادات نہیں دیکھی تھی ،نیز خود مفید کی تصریح بھی موجود ھے ،لیکن چونکہ ابھی ہم قایلین تحریف کی تحقیق نہیں کر رھے ہیں ،اس لیے اسے چھوڑ دیتے ہیں،کیونکہ ابھی آُ پ اپنے مذہب کی متضاد اقول میں تطبیق نہیں سے سکے ؟
خیر طلب ہم نے کافی شرح و بسط سے اس اعتراض پر گفتگوں کرلی ہے کہ مذھب کی نسبت میں اختلاف ہوسکتا ہے یا نہیں۔ یہی تضاد آپ کے محققین کے ہاں بھی ہے تشیع سے تحریف منسوب کرنے میں
کیا صرف دو قولوں پر بات کرنا شرح بسط کہلاتا ھے ؟؟ جس میں بھی میرے اعتراضات کو پس پشت ڈال دیا جاے؟ باقی تیرہ متعارض اقوال پر تو آپ نے ابھی تک کچھ نہیں کہا ؟نیز دوسرے مذہب کا عقیدہ بیان کرنے میں غلطی اچنبھے کی بات نہیں ،البتہ جب اپنے شیخ الاسلام و المسلمین، کلمجلسی ،یا مروج علوم الانبیاء و الایمۃ کالنوری ،جیسے اپنے مذہب کا بنیادی و اساسی عقیدہ بیان کرنے میں غلطی کریں؟؟؟
خیر طلب عزیزی کم سے کم باتیں تو علمی رکھیں۔ وہی باتیں جن کا رد کیا گیا، مذھب کے انتساب میں غلطی ہونا بائید نہیں۔ کیا ابن مسعود کے مذھب پر مختلف آراء نہیں کہ وہ معوذتین کی قرآنیت کے قائل تھے یا نہیں۔ کیا رسول ص کے والدین کے ایمان و عدم ایمان میں اختلاف نہیں۔ کیا سماع موتی کے ابوحنیفہ سے انتساب میں اختلاف نہیں۔ کیا جناب عائشہ سے سماع موتی کے انتساب میں اختلاف نہیں۔ کیا ارجاء کی نسبت الی ابی حنیفہ میں اختلاف نہیں۔ میرے پاس برادر بہت زیادہ ایسے موارد ہیں۔
آپ شرعی دلائل لائے اور بات کیجئے۔ خود اپ دیکھی لیں کہ آپ کے مذھب میں تشیع سے نسبت تحریف کا اتنا اختلاف ہیں۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے مذھب کے علماء کی حالت تو دیکھ لیں
محترم اب میں آخری دفعہ آپ کو پھر دعوت دے رھا ھوں کہ شیعہ واقعی تحریف کا قایل نہیں ہیں،تو بحث سے راہ فرار اختیار نہ کریں ،میرے بقیہ تیرہ حوالوں اور البحرانی کی عبارت پر میرے جواب الجواب کا جواب دیں ،جس پر آپ نے بالکل سکوت اختیار کیا ،مفید کی عبارت پر بھی اگرچہ آپ نے میرے دو سوالوں کا جواب نہیں دیا ،لیکن میں اس کو فی الحال چھوڑ دیتا ھوں ،مفید کے مسلک پر بحث کے وقت اس کی حقیقت سامنے آئی گی ۔