Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دھوکہ نمبر 85

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 85

شیعہ اہل سنت پر طعن کرتے ہیں کہ وہ ائمہ اربعہ ابو حنیفہ، شافعی ،مالک اور احمد رحمہ اللہ کا مذہب تو اختیار کرتے ہیں۔ مگر ائمہ اہل بیت کا مذہب اختیار نہیں کرتے۔ حالانکہ وجوہ ذیل سے ائمہ اہل بیت اتباع کے زیادہ حقدار ہیں۔

1_ وہ رسول اللّٰہﷺ کہ لخت جگر ہیں رسول اللّٰہﷺ کے گھر میں پرورش پائے ہوئے ہیں آئین شریعت بچپن ہی سے یاد کیے ہوئے ہیں اور صاحب البیت ادری بمافیہ کے مصداق گھر کے یہ افراد گھر کے اندرونی حالت سے زیادہ واقف ہیں۔

2_صحیح حدیث میں جو اہل سنت کے نزدیک بھی معتبر ہیں ان کی اتباع کا حکم ایا ہے جناب رسالتماب ﷺ نے فرمایا:

اني قارك فيكم الثقلين ان تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي كتاب الله وعترتي أهل بيتى

میں تم میں دو ایسی قابل استاد چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان سے وابستہ رہے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوں گے ایک اللہ کی کتاب دوسرے میرے اہل بیت،

اور آپ ﷺ نے بھی یہ فرمایا ہے:

مثل اهل بيتي فيكم كمثل سفينة نوح من ركبها نجا ومن تخلف منها غرق

تم میں میرے اہل بیت کی حیثیت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہوا بچ گیا اور جو اس سے بچھڑ گیا غرق ہوا۔

3_ائمہ اہل بیت کی بزرگی، عبادت ان کا تقوی اور زہد و علم شیعہ و سنی ہر دو فریق کو تسلیم ہے بخلاف دوسروں کے اور ظاہر ہے کہ جن کی بزرگی پر اتفاق ہو وہی اتباع کے زیادہ حقدار ہیں نہ کہ دوسرے۔

اس مکر اور کید کا جواب یہ ہے کہ امام دراصل نبی کا نائب ہوتا ہے اور نبی صاحب شریعت ہوتا ہے نہ کہ صاحب مذہب اس لئے کہ مذہب اس راستہ کا نام ہے جو امت میں سے بعض ہی کے لیے کشادہ ہوتا ہے پھر وہ چند مقررہ قواعد و اصول کے ذریعے شریعت کے مسائل کا استخراج کرتے ہیں چنانچہ مذہب میں خطاوثواب دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ جبکہ امام خطا سے محفوظ ہوتا ہے ۔اور نبی کا حکم رکھتا ہے عقل کا تقاضا تو نہیں کہ اس کی طرف مذہب کی نسبت کر دیں۔

اسی طرح مذہب کی نسبت خدا تعالی ،حضرت جبرائیل اور فرشتوں کی طرف کرنا بھی بے عقلی کی دلیل ہے اور اہل سنت کے فقہاء صحابہ کی طرف بھی مذہب کی نسبت کر کے ان کو بھی صاحب مذہب نہیں کہتے باوجودیکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو امام ابو حنیفہ و امام شافعی وغیرہ سے افضل و اعلیٰ مانتے ہیں۔

بلکہ صحابہ کرام کے اقوال و افعال کو فقہ کی اصل اور احکام شرعیہ کی دلیل شمار کرتے ہیں اور خود ان کو امت تک علم کے پہنچنے کا غیبی ذریعہ اور وسیلہ۔

اور فقہاء امت کی اتباع عین ائمہ ہی کی اتباع ہے اس لیے کہ انہوں نے فقہ مذہب اور قواعد ان حضرات ائمہ ہی سے تو سیکھے ہیں وہ اپنی شاگردگی کی نسبت انہی سے قائم کرتے ہیں۔ پس اہل سنت تو ان ائمہ کی اتباع کو ہی مقصود نظر سمجھتے ہیں مگر مذہب کی نسبت ان کی طرف نہیں کرتے۔

اور شیعوں کے حالات و واقعات کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی براہ راست ائمہ کی اتباع نہیں کرتے یہ بھی ان واسطوں کی پیروی کرتے ہیں ۔جو خود کو ائمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔اور انہی سے علم حاصل کرنے کا دعوی کرتے ہیں ۔ہاں اتنا فرق ضرور ہے متبوعین اہل سنت اصل عقائد میں ائمہ کی ہرگز مخالفت نہیں کرتے ان کے متعلق ائمہ کی بشارتیں اور خوشنودی مزاج کی سندیں موجود ہیں۔

بخلاف متبوعین شیعہ کے۔مثلا ہشامین، احول طاق ابن اعین اور ان کے مثل کہ انہوں نے بنیادی عقائد میں ائمہ کے خلاف کیا ہے۔ اور اللہ تعالی کی جسمیت اور اس کے اعضا ہونے کے قائل ہوئے ائمہ کرام نے ان سے بیزاری کا اظہار فرمایا اور ان کے عقائد باطل ہونے پر شہادت دی ان کو دروغ گو اور افترا پرواز بتایا چنانچہ یہ سب مباحث کتاب ہذا کے باب سوم وچارم میں شیعوں کی معتبر کتابوں کے حوالوں کے ساتھ ان شاءاللہ بیان کیے جائیں گے۔

درحقیقت امام کا منصب یہ ہے کہ عالم کی اصلاح کرے رفع شر اور دفع فساد کرے جس فن میں کمی دیکھے اس کی تکمیل کرے اور جو معاملہ ٹھیک چل رہا ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دے تاکہ تحصیل حاصل نہ لازم آئے۔ پس ائمہ نے اپنے منصب سے زیادہ مناسب اور اہم طریق سلوک و طریقت کو خیال کر کے اپنی پوری توجہ ادھر ہی مبزول رکھی اور امور شرعیہ کو اپنے بزرگ دوستوں برگزیدہ مصاحبوں اور لائق ترین شاگردوں کے سپرد کیا اور خود انہوں نے عبادت، ریاضت، تربیت باطن تعیین اذکار اور نمازوں اور دعاؤں کی تعلیم تہذیب اخلاق طالبین سلوک کو اس کے فوائد سے اگاہ و مطلع کرتا ہے اور کلام اللہ و کلام رسول سے حقائق و معارف اخذ کر کے ارشاد فرمانا اپنا خاص مشغلہ بنایا ان مشاغل مبارکہ کے لیے خلوت و گوشہ نشینی لازم ہے اس لیے یہ بزرگ حضرت استنباط احکام و اجتہاد مسائل کی طرف توجہ مبزول نہ رکھ سکے۔

یہی سبب ہے کہ علم طریقت کے دقائق نکات اسرار اور بعید زیادہ تر انہی بزرگوں سے منقول ہیں اور اہل سنت اسی وجہ سے ولائت کے تمام سلاسل انہی بلند ہستیوں پر ختم کرتے ہیں۔ حدیث ثقلین بھی ان کی اسی حیثیت کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ ظاہر شریعت کی تعلیم کے لیے کتاب اللہ کافی ہے اور علم لغت و اصول جو وضع اور عقل سے تعلق رکھتے ہیں فہم شریعت میں مدد پہنچانے کے لیے بہت ہیں ان میں امام کی کیا حاجت ؟

البتہ امام کی ضرورت سلوک و طریقت کے ان وقائق میں محسوس ہوتی ہے جو بظاہر کتاب اللہ سے سمجھے نہیں جاتے اور ائمہ نے بھی یہی راز معلوم کر کے اپنی توجہ اسی ضروری امر کی طرف مبزول رکھی اور شریعت کا صرف اجمال بیان فرمایا۔ علم و عقل کو مجتہدین پر چھوڑا۔ چنانچہ شیعہ و سنی دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی امام نے تصنیف و تالیف کا کام نہیں کیا نہ اصول نکالے نہ اصولوں سے فروغ نہ کوئی کتاب لکھی نہ کوئی فن مرتب کیا کہ اس پر کفایت کی جاتی بلکہ مسائل و احکام کی روایات ائمہ کے دوستوں اور شاگردوں میں مشہور و مصروف ہوئیں اور مسائل جزئیہ میں قواعد استنباط معرض خفا میں رہے تو لامحالہ اب ایسے شخص کی ضرورت ہوئی جو ان تمام روایات کو جمع کرے قواعد کی چھان بین کرکے ان کو علیحدہ کرے اور اس طرح کا اصول اجتہاد کی بنیاد ڈالے،

اس بحث سے معلوم ہوا کہ جس طرح مذہب کی نسبت کسی خاص امام کی طرف نہیں کی جا سکتی اسی طرح امام کا اتباع بھی بلاواسطہ مجتہد کسی کو نصیب نہیں ہو سکتا۔

گویا پیغمبر ﷺ کی شریعت کا مقلد کے لیے اتباع مجتہد کو واسطہ بنائے بغیر نہیں ہو سکتا۔

اور شیعہ حضرات پر چند ائمہ کے اتباع کا دعوی کرتے ہیں لیکن ان مسائل میں کہ ائمہ سے ان کے بارے میں کوئی صراحت نہیں ملتی اپنے علمائے مجتہدین ہی کی طرف جھکتے ہیں مثلا ابن عقیل عضائری، سید مرتضی اور شیخ شہید اور پھر ان کے افعال فتاویٰ صادر کرتے ہیں جو ائمہ کے روایان کی صحیح روایات سے ٹکراتے ہیں ۔اسی قسم کے مسائل میں سے کچھ تھوڑے سے مسائل بطور نمونہ باب فروع میں ان شاء اللہ حوالہ قلم ہوں گے۔

تو اب اگر خود شیعوں کے نزدیک ایسے مجتہد کی بھی تقلید جائز ہے جس کے اقوال ائمہ کی بعض روایات کے مخالف ہوں اور یہ تقلید مجتہد ائمہ کی اتباع سے مانع نہیں تو اہل سنت کے اتباع امام ابو حنیفہ وشافعی وغیرہ کیوں قابل اعتراض سمجھی جائے۔

یہ ضرور ہے کہ ان مجتہدین کے بعد اقوال ائمہ کی بعض روایات کے مخالف ہیں مگر یہ مخالفت نہ نقصان دہ ہے اور نہ ائمہ کی اتباع اس سے متاثر ہوتی ہے کیونکہ اصول و قواعد میں یہ مجتہدین ائمہ کے ساتھ متفق ہیں۔

جیسا کہ امام محمد بن حسن شیبانی اور قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہما دونوں امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کے شاگرد ہوئے بعض مسائل میں ان کے خلاف گئے ہیں ۔اور تمام مذاہب میں ایسا ہوا ہے کہ امام مجتہد کی رائے ان کے شاگردوں نے اختلاف کیا ہے۔

اور ابن الاثیر جزری مصنف جامع الاصول نے امام علی بن موسیٰ الرضا کو جو امامیہ مذہب کا مجدد صدی سوم کا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امامیہ اپنے موجودہ مذہب کا سلسلہ سند ان تک پہنچاتے ہیں اور اس طرح اس مذہب کی ابتداء ان ہی سے جانتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تابعین میں حضرت علقمہ رحمہ اللہ علیہ اور صحابہ میں عبداللہ بن مسعودؓ مذہب حنفی کے بانی مبانی تھے ۔یا نافع وزہری رحمہ اللہ تابعین میں اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ صحابہ میں مذہب مالکیہ کے بانی مبانی ہیں۔

پھر یہ بات بھی ہے کہ ابن الا ثیر نے جو کچھ لکھا ہے وہ امامیہ کے گمان اور عقیدہ کے مطابق لکھا ہے نہ کہ فی الواقعہ ایسا ہے ۔چنانچہ ہر مذہب کے مجددوں کو اس نے اہل مذہب ہی کے اعتقاد کے مطابق نامزد کیا ہے۔