دھوکہ نمبر 86
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 86
اہل سنت کی کتابوں سے جھانٹ چھانٹ کر ایسی روایات نقل کرتے ہیں جن سے صحابہ کرام علیہم کی شان ارفع و اعلی میں بدگمانی کا وہم پیدا کریں اور ان روایات کو اپنے اس دعوے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں کہ وہ خلافت کے مستحق نہ تھے۔
وہ اپنے خیال میں اس مکر و کید کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور تمام کیدوں کا سرتاج سمجھتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ان کی ان چالوں اور دھوکوں نے بہت سوں کو راہ ہدایت سے بھٹکا دیا۔
ان تمام اخباروں اور روایات کی تفصیلی بحث تو باب مطاعن میں ان شاءاللہ آئے گی وہاں معلوم ہوگا کہ ان روایات سے نہ ان کی مطلب بر آری ہوتی ہے اور نہ ان کی غرض پوری ہوتی ہے البتہ یہاں مقام کی مناسبت سے ان کے اس دھوکہ کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت کو الزام دینا ہی ہے تو انصاف سے تو کام لو اور اس کی صورت یہ ہے کہ اہل سنت کی تمام صحیح روایات کا اعتبار کرو جو مناقب و بدائح خلفاء و صحابہ کرام میں اہل سنت کے نزدیک بطریق تواتر منقول ہے اور پھر دونوں قسم کی روایات کو پیش نظر رکھ کر دیکھو ان میں باہم تعارض ہو تو علم اصول میں تعارض دور کرنے کی جو وجوہ مقرر کی گئیں ان کے مطابق تعارض دور کرنے کی کوشش کرو یعنی اکثر کو اقل پر اظہر کو اخفی پر اور راوی کو جو عمل و اعتقاد کے موافق ہو اس کے خلاف پر قابل ترجیح جانیں۔
اب اس جمع کرنے، چھان بین کرنے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے اور ان میں حق و ثواب معلوم کرنے کے بعد جو نتیجہ نکلے گا وہ عین اہل سنت کا مذہب ہوگا۔
یہ حرکت خلاف انصاف ہوگی کہ الزام دینے والی روایات کو یا گھڑی ہوئی اور ضعیف کو عام روایات کے خلاف صرف احاد و تنہا کی روایات کو جو تاویل شدہ اور صحیح معنوں پر محمول ہوں نظر اعتبار سے گرا دینا اور ان روایات سے چشم پوشی کرنا جو متواتر اور قطعی الثبوت ہوں جیسا کہ اس فرقہ کا معمول ہے۔
ان کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جو قران مجید سے ایسے جملوں کو جانتا ہے جو انبیاء علیہ السلام کی لغزش کا ثبوت دیتے ہیں جیسے وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰىۖ یا حضرت نوح علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے بارے میں سوال کرنا یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ستاروں کو اپنا پروردگار کا کہنا اور بتوں کو توڑنے کے جھوٹی نسبت بڑے بت کی طرف کرنا اور خود کو جھوٹ موٹ کا بیمار ظاہر کرنا اور حضرت موسی علیہ السلام کا قبطی کو قتل کر دینا اور اپنے بڑے بھائی ہارون علیہ السلام کی داڑھی پکڑ کر بلا تحقیق و تامل کے کھینچنا اور حضرت داؤد علیہ السلام کا اوریا کی بیوی کے معاملہ میں گناہ یا اور اسی قسم کی باتیں ! اور پھر اس کے بعد یہ کہتا ہے کہ چونکہ قران مجید ان انبیاء کی برائیاں قطعیت اور تواتر سے ثابت ہیں اس لیے یہ نبوت کے مستحق نہ تھے بلکہ ان کو نیک جاننا فرمان خداوندی کی خلاف ورزی ہے اور یہ بدتمیز اور عقل سے پیدل شخص اتنا نہیں سمجھتا اور اگر سمجھتا بھی ہے تو بدبختی کا پردہ اس کی عقل پر ایسا پڑا ہوا ہے کہ وہ ان قطعی اور متواتر نصوص قرآنی کو دیکھنے سے عاجز ہے جو جا بجا قران مجید میں آئی ہیں جو ان محترم حضرات کی تعریف اور ان کے حال اور نتیجے کی خیر و خوبی سے بھری ہوئی ہے۔
اگر کسی قصے یا حکم میں دوسروں کی عبرت کے لیے یا ان بزرگوں کی تادیب و ارشاد کے لیے کوئی عتاب آمیز جملہ وارد ہوا ہے تو یہ ان کثیر قطعی الثبوت نصوص کو باطل نہیں کر سکتا لامحالہ اس عتاب آمیز کلام کو کسی ایسے معنی پر محمول کریں گے جو ان کی ارفع و اعلیٰ شان پر کوئی حرف نہ آنے دے جو قطعی طور پر ثابت ہے۔
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اگر کوئی چاہے کہ وہ متشابہ آیات جو اللّٰہ تعالیٰ کی ذات میں جسمیت یا لوازم جسمیت ثابت کرتی ہیں اور جن میں چہرے سے لے کر پنڈلی تک کے اعضاء و اجزاء جسمانی کا اللّٰہ تعالیٰ کے لیے ظاہر ہونا سمجھا جاتا ہے ان آیات کو لے کر اللہ تعالی کے حق میں نقص کا تصور لے کر یہ کہے کہ جو ذات ان عیوب سے متصف ہو خدا بننے کے لائق نہیں تو اس قسم کے شبہات اور ہضوات کا ایک ہی جواب ہے کہ حَفَظۡتَ شَيۡئًا وَغَابَتۡ عَنۡكَ أَشۡيَاءٌ ( ایک چیز کو بچانے کے لیے تو نے ساری چیزیں کھو دی۔)
اور شیعوں کا یہ شعبہ اس ملحد کے شبہ سے ملتا جلتا ہے جو نماز کے انکار میں آیت لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوةَ پیش کرتا ہے اور جب اسے کہا جاتا ہے کہ اسی ایت کو سیاق و سباق کے ساتھ یا دوسری آیت دیکھ تو کہتا ہے کہ بابا سارے قرآن پر عمل کس نے کیا ایک دو کلموں پر ہی عمل ہو جائے تو غنیمت ہے۔