Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 71

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 71

شیعوں کا کہنا ہے کہ قیامت کے دن اہل سنت کے اعمال و طاعات گرد و غبار کی طرح ہوا میں اڑ کر نیست و نابود ہو جائیں گے اس طعن کا بہترین جواب ہمارے خیال میں ان آیات میں موجود ہے

اِنْ اللّٰه لَا نُضِيۡعُ اَجۡرَ مَنۡ اَحۡسَنَ عَمَلًا‌ اللّٰه تعالٰی اچھے کام کرنے والوں کا عمل ضائع نہیں کرتا۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا ۔۔۔

وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھے گا۔

شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رافضیوں کے علاؤہ کوئی اور اگر ہزار سال بھی خدا کی عبادت کرے تقویٰ و زہد کا مجسمہ بھی بن جائے تب بھی اس کو اس کا ہر گز فائدہ نہ ہو گا اور نہ ہی وہ عذاب سے نجات پائے گا۔ حالانکہ ان کے علی الرغم اللّٰہ تعالٰی نے یہ بھی فرمایا ہے ۔۔۔

لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا ۝ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَالحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا۔

یہ بات نہ تمہاری آرزو پر نہ اہل کتاب کی آرزو پر منحصر ہے بلکہ امر سب یہ ہے کہ جو کوئی برا کرے گا اس کی سزا پائے گا اور اللّٰه کے سوا کسی کو اپنا حامی و مددگار نہ پائے گا اور جو کوئی نیک کام کرے خواہ مرد ہو یا عورت اور ایمان رکھتا ہو گا تو ایسے سارے لوگ جنت میں جائیں گے اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہ ہو گا۔

اور اگر شیعہ یہ کہیں کہ اہل سنت جناب امیر المومنین کی امامت تسلیم نہ کر کے اپنا ایمان ضائع کر چکے کیونکہ عقیدہ امامت بھی عقیدہ نبوت کی طرح ضروریات ایمان میں سے ہے تو ہماری طرف سے یہ جواب ہے کہ جناب امیر المومنین اور ائمہ طاہرین کی امامت میں اہل سنت کو زرہ برابر شک ہے نہ انکا قصور البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بھی امامت کا مستحق سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ امامت کی مستحقین کی جماعت میں سے جب کسی ایک کی امامت پر اتفاق رائے ہو جائے تو وہی امام وقت ہے چنانچہ ارباب حل و عقد نے جب حضرت علیؓ کی امامت پر اتفاق کیا اس وقت وہی امام تھے اور اہل سنت میں سے کسی نے ان کو امام ماننے سے انکار نہیں کیا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک اگر امامت کا استحقاق نص سے ثابت ہو تو وہ خلافت راشدہ ہے اور اگر عقل اور قرآئن ظنیہ سے ثابت ہو تو وہ خلافت عادلہ ہو گی اور بغیر استحقاق کوئی جابرانہ طور پر تسلط حاصل کر لے تو اس کی خلافت جابرہ کہلائے گی۔

اہل سنت کے نزدیک چاروں خلفاء کی خلافت خلافتِ راشدہ ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا استحقاق نص سے ثابت ہے

اور اگر ہر امام کی امامت پر ہر وقت ( چاہے وہ اس وقت خلیفہ ہو یا نہ ہو ) اعتقاد رکھنا ضروریات ایمان میں سے شمار کیا جائے گا تو پھر شیعوں کو اپنے ایمان کی خیر منانا چاہیے کہ وہ تلف ہو جائے گا اس لئے کہ وہ جناب علیؓ کی حیات میں امام حسینؓ کی امامت کے معتقد نہیں تھے اور اسی طرح امام حسنؓ یہ تو ہر امام کی امامت کے زمانہ میں نہ تو ان سے پہلے کی امامت کو مانتے ہیں نہ آئندہ آنے والے کی امامت کو !

اس صورت میں شیعہ تمام ہی اماموں کی امامت کے معتقد نہ رہے بلکہ حضورﷺ کے عین حیات حضرت علیؓ کی خلافت و امامت کے بھی معتقد نہیں تھے۔

اور پھر یہ شیعہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ جناب محمد الحنفیہ اور جناب زید شہیدؒ اور ان کے علاؤہ دیگر امام زادوں نے امام زین العابدین اور امام باقر رحمۃ اللّٰہ کی امامت اور استحقاق امامت کا صاف انکار کیا ہے اور مزکورہ الصدر دونوں بزرگوں نے ان دونوں کو کبھی امام تسلیم نہیں کیا تو اگر اس انکار کے باوجود محمد بن الحنفیہ اور زید شہید رحمۃ اللّٰہ کا ایمان صحیح و سالم ہے تو اہل سنت کا ایمان تو بدرجہ اولیٰ صحیح و سالم ہو گا کیونکہ وہ تو اس کے قائل اور معتقد ہیں کہ حضرت علیؓ مستحق امامت تو ہر وقت تھے البتہ اپنے زمانہ میں امام و خلیفہ بالفصل ہو گئے۔

اور پھر کیا یہ بات باعث تعجب نہیں کہ شیعہ باوجود اہل سنت کے ساتھ شدید بغض و عناد رکھنے کے ان کی کتابوں میں خود ان ہی کی ایسی صحیح روایات موجود ہیں جن سے اہل سنت کی نجات ثابت ہوتی ہے ہم ان شاءاللّٰہ باب معاد میں ان روایات کو نقل کریں گے انہوں نے جس مبالغہ آرائی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ان کے سطحی پن اور پست ذہنیت پر وال ہے یہ نواصب اور اہل سنت میں تمیز نہ کر سکے اور ان کے عقائد کو اہل سنت کے سر تھوپ دیا ان کے اگلوں نے تو نہ سمجھی اور مخالطہ میں ایسا کیا مگر ان کے اخلاف نے نودیدہ و دانستہ اس بدتمیزی کو اپنا شعار بنایا۔

اسی طرح ایک اور بات ان کی کتابوں میں ملتی ہے اگر رافضی ہزاروں سال بھی اللّٰه کی نافرمانی اور محرمات قبیحہ کے مرتکب ہوتے رہے ہوں تب بھی ان سے قطعی باز پرس نہ ہو گی اور وہ بلا حساب جنت میں جائیں گے بلکہ شیعوں کو گناہوں کے عوض بھلائیاں دی جائے گی اور ان کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ شیعوں کے بعض اعمال اسلاف پر لعنت کرنا انبیاء کے اعمال کے برابر شمار ہوتے ہیں۔

اور یہ بھی لکھا ہے کہ شیعہ کا گناہ سنی کی عبادت سے افضل ہے اس لئے کہ شیعہ کا گناہ قیامت کے دن بھلائی سے بدل جائے گا اور اس پر اس کو اجر بھی ملے گا مگر سنی کا نیک عمل قیامت کے دن تلف ہو کر غبار کی طرح نیست و نابود ہو جائے گا۔