Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غیر مسلم کو سلام کرنا


غیر مسلم کو السلام علیکم نہ کہو کیونکہ سلام میں پہل کرنا درحقیقت اسلامی تہذیب کا بخشا ہوا ہے ایک اعزاز ہے، جس کے مستحق وہی لوگ وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اسلامی تہذیب کے پیرو ہوں اور مسلمان ہوں اس اعزاز کا استحقاق ان لوگوں کو حاصل نہیں ہو سکتا جو دین کے دشمن اور اللہ جل شانہ کے باغی ہیں۔

اسی طرح ان باغیوں اور دشمنوں کے ساتھ سلام اور اس جیسی دوسری چیزوں کے ذریعہ الفت و محبت کے مراسم وہ قائم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ لوگ سلام میں خود پہل کریں اور السلام علیکم کہیں تو اس کے جواب میں صرف ھداک اللہ کہا جائے۔

(مسائل رفعت قاسمی مسائل آداب ملاقات: جلد 6، صفحہ 72)

اگر کسی مشرک و غیر مسلم کو خط لکھا جائے تو مسنون یہ ہے کہ مکتوب الیہ کو سلام لکھنے کے بجائے وہی لکھے جو جو حضور اقدسﷺ نے ہرقل (روم کے بادشاہ) کو لکھے تھے یعنی السلام علیکم علی من اتبع الھدیٰ۔

(مسائل رفعت قاسمی مسائل آداب ملاقات: جلد 6، صفحہ 72)

امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کسی ایسی جماعت کے پاس سے گزرے یا کسی مجلس میں پہنچے جس میں مسلمان بھی ہوں اور غیر مسلم بھی ہوں اور مسلمان خواہ ایک ہی ہو یا کئی ہوں تو یہ مسنون ہے کہ مسلمانوں یا مسلمان کا قصد کر کے پوری جماعت کو سلام کرے۔

نیز علماء نے لکھا ہے کہ اس صورت میں چاہے تو السلام علیکم کہے اور نیت یہ رکھے کہ اس سلام کے اصل مخاطب مسلمان ہیں اور چاہے یوں کہے السلام علیکم علی من اتبع الھدیٰ۔

(مسائل رفعت قاسمی مسائل آداب ملاقات: جلد 6، صفحہ 72)