مسئلہ قلم و دوات (واقعہ قرطاس) عمرؓ نے رسول اللہﷺ کے فرمان کو رد کر دیا، جو کہ اللہ کی طرف سے وحی تھا
زینب بخاریمسئلہ قلم و دوات
بخاری اور مسلم حضرت ابن عباسؓ سے راوی ہیں (ترجمہ)رسول اللہﷺ کی تکلیف زیادہ ہو گئی، آپ نے فرمایا کاغذ لے آؤ تمہیں کتاب لکھ دوں، اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہوں گے، جھگڑا کیا لوگوں نے اور کہنے لگے، آپ کا کیا حال ھے، کیا آپ چھوڑ رہے ہیں آپ سے پوچھو اور بار بار دہرانے لگے. آپﷺ نے فرمایا مجھے چھوڑو میں جس حال میں ھوں، وہ بہتر ہے اس سے جس کی تم دعوت دیتے ھو، آپ نے ان کو تین وصیتیں فرمائیں؛
1: مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دیں
2: وفد کو اسی طرح صلہ و اکرام سے نوازنا جس طرح میں کرتا تھا
3: میری چیز سے خاموش ھوا، یا کہا، میں بھول گیا ہوں، ایک روایت میں ھے گھر میں مرد تھے، انہوں نے کہا آپ کو بہت تکلیف ھے تمہارے پاس اللہ کا قرآن موجود ھے، تمہیں اللہ کی کتاب کافی ھے.
1: صحیح مسلم جلد 2 ص 92 باب الامداد بالملائکہ فی غزوۃ بدر واباحتہ الغنائم.
2: صحيح بخاری باب جوائز الرفد من کتاب الجہاد جلد 1 ص 429 صحيح مسلم ج 2 ص 42 باب ترک الرضیتہ لمن لیس شئی یوصی غیہ.
اس روایت کی وجہ سے شیعہ ملعون اس طرح اعتراض کرتے ہیں کہ عمرؓ نے رسول اللہﷺ کے فرمان کو رد کر دیا، جو کہ اللہ کی طرف سے وحی تھا ارشاد ھے :
وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰٓ،إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡيٞ يُوحَىٰ
ترجمہ آپ اپنی خواہش سے نہیں بولتے یہ تو وحی ھے جو القا ہوئی. (سورۃ النجم 3-4)
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْكَافِرُوْنَ
ترجمہ جو اللہ کے اتارے کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا یہ لوگ کافر ہیں.( سورةالمائدہ آیت 44)
نیز عمرؓ نے ادب و احترام کو ملحوظ نہیں رکھا کہ کہا قد علیه الوجع یعنی آپ پر تکلیف کا غلبہ ھے، نیز احجرا ستفهموه میں ہذیان کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف کی ہے، جو کہ عصمت نبوت کے منافی ھے، اور انکار عصمت سے انکار نبوت لازم آتا ھے.
جواب اہلسنّت
پہلی بات کا یہ ھے کہ رسول اللہﷺ کی عادت تھی کہ اظہار وحی کی کیفیت اور کفار کے ساتھ جہاد کے طریقوں میں اور جن معاملات میں ابھی وحی الٰہی نازل نہ ہوئی تھی، ان سب امور میں آپ فقہا صحابہؓ سے بحکم خدا وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ (آل عمران 159) مشورہ فرمایا کرتے تھے، خصوصاً شیخین ابوبکرؓ و عمرؓ سے جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
*وزيراى من اهل الارض أبوبكر و عمر أخرجه الترمذي.
ترجمہ ۔زمین والوں میں میرے وزیر ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں.
نیز فرمایا :
لا غنى بى عنهما انهما من الدين كا يسمع والبصر. اخرجه الحاكم.
ترجمہ میں ان دونوں سے بے نیاز نہیں ھو سکتا، یہ دین میں کان اور آنکھ کی طرح ہیں.
(جامع ترمذی جلد نمبر 2 ص 231 باب مناقب ابی بکرؓ.المستدرک کتاب معرفۃ الصحابہ جلد 3 ص 73.)
یعنی ابوبکر و عمرؓ کو میں باہر بھیج کر اپنے سے جدا نہیں کر سکتا، یہ دونوں بھی ہمیشہ آپ کو مشورے دیتے، اور عام طور پر ان کی رائے کے مطابق وحی اتری، جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے بارہ میں اور ازواج النبیﷺ کے بارے میں اس طرح منافقوں کے جنازہ پڑھنے میں اس طرح کے اور بھی کئی واقعات ہیں، حضرت عمرؓ کا مذکورۃ الصدر واقعہ میں توقف فرمانا گویا آپ کا مشورہ ہے کہ اس بارہ میں ترک کتابت زیادہ بہتر ھے، رسول اللہﷺ نے بھی ان کی رائے کو درست قرار دے کر تسلیم کر لیا، خمیس کا بقیہ دن اور جمعہ، ہفتہ اور اتوار تک آپ زندہ رہے، پھر کتابت کا حکم نہیں دیا، اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی کتب احادیث میں ملتا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا
من قال لا إله إلا الله دخل الجنة
اس إرشاد کے لوگوں تک پہنچانے کے انداز میں عمر بن الخطابؓ کی رائے کو آپ نے قبول فرمایا، اور حضرت ابوہریرہؓ کو عام منادی کرنے سے منع فرما دیا،،(صحيح مسلم ج 1 باب الرلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنتہ ص 45.)
اس سے معلوم ہوا رسول اللہﷺ کسی چیز کے لکھ دینے پر اللہ کی طرف سے ماخوذ نہ تھے، ورنہ رکاوٹ کرنے والوں کو زجر فرماتے اور قلم و دوات پیش کرنے کی تاکیدی حکم فرماتے، جس طرح کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کو حضرت عمرؓ کے امام بنانے کے مشورہ میں زجر و توبیخ کی اور تاکید فرمایا :
مروا آ بابكر فليصل بالناس.
ترجمہ ابوبکرؓ کو حکم کرو وہ لوگوں کو نماز پڑھائے.(صحيح بخاری جلد 1 کتاب الاذات باب حد المريض ان شہداء الجماعۃ ص 91)
اگر اللہ کی طرف سے کوئی حکم پہنچانا تھا، جو کہ نہ پہنچایا جا سکا. اس سے لازم آتا ھے کہ آپ نے اس آیت پر عمل نہ فرمایا، اور یہ بات عصمت کے خلاف ھے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغۡ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَۖ وَإِن لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَهُ
ترجمہ: اے رسول آپ کے رب کی طرف سے جو آپ کی طرف اتارا گیا، اسے پہنچا دیں، اگر آپ نے نہ پہنچایا تو رسالت کو نہ پہنچایا، اور اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا.(سورة مائدہ ،آیت 67)اس لئے یہ مفروضہ ہی غلط ھے کہ رسول اللہﷺ کوئی نئی بات لکھوانا چاہتے تھے، جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا، اور نہ لکھ سکے، اور نہ پہنچا سکے. نعوذبااللہ
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى،اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى،عَلَّمَهٝ شَدِيْدُ الْقُوٰى
ترجمہ: آپ اپنی خواہش کے تحت نہیں بولتے یہ تو صرف وحی ھے، جو آپ کی طرف القا ہوئی، سخت قوت کے مالک نے آپ کو تعلیم کی. (سورۃ النجم 3 تا 5)
اس آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے :
ترجمہ: قرآن کو آپ اپنی خواہش سے نہیں بولتے، بلکہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے وحی شدہ ھے.اس آیت میں رسول اللہﷺ کے جمیع منطوقات مراد نہیں ہیں ورنہ علمه شديد القوى (النجم 3-5) میں بھی جمیع منطوق کی تعلیم جبریل مراد ہونی چاہیے، حالانکہ ایسا کوئی نہیں کہتا.
اگر رسول اللہﷺ کے جمیع منطوق اللہ کی وحی ہوتے تو اللہ تعالیٰ کیوں فرماتا:
لِمَ اَذِنْتَ لَـهُـمْ (التوبہ 43)
ترجمہ:-آپ نے ان کو اجازت کیوں دی؟نیز یہ آیت نازل نہ ہوتی:
لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ (التحريم 1)
ترجمہ:-آپ وہ چیز کیوں حرام کہتے ہیں، جو اللہ نے حلال بنائی.
امامیہ بھی اس کے قائل نہیں کہ آپﷺ جو بولتے ہیں. سب وحی ہوتا ھے، دیکھئے محمد بن الحنفیہ امیر المؤمنين علیؓ سے راوی ہیں، انہوں نے فرمایا :ماریۃ قبطیہ کے بارہ میں جو کہ ابراہیمؓ فرزند رسول اللہﷺ کی والدہ ہیں، لوگوں نے اس کے چچیرے بھائی سے متعلق بہت باتیں بنائیں، جو اس کے پاس آتا جاتا تھا، مجھے رسول اللہﷺ نے فرمایا یہ تلوار لو، اگر تم اسے ماریہ کے پاس پاؤ تو قتل کر دو، علیؓ اس کی طرف گیا تو وہ کھجور کے درخت پر چڑھ گیا، اور گدی کے بل خود کو نیچے گرا لیا، اس کی ٹانگ اٹھ گئی وہ مقطوع الذکر تھا، مردوں کی طرح نہ تھا، نہ تھوڑا نہ زیادہ میں نے تلوار میان میں کی، اور رسول اللہﷺ کے پاس آ گیا. اور آپﷺ کو اس کی اطلاع دی، آپﷺ نے فرمایا یا اللہ کا شکر ہے، اس نے ہمارے اہل بیت سے رجس کو دور فرما دیا ھے.
اگر جمیع منطوق وحی ہوتا، حضرت علیؓ کو قبطی کے قتل کرنے کے لئے نہ بھیجتے، مشورہ کے طور پر رسول اللہﷺ کے فرمان کی مراجعت جرم نہیں ھے، بلکہ اس کا حکم ھے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت موسیٰ کے مشورہ سے نو بار اللہ کی جناب میں مراجعت کی حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم پچاس نماز کا ھو چکا تھا.اسی طرح موسیٰؑ کو حکم مل چکا ھے.
أَنِ ائْتِ الْقَوْمم قَوْمَ فِرْعَوْنَ أَلَا يَتَّقُونَ (سورة الشعراء،آیت 10،11)
ترجمہ :-ظالم قوم یعنی قوم فرعون کے پاس جاؤ، وہ کیوں نہیں ڈرتے.مگر موسیٰؑ اس کے بعد رب قدوس کی جناب میں مراجعت فرماتے ہیں
إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ
ترجمہ :- مجھے اندیشہ ھے مجھے جھٹلائیں گے. (الٰہی) میں ڈرتا ہوں، مجھے قتل نہ کر دیں. (الشعراء آیت 12،14)
لہٰذا حضرت عمرؓ کا رسول اللہﷺ کی طرف اس بارہ میں مراجعت فرمانا کیسے وحی رد کرنے کے مترادف بن سکتا ھے؟
حضرت عمرؓ کا مقولہ قد غلبہ الوجع،، اظہار شفقت کے طور پر ھے، تکلیف کا غلبہ ایک بشری تقاضا ھے، انبیاءؑ و غیر انبیاءؑ سب اس میں برابر ہیں، اس میں ترک ادب کی کوئی بات نہیں.نیز مقولہ اهجرا استفهموه دو معانی کا محتمل ہے.
1: جو لوگ [قاضی عیاض ؒ نے یہی مفہومِ واضح کیا ھے، دیکھئے شرح النودی ص 43 ج 2. نیز لفظ ہجر ہجران سے ھے جس کا لغوی مفہوم چھوڑنے کا ھے، قائل کا مقصد یہ ہے کہ کیا رسول اللہﷺ ہمیں چھوڑ رہے ہیں :آپ سے پوچھو اور تحقیق کرو، یہ مفہوم بھی ھو سکتا ھے، یاد رہے قد غلبہ علیہ الوجع اور عندکم القرآن حسبنا کتاب اللہ عمرؓ نے رسول اللہﷺ کے حکم کے مقابلہ میں نہیں فرمایا، بلکہ عمرؓ کے ساتھ کسی نے منازعت کی ھے. اس کے جواب میں کہا ہے، دیکھئے شرح النووی علے الصحيح المسلم ج 2 ص443 ] قلم دوات لانا چاہتے تھے. وہ استفہام انکار کے طور پر کہہ رہے ہیں کہ کیوں نہ قلم و دوات لائی جائے، پیغمبرﷺ سے ہذیان محال ھے اس لئے آپ جو فرماتے ہیں اس پر عمل کرنا چاہئے.
2: وہ لوگ جو قلم و دوات لانے میں توقف کر رہے تھے ،یہ ان کا مقولہ ھے، اس صورت میں ہجر کا مقصد یہ ہے کہ آلات تکلم کے کمزور ہونے اور زبان پر خشکی کے غلبہ کی وجہ سے آپ کی بات بخوبی نہیں سمجھی جا سکی، دوبارہ آپ سے پوچھو تا کہ آپ کے حکم کی بجا آوری کریں، کسی صحیح روایت میں نہیں ھے کہ یہ مقولہ اهجرا استفهموه حضرت عمرؓ نے کہا تھا.
♦️ کیا قلم و دوات منگوانے کا مقصد خلافت علیؓ لکھوانا تھا؟ یہ سوچنا کہ رسول اللہﷺ حضرت علیؓ کی خلافت لکھوانا چاہتے تھے، باطل ھے ھو سکتا ھے ،اس کے علاوہ کچھ اور لکھوانا چاہتے ھوں امام احمد ؒ نعیم بن زید سے روایت کرتے ہیں :(صحیح مسلم ج 2 ص 273 باب مناقب ابی بکرؓ.)
علیؓ فرماتے ہیں مجھے نبیﷺ نے حکم دیا میں ایک طبق لاؤں جس پر آپ لکھ دیں تا کہ امت آپ کے بعد گمراہ نہ ھو. میں نے خطرہ محسوس کیا، آپ میرے لانے سے پہلے نہ فوت ہو جائیں، میں نے کہا جی آپ مجھے بتا دیں میں یاد رکھوں گا، آپﷺ نے فرمایا میں نماز اور زکوٰۃ اور غلاموں کے بارہ میں وصیت کرتا ہوں.
اگر خلافت کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے، تو وہ ابوبکرؓ کی خلافت ہی ہو سکتی ھے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :میرے لئے ابوبکرؓ اور اپنے بھائی کو بلاؤ میں ابوبکرؓ کے لئے کتاب لکھ دوں. (مسند ج 2 حدیث ص 693 سند حسن)
♦️ اکابرین امت پر شیعہ کی غلط بیانیاں
شیعہ گروہ ائمہ عظام پر غلط بیانی کر کے ان کی طرف ایسی چیزیں منسوب کرتا ھے، جن میں صریح مخالفت رسول اللہﷺ اور مخالفت احکام قرآن لازم آتی ھے اور صحابہ کرامؓ کو فاسد اور کمزور تاویلیں کر کے مخالف رسولﷺ ثابت کرتے ہیں، اور ان کی تکفیر کرتے ہیں ما اضلھم و ما اکفرھم.
ائمہ پر ان کی غلط بیانیوں کے چند حوالے ملاحظہ کیجئے.
1: محمد بن بابو امالی میں دیلمی ارشاد القلوب میں روایت کرتے ہیں: "رسول خداﷺ نے فاطمہؓ کو سات درہم دئیے، اور کہا علیؓ کو دے، وہ اہل و عیال کے لئے طعام خرید کر لائے، کیونکہ ان پر بھوک کا غلبہ تھا. فاطمہؓ نے علیؓ کو دے دیئے، اور کہا تجھے رسول اللہﷺ نے حکم دیا ھے کہ ہمارے لئے طعام خرید لاؤ، علیؓ دراہم لے کر دروازہ سے باہر نکلے ایک سائل کی آواز سنی وہ دراہم اس کو دے دئیے،،شیعہ کی بیان کردہ اس روایت میں علیؓ کو مخالف امر رسول اللہﷺ کی حیثیت میں پیش کیا گیا ہے، اور اس میں دوسرے کے مال میں بلا اجازت تصرف بھی ھے، اور اہل پر سختی کرنا بھی کہ ان کی بھوک کا خیال نہ کیا، اور یہ بھی کہ ایک متعذوب کام کیا، اور اہل و عیال کا نفقہ جو کہ واجب تھا. ترک کر دیا، عمرؓ اور عمرؓ کے افعال پر رضا ظاہر کرنا، اور ان کی بزرگی کا خیال رکھنا اس بارہ میں رسول اللہﷺ کی نظر میں دونوں برابر ہیں.(فروع کافی ج 5 ص 468 کتاب النکاح باب الرجل یحل جاریۃ الاخیہ والمرأۃ تحل جار ہیتا لزدجہا.)
2: ما انزل اللہ کے خلاف اپنے ائمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے غیر مملوک لونڈی کے ساتھ باذن مالک مجامعت کی اجازت دی ھے، حالانکہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ، اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ،فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ
ترجمہ:-جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، بیویوں اور اپنی مملوک لونڈی کے سوا کہ ان کو کوئی ملامت نہ ھے ان کے علاوہ جو تلاش کر لے گا، پس وہ حد سے بڑھنے والے ہیں.دیکھئے عاریتہً لی ہوئی نہ بیوی کے حکم میں ھے، اور نہ ملک یمین کے حکم ہیں.
3: خون اور زخم سے آلودہ کپڑے میں نماز پڑھنا جائز کہتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ھے:
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ( المدثر 4)
ترجمہ:-اپنے کپڑے پاک کر.
4: جس ذمی نے کسی مسلمان کو قتل کر دیا ہے، اس کی اولاد کو غلام بنا لینا حکم لگاتے ہیں، حالانکہ حکم الٰہی اس بارہ میں قصاص ھے.
5: بعض ترکہ میں بعض وارثوں کو مخصوص کر دیتے ہیں، حالانکہ نص قرآنی عام ھے،
6: امام صادقؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عورت کو مسئلہ احتلام کی تعلیم سے منع کر دیا ھے. اور امام کاظم سے نسبت کیا کہ اس نے مخلوق کو اصول دین سیکھنے سے روکا ھے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم علوم کا حکم فرمایا ہے.
1: فروع کافی ج 3 ص 404 باب الرجل لصیلی فی الثوب و ھو غیر طاہر عالما اوجا ہلا.
2: فروع کافی ج 8 ص 301 میں ہے نصرانی نے مسلمان کو قتل کر دیا، امام ابو جعفر کہتے ہیں مقتول کے ورثا کے سپرد کر دیا جائے، چاہیں قتل کر دیں معاف کریں اور چاہیں اسے غلام بنا لیں. انتہی. (کتاب الریات باب الحلم یقتل الذمی مسلما)
3: فروع کافی جلد 7 ص 7576 کتاب باب مایرث الکبر من الولرددن غیرہ میں ھے.
ابو عبداللہ ؒ فرماتے ہیں جب ایک شخص فوت ہو جائے تو اس کی تلوار، انگشتری، مصحف، اس کی کتابیں، رہائشی مکان اور سامان اور اس کی سواری اور کپڑے بڑے بیٹے یا بیٹی کو ملیں گے. انتہی.
4: فروع کافی جلد 3 ص 49 لفظ لا تحرثو ہن بہذا فلیتخذنہ علۃ انتہی. باب احتلام الرجل والمرأۃ