Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 68

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 68

اہل سنت پر ان کا ایک طعن یہ ہے کہ یہ روایت نقل کرنے میں منافق اور مخلص کی بھی تمیز نہیں کرتے ہر صحابی سے روایت لے لیتے ہیں حالانکہ حضورﷺ کی وفات کے بعد سلسلہ وحی منقطع ہونے کے سبب منافق و مخلص میں تمیز اٹھ چکی تھی ۔ بخلاف شیعہ کے کہ وہ صرف اہل بیت سے ہی روایت کرتے ہیں ۔ جن کی پاکی و طہارت اور ان کا گندگی سے پاک ہونا نص قرآنی سے قطعی الثبوت ہے ۔ اس طعن کا جواب یہ ہے کہ شیعوں نے ائمہ سے براہ راست بلا واسطہ کچھ نہیں سنا اور یہ واسطہ بھی ایسے مفتریوں اور جھوٹوں کا ہے جن پر خود ائمہ لعنت بھیجتے اور ان کی تکذیب کرتے رہے۔ یہ واسطے زیادہ تر ہشامین اور زرارہ بن اعین جیسے برا اعتقاد اور ملحد و زندیق لوگوں کے ہیں۔ اس کی اور تفصیل ہم باب سوم و چہارم میں شیعوں کی کتابوں کے خزانوں کے ساتھ بیان کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ شیعہ ایسے لوگوں سے روایت کرتے ہیں جن کا نفاق ائمہ معصومین کی قطعی شہادت سے ثابت ہے بخلاف اہل سنت کہ کے ان کے مجتہدین نے بلا واسطہ ائمہ کرام سے علمی خوشہ چینی کی ہے اور انہوں نے ان ہی ائمہ کی اجازت اور شہادت سے ہی اجتہاد و فتویٰ کی زمہ داری کو انجام دیا ہے۔

چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہا اللّٰه سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ کے شاگرد ہیں اور ان دونوں حضرات کے بارے میں امام موصوف رحمہ اللّٰہ نے بشارتیں دی ہیں۔ جو حسب موقع مناسب بیان ہونگی۔

دوسرے یہ کہ منافق اور بے دین کی روایت لینے میں خلش اس وقت ہے کہ وہ اپنی روایت میں تنہا ہوا اور جب اہل بیت یا کبار صحابہؓ سے جن کے مرتبہ کی بلندی نصوص قرآن سے ثابت ہے، کسی حدیث کی روایت ہو اور پھر اسی کی تائید میں دوسروں سے بھی روایت ہو جن کے نفاق پہ بظاہر کوئی دلیل نہ ہو تو اس روایت کے قبول کر لینے میں کیا قباحت ہے۔ خصوصاً قرن صحابہ و تابعین میں تو سب ہی صلاح و صدیق کی صفت سے متصف تھے جب کہ امام الائمہ

سرور کونین حضورﷺ کا فرمان اس پر شاہد ہے ۔

خَيْرُ الْقُرُونِ قرنِي ثُمَّ الَّذِين يلونھم ( الى آخر الحديث) ( سب صدیوں سے بہتر میری صدی ہے. پھر اس کے بعد والی)

نیز جناب امیر المؤمنین اور ائمہ اطہار رضی اللّٰه عنہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہ یا دوسرے خلفا راشدین اور جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہم سے روایتیں کی ہیں اور ان کی تصدیق فرمائی ہے۔

پھر یہ بات سب پر ظاہر ہے کہ حضور اکرمﷺ کی آخر حیات کے وقت مومنین اور منافقین باہم ممتاز ہو چکے تھے اور آپ کی وفات کے بعد کوئی منافق ذندہ نہیں رہا تھا۔ جس پر یہ آیت شاہد ہے۔ مَا كَانَ ﷲ ۔ليذر المُؤمِنِينَ عَلَى مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِیزالْخَبِيثَ مِنَ الطيب ( یہ نہیں ہو سکتا کہ اللّٰه تعالٰی پاک و نا پاک کو جدا کئے بغیر مومنوں کو اس حال میں چھوڑ دے جس پر تم ہو ، اور یہ حدیث بھی الا إِنَّ الْمَدِينَةِ تَنفى النَّاسُ كَمَا يُنْفِى الكير خبث الحدیر ( یوں سمجھ لو کہ مدینہ لوگوں کو ایسے نکھار دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کو میل سے) اور اگر لُکا چھپا منافق رہا بھی ہو تو صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم اجمعین کی شان و شوکت اور ان کے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے دبدبے سنے اور ان کی گرفت سے جو وہ روایات میں تساہل برتنے والوں کے خلاف عمل میں لاتے تھے اتنا خوفزدہ و ہراساں رہتا ہو گا کہ دین یا واقعہ کے خلاف کوئی روایت گھڑنے کی اس میں جرآت و ہمت ہی کہاں باقی رہتی ہو گی۔ چنانچہ سیر خلفاء کا گہرا مطالعہ کر نے والوں پہ یہ بات روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے ۔ اور پھر اہل سنت نے بطور اصول ایک قاعدہ مقرر کیا ہے جسکی وجہ سے بفضل خدا وہ اس آمیزش کے خطرہ سے محفوظ ہیں کہ بمقتضائے اتَّبَعُو السَّوَاد الأعظم (اکثریت کی پیروی کرو ) ان کو جو روایت خلاف جمہور ملتی ہے وہ اس کو ترک کر دیتے ہیں، بر خلاف شیعہ کے کر وہ ان منافقین کے کھلونے ہیں جنہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد یہی جمہور کی مخالفت پر رکھی ہے اور نادر و کمیاب روایتوں کا کھوج لگاتے پھرتے ہیں اور ان ہی کو معیارِ عمل بتاتے ہیں۔ پس منافقین کا دخل ایسی ہی روایات میں ہے بلکہ ان کے دین و مذہب اور ان کی روایات کا انحصار ہی ان پر ہے۔