Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 74

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 74

اہل سنت پر ان کا ایک افتراء یہ بھی ہے کہ انہوں نے خارجیوں اور حردریوں کو ثقہ و عادل تسلیم کر کے اپنی کتابوں میں ان سے احادیث کی روایت کی ہے بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ابن ملجم سے بھی روایت کی ہے۔

ان کا یہ الزام بھی افتراء اور سراسر جھوٹ اور بہتان ہے ان کو شرمانے کے لئے اہل سنت کی ان روشن کتابوں کا آئینہ دکھا دینا ہی کافی ہے۔

یہ کتابیں مشرق سے مغرب تک ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں کیا شیعوں کے علاؤہ بھی کسی کو ان کتابوں میں خارجیوں اور ابن ملجم کی کوئی روایت نظر آئی یا آ سکتی ہے !

کون نہیں جانتا کہ اہل سنت کے نزدیک اہل بیت اور امیر المومنین رضی اللّٰہ عنہم سے بغض رکھنے والے کی روایت صحت باطل ہے اگرچہ وہ صادق القول اور صالح العمل ہی کیوں نہ ہو اور اسی بنا پر جریر بن عثمان کی توثیق کو اہل سنت نے غلط ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے ظاہری احوال اور کلام کی سچائی سے متاثر ہو کر جن لوگوں نے اسکی توثیق کی ہے ان کو دھوکہ لگا ہے اور انہیں اس کے باطنی عقیدہ کا پتا نہ لگ سکا وہ تو حضرت علیؓ سے بغض رکھتا تھا۔

اسی طرح اہل سنت کی کتابوں میں ابن ملجم کو اشقی الاخرین کہا گیا ہے کیونکہ حدیث نبوی میں آ چکا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والا اشقی الادین تھا اور امیر المومنین کا قاتل اشقی الاخرین تھا ۔

پھر جب حضرت علیؓ کو ابن ملجم نے شہید کر دیا تو بعض حردریوں نے اس کی تعریف و توصیف میں نظمیں لکھیں اور اشعار کہے اور اس کے قابل نفرت نعل کی مدح و ستائش کی تو ان کا جواب بھی شعرائے اہل سنت نے دیا اور ان کے جواب میں قصائد لکھے اور ان کو دندان شکن جواب دئیے چنانچہ یہ قصائد اور نظمیں کتاب استیعاب میں موجود ہیں۔

ہاں بخاری میں مروان سے البتہ روایت آئی ہے باوجود یہ کہ وہ نواصب میں سے تھا بلکہ بدبخت گروہ کا سرغنہ اور سربراہ تھا۔ لیکن اس روایت میں بھی امام بخاریؒ نے اپنی روایت کا مدار امام زین العابدینؒ پر رکھا ہے اور ان ہی پر روایت کو ختم کیا ہے اگر امام ہی مروان سے خود روایت کریں تو پھر امام بخاریؒ کو اس سے بچنے اور احتراز نہ کرنے کا کب حق ہے اس کے باوجود امام بخاریؒ نے تنہا مروان سے کسی بھی جگہ روایت نہیں کی بلکہ مسور بن مخزمہ یا دوسروں کو اس کے ساتھ لائے ہیں اور یہ بات پہلے ہم لکھ چکے ہیں کہ اگر کوئی منافق یا بدعتی نقل حدیث میں اہل حق کے ساتھ موافق ہو تو اس کی روایت لینے میں کوئی قباحت نہیں اور پھر بخاری میں اس کی صرف دو روایتیں ہیں ایک حدیبیہ کے قصہ میں دوسری طائف وہ بنی تضیف اور یہ دونوں جگہیں بھی عقیدہ اور عمل سے متعلق نہیں ایسے ہی صحاح کی دوسری کتب میں بھی مروان سے اتنی ہیں اور اسی قسم کی روایت ہے۔

اب رہا معاملہ عکرمہ کا جو ابن عباسؓ کا خاص پیرو شاگرد رشید تھا اہل سنت کی کتابوں میں اس کی کافی روایت ہیں جن پر بعض ناواقف ناصبی یا خارجی ہونے کا الزام لگاتے ہیں جو حقیقت میں خلاف انصاف ہے اس لئے کہ وہ ابن عباسؓ کا خاص غلام تھا۔پروردہ اور شاگرد رشید تھا اور ہر دم ان کے ساتھ رہتا تھا۔

اور ابن عباسؓ بالاجماع شیعان اولی میں شامل ہین اور امیر المومنینؓ کے محب و مددگار ہیں چنانچہ قاضی نور اللّٰه شوستری نے بھی ان کو شیعہ شمار کیا ہے۔

ایسی صورت میں اثبات کا کیا امکان کہ ان کا ایسا غلام جو ان کا ہم صحبت اور ہم مشرب ہو ان کے عقیدہ سے اس قدر ہٹ جائے اور ابن عباسؓ اس کے حال سے واقف ہو جانے کے بعد بھی اسے اپنی صحبت سے نکال کر باہر نہ کریں۔