دھوکہ نمبر 75
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 75
کہتے ہیں کہ اہل سنت مٹی کہ ٹکیہ پر سجدہ نہیں کرتے اس لئے وہ شیطان کے مشابہ ہیں کیونکہ اس نے بھی خاک پر سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ راندہ بارگاہ ہوا اس کا قول اللّٰه تعالٰی نے یوں نقل کیا فرمایا خَلَقۡتَنِىۡ مِنۡ نَّارٍ وَّخَلَقۡتَهٗ مِنۡ طِيۡنٍ (مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے) شیعوں کے کسی شاعر نے اس طعن کو نظم بھی کیا ہے ۔
آنکس کہ دل از بغض علی پاک نکرد
بے شک تصدیق شہ لو لاک نہ کرو
برمہرہ نماز کے گزار و سنی
شیطان نزازل سجود بر خاک نہ کرو
(جس نے بغض علی سے اپنا دل پاک نہیں کیا بے شک اس نے شہ لولاک کی بھی تصدیق نہیں کی)
مٹی کی ٹکیہ پر سنی کب سجدہ کر سکتا ہے شیطان نے بھی تو خاک پر سجدہ نہیں کیا تھا۔
اس طعن کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت کو خاک پر سجدہ سے کب اور کہاں انکار ہے البتہ وہ خاک کے علاوہ دوسری اشیاء کپڑا چمڑہ وغیرہ پر سجدہ کرنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔
اخبار مشہور میں آیا ہے کہ راندہ درگاہ ہونے سے پیشتر شیطان نے بھی ذمین و آسمان کے چپہ چپہ پر سجدے کئے لیکن جب اس نے آدم خاکی کو جو بصورت گوشت پر پوست تھے سجدہ نہ کیا تو اس کی وجہ سے وہ سارے سابقہ سجدے رو اور نامقبول قرار پائے اور لعنت و پھٹکار کا موجب بنا پس معلوم ہوا کہ خاک پر سجدہ کرنا اور ان چیزوں کے سجدے سے بچنا جو خاک سے پیدا ہوئی اور دوسری شکل اختیار کرنا ہے اس کا حشر و انجام وہی ہوتا ہے جو شیطان کا ہوا۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تحقیر یا اہل بیت نبوی کے خلاف ان کا بغض و حسد یا ان کی نبوت سے انکار کے متعلق ان کی کتابوں میں جو کچھ مزکور ہے وہ سب ان شاءاللّٰہ باب نبوت میں بیان کیا جائے گا۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس ذات کی تعظیم ترک کرنے پر شیطان اس درجہ پر پہنچا تو اسی ذات کی تحقیر و تذلیل کرنا سے شیعوں کا یہ گروہ لعنت و ذلت کے کس درجہ تک پہنچے گا اب زرا انصاف کو کام میں لا کر فرمائیے کہ شیطان کی مشابہت کیا ہے اور اس شیطان کے مشابہ کون ہے۔
مذکورہ بالا اشعار میں سے پہلا شعر اہل سنت کے عقیدہ کا ترجمان ہے مگر دوسرے شعر کا مضمون کچھ ادھورا رہ گیا اس لیے کہ شیطان نے خاک پر سجدہ کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ خاک سے بنے ہوئے جسم آدم کے سجدے سے منکر ہوا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ شیعہ و سنی ہر دو خاک کو سجدہ نہیں کرتے ان کا مسجود تو کوئی شے دیگر ہی ہے اور تقاضائے انصاف بھی یہی ہے کہ خاک پر سجدہ ضرورت سے جائز ہو ورنہ ان میں کیا مناسبت اور معقولیت ہے کہ ہم اپنے نشست اور بیٹھک کی جگہ سرین جو اعضا بدنی میں کم تر درجہ کی ہے اس کے آرام کے لیے نوزرین مسند یا رنگ برنگ نہدے اور قالین سے آراستہ و پیراستہ کریں۔
اور جب پروردگار کے سامنے حاضری ہو اور اس سے التجا و مناجات کا وقت آئے تو سامنے خاک ڈال کر اعضائے بدن میں جو ممتاز و اشرف حصہ ہے یعنی سر و چہرہ اس کو خاک پر رکھیں (مسند و مصلٰی موجود ہو تو اسے ہٹا دیں) حالانکہ حدیث کی رو سے اللّٰه تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اس لیے کہ وہ صفات واجب الوجود علم قدرت سمیع و بصر اور کلام کا مظہر ہے ان تمام صفات کا منبع صدور جسم انسانی کا یہی اعلیٰ حصہ ہے جس کو خاک پر ڈالا جا رہا ہے۔
اس معاملے میں شیعہ حضرات کا قول دورِ جاہلیت کے مشرکین کے طرزِ عمل سے ملتا جلتا ہے جو مادر ذات ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور یہ نہیں سمجھتے تھے کہ گو انسان سے عبادت و تعظیم کا مطالبہ ہے مگر انسانی اوصاف کی رعایت کے ساتھ حیوانوں اور درندوں کی طرح ننگے ہو کر نہیں کے شرافت و شریعت میں ستر عورت واجب قرار دیا گیا ہے۔ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ۔خوش پوشاک ہو کر مسجد میں جاؤ۔
پھر ایک اور بات کہ ٹکیہ مقام سجدہ پر رکھنے سے کئی وہم پیدا ہوتے ہیں۔
اول: ٹکیہ رکھنا کفار اور منافقین کی خصوصیت ہے۔
دوسرے: خاک پر سر رکھنا بد فالی ہے جو عمل کے سوخت ہو جانے کی دلیل ہے۔
تیسرے: اس میں بت پرستوں کے فعل سے مشابہت ہے کہ وہ بھی عبادت کے وقت کسی نہ کسی چیز کو اپنے سامنے رکھتے ہیں۔
اس طعن میں شیعوں کی ایک فارسی بھی درج ہوئی ہے اس کے جواب میں اہل سنت کی طرف سے مصنف رحمۃ اللّٰہ نے اپنی تصدیق میں اٹھ رباعیا بیان کی ہیں یہاں سے ایک پر کفایت کی جاتی ہے اس لیے کہ سات نادان کو نہیں کافی دفتر نہ رسالہ)
سنی دل رابیا دحق رستہ کمند
کافر ہے آتش و خور خستہ کند
شیعی کہ خیس تربود وقت نماز
دل را بکلوخ خاک وابستہ کند
سنی تو دل کو نماز میں اللّٰه کی یاد میں لگاتا ہے کافر آگ اور سورج کے پیچھے پڑ کر اسے ہستہ خال کرتا ہے اور شیعہ جو کافروں سے بھی زیادہ خیر ہے وہ وقت نماز اپنے وقت کو مٹی کے ڈھیلے سے وابستہ کرتا ہے۔