دھوکہ نمبر 66
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 66
ان کا یہ اعتقاد ہے کہ مرنے والا مومن ہو یا فاجر، موت کے وقت اس کو حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کا دیدار ہوتا ہے۔ پس آپ اپنے شیعوں کو دوزخ کے عذاب ملک الموت کے مددگاروں اور عذاب کے فرشتوں سے نجات دلاتے ہیں۔ اس کو خوش ذائقہ ، ٹھنڈا شربت پلاتے ہیں اور دوزخ کو حکم دیتے ہیں کہ ان کے شیعہ کو کسی قسم کا آزار اور تکلیف نہ پہنچائے۔ اور فاجر کے لئے۔ اور ان کے نزدیک ہر وہ شخص فاجر ہے جو ان کے مذہب پر نہیں ہے عذاب دیئے جانے کا حکم فرماتے ہیں گویا ثواب و عذاب کے فرشتے ان کے زیرِ فرمان ہیں ان لوگوں کا عقیدہ عیسائیوں کے اس عقیدہ سے ملتا جلتا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ تمام بنی نوع انسان کی ارواح حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللّٰه کے پاس لوٹ کر جاتی ہیں، اور تمام حساب کتاب جزا و سزا ، انعام بخشش اور دار و گیر آپ ہی کے سپرد ہیں فرق اتنا ہے کہ عیسائیوں کو ایک حد تک یہ اعتقاد زیب دیتا ہے کیونکہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللّٰه کا بیٹا مانتے ہیں اور ہر بیٹا اپنے باپ کے مہمات کے اجزاء و تنقید میں اس کا نائب اور ولی عہد اس کے بجائے کاغذات پر دستخط کرتا ہے سلام و حجرا لیتا اور نذرانے وصول کرتا ہے بر خلاف رافضیوں کے کہ وہ امیر المومنین کو وصی اور نائب رسولﷺ مانتے ہیں اور پیغمبر علیہ الصلٰوۃ والسلام اللّٰه کے فرستادہ بندہ ، پھر یہ لوگ معلوم نہیں حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کو یہ مرتبہ کس منطق اور دلیل کے ساتھ دیتے ہیں۔
بعض شیعی چند اشعار پیش کرتے ہیں جو حضرت علی رضی اللّٰه عنہ نے حارث اعور ہمدانی سے دورانِ گفتگو میں یہ اشعار سنائے جو آپ کے اس حق کو ثابت کرتے ہیں ۔ یہ حارث اعور ہمدانی دنیا کا مشہور چھٹا ہوا کذاب اور دروغ گو ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ اس نے خود یہ شعر گھڑ کر انکی نسبت جناب امیر کی طرف کر دی ہو۔
اور یوں لوگوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا ہو۔ پھر ان اشعار کے شروع میں منادیٰ مضاف کی ترمیم واقع ہے جو تمام ماہرینِ لسان عربی کے نزدیک غلط اور خطا ہے۔ لہٰذا یہ غلطی ہی اسبات کا واضح اور صاف اعلان ہے کہ یہ اشعار حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کے نہیں ہو سکتے یہ اسی کذاب نے گھڑے ہوں گے۔
اشعار یہ ہیں۔
يَا حَار هَمدَانَ مَنْ يَمت يَوفی
مِنْ مُؤْمِنٍ أَوْ مَنَافق قَبَلًا
اے حارث جو کوئی مرتا ہے تو مجھے دیکھتا ہے خواہ وہ پہلے مومن ہو یا منافق -
يَعْرِفْنِي لَحْظَةً وَأَعْرِفُهُ
بِنَفْتِهِ وَاسْمِهِ وَمَا فعلا
وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے اور میں بھی اسے اس کے نام اوصاف اور اعمال کے ساتھ پہچان لیتا ہوں ۔
أقولُ لِلنَّارِ حِينَ تَعْرِضُ لِلْعَبْدِ
ذَرِيهِ لَا تَقْرَبِي الرَّجُلَ
جب بندہ کے پاس آگ آتی ہے تو میں اس سے کہتا ہوں اسے چھوڑ اس کے قریب نہ جا۔
زرِيْهِ لَا تَقْرَبِيهِ إِنَّ لَهُ
حبلا بحَبْلِ الْوَمِي مُتَّصِلاً
اسے چھوڑ اس کے قریب نہ جا کہ اس کا رشتہ وصی سے منسلک ہے ۔
اسْقِيهِ مِنْ بَارد عَلَى ظَمَا
تَخَالُهُ فِي حَلَاوَةٍ عَسَلا
میں پیاس کے وقت اسے ٹھنڈا اور شہد سا شیریں پانی پلاتا ہوں۔
قَوْلُ عَلى لِحارث عَجَب
كَمْ ثُمَّ اعجُوبَةٌ لَهُ مَثَلاً
حارث کے لئے علی کا یہ قول عجیب ہے اور اس کے مثل اور بہت عجوبے ہیں۔)
اور بفرض محال یہ اشعار حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کے ہی ہوں تب بھی اس سے حضرت علی رضی اللّٰه عنہ کی اپنے مخلصوں کی مدد اور شفاعت ثابت ہوتی ہے۔
اور یہ بات بھی شیعان اولیٰ اہل سنت کے لئے باعث مسرت ہے نہ کہ رافضیوں کے لئے مگر یہ مبالغہ اس سے کہاں ثابت ہوا کہ دارالجزاء کا پورا کارخانہ ہی جناب امیر کے قبضہ قدرت میں ہے۔