Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 87

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 87

ان کے دو علماء جن کو اپنی تاریخ دانی پر بڑا عزہ ہوتا ہے بناوٹی اور جھوٹی حکانیوں کو جنہیں تاریخ کذب صریح کہہ کر ردی میں ڈال دیتی ہے اپنی بڑی معتبر کتابوں میں دھڑلے سے جگہ دیتے ہیں اور کذب و بہتان کی اسی پوٹ سے اپنے اعتقادی مسائل ثابت کرتے ہیں۔

ان حکایات میں بلند درجہ وہ جھوٹی حکایت ہے جو ان کی سیرت نگاروں اور اخبار نویسوں نے گھڑی ہے اور ان کے علماء نے انہیں اخبار نویسوں پر اعتماد کر کے اور حسن ظن سے کام لے کر ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اور اس کی تصدیق کی ہے۔

اسی حکایت سے وہ انبیاء الو العزم علیہم السلام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت ثابت کرتے ہیں جو اس مسائل نبوت میں ہیں اور تینوں مذاہب یہودیت نصرانیت اور اسلام کے خلاف ہیں۔

وہ روایت حلیمہ بنت ابی ذویب عبداللہ بن حراث سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہما کی ہیں جو آنحضرت ﷺ کی دودھ پلانے والی تھیں۔

یہ ایک وفد کے ہمراہ عراق میں حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس پہنچیں تو حجاج نے ان سے کہا حلیمہ اچھا ہوا تم خود ہی آگئیں میں تم کو پکڑ بلوانے والا تھا تاکہ تم سے انتقام لوں وہ بولیں آخر اس خفگی کی وجہ کیا ہے وہ بولا میں نے سنا ہے کہ تو علی کو ابوبکر عمر رضی اللہ عنہم پر فضیلت دیتی ہے یہ سن کر حلیمہ نے سر جھکا لیا اور بڑی دیر بعد سر اٹھا کر کہا سن اے حجاج میں اپنے امام کو خدا کی قسم نہ صرف ابوبکر و عمر ( رضی اللہ عنہم ) پر ترجیح دیتی ہوں کہ ان دونوں کی کیا حیثیت ہے کہ آں جناب کے ساتھ ایک ترازو میں تل سکیں میں تو آپ کو آدم نوح ابراہیم سلیمان موسی اور عیسیٰ علیہم السلام پر فضیلت دیتی ہوں۔

یہ سن کر حجاج اپ گولا ہو گیا اور کہنے لگا کہ میں تو اسی بات پر ناراض تھا کہ تو اس شخص (رضی اللہ عنہ) کو حضور ﷺ کہ دو صحابیوں رضی اللہ عنہما پر ترجیح دیتی ہے اور اب تو نے میرے منہ پر تمام الو العزم پیغمبروں پر ترجیح دے کر اپنے جرم کو اور بھی سنگین اور میرے غصے کو اور بھی بھڑکا دیا ہے اگر تو اپنے اس دعوے سے دستبردار نہ ہوئی تو میں تیرے ٹکڑے کر ڈالوں گا اور تمہیں تماشہ عبرت بنا دوں گا، حلیمہ بولیں آخر تیرا مقصد کیا ہے اگر مجھ پر ظلم ہی توڑنا چاہتا ہے اور نہ حق میرے خون سے ہاتھ رنگنا چاہتا ہے تو یہ سر ہے اور یہ پشت اور اگر مجھ سے اس دعوے کی دلیل سننا چاہتا ہے تو میری بات توجہ سے سن، حجاج کہنے لگا ہاں بتا کس دلیل سے تو آدم علیہ السلام پر علی رضی اللہ عنہ کو فضیلت دیتی ہے حالانکہ آدم کے خمیر کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے گوندھا، چالیس دن ان پر رحمت نازل کی پھر ان کے جسم میں اپنی ناس روح پھونکی، ان کو اپنی جنت میں رکھا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کو سجدہ کرو۔

حلیمہ نے کہا اس دلیل سے کہ آدم کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى‌ۖ (کہ آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہکا) اور سوۃ خسل الخ میں طاعت و بندگی سے علی رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمائی اور اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ میں بھی نماز و زکوٰۃ کے حوالے کے ساتھ ان کی مدح سرائی کی پھر عہد آدم علیہ السلام سے اب تک کوئی ایسا نہیں گزرا جس نے عین نماز میں فقیر کو بطورِ صدقہ انگھوٹھی دی ہو (بجز علی رضی اللہ عنہ کے) حجاج بولا تو نے سچ کہا اچھا اب یہ بتا کہ تو نے نوح (علیہ السلام) پر ان کو کس وجہ سے فضیلت دی ؟ حلیمہ نے کہا یہ اس لئے کہ علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نساء عالمین کی سیدہ تھیں جن کا نکاح سدرۃ المنتہٰی کے نیچے جبریل علیہ السلام کی سفارت اور ملائکہ کی شہادت و گواہی سے منعقد ہوا بخلاف زوجہ نوح علیہ السلام کے وہ کافرہ و منافقہ تھیں چنانچہ نص قرآن میں اس کا صاف ذکر ہے حجاج حلیمہ کی اس حاضر جوابی سے بہت متاثر و حیران ہوا اور حلیمہ کی بہت تعریف و ستائش کی۔

اس کے بعد پوچھا کہ اب یہ بتا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر علی (رضی اللہ عنہ) کو کس دلیل سے ترجیح دیتی ہو، وہ بولی کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللّٰہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کی رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ‌ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَئِنَّ قَلۡبِىۡ‌ؕ (میرے رب مجھے دکھا دے کہ آپ مردے کس طرح زندہ کریں گے، اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا ایمان نہیں لایا، کہا کیوں نہیں لیکن صرف اس لئے کہ میرا دل اطمینان حاصل کرلے) بخلاف اس کے علی رضی اللہ عنہ نے بر سر سبز فرمایا لَوۡ كَشَفَ الغِطَاعُ مَا ازۡدَدۡتُ يَقِيۡنًا اگر حجاب کا پردہ اٹھ بھی جائے تو میرے یقین میں اضافہ نہ ہوگا، پھر حلیمہ نے کہا ایک روز حضور ﷺ تشریف فرما تھے اور مؤمنین و منافقین کی جماعتوں نے چاروں طرف سے آپ کے گرد حلقہ کیا ہوا تھا، تب میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا اے جماعت مؤمنین معراج کی رات میرے لئے ایک منبر رکھا گیا جس پر میں بیٹھا پھر میرے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے اور اسی منبر پر مجھ سے ایک درجہ نیچے بیٹھ گئے دوسرے پیغمبران کرام بھی جوق در جوق آئے اور مجھے سلام کرنے لگے تاآنکہ میرے چچا زاد بھائی علی رضی اللہ عنہ کو جنت کی اونٹنی پر سوار کرکے لایا گیا، ان کے ہاتھ میں لوائے حمد اور ان کے چاروں طرف ایسی مخلوق تھی جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہے تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا یہ جوان کونسا پیغمبر ہے؟ میں نے کہا یہ پیغمبر نہیں بلکہ میرے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب ہیں، پھر پوچھا ان کے اردگرد کون لوگ ہیں؛ میں نے جواب دیا ان کے شیعہ اور محبین ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی اے اللہ مجھے بھی علی کے شیعوں میں سے کر ، چنانچہ سورۃ صافات کی اس آیت کے یہی معنی ہیں۔

وَاِنَّ مِنۡ شِيۡعَتِهٖ لَاِبۡرٰهِيۡمَ‌ۘ اِذۡ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلۡبٍ سَلِيۡمٍ(البتہ ابراہیم بھی ان کے شیعہ میں سے ہیں جب کہ آیا وہ اپنے رب کے پاس قلب سلیم کے پاس آیا۔)

حجاج نے کہا تو نے ٹھیک کہا، اب یہ بتا کہ سلیمان (علیہ السلام) پر علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی کیا وجہ ہے حلیمہ (رضی اللہ عنہا) نے کہا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے بادشاہ اور دنیاوی جاہ و عزت کے لئے ان الفاظ میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی۔

رَبِّ اغۡفِرۡلِىۡ وَهَبۡ لِىۡ مُلۡكًا لَّا يَنۡۢبَغِىۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِىۡ‌ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ( اے اللہ مجھے اس شان کا مالک فرما جو میرے بعد کسی کے لئے سزاوار نہ ہو بے شک عطا کرنے والا قوی ہے) بخلاف اس کے جناب علی (رضی اللہ عنہ) نے دنیا کو تین طلاقیں دیں اور کہا کہ اِلَيۡكَ عَنِّي يَا دُنۡيَا طَلَّتۡتُكِ ثَلَاثًا لَا رَجۡعَةَ بَعۡدَهَا حَبۡلِكِ عَلىٰ غَارِبِكِ غُرِّىۡ غَيۡرِى لَا حَاجَتَه لِيۡ فِيۡكِ (اے دنیا مجھ سے پرے ہٹ میں نے تجھ کو تین طلاقیں دی جس میں رجوع بھی نہیں ہوسکتا تو جان ترا کام جانے کسی اور کو جا کر بہکا مجھے تجھ سے کوئی سروکار نہیں) حجاج نے کہا یہ بھی تو نے ٹھیک کہا اب یہ بتا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کس دلیل سے علی (رضی اللہ عنہ) کو فضیلت ہے حلیمہ نے کہا کہ جب موسیٰ علیہ السلام مدین بھاگے تو ہراساں اور ڈرے ہوئے تھے بفرمان اللّٰہ تعالیٰ فَخَرَجَ مِنۡهَا خَآئِفًا يَّتَرَقَّبُ‌(پس وہ مصر سے ڈرے سہمے نکلے) اور ادھر حضور ﷺ کی ہجرت کی رات جناب علی (رضی اللہ عنہ) آپ کے بستر پر آرام کی نیند سو رہے تھے اگر ان پر خوف و ہراس ہوتا تو نیند حرام ہوجاتی، حجاج نے کہا یہ بھی تو نے ٹھیک کہا، اب عیسیٰ علیہ السلام پر وجہ فضیلت بتا بولی اس کی دلیل یہ ہے کہ مقام حساب میں جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو کھڑا کیا جائے گا اور ان سے بازپرس ہوگی کہ کیا نصاریٰ نے تمہارے کہنے سے تمہاری عبادت کی اور تم نے ان کو آمادہ کیا تو وہ معذرت چاہنے اور توبہ کرنے پر مجبور ہوں گے چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِىۡ وَاُمِّىَ اِلٰهَيۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ‌ؕ( کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو خدا بنالو) بر خلاف اس کے کہ سبائیہ نے جب امیر المؤمنین کو خدا کہا تو آپ بہت برا فروختہ ہوئے اور ان کو جلا وطن کردیا اور ایسی سزا دی کہ مشرق سے مغرب تک اس کا شہرہ ہوگیا اور امیر المؤمنین بری الذمہ ہوگئے، حجاج بولا تو نے سچ کہا، پھر ایک ہزار دینار اظہار خوشنودی کی خاطر ان کو دئیے اور مستقل سالانہ وظیفہ بھی مقرر کیا۔

اس کے بعد حلیمہ نے حجاج سے کہا کہ ایک دوسرا نکتہ بھی سن کہ جب مریم بنت عمران (علیہا السلام) کو دردزہ ہوا تو وہ بیت المقدس میں تھیں ان کو حکم ہوا کہ فوراً جنگل میں جاؤ اور وہاں کسی خشک کھجور کے درخت کے نیچے حمل زچگی پورا کرو تاکہ تمہارے نفاس کی گندگی سے بیت المقدس آلودہ نہ ہو حالانکہ علی رضی اللہ عنہ کہ والدہ کو بنت اسد تھیں کو دردزہ لاحق ہوا تو ان کو وحی الہٰی آئی کہ کعبے میں جا اور میرے گھر کو اس مبارک بچے کی پیدائش سے مشرف کر اب ذرا انصاف کرو ان میں سے کونسا بچہ افضل ہے حجاج نے دعائے خیر کی اور عزت و احترام کے ساتھ ان کو رخصت کیا۔

آپ یقین کریں کہ پوری کہانی جھوٹوں کے سرداروں کی من گھڑت، بناوٹی افتراء اور جھوٹ کی پوٹ ہے اور اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ نے باتفاق مؤرخین خلفائے راشدین تک کا زمانہ نہیں پایا تو حجاج تک پہنچنے کا تو امکان ہی نہیں اگر وہ حجاج کے زمانے تک زندہ ہوتیں تو ان کی عمر ایک سو چالیس سال ہونی چاہئیے بلکہ مؤرخین کا اس میں ہی اختلاف ہے کہ حلیمہ رضی اللّٰہ عنہا نے حضور ﷺ کا زمانہ بعثت بھی پایا یا نہیں، اور وہ ایمان بھی لائی تھیں یا نہیں۔

اس کے علاوہ حجاج شرفاء سادات اور خاندان اہل بیت کے وابستگان کے قتل اور خونریزی میں خصوصی طور پر شہرہ آفاق تھا، اور نواسب کا ایک بدترین فرد تھا، امیر المؤمنین اور آپ کی اولاد سے اس کی دشمنی تو زبان زد خلق تھی چنانچہ اہل بیت کی ایک جماعت کو اسی وجہ سے اس نے شہید کیا پھر کسی کو اس کی مجال و تاب کب تھی کہ اس کی مجلس میں بن بلائے گھس جائے۔

اس کے مصاحبوں اور خدام میں سے بھی اگر کوئی اس کے سامنے جاتا تو جان و آبرو بچانے کی فکر میں لرزاں و ترساں رہتا، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ خام خاص رسول اللہ ﷺ اور دیگر صحابہ کرام تک کی توہین و تذلیل سے باز نہ آیا ۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دوسرے بزرگانِ زمانہ کو مار ڈالنے کے کیا کیا جتن نہ کئے اور کہاں کہاں ان کی تلاش نہ کرائی ان حالات میں یہ ممکن ہی کب تھا کہ حلیمہ ان کے پاس آتیں اور دھڑلے سے گفتگو کر پاتیں ۔

اور پھر یہ راز بھی نہیں کھلتا کہ حلیمہ اس کے پاس آئی کیوں تھیں، حجاج نہ تو سخیوں میں سے تھا، نہ اس کے ہاں بخشش و داد و دہش کا سلسلہ تھا کہ کچھ ملنے یا پالینے کی امید میں اپنی قوم بنی سعد کی فرودگاہ سے جو حجاز میں طائف کے حوالی میں تھی، عراق کے دور دراز مقام میں چلی آتیں ۔

اور یہ بات تو تصور میں میں بھی نہیں آسکتی کہ اہل بیت کا اتنا کڑا دشمن یہ ساری باتیں سن کر بھی حلیمہ کو ایک ہزار دینار ہی نہیں دیگا بلکہ اس کا مستقل وظیفہ بھی مقرر کر دے گا یہ بات تو اس کے عقیدہ اور سرشت کے سراسر خلاف تھی اور پھر سارے ہی مؤرخ خواہ سنی ہوں یا شیعہ اس پر متفق ہیں کہ حجاج مرتے دم تک اپنے عقیدہ پر قائم تھا، تائب ہونا تو دور کی بات ہے اس نے اپنے عقیدہ میں نرمی یا کمزوری تک کو داخل نہ ہونے دیا اور یہ بات بھی سب متفق ہوکر کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری گھڑی تک امیر المؤمنین رضی اللّٰہ عنہ اور آپ کی ذریت کے ساتھ دشمنی رکھنے اور سادات کشی پر تلا ہوا تھا ۔

اب آئیے ذرا حلیمہ مائی کے دلائل پر ایک تنقیدی نظر بھی ڈال لیں جن کو شیعہ نے بڑے طمراق اور بڑی چمک دمک سے بیان کیا ہے۔

حالانکہ وہ سب چند و رچند وجوہ سے جس پر بڑی طویل گفتگو درکار ہوگی بے حقیقت اور بے معنیٰ ہی نہیں حد درجہ لچر بھی ہیں یہاں ہم اطناب اور طول سے گریز کرکے صرف بارہ وجوہ ہی سپرد قلم کرتے ہیں ۔

(¹) یہ سارے دلائل اہل اسلام کے عقائد کے خلاف ہیں بلکہ یہود و نصارٰی کے بھی کیونکہ کوئی ولی کسی نبی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا ۔

(²) یہ سب باتیں قرآنی نصوص کے بھی خلاف ہیں کیونکہ قرآن میں جا بجا انبیاء کو تمام مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کو ساری مخلوقات میں سے چنا اور منتخب کیا گیا ہے ۔

(³) ان استدلالات میں انبیاء کرام علیہم السلام کی لغزشوں کو شمار کیا گیا اور پھر ان کا مقابلہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ے مناقب و مدائح سے کیا گیا ہے اور انبیاء کے مناقب و مدائح سے آنکھیں بند کر لیں ہیں اگر دونوں کے مناقب اور مجدد شرف کو برابر رکھ کر کچھ کہا جاتا تو ادھر توجہ کا شائبہ جواز نکل آتا ورنہ یہ طریقہ احتجاج تو ہر جگہ چل سکتا ہے، اس کی بناء پر تو کوئی شورہ پشت اور بدبخت یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ حضور ﷺ سے سورۃ عبس میں اسیرانِ بدر سے فدیہ کے معاملے میں ان شاء اللّٰہ چھوڑ دینے پر، منافق کی نماز جنازہ پڑھنے پر، غزوہ تبوک میں منافقین کو عدم شرکت کی اجازت دینے، یا طعیمہ اور اس کے بھائیوں کو جانبداری پر اللّٰہ تعالیٰ نے بانداز عتاب خطاب فرمایا۔

اور دوسری طرف و صرف امیر المؤمنین بلکہ ابوذر، عمار، سلمان اور مقداد (رضی اللّٰہ عنہم) کی فلاں فلاں آیات میں ستائش فرمائی اور اس سے العیاذ باللّٰہ وہ یہ نتیجہ نکالے کہ یہ حضرات حضور ﷺ سے افضل ہوئے۔

(⁴) حضرت آدم علیہ السلام کی جو تمام انسانوں کے باپ اور پوری نوع انسانی کے اصل اصول ہیں ان کی اولاد میں جو نیکی اور خوبی وقوع پذیر ہوتی ہے باپ ہونے کے ناطے ان کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے کیونکہ یہ امر مذہباً طے شدہ ہے کہ والدین اگر مومن ہیں تو ان کی اولاد کے اچھے اعمال ان کے نامہ اعمال میں ثبت کئے جائیں گے لہٰذا حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی بزرگی ان کے حق میں ھل اتیٰ کا نزول اور عین نماز میں فقیر کو انگھوٹھی کا صدقہ، حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت و بزرگی کے مقابلہ میں ذرہ حقیر سے زائد نہیں کیونکہ تمام انبیاء و اولیاء، علماء و صلحاء، ائمہ و اوصیاء اور خود امیر المؤمنین کے جتنے بھی اعمال خیر ہیں وہ حضرت آدم علیہ السلام کے اعمال نامہ میں درج اور آپ کی ذات پاک میں جاگزیں ہوں گے کہ بندگی و طاعت، توبہ شرمندگی کی سنت آپ ہی سے تو جاری ہوئی اور اس بارے میں رسول اللّٰہ ﷺ کا ارشادِ صریح ہے مَنۡ سَنَّ فِى الاِسۡلَامِ سُنَّةً فَلَهٗ اَجۡرَهَا وَاَجۡرُ مَنۡ عَمِلَ بِهَا إِلىٰ يَوۡمِ القِيَامَةِ (اسلام میں جس نے نیک رسم ڈالی اس کو اجراء سنت کے اجر کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملتا رہے گا)۔

(⁵) بیان فضیلت کے سلسلے میں حضرت نوح علیہ السلام اور علی رضی اللّٰہ عنہ کی بیویوں میں موازنہ بھی عجیب اور انوکھا طرزِ استدلال ہے (جو کسی بڑے دماغ والے شیعہ ہی کے لئے طرہ امتیاز ہو تو ہو کسی مسلمان کو تو اپیل نہیں کرتا۔ ن)

کیونکہ کسی کی بیوی کا کسی دوسرے کی بیوی سے افضل ہونا اس کے شوہر کی افضلیت ثابت نہیں کرتا اس منطق کی رو سے ماننا پڑے گا کہ فرعون پیغمبروں سے افضل تھا کیونکہ زوجہ فرعون بالاجماع حضرت نوح و حضرت لوط علیہم السلام کی بیویوں سے افضل تھیں، اور بقول شیعہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی زوجہ محترمہ ازواجِ رسول اللّٰہ سے افضل تھیں تو اب آپ دیکھ لیجئے کہ اس استدلال کی روشنی میں کون شوہر کا سے افضل ہوا۔؟ (یہی تو مکر و فریب کے وہ جال ہیں جن سے شیعہ اہل ایمان کا شکار کھیلتے ہیں! ن)

(⁶) حدیث " لو کشف الخطاء" محض گھڑی ہوئی ہے کیونکہ شیعوں اور سنیوں دونوں کی کتابوں میں مذکور سند کے ساتھ یہ حدیث نہیں ہے۔

اور اگر اس کو مان بھی لیا جائے تو اس سے افضلیت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ علی رضی اللّٰہ عنہ نے یقین کی زیادتی کا انکار کیا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اطمینان کی طلب کی ہے اور اطمینان کوئی اور شے ہے اور یقین کچھ اور لہٰذا اطمینان حاصل ہونے کے بعد یقین میں زیادتی لازم نہیں آتی بلکہ اطمینان تو عیاں سے مشابہ ایک حالت کا نام ہے اور یہ طے شدہ قاعدہ ہے کہ زیادہ ہونے والی چیز اس چیز کی جنس سے ہونی چاہئیے جس پر زیادتی کی گئی ہے ۔

(⁷) معراج کی رات میں جس طرح حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا حاضر ہونا بیان کیا گیا ہے یہ پایۂ نبوت کو نہیں پہنچا بلکہ اس میں اختلاف ہے چنانچہ ابنِ بابویہ قمی نے کتاب المعراج میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں یوں بیان کیا ہے کہ آسمان پر فرشتوں نے حضور ﷺ سے یوں کہا إِذَا رَجَعتَ إِلىَ الأَرضِ فَاتُوَاء عَلِيًّا مِّنَّا اَلسَّلَامَ ( جب آپ زمین پر تشریف لے جائیں تو علی سے ہمارا سلام کہئے ) پھر اسی کتاب میں ابنِ بابویہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ معراج کی رات حضرت علی حضور ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے بلکہ زمین پر تھے البتہ حجاب کا پردہ نظر کے سامنے سے اٹھ گیا تھا جو کچھ حضور ﷺ عالم ملکوت میں مشاہدہ فرما رہے تھے اس کو حضرت علی یہیں زمین سے دیکھ رہے تھے ۔

اور صاحبِ نوادر الاصول نے عمار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہ سے اور قطب راوندی نے بریدہ رضی اللّٰہ عنہا سے بایں الفاظ مرفوع روایت نقل کی ہے إِنَّ عَلِيًّا كَانَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ لَيۡلَةَ الاَسۡرَىٰ وَاِنَّهٗ رَاىٰ كُلَّمَا رَاىَ النَّبِيُّ ﷺ (معراج کی رات جناب علی رضی اللّٰہ عنہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے جو کچھ نبی ﷺ دیکھتے وہی آپ بھی دیکھتے۔) 

شیروں کے نزدیک دونوں روایتیں صحیح ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی ضد اور باہم متناقص ہیں 

(⁸) جارد و عبدی کی گزشتہ حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ تمام انبیاء کی بعثت ولایت علی رضی اللّٰہ عنہ پر ہوئی بلکہ تشیع کے معنی ہی ولایت علی میں مضمر ہیں چنانچہ قاضی نور اللّٰہ شوشتری نے اس کی تصحیح کی ہے ایسی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب ابتدائے نبوت سے ہی علی کی ولایت حاصل تھی تو معراج کی رات کو اللّٰہ تعالیٰ سے درخواست کرنا تحصیل علم اور پہلے سے موجود چیز کی طلب ہے جو ایک مہمل اور بے معنیٰ عمل ہے۔

(⁹) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ڈر اور خوف اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے اطمینان کے متعلق جو اس روایت میں کہا گیا ہے وہ نرا مغالطہ ہے ۔

اس لئے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ جانتے تھے کہ میں نو عمر بچہ ہوں اور پیغمبر کا تابع مجھ سے ان کو کوئی سوال ہی نہیں تھا کہ اس کے بنا پر مجھے مار ڈالیں اس لئے ان کے ڈرنے کا کوئی سوال تھا ہی نہیں چنانچہ مشرکین مکہ نے انہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔

اس کے علاوہ خود حضور ﷺ نے ان کو تسلی دی تھی اور فرما دیا تھا کہ وہ تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے لہٰذا ان کے اطمینان کا سبب تو پیغمبر پر ایمان تھا، اسی نے ان کے دل کو مطمئن رکھا۔

اس کے علاوہ باہم جنگ و قتال کی ابھی نوبت نہیں آئی تھی اس کے علاوہ دوسری طرف محبت کے اسباب قرابت و رشتہ داری اور ابو طالب کی ریاست یہ سب چیزیں بدستور قائم اور برقرار تھیں اور اسی کے ساتھ یہ خوف بھی لگا ہوا تھا کہ اگر ان کو کوئی پہنچا تو حمزہ و عباس (رضی اللّٰہ عنہم) اور دوسرے چچا زاد بھائی اس کا بدلہ لینے کو تیار موجود ہیں۔

ادھر موسیٰ علیہ السلام کو ان باتوں میں سے کوئی بات حاصل نہ تھی بلکہ ان کو یہ گمان غالب تھا کہ یہ لوگ مجھے قبطی کے بدلہ قتل کر ڈالیں گے اور اسی سلسلہ میں رؤسائے قبط کے مشورے اور تدبیریں ایک معتبر ذریعہ سے ان کو بھی معلوم ہوگئی تھیں اور فرعون سے محفوظ رکھنے کا خدائی وعدہ بھی ابھی نہیں ہوا تھا اور جب یہ وعدہ الٰہی اِنَّنِىۡ مَعَكُمَاۤ اَسۡمَعُ وَاَرٰى(میں تم دونوں کے ساتھ ہوں اور سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہوں) اور اَنۡـتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الۡغٰلِبُوۡنَ‏ (تم دونوں اور تمہارے پیروکار ہی غالب رہیں گے) کے الفاظ میں ان تک پہنچا تو ان کی پوری تسلی ہوگئی اور پھر اس فرعون کے مقابلے کے لئے ڈٹ گئے جس کے دبدبہ اور فوج و لشکر کا حال معلوم ہی ہے کہ کفار قریش کی نسبت تو اس کے سامنے اتنی بھی نہیں جتنی ایک تنکے کی پہاڑ کے سامنے ہوتی ہے اور پھر اسی باسطوت و جبروت بادشاہ کی عین ناک کے نیچے اسی شہر میں چالیس سال تک رستے بستے رہے۔

بخلاف حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے جب (بقول شیعہ) حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے ان سے خلافت چھینی تو اس کمزور اور بزدل شخص کا خوف اور ڈر ان کے دل میں اس قدر بیٹھ گیا کہ امامت سے بھی دست بردار ہوگئے۔

حالانکہ ان کی امامت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر شدہ تھی اسی خوف اور تقیہ کی وجہ سے بہت سے فرائض اور واجبات کو چھوڑا اور قرآن کی تحریف اور احکام کی تبدیلی گوارا کی اور اس پر راضی رہے ۔

اسی طرح جب حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے عہد میں (بقول شیعہ) جب ان کی دختر کو چھینا تو انتہائی خوف اور ڈر کی وجہ سے اس ذلّت کو بھی قبول کر لیا۔

حالانکہ یہ سارا خوف و ہراس صرف نقصان پہنچنے کے اندیشۂ موہوم پر مبنی تھا، نہ جان جانے کے خطرے پر اس لئے کہ شیعوں کے نزدیک یہ امر تسلیم کردہ اور طے شدہ امور میں سے ہے کہ ہر امام کو اپنی موت کا وقت معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنے اختیار سے مرتا ہے۔

اور اہل سنت کے نزدیک بھی بطریق صحیح یہ ثابت ہے کہ جب ایک دفعہ قصبہ منبع میں حضرت علی بیمار ہوئے اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ عنہم عیادت کو آئے تو آپ سے کہا کہ یہ ابادی گنوار کسانوں کی ہے اس لئے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے چلیں اس لئے کہ خدا نخواستہ کوئی امر معین وقوع پذیر ہو جائے تو تجہیز و تکفین تو تسلی بخش طریقے سے ہوسکے، اس پر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے رسول کریم ﷺ نے میرے قتل کی حقیقت سے پورے طور پر آگاہ فرما دیا ہے جب تک وہ وقت نہ آجائے ایسی ویسی بات کا مجھے کوئی خطرہ نہیں اسی طرح متعدد بار آپ نے اپنی شہادت کے متعلق تفصیلات بتائیں بلکہ منقول قول تو یہاں تک ہے کہ آپ نے قاتل کی تعیین بھی فرما دی تھی تو ان معلومات کے ہوتے ہوئے (شیعوں کا بیان کردہ) خوف و ہراس کیوں تھا ؟

(¹⁰) حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئیے کہ وہ جاہ و حشمت دنیاوی کے طالب ہوئے ہوں اس لئے کہ یہ عقیدہ رکھنا تو ان کے دامنِ نبوت پر دھبہ لگانے کے برابر ہے اور صریحاً ان کی نبوت کے انکار کے مترادف ہے جسے غالباً شیعہ بھی گوارا نہ کریں گے اس لئے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس دعا و طلب میں وجاہت دنیاوی نہیں بلکہ کوئی صحیح غرض مدنظر ہوگی۔

اس سلسلے میں سید مرتضیٰ کی وہ کتاب قابلِ غور و توجہ ہے اور تنزیہ الانبیاء والائمہ کے سلسلہ میں شیعوں کے ہاں معتبر سمجھی جاتی ہے اس میں اس نے جو توجیہات بیان کی ہیں، وہ ذرا سمجھنے کی ہیں۔

(۱) ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس قسم کے ملک کا مطالبہ اس لئے کیا ہو کہ وہ آپ کی نبوت کی دلیل و معجزہ بن جائے کیونکہ معجزہ وہی ہوتا ہے جس پر کوئی دوسرا قادر نہ ہو جائے ۔

(۲) یا ملک کی طلب آپ نے صرف مخلوق خدا میں عدل و انصاف قائم کرنے اور رشد و ہدایت پھیلانے کی غرض سے کی ہو کیونکہ یہ مقصد شاہی اقتدار کے تحت آسان طریقے سے حاصل ہوسکتا ہے جوں جوں اقتدار بڑھتا ہے اس مقصد کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔

(۳) یا لِاَحَدٍ مِّنۡ بَعۡدِیۡ سے مراد صرف ان کی امت ہو گویا درخواست کا یہ مطلب ہوگا کہ اس بادشاہی امتیاز سے وہ بحیثیت نبی اپنی امت سے ممتاز ہو جائیں، اس توجیہہ میں صاف خلش ہے کیونکہ احادیث صحیحہ اور اس نص کے ظاہری الفاظ عموم پر دلالت کرتے ہیں پھر کوئی توجیہہ اس وقت صحیح ہوتی کہ وہ اسی صفت کہ بادشاہت طلب کرتے نہ اصل بادشاہت اس لئے کہ نبی کا امتیاز اپنی امت سے اور دوسری چیزوں سے بھی ہوسکتا ہے، بادشاہت ہی کیا ضروری ہے ۔

(۴) یا اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو باخبر کردیا ہوگا کہ اس طرح کا ملک ہو جانے کے بعد ہی ان کو دنیا میں صلاح و تقویٰ حاصل ہوگا، نیکیوں ، بھلائیوں اور طاعات کی کثرت نصیب ہوگی بخلاف اس کے کہ اگر یہی ملک کسی دوسرے کے ہاتھ آیا تو وہ بجائے اس کے کہ اس کے لئے صلاح و تقویٰ کا سبب بنے توجہ الی الحق اور طاعات و خیرات سے اس کے لئے مانع نہ ہو جائے ۔

ان توجیہات کے علاوہ اسی قسم کی اور باتیں بھی اس کتاب میں درج ہیں بہرحال ان سے حضرت سلیمان کی کمتری اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی برتری ثابت نہیں ہوتی اس لئے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے دنیا کو طلاق دینے کے بعد بھی خلافت کی نہ صرف خواہش کی بلکہ اس کے لئے جدو جہد بھی فرمائی تاآنکہ مسلمانوں میں باہم کشت و خون کی نو تک آئی ۔

اس طرزِ عمل سے گویا یہ واضح ہوگیا کہ بعض لوگوں کے لئے دنیا سے دست برداری طلب ملک کے مخالف نہیں کیونکہ طلب ملک سے ان کا مقصد حصول جاہ و مال نہیں بلکہ دشمنانِ خدا سے جہاد کرنا، کفار کی بیخ کنی، حکام شریعت کو رواج دینا، بیت المال کی نگہداشت اور حقداروں پر اس کی تقسیم بھی اس طلب کا مقصد ہوسکتا ہے لہٰذا حضرت سلیمان اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ دونوں اس امر میں تو باہم متفق ہیں کہ طلب ملک و خلافت کے وقت دونوں کے دلوں میں یہی نیک ارادے اور نیت صالح تھی اتنا فرق البتہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اللّٰہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ بلا امداد و اسباب ظاہری مخلوقات ان کے تابع فرمان اور زیر نگیں ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا فَسَخَّرۡنَا لَهُ الرِّیۡحَ(آپس میں ہوا کو ہم نے ان کے تابع کردیا)، وَالشَّیٰطِیۡنَ کُلَّ بَنَّاءٍ وَ غَوَّاصٍ ( شیاطین ان کے لئے تعمیر و غوطہ خوری کرتے تھے)۔

اور جناب حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے اسبابِ ظاہری یعنی فوج کشی اور جنگ و قتال کی صورت میں اس قسم کی درخواست کی لیکن ان کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی صرف اس مصلحت کی وجہ سے کہ ان کی نظر سے اسبابِ ظاہری کی وقعت و منزلت گر جائے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا معاملہ اپنے خاص بندوں سے کچھ اسی طرح کا ہوتا ہے اس لئے کہ ان کو ادب و رشد کا سبق دینا ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا سے بالکل قطع تعلق دین محمد ﷺ کا مقصد ہر گز نہیں ہوتا اگر ترک دنیا ہی باعثِ فضیلت ہے تو ہند کے جوگی، کشمیر کے رشی، نصاریٰ کے رہبان، اور چین کے لامے جو دنیا سے اپنا رشتہ بالکل کاٹ چکے ہیں اور عبادت اور خشک خوری کو اپنی عادت بنا چکے ہیں کیا نعوذ باللّٰہ حضرت سلیمان و حضرت یوسف علیہم السلام سے افضل کہلائیں گے۔

(¹¹) حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو فضیلت دینے کے سلسلے میں جو بیان ہوا اس کا لب لباب اور خلاصہ دو باتوں پر مبنی ہے:

ایک یہ کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے متعلق بد اعتقادی کے مجرموں کو جلا وطن کیا، ان کو سزا دی، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایسا نہیں کیا،

دوسرے یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے باز پرس ہوگی اور وہ اپنا عذر پیش کرنے پر مجبور ہوں گے مگر جناب علی کرم اللّٰہ وجہہ سے نہ باز پرس ہوگی اور نہ وہ عذر و معذرت پر مجبور ہوں گے لیکن ہمیں ان دونوں باتوں پر اشکال و اعتراض ہے اس لئے کہ یہ دونوں باتیں حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی برتری حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ثابت نہیں کرتیں۔

اب دیکھئے سزا دینے نہ دینے کا معاملہ تو ہم کہتے ہیں کہ جناب امیر رضی اللّٰہ عنہ کی محبت میں حد سے بڑھ جانے والوں نے تو یہ لغو عقیدہ اور کلماتِ کفر خود جنابِ امیر رضی اللّٰہ عنہ کی موجودگی میں شائع و ذرائع کر دئیے اور عوام و خواص میں پھیلا دئیے تھے جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں غلو کرنے والوں نے جو کچھ کیا ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد کیا ان حالات کے پیشِ نظر جنابِ علی رضی اللّٰہ عنہ کے لئے تو سزا دینا ممکن تھا اور اگر یہ قتل ہوجاتا تو فتنہ کی جڑ ہی کٹ جاتی اور پھر کوئی اس کا نام بھی نہ لیتا لیکن چونکہ یہ مقدر نہ تھا اس لئے ایسا نہ ہوا جلا وطنی کے بعد بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے بلکہ اب محتاط ہوکر ان کو یہ کفر مدائن، عراق اور تبریز میں پھیلانے کا بہتر موقعہ مل گیا۔

اب جواب طلبی کے معاملہ کو لیجئیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے باز پرس کا ذکر تو قرآن مجید میں آگیا مگر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے متعلق اس سلسلہ میں کچھ معلوم نہیں اور کسی چیز سے لا علمی اصل بات یا چیز کے وجود کی نفی کو لازم نہیں، ہاں اگر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے بعد کوئی رسول ہوتا یا ان پر وحی اترتی اور اس میں ان سے باز پرس کی نفی ہوتی تو یہ فرق کچھ قابلِ لحاظ ہوتا بلکہ بعض آیات قرآنی کا عموم تو یہ بتاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ بھی اس باز پرس سے نہ بچیں گے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا وَيَوۡمَ يَحۡشُرُهُمۡ وَمَا يَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَيَقُوۡلُ ءَاَنۡـتُمۡ اَضۡلَلۡـتُمۡ عِبَادِىۡ هٰٓؤُلَاۤءِ اَمۡ هُمۡ ضَلُّوا السَّبِيۡلَ (جس دن وہ جمع کرے گا لوگوں کو اور ان کو جس کی وہ خدا کے سوا عبادت کرتے تھے پس ان سے پوچھے گا کہ تم نے میرے ان بندوں کو بہکایا تھا یا وہ خود ہی بہک گئے تھے)

اس پر یہ حضرت بھی عذر کریں گے قَالُوۡا سُبۡحٰنَكَ مَا كَانَ يَنۢۡبَغِىۡ لَنَاۤ اَنۡ نَّـتَّخِذَ مِنۡ دُوۡنِكَ مِنۡ اَوۡلِيَآءَ (وہ کہیں گے تو پاک ہے ہمارے لئے یہ لائق ہی نہ تھا کہ ہم تیرے سوا کسی کو ولی بناتے) اور ظاہر ہے اس قسم کی باز پرسی میں کوئی الزامی پہلو نہیں ہے کیونکہ اس باز پرس سے تو ان پرستش کرنے والوں کو ڈانٹنا ڈپٹنا مقصود ہے اور تنبیہ کرکے خود ان کے معبودوں کی زبانی ان کے مذہب و عقیدہ کا کذب ظاہر کرنا ہے۔

اور دلیل اس کی یہ ہے کہ ایسی بازپرس فرشتوں سے بھی ہوگی حالانکہ فرشتے بالاجماع معصوم اور غیر مکلف نہ وہ قابل مواخذہ ہیں نہ لائق عتاب،

چنانچہ ارشاد ہے وَيَوۡمَ يَحۡشُرُهُمۡ جَمِيۡعًا ثُمَّ يَقُوۡلُ لِلۡمَلٰٓئِكَةِ اَهٰٓؤُلَاۤءِ اِيَّاكُمۡ كَانُوۡا يَعۡبُدُوۡنَ (جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا اس وقت فرشتوں سے پوچھے گا کہ یہ لوگ تم کو پوجتے تھے )

اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے باز پرس نہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہونا یہ قرین انصاف تو ہے قابلِ اعتراض بالکل نہیں اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیغمبر تھے اور پیغمبر کا فرمان قطعی دلیل ہوتا ہے اس لئے اس سے استدلال کرکے اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے عذر بیان کیا جاسکتا ہے بخلاف حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کہ آپ سید الاولیاء تو تھے مگر پیغمبر بالکل نہ تھے اور ولی کا قول دلیل قطعی بالکل نہیں اور نہ اس سے استدلال کرکے بارگاہ ایزدی میں خود کیا جاسکتا ہے ۔

اور پھر ایک بات اور بھی ہے کہ امت کی اچھائی اور برائی پر پیغمبر کی شہادت ضروری ہے چنانچہ ارشادِ باری ہے وَيَوۡمَ نَـبۡعَثُ فِىۡ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيۡدًا عَلَيۡهِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ‌ وَجِئۡنَا بِكَ شَهِيۡدًا عَلٰى هٰٓؤُلَاۤءِ ‌ؕ( یوم بعثت میں ہم ہر امت پر ایک گروہ ٹھائیں گے اور ان سب پر آپ سے گواہی لیں گے) اس مضمون کی اور بھی آیات ہیں مگر امت پر ولی کی شہادت ضروری نہیں لہٰذا معلوم ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرنا اور حضرت علی سے نہ کرنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کی واضح دلیل ہے ۔

(¹²) روایت مذکورہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں جو ذکر کیا گیا ہے وہ محض لچر اور تاریخی اعتبار سے سراسر بے اصل و بنیاد ہے اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش میں بڑا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں فلسطین میں ہوئی تو بعض دوسرے مصر میں مانتے ہیں اور بعض دمشق (شام) میں مگر مشہور قول یہ ہے کہ آپ کی ولادت بیت اللحم میں ہوئی مگر یہ بات کسی مؤرخ نے لکھی نہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام کو بیت المقدس میں دردزہ لاحق ہوا اور اگر یہ صورت تسلیم کر لی جائے تو یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ ان کو بیت المقدس سے نکالا گیا قرآنی عبارت تو صاف یہ بتاتی ہے کہ ان کو دردزہ کی وجہ سے سخت بے چینی لاحق تھی انہوں نے چاہا کہ کسی چیز سے پیٹھ لگا کر سہارا لیں چنانچہ ویرانے کی طرف نکل کھڑی ہوئیں ۔

چونکہ بچہ بے باپ کا نفخ ملک (فرشتہ) سے تھا اس لئے وہ شرماتی بھی تھیں اسی لئے کسی سے مدد بھی نہ لینا چاہتی ہوں گی، لا محالہ اس وقت جنگل ہی ان کے حال کے مطابق تھا وہاں جاکر ایک کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں جنگل کا ماحول، ولادت کے عمل سے ناواقفیت تنہائی اور دردزہ اس لئے بے ساختہ موت کی دعا لبوں پر آگئی فَاَجَآءَهَا الۡمَخَاضُ اِلٰى جِذۡعِ النَّخۡلَةِ‌ۚ قَالَتۡ يٰلَيۡتَنِىۡ مِتُّ قَبۡلَ هٰذَا وَكُنۡتُ نَسۡيًا مَّنۡسِيًّا(دردزہ ان کو ایک کھجور کے تنے کے طرف لایا (اس وقت) انہوں نے کہا کاش میں اس سے قبل ہی مر کر بھولی بسری ہوجاتی)۔

فاطمہ بنت اسد رضی اللّٰہ عنہا کے متعلق جو یہ کہا گیا کہ ان کو وحی ہوئی کہ خانہ کعبہ میں جاکر وضع حمل کریں درحقیقت ایک بے لطف جھوٹ ہے کیونکہ اسلامی یا غیر اسلامی کسی فرقہ کے نزدیک بھی وہ نبی نہیں تھیں پھر حجاج نے اس کو کس بناء پر تسلیم کرلیا یہ قابلِ تعجب بات ہے۔

مشہور روایت میں آیا ہے کہ ایام جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ رجب کی پندرہ تاریخ کو کعبہ کا دروازہ کھولتے اور اس مبارک گھر کی زیارت کے لئے اندر داخل ہوتے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی چونکہ اسی دن ہوئی تھی اس لئے اس کو یوم الاستفتاح یا روزہ مریم کہتے ہیں۔

بزرگوں نے اس دن کے کچھ اوراد و وظائف بھی مقرر کئے ہیں، رسم یہ تھی کہ اس دن سے ایک دو روز پہلے عورتیں کعبہ کی زیارت کرتیں، اتفاقاً عورتوں کے لئے مخصوص انہی دنوں میں فاطمہ بنت اسد رضی اللّٰہ عنہا نے بھی زیارت کا ارادہ کیا گو ان کی مدت گزر چکی تھی مگر یہ دن چونکہ سال میں ایک ہی مرتبہ آتا تھا اس لئے باوجود ایسے دنوں میں حرکت دشواری اور باعث تکلیف ہوتی ہے مگر انہوں نے تکلیف برداشت کرکے اپنے کو کعبہ کے دروازے تک پہنچایا اس زمانہ میں بابِ کعبہ قد آدم سے اونچا تھا اور سیڑھی وغیرہ بھی نہیں ہوتی تھی اس لئے عورتوں کو ان کے مرد بدقت تمام اوپر چڑھاتے تھے۔

چنانچہ اسی اٹھانے بٹھانے کے سبب درد میں اضافہ ہوگیا، فاطمہ بنت اسد رضی اللّٰہ عنہا نے خیال کیا کہ تھوڑی دیر میں یہ تکلیف جاتی رہے گی میں اس کی وجہ سے زیارتِ کعبہ سے کیوں محروم رہوں وہ جیسے ہی دروازہ میں داخل ہوئیں داد نے شدت اختیار کر لی اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی ولادت ہوگئی ۔

شیعوں کی روایت میں یہ واقعہ دوسرے انداز سے بیان ہوا ہے کہ مدت حمل گزر جانے اور درد کی شدت میں اضافہ کے سبب جناب ابو طالب مایوس ہوکر شفا طلبی کے لئے ان کو کعبہ میں لے گئے، اللّٰہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور جلد ولادت ہوگئی۔

کتب شیعہ میں یہ روایت جناب امام زین العابدین رحمہ اللّٰہ سے ان الفاظ میں مروی ہے

اَخۡبَرۡتَنِيۡ زَبۡدَةُ بِنتُ عَجۡلَانٍ السَّاعِدِيَّةِ عَنۡ أُمِّ عَمَّارَةَ بِنۡتِ عُبَادِ السَّاعِدِيَّةِ أَنَّهَا قَالَتۡ كُنۡتُ ذَاتَ یَوۡمٍ فِى نِسَاءٍ مِّنَ العَرَبِ إِذَا اَقۡبَلَ أَبُو طَالِبٍ لَئِيۡبًا فَقُلۡتُ لَهٗ مَا شَانُكَ قَالَ إِنَّ فَاطِمَةَ بِنۡتَ أَسَدٍ فِيْ شِدَّةٍ مِّنَ الطَّلَقِ وَاِنَّهَا لَا تَضَعُ ثُمَّ إِنَّهٗ أَخَذَ بِيَدِهَا وَجَاءَ بِهَا إِلىَ الكَعۡبَةِ فَدَخَلَ بِهَا وَقَالَ اِجۡلِسِىۡ عَلىٰ اِسۡمِ اللّٰهِ فَجَلَسَتۡ وَطَلَّقَتۡ طَلَقَةً فَوَلَدَتۡ غُلَامًا تَطِيۡفًا فَسَمَّاهُ أَبُو طَالَبِ عَلِيًّا 

انہوں نے فرمایا کہ مجھ کو زبدۃ بنت عجلان الساعدیہ نے خبر دی اور انہوں نے روایت کی ام عمارہ بنت عباد الساعدیہ سے، انہوں نے کہا میں ایک روز مستورات عرب کے ساتھ بیٹھی ہوئی کہ اچانک ابو طالب فکر مند سے وہاں آئے میں نے ان سے خیریت اور حال پوچھا تو کہنے لگے فاطمہ بنت اسد دردزہ کی تکلیف میں مبتلا ہے مگر ولادت نہیں ہورہی پھر انہوں نے فاطمہ کا ہاتھ پکڑا اور کعبہ تک لائے اور اندر لے گئے اور کہا اللّٰہ کا نام لے کر بیٹھ جا وہ بیٹھ گئیں تو درد شدت اور بڑھ گئی اور بالآخر ایک بچہ جنم دیا جس کا نام ابو طالب نے علی رضی اللّٰہ عنہ رکھا 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کعبہ میں پیدا ہونے ہی سے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر برتری حاصل ہوئی تو حضور ﷺ سے بھی ان کو افضل ہونا چاھئیے حالانکہ ایسی بات نہ سنی سوچ سکتے ہیں اور شیعہ اس کے قائل ہیں ۔

اور پھر تاریخ کی معتبر کتابیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ ام خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام بن خویلد بھی کعبہ میں پیدا ہوئے سو شیعہ منطق کی رو سے ان کو بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی نہیں تمام انبیاء سے افضل ہونا چاہئیے حالانکہ ایسے سوچ و عقیدہ اور قول کی شناخت ظاہر ہے۔