دھوکہ نمبر 63
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 63
ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام پر حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کے اتنے احسانات و انعامات ہیں کہ وہ قیامت تک ان کی ادائیگی سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے ۔ یہ صرف مبالغہ نہیں بلکہ کفر کی حد سے بھی اونچا مبالغہ ہے یہ خالی خولی الزام نہیں اس فرقہ کی کتابوں میں بہت سی روایات موجود ہیں ان میں سے ایک یہ ہے جس کو ان کے معتبر راویوں نے روایت کیا ہے۔
کہ ایک روز جبریل علیہ السلام حضورﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک حضرت علی رضی اللّٰه عنہ آ گئے ، جبریل علیہ السلام اٹھ کر تعظیم بجا لائے، حضورﷺ نے دریافت فرمایا تو جبریل علیہ اسلام سلام کہنے لگے مجھ پر ان کا ایک اتنا بڑا احسان ہے کہ زندگی بر اس کے شکر سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ رسول اللّٰہﷺ نے دریافت فرمایا وہ کس طرح ؟
تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جب اللّٰه تعالٰی نے مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا فرمایا تو مجھ سے پوچھا میں کون ہوں، تو کون ہے، اور تیرا نام کیا ہے ؟ مجھے اس کا کوئی جواب نہ سوجھا میں حیران پریشان اور خاموش کھڑا تھا کہ یہ نوجوان عین بر وقت آ پہنچا اور مجھ سے کہا ڈر مت ! کہ دے تو رب جلیل ہے۔ میں عبد ذلیل ہوں اور میرا نام جبریل ہے۔ اس وقت میں اسی احسان کے حق کی ادائیگی میں اٹھا اور آداب بجالایا۔ پھر حضورﷺ نے دریافت فرمایا تمہاری عمر کتنی ہے۔ جبریل علیہ السلام نے جواب دیا کہ ایک ستارہ ہے جو تیس ہزار سال بعد نکلتا ہے اور میں اس کو تیس ہزار مرتبہ نکلتے دیکھ چکا ہوں؟
قصہ اس فرقہ کے جھوٹ کا شاہکار ہے۔ کیونکہ ان دو تین حرفوں کی تعلیم کیا اس پورے قرآن کی تعلیم برابر ہو سکتی ہے۔ جو صاف اور بے شبہ حکم قرآن کے موجب حضرت جبرائیل علیہ الاسلام لے ذریعہ پیغمبرﷺ تک اور آپ سے حضرت علی رضی اللّٰه عنہ تک پہنچی اتنی بڑی اور عظیم الشان نعمت کے مقابلہ میں ان دو حرفوں کی کیا حقیقت اور ان کا کیا حق اس کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی طالب علم استاد سے قرآن مجید حفظ کرتا ہے اور پھر تراویح میں اپنے استاد کو کہیں کہ ایک لقمہ دی دینا ہے تو استاد کے اتنے بڑے احسان کے مقابلہ میں اس لقمہ کی کیا حیثیت ہو گی ۔ اب رہا حضرت جبریل علیہ اسلام کی عمر کا معاملہ، یہ معاملہ خلاف عقل و مشاہدہ ہے کیونکہ کسی ستارہ کا تیس ہزار
سال بعد طلوع محالات میں سے ہے اکثر آباد اقلیموں میں ستاروں کا طلوع و غروب فلک الافلاک کی حرکت سے ہے جس کی رفتار سب سے زیادہ تیز ہے کہ رات دن میں عالم کا پورا چکر طے کر لیتا ہے، پھر حضرت جبریل علیہ السلام آٹھویں آسمان سے جو ثوابت ستاروں کا مرکز ہے دن رات میں کئی مرتبہ گزر جاتے ہیں تو ان کی طرف کسی ستارہ کے طلوع و غروب کے دیکھنے کی نسبت کرنا خلاف عقل ہے ۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کا وجود ظاہری چونکہ جبریل علیہ السلام سے ہزاروں سال بعد ہے تو آپ کی تعلیم کا مسئلہ کیسے سمجھ میں آ سکتا ہے۔ اگر جناب امیر کا وجود مثالی یا روحی مانیں تو یہ بھی بیکاری بات ہے اس لئے کہ اس وقت نفس ناطقہ کا وجود کہاں تھا جس پر اختیاری اعمال کا دار ومدار ہے جو مدح و زم ثواب و عقاب اور ثبوت حقوق کا مصداق ہے۔ بلکہ ان وجوہات کی نسبت اللّٰه تعالیٰ کی طرف ہے جو صفات و اسماء کی حیثیت میں اس کی پاک ذات میں ثابت قائم ہیں اس وجود میں جو افعال کسی شخص سے صادر ہوں ان کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جا سکتی اور وہ مدح و ذم یا اثبات حقوق کے قابل نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ علمی طور پر ثابت شدہ حقیقت کے طور پر بیان و تحریر میں آ چکی ہیں۔
آنے والے دھوکہ کا جواب بھی مندرجہ بالا تحریر میں آ گیا۔