Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دھوکہ نمبر 67

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 67

اہل سنت پر شیعہ یہ طعن کرتے ہیں کہ یہ لوگ ابن عباس رضی اللّٰه عنہ سے ان الفاظ میں روایت کرتے ہیں کہ ان النبی صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لعَلى إِنَّ اللهَ قد زوجكَ فَاطِمَةُ وَجَعَلَ الْأَرْضَ صداقَهَا حضورﷺ نے حضرت علی رضی اللّٰه عنہ سے فرمایا کہ اللّٰه تعالٰی نے فاطمہ کو تمہاری زوجیت میں دیا اور روئے زمین ان کے مہر میں دی)

جب واقعہ یہ ہے تو خلیفہ اول ( رضی اللّٰه عنہ ) نے فدک حضرت فاطمہ رضی اللّٰه عنہا ، کو کیوں نہیں دیا اور اہل سنت اس معاملہ میں ان کو حق بجانب کیوں کہتے ہیں۔ یہ تو کھلا تناقض ہے جو ان کے مذہب میں پایا جاتا ہے۔

اس طعن کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں یہ روایت صحیح یا ضعیف کسی بھی طریقہ سے کہیں نہیں ہے یہ شیعوں کا خالص افتراء اور بہتان ہے ہاں بنگال کے جاہلوں میں یہ ضرور مشہور ہے کہ بنگال کا ملک جو ہندوستان کی ترائی میں واقع ہے حضرت فاطمہ رضی اللّٰه عنہا کے جہیز میں ہے یہ بات کیوں اور کیسے مشہور ہوئی اس کا کچھ بھید اور سبب نہیں کھلتا ویسے جہلا میں بہت سی بے اصل باتیں مشہور ہوتی ہی رہتی ہیں اور فدک چونکہ بنگال میں نہیں اس لئے اس کا معاملہ نا قابل حل ہی رہا۔

اگر ذرا بھی غور اور عقل سے کام لیا جائے تو اس روایت کی گھڑت اور افتراء صاف نظر آ جاتا ہے۔ اس لئے کہ شیعوں یا سنیوں کی کتابوں میں یا تو فدک کی میراث کا دعویٰ منقول ہے ۔ یا وعویٰ ہبہ اور مذکورہ بالا روایت کی رو سے خاص میراث یا ہبہ کے دعویٰ کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بلکہ ساری زمین کی ملکیت کا ہی دعویٰ کرنا چاہیے تھا۔

اور جب یہ ہوتا تو پھر کسی شیعہ یا سنی کو یہ حق نہ ہوتا کہ وہ جناب زہرا رضی اللّٰه عنہا یا آپ کی اولاد کی اجازت لے بغیر زمین کا کوئی ٹکڑا اپنی ملک میں لا سکے۔

اور اس کا تقاضائے لازم یہ بھی تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللّٰه عنہا کے نکاح کے بعد حضورﷺ کا خیبر یا دیگر مفتوحہ علاقوں کو غنیمت پانے والوں میں بطور جاگیر یا انعام تقسیم کرنا بیکار وظلم ہو کیونکہ اس صورت میں حضرت فاطمہ رضی اللّٰه عنہا اور ان کی اولاد کی حق تلفی ہوتی تھی۔

خلاصہ کلام یہ اس کلام فاسد کی برائیاں اور خرابیاں حد و شمار سے بھی زائد ہیں۔ لہٰذا ایسی لغو اور باطل روایت کی نسبت اہل سنت کی طرف کرنا ایک انوکھا افتراء ہے اور کچھ نہیں ۔