نکاح مؤقت حرام و باطل ہے
نکاح مؤقت حرام و باطل ہے
سوال: زید کہتا ہے کہ میں بصریٰ سے کوفہ جانے والا تھا، اسی اثناء میں ایک اجنبیہ عورت میرے ساتھ ہو گئی اور کہنے لگی کہ میں بھی کوفہ جانے والی ہوں مجھے بھی ساتھ لے چلو، اس لئے زید مجبور ہو کر اور ناجائز حرکت سے بچنے کیلئے اس اجنبیہ کو کوفہ پہنچانے میں جس قدر دن لگے اتنے دن تک کیلئے بلا مہر اُس سے نکاح کر لیا اور اسے ہمراہ لے کر کوفہ آیا، کوفہ آنے کے بعد اُس عورت کے کسی ولی نے کاتب کو بلا کر ایک مغلظہ طلاق لکھوایا اور اس پر زید سے دستخط لے لیا لیکن زید کہتا ہے کہ میں نے اپنی زبان سے لفظ طلاق کو استعمال نہیں کیا، اس لئے زید سابق نکاح کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ نکاح اور طلاق کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب: مذکورہ صورت میں زید اور اجنبیہ کے مابین مدت مقرر کر کے جو نکاح ہوا ہے، وہ نکاح مؤقت ہے، جو شرعاً حرام و باطل ہے۔ اس لئے زید کا نہ نکاح صحیح ہو اور نہ طلاق واقع ہوئی، البتہ تراضی طرفین بغیر حلالہ دوبارہ نکاح کے ہوسکتا ہے۔
(فتاویٰ دار العلوم کراچی جلد 3، صفحہ 197)