Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 82

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 82

اہل سنت کے کسی عالم پر بہتان لگاتے ہیں کہ انہوں نے آئمہ اہل سنت میں سے کسی امام پر کوئی الزام لگانا چاہا مگر اس میں کامیاب نہ ہوئے اور بالآخر خفیف و شرمندہ ہوئے اور ملزم ٹھہرے اور مقصد اس جھوٹ کا یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف اس عالم کے خلاف بلکہ تمام علمائے اہل سنت کے خلاف بداعتمادی اور نفرت کی فضا پیدا کی جائے اور لوگ ان کی پیروی اور شاگردی سے گریز کریں چنانچہ عیاشی کی یہ روایت جو وہ اپنی اسناد سے بیان کرتا ہے۔اس بہتان کی کھلی مثال ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ رحمت اللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کے غول میں سے ہدہد کی عدم موجودگی کو کیوں محسوس کیا۔ اس میں کیا خاص صفت ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بولے :

لان الهدهد يرى في بطن الارض كما يرى أحدكم الد من في القارورة فنظر ابو حنيفه إلى اصحابه فضحك فقال أبو عبد الله ما ىضحكك قال ظفرت بك قال الذي يرى ما فى بطن الارض كىف لا يرى الفخ فى التراب حتى يأخذ بعنقه قال ابو عبد الله يا نعمان اما علمت أنه إذا انزل القدر عسى البصر.

کیونکہ ہد ہد زمین کے اندر کی چیز کو اسی طرح دیکھ لیتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شیشی میں تیل کو دیکھ لیتا ہے اس وقت ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور پھر ہنس پڑے تو ابو عبداللہ نے فرمایا کیونکہ تم کس بات پر ہنسے انہوں نے کہا میں آپ سے جیت گیا اس لیے کہ جو زمین کے اندر دیکھ لیتا ہے۔ وہ مٹی میں چھپا ہوا پھندا کیوں نہیں دیکھ پاتا یہاں تک کہ وہ اس میں اپنی گردن پھنسا بیٹھتا ہے۔ جناب ابو عبداللہ بولے اے نعمان تم جانتے نہیں کہ جب حکم الٰہی ہو جاتا ہے تو آنکھ اندھی ہو جاتی ہے۔

یہ اتنا کھلا افتراء اور گندا بہتان ہے جس کے جھوٹ اور بے اصل ہونے میں کسی کو شبہ نہیں اتنا تو یہ مفتری بھی جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ عظیم المرتبت عالم تھے جاہل نہیں تھے۔ باوقار اور خاص تمکنت کے مالک تھے شیعوں کی طرح سفلے یا چھچورے نہیں تھے۔ بزرگوں اور بڑوں سے اس قسم کی چشمک زنی یا ان کی خردہ گیری کی توقع تو ان سے ممکن ہی نہیں تھی۔

اور یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ ایک چیز کو دیکھ لینا اس کے سارے حالات اور نتائج جان لینے کو لازم نہیں اگر ہد ہد زمین پر جال دیکھ بھی لے اور شکاری کی غرض سے واقف نہ ہو تو کچھ بعید نہیں اس کے نزدیک وہ دانے جو جال میں بکھرے بکھرے ہوں اور وہ دانے جو چھلنی میں رکھے ہوں دونوں یکساں ہیں یہ اس کی نظر کا قصور نہیں ۔اور چھلنی اور جال کی غایت و مقصد کو علیحدہ علیحدہ جاننا بھی اس کی نظر کا کھیل نہیں اور نہ صرف کسی چیز کو دیکھ لینے سے اس کی حقیقت کو سمجھ لینا لازم ہے۔

اور پھر امام اعظم تو جناب امام صادق رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت و خدمت پر ہمیشہ فخر کرتے رہے ۔اس سلسلہ میں ان کا یہ قول تو بہت ہی مشہور ہے لولا السنتاف لھلک العنمان اگر امام صادق کی صحبت کہ یہ دو سال نہ ملتے تو نعمان ہلاک ہی ہو گیا تھا تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں امام صادق رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ایسے خیال کا گزر بھی ہوتا یا وہ ایسے الفاظ اپنی زبان پر بھی لاتے اور یہ بات تو شیعہ اور سنی دونوں کے نزدیک پایا ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جناب زید شہید رحمت اللہ علیہ نے مردانیوں پر چڑھائی کی تو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے 10 ہزار دینار سرخ سے آپ کی مدد کی اور کوفہ میں اہل بیت کے مناقب و فضائل بیان کرنے شروع کیے اور علی الاعلان بتایا کہ اس وقت جناب زید رحمت اللہ علیہ کی مدد عین دین اسلام کی مدد ہے۔

اور عہد منصور میں امام صاحب کا قید ہونا کوڑے کھانا اور بالآخر زہر سے ہلاک کیا جانا ان سب واقعات کا سبب واحد محبت اہل بیت رسول ہی تھی۔

پھر اولاد زید شہید نے جب نواح خراسان میں منصور کے خلاف چڑھائی کی تو امام صاحب لوگوں کو ان کی اتباع و بیعت پر راغب کرتے تھے جب منصور نے امام صاحب سے پوچھا کہ آپ نے علم کس سے سیکھا تو انہوں نے فرمایا کہ اصحاب علی سے اور انہوں نے حضرت علیؓ اور اصحاب بن عباسؓ سے اور انہوں نے عبداللہ بن عباسؓ اور پھر خارجیوں سے امام صاحب کا مناظرہ اور اس مناظرہ کے نتیجہ میں بعض کا ہدایت یاب ہو جانا یہ سارے واقعات مشہور و معروف اور زبان زد خلق ہیں۔

ان میں سے ایک صحیح روایت یوں ہے کہ امام صاحب کا ایک پڑوسی بڑا کٹر حروری خارجی تھا وہ امام صاحب کو کافر کہتا تھا۔ آپ حق کے ہمسائیگی کی خاطر ازراہ ہمدردی اس کو بہت نصیحت وہ ہدایت فرماتے مگر وہ کسی پہلو مانتا ہی نہیں تھا چنانچہ آپ نے چند روز اس سے ملنا جلنا ترک کر دیا پھر چند روز بعد آپ اس کے ہاں تشریف لے گئے اور تنہائی میں اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی وہ کہنے لگا تم میرے پاس آئے ہی کیوں اور تمہارا مقصد کیا ہے؟ امام صاحب نے فرمایا مجھے ایک شخص نے تیری لڑکی کے لیے پیغام دے کر بھیجا ہے وہ کہنے لگا کون ہے؟ وہ اپ نے اس کے دوات حشمت اخلاق و کردار اور حسب نسب سب کچھ بتائے اور اخر میں فرمایا ان سب خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس میں ایک عیب بھی ہے کہ وہ یہودی ہے اس پر وہ بہت بگڑا اور غصہ دکھاتے ہوئے کہنے لگا تم عجیب مسلمانوں ہو کے مسلمان کو مجبور کر رہے ہو کہ وہ اپنی لڑکی یہودی کو دید دے تمہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کہ مسلمان لڑکی یہودی سے کیسے بیاہی جا سکتی ہے اس پر امام صاحب نے بڑی رسانیت سے کہا خواجہ اتنے گرم کیوں ہوتے ہو تم تو امیرالمومنین حضرت علیؓ کو کافر کہتے ہو میں نے سوچا کہ جب ایک نبی کی لڑکی کافر کو دی جا سکتی ہے تو ایک حروی کی لڑکی ایک یہودی کو مل جائے تو کیا مضائقہ ہے یہ سنتے ہی حروی کی تو سٹی گم ہو گئی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد امام صاحب کے قدموں پر گر پڑا اور اپنے مذہب سے تائب ہو گیا۔

اوپر کی ہدہد والی روایت میں عیاشی کئی غلطیوں کا شکار ہوا۔

اول تو یہ کہ سائل امام صاحب نہیں بلکہ ایک خارجی تھا اور سوال ابو عبداللہ سے نہیں حضرت ابن عباسؓ سے کیا گیا تھا اور روایت بھی صرف اسی قدر ہے کہ:

قال نجدة الحروري لابن عباس انك تقول ان الهدهد اذا البصر الارض مرف ساحة ما بين هو وبين الماء وهو لايبصر شعرة الفخ فقال ابن عباس اذا هباء القضاء منشى البصر.

نجد حروری نے ابن عباسؓ سی دریافت کیا کہ اپ کہتے ہیں کہ ہدہد جب زمین دیکھتا ہے تو اس فاصلہ کا اندازہ لگا لیتا ہے جو اس کے اور پانی کے درمیان ہے تو پھر وہ پھندہ کا جال کیوں نہیں دیکھ پاتا اس پر ابن عباسؓ نے فرمایا جب قضا آتی ہے تو آنکھ بند ہو جاتی ہے۔

اسی طرح طبرسی نے کتاب احتجاج میں ایک روایت لکھی ہے وہ بھی اس طرح گڑبڑ ہے پڑھئیے اور وہ یہ ہے۔

أنه دخل ابو حنيفه المدينة ومعه عبد الله بن مسلمه فقال له يا ابا حنيفه أن ههنا جعفر بن محمد من علماء آل محمد فاذهب بنا نقتبس منه علما فلما اتياء ذاهما بجماعة من شيعة ينتظرون خروجه فبيناهم كذالك إذا خرج غلام حدث فقام الناس هيبة له فقال أبو حنيفة لابن مسلمه من هذا لغلام فقال إذا ابنه موسى لا جبهنه بين ايدى شيعة قال مه لا تقدر على ذالك فقال والله لا فعلنه ثم التفت الى موسى فقال يا غلاماين ليضع الرجل جاجته في مدينتكم هذه فقال يتوارى خلف الجدار يتوقى حين الجدار شطوط الانهار ومساقط الشمار ولا يستقبل القبلة ولا يستدبرهما فحينئذ يضع حيث شاء.

امام ابو حنیفہ عبداللہ بن مسلمہ کی معیت میں مدینہ منورہ پہنچے ابن مسلمہ نے آپ سے کہا آئیے جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں چلیں جو آل محمد کے علماء میں سے ہیں وہ ان سے کچھ اکتساب فیض کریں جب دونوں وہاں پہنچے تو دیکھا کہ شیعوں کی ایک جماعت ان کے انتظار میں وہاں بیٹھی ہوئی ہے۔ ابھی انتظار ہو ہی رہا تھا کہ ایک نو عمر صاحبزادے اندر سے باہر آئے تو سب احتراماً کھڑے ہوں گئے۔ امام صاحب نے ابن مسلمہ سے دریافت کیا کہ یہ کون ہے انہوں نے کہا کہ یہ موسیٰ حضرت جعفرؓ کے بیٹے ہیں امام صاحب کہنے لگے میں شیعوں کے سامنے ہی ان کی پیشانی پر بوسہ دوں گا ابن مسلمہ نے کہا تم ایسا نہیں کر سکتے امام صاحب نے کہا واللہ میں ضرور ایسا کروں گا.

امام صاحب نے موسی سے مخاطب ہو کر پوچھا میاں صاحبزادے تمہارے اس شہر میں آدمی قضائے حاجت کہا کرے؟موسی بولے دیواروں کی اڑ میں پڑوسی کی نظر سے بچے نہروں کے کنارے پر نہ کرے ،میووں کے پھینکنے کی جگہ نہ کرے اور قبلہ کی طرف نہ منہ کرے نہ پشت ان باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے جہاں چاہیں فارغ ہو لے۔

یہ روایت بھی کسی متعصب شیعہ کی گھڑت اور ان کے گھڑے ہوئے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ اس میں صحیح اسی قدر ہے جو دوسرے شیعوں نے روایت کی ہے یا اہل سنت بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے۔

لما دخل ابو حنيفه المدينة زار قبر النبي صلى الله عليه وسلم ثم اتى الى دار الصادق فجلس ينتظر خروجه فخرج ابنه موسى وهو صغير فقام ووقره ثم قال اين يضع العرب حاجته في بلدكم فاحاب بما ذكر اما بقا فقال أبو حنيفة الله اعلم حيث يجعل رسالته.

جب امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مدینہ النبی پہنچے تو پہلے حضور اکرم ﷺ کے روضہ اور حاضری دی پھر حضرت صادق رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر حاضر ہوئے اور ان کے انتظار میں وہاں بیٹھے کہ اتنے میں ان کے کمسن بیٹے موسیٰ باہر آئے امام صاحب نے یہ آیت پڑھی اللہ اعلم حیث یجعل رسالته

اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ رسالت کس کو بخشے۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نے بچے سے سوال اہل بیت کے بچوں کی ذکاوت و و تیزی فھم سے متاثر ہوکر اظہارِ تعجب کے طور پر کیا تھا ۔ اور یہ بات اس زمانہ ہی میں نہیں آج کل بھی ہے کہ بچوں کی ذکاوت ذہانت سے حیرت زدہ ہو کر بطور امتحان اس قسم کے سوالات کر ہی لیتے ہیں۔

اور مقصد یا تو اس خاندان سے اظہار عقیدت ہوتا ہے یا دوسروں پر اس خاندان کی بلند مرتبیت واضح کرنا الزام و طعن کا تو ایسے موقع پر سوال ہی نہیں۔