Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 84

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 84

یہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کی قدر و منزلت عروج کی اس حد کو پہنچ گئی کہ لوگ ان کی الوہیت کے قائل ہوں گئے لیکن خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم کو یہ عروج یہ قدر و منزلت حاصل نہ ہو سکی لہٰذا معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ ہر سہ خلفاء رضوان اللہ علیہم سے افضل اور امامت وخلافت کے زیادہ حقدار ثابت ہوئے اس کے علاوہ حضرت علیؓ سے خرق عادات امور اور معجزات ظاہر ہوئے جو بتاتے ہیں کہ آپ ہی امامت و خلافت کے حقدار ہیں۔ خلفاء ثلاثہ رضوان اللہ علیہم سے ایسی کوئی بات ظاہر نہ ہوئی۔

شیعوں کا یہ بیان عیسائیوں کے خیالات کا چربہ دیا (ان کا اگلا ہوا نوالہ ہے) کیونکہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ لوگوں میں جو بلند اعتقادی ہے وہ پیغمبر اخر الزمان ﷺ کے ساتھ نہیں اور خوارق عادات امور مثلاً مردوں کو زندہ کرنا مادر زاد اندھوں اور کوڑیوں کو بنیاد اچھا کر دینا ۔حضرت مسیح علیہ السلام سے تو ان کا صدور بار بار اور پے در پے ہوا مگر پیغمبر اخر الزماں ﷺ ایسی کوئی بات صادر نہیں ہوئی اگر اپ سے کبھی کبھار دو چار معجزے صادر بھی ہوئے تو وہ شہرت و تواتر کی حد تک نہ پہنچے اس لیے ان وجوہ کے بنا پر پیغمبر اخر الزماں ﷺ کی نسبت حضرت عیسی علیہ السلام اتباع کے زیادہ حقدار ہیں۔

معلوم نہیں عقل کا جنازہ نکل گیا ہے یا لوگوں کی مت ماری گئی ہے کہ وہ اتنا نہیں سوچتے کہ اگر لوگوں نے خلاف واقعہ حضرت مسیح علیہ السلام یا حضرت علیؓ کو الوہیت کی مسند پر بٹھا دیا ہے تو کیا جاہلوں کی اس گندی عقیدت ہی کی بنا پر واقعی ان حضرات میں فضیلت و بزرگی کا پھندنا لگ گیا ہے۔ کیا عرب کے ان گھڑ لوگوں نے لات و منات اور عزیٰ کو مسند الوہیت نہ بخشی! تو کیا ان گھڑ لوگوں کے گڑے ہوئے پتھروں میں فضیلت و بزرگی پیدا ہو گئی پھر انہی کندنا تراش جاہلوں نے یا ان کے اخلاف عبداللہ بن سبا یہودی کے بہکانے میں آکر اور اپنی عقل و دانشمندی کو اس کے ہاتھ گروی رکھ کر جناب امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا اعتقاد رکھا منہ سے نکالا کتابوں میں اچھالا تو کیا جناب امیر رضی اللہ عنہ کی بزرگی میں اس نے کچھ اضافہ کیا ؟اگر بزرگی اور فضیلت کا مدار جہلانے زمانہ اور عوام کالانعام پر ہی ہے تو ہمارے دیار میں تو پھر شیخ سدد وغیرہ فضیلت میں ان حضرات سے بازی لے جائیں گے۔ العیاذ باللہ وانا للٰ٘ہ وانا الیہ راجعون ۔

اور ذیادہ ماتم تو شیعہ علما کی عقلوں کا ہے کہ وہ ایسے لچر عقیدوں کو مطالب اصولیہ کے ثبوت میں دلیل بتاتے ہیں چنانچہ ان کے ہی ایک عالم نے ایک شعر کہا ہے اور حسب عادت و رواج اس کا رشتہ امام شافعی رحمہ اللہ علیہ سے جوڑ دیا ہے وہ کہتا ہے ۔

كفى في فضل مولانا علي ، وقوع الشك فيه انه الله

ہمارے آقا علیؓ کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کی ذات میں خدا ہونے کا شک ہو گیا۔

ومات الشافعي وليس يدري ، علي ربه ام ربه الله

شافی مرتے مر گئے مگر یہ نہ جان سکے کہ ان کا رب علی ہے یا اللہ۔

رہا معجزات کا کثرت سے صادر ہونا تو یہ بھی شیعوں کے نزدیک وجہ فضیلت نہیں ہو سکتی اس لیے کہ ان ہی کے عقیدہ کے مطابق حضرت مہدیؑ سے اتنے کثیر معجزات کا صدور ہونے والا ہے کہ ان کے بزرگ اجداد سے بھی صادر نہ ہوئے ہوں گے تو اگر معجزوں کی کثرت کو وجہ فضیلت قرار دیں تو حضرت مہدیؑ حضرت علیؓ سے فضیلت و بزرگی میں بڑھ جائیں گے ۔اور یہ بات سنیوں کے نزدیک بھی باطل ہے اور شیعوں کے نزدیک بھی۔

اور زیادہ تعجب اس بات کا ہے کہ اثنا عشری جو غلاۃ کہ اعتقاد سے امکانی برأت اور کنارہ کشی کرتے ہیں اس قسم کی باتوں کی طرف دل ان کا بھی جھکتا ہے ان میں سے بعض صاف الوھیت یا حلول کے عقیدہ سے گھبرا کر سر خفی کے اعتقاد کی چادر میں چھپ گئے ہیں۔ اور کہتے ہیں جو بھی مخفی بھید

کھولے گا اس کا خون معاف ہے ان کے بعض شعراء نے اس مضمون کو شعروں میں ادا کیا ہے۔

لا تحسبوني هويت الطهر حيدرة ، بعلمه وهلاه من ذو النسب

یہ نہ سمجھو کہ میں نے حیدر سے بلندی علم یا نسبی برتری کی وجہ سے محبت کی۔

ولا شجاعة في كل معركة ، ولا التلذذ في الجنات من اربي

نہ اس وجہ سے کہ ہر معرکہ میں داد شجاعت دی اور نہ جنت کی ابدی لذتوں کے حصول کے لیے۔

ولا التبرى من نار الجحيم ولا ربرته من عذاب النار يشفع بي

اور نہ دوزخ سے چھٹکارا پانے کے لالچ میں نہ اس امید میں کہ دوزخ کے عذاب سے بچانے کے لیے میری شفاعت کریں گے۔

_لكن عرفت هو السر الخفي فإن اذفته حللوا قتلى وعزربي_

لیکن میں نے انہیں پہچان لیا ہے کہ وہ سر مخفی ہیں اگر میں اسے فاش کر دوں تو میرا خون معاف اور میں سزا کا مستحق ہو جاؤں گا۔

يصد هم عنه داء لارواء له كالماء يعرض عنه صاحب الكلب

لوگوں کو ان کی حقیقت جان لینے سے بیماری روکتی ہے جس جس کی کوئی دوا نہیں یعنی جہان میں جس طرح کتے کا کاٹا پانی سے بھاگتا ہے۔

ان کے بعض علماء اپنے دعوی افضلیت کی تائید میں یہ واقعہ پیش کرتے ہیں کہ پیغمبر ﷺ نے اپنے کندھے پر ان کا پاؤں رکھا۔ پورا قصہ یوں نقل کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن جب حضور ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کو بتوں سے بھرا ہوا پایا آپ نے سب کو گرا گرا کر توڑ ڈالا ایک بت کسی اونچی جگہ پر رکھا ہوا تھا کہ وہاں تک آپ کا دست مبارک نہ پہنچ سکا حضور ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ میرے کندھے پر پاؤں رکھ کر چڑھ جاؤ اور اس بت کو توڑو۔ امیر المومنین نے بہ پاس ادب عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ میرے شانے پر چڑھ جائیں اور پھر بت توڑ دیں تو حضور ﷺ نے فرمایا تم بار نبوت کے برداشت کی تاب نہ لا سکو گے" اب اس واقعے سے بات کھلی کہ امیر المومنین حضور ﷺ کے کندھے پر کیوں چڑھے تھے اور اس میں سر مخفی کیا ہے۔

اس کے مقابلہ میں یہ قصہ تو اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ ہجرت کی شب حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور ﷺ کو اپنی پشت پر اٹھا کر پنجوں کے بل کئی کوس تک لے گئے پورا پاؤں ٹیکنے سے اس خدشہ کے پیش نظر احتراز کیا کہیں دشمن کھوج نہ لگا لیں سے ایک بات بڑی واضح طور پر ثابت ہو گئی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ میں بار نبوت برداشت کرنے کی غایت درجہ طاقت تھی۔

حضور ﷺ کے شانہ مبارک پر چڑھنے کا قصہ اگرچہ زبان زد خلق ہے پھر بھی اس نوعیت سے یہ قصہ صرف شیعہ روایات میں ملتا ہے اہل سنت کی کتب صحاح میں اس کا سراغ نہیں ملتا اس لئے اس سے اہل سنت کو الزام دینا بھی صحیح نہ ہو گا کتب صحاح میں یہ واقعہ اس طرح ملتا ہے۔

انه صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة يرم الفتح وحول البيت ثلاثمائة وستون نصبا فيجعل يطعنها بعود في يده ويقول جاء الحق و ذهق الباطل ان الباطل كان ذهوقا فكانت تسقط بإشارة يده

فتح کے دن آنحضرت ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں تین سو ساٹھ بت رکھے ہیں پس آپ اس چھڑی سے جو آپ کے ہاتھ میں تھی ان کو کچوکے لگاتے اور فرماتے۔

حق آیا اور باطل مٹ گیا باطل تو بےشک مٹنے ہی والا ہے لہذا وہ بت آپ کے اشارے کے ساتھ ہی گرتے جاتے ۔

ان الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ بت تو آپ ﷺ کے اشارہ ہی سے گرتے جارہے تھے اس میں کاندھے پر چڑھنے کی ضرورت ہی نہ تھی ممکن ہے یہ واقعہ کعبے کے اردگرد نصب کئے ہوئے بتوں کا ہو اور اندرون کعبہ کے بتوں کو کسی دوسرے وقت پچھلی روایت میں مذکور صورت کے مطابق توڑا ہو .بہرحال اہل سنت کی صحیح کتب میں تو روایت اس قدر ہے کہ وہ تصویریں جو کعبے کی دیواروں پر بنی ہوئی تھیں آپ نے ان کو پانی سے دھویا اسامہ بن زیدؓ زمزم کا پانی لارہے تھے اور نبی اکرم ﷺ اپنے دست مبارک سے ان تصویروں کو دھو دھو کر مٹا رہےتھے ۔ جب مجسموں کی باری آئی تو اپ کے حکم سے وہ باہر نکالے گئے انہیں مجسموں میں حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مجسمے بھی تھے ان کے ہاتھوں میں فال دیکھنے کے پانسے تھمائے ہوئے تھے ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی ان کافروں پر لعنت کرے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان بزرگوں نے یہ کام نہیں کیا پھر بھی ناحق ان کے ہاتھوں میں یہ قرعے دیدئیے ۔