دھوکہ نمبر 83
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 83
یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ اول (رضی اللہ عنہ) جنکی خلافت کے اہل سنت قائل ہیں ۔خود اپنی خلافت میں میں متردو تھے برخلاف امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے کہ ان کو شک و تردد کی بجائے پورا یقین وثوق تھا اور ظاہر ہے یقین کی اتباع شک و تردد کہ اتباع زیادہ بہتر ہے۔
اور خلیفہ اول کے شک و تردد ثابت کرنے کے لیے یہ روایت گھڑی کے عین وفات کے وقت آپ نے یہ الفاظ فرمائے۔
ياليتني كنت سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم هل الانصار في هذا الامر شيء
کاش میں رسول اللہ ﷺ سے یہ پوچھ لیتا کہ کیا اس خلافت میں انصار کا بھی کوئی حق ہے۔
اور جب یہ گھڑت شیخ علی کے ہاتھ لگی تو بڑا اچھلا پودا اور بڑے ڈینگ مارنے لگا اور بزعم خود یہ سمجھ بیٹھا کہ ایسی دلیل ہاتھ لگی ہے کہ اس سے اہل سنت کا ناطقہ بند کیا جا سکتا ہے اور اب تو مناظرہ کے بازی اپنے ہاتھ آگئی اور شیعوں کو یہ واقعی حق حاصل ہے کہ وہ افترا بہتان اور جعل سازی پر جتنی چاہیں بغلیں بجائیں کہ یہ تو ان کے مذہب کی بنیاد ہی ہے مگر چونکہ اہل سنت کے نزدیک یہ دلیل بےصل اور من گھڑت ہے۔ اس لیے وہ اس کے من گھڑت ہونے کی تشریح یوں کرتے ہیں۔
کہ اگر خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو انصار کے معاملے میں کچھ تردد تھا تو وہ خود ایک مہاجر یعنی حضرت عمر فاروقؓ کے حق میں حکم خلافت کیوں صادر فرماتے اور اگر انصار کو خلافت نہیں دی تھی تو کم از کم ان کو کسی نوح امور خلافت ہی میں شریک کر دیتے۔
اور بغرض محال یہ روایت صحیح بھی مان لی جائے تو پھر ان الفاظ کا مقصد یہ تھا کہ کاش حضور ﷺ سے انصار کی موجودگی میں یہ سوال کر لیتا تا کہ حضور ﷺ کے جواب باثواب کو یہ حضرات اپنے کانوں سے سن لیتے اور اس معاملے میں مجھ سے کبیدہ خاطر نہ ہوتے۔
اور پھر یہ کلام اگر خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا ہی مان لیا جائے تو امیر المومنین حضرت علیؓ کہ دوثالث مقرر کرنے کے معاملہ سے تو بڑھ کر نہیں۔
کیونکہ خارجی فرقہ تو پیدا ہی اس وجہ سے ہوا۔ اور اسی وجہ سے بد عقیدہ ہو کر آپ کے خلاف ہو گئے اور انہوں نے یہی تو اعتراض کیا کہ اگر اس شخص امیر المومنین رضی اللہ عنہ کو اپنے برحق ہونے کا یقین ہوتا تو پنچائیت کیوں بلاتے لہذا معلوم ہوا کہ بغیر صریح اور بلا استحقاق اس اہم کام کا دعوی کیا اور جب کچھ بس نہ چلتا دیکھا تو صلح پر رضامندی ظاہر کی اور معاملہ مشورہ پر چھوڑ دیا۔
دوسری بات یہ کہ خلیفہ اول کے زمانہ سے لے کر اج تک سوائے ان جھوٹے رافضیوں کے کسی نے بھی یہ روایت نقل نہیں کی ۔اس کے مقابلہ میں تحکیم کا معاملہ تو ایسا طشت بام ہوا ہے کہ کوئی لاکھ کوشش کرے اس کو چھپا نہیں سکتا پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اس قول پر کوئی خلفشار اور انتشار پیدا نہیں ہوا کیونکہ اس کے بعد اور سورتحال کا علم ہو جانے سے خود انصار رضی اللہ عنہ معاملہ خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ بخلاف معاملہ تحکیم (ثالثی) کے کہ اس کے بعد جو فساد برپا ہوا ایسا برپا ہوا کہ اہل بیت کے خاندان سے خلافت ہی نکل گئی اور پھر کسی نے بھی ان کو خلافت میں دخیل نہ ہونے دیا۔ اور انہوں نے اپنے طرز عمل کی بنیاد اسی دلیل کو بنایا کہ خاندان اہل بیت کا خلافت میں کوئی حق ہوتا تو وہ امر خلافت کو ثالثوں کے سپرد نہ کرتے اور امیر المومنین پنچایت نہ بلاتے نہ اس پر راضی ہوتے یہی وجہ ہے کہ حروری ان سے ناراض ہوۓ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوۓ اور یہی وجہ ہے کہ نواصب اور ہردانیوں کا جھنڈا بل ر اسلامیہ پر لہرایا اور ان کی امارت کو مستحکم بنانے کے لیے عام مسلمانوں نے بھی کوئی دقیقہ باقی نہ رکھا۔