Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 89

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 89

الزام لگاتے ہیں کہ اہل سنت ظاہر الثبوت چیزوں کا بھی انکار کرتے ہیں مثلا اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھنے کے قائل ہیں حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار بالوضاحت باطل اور محال ہے کیونکہ کسی چیزوں کو دیکھنا چند باتوں کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ نہ پائی جائیں تو دیکھنا متحقق نہیں ہو سکتا، مثلاً :

1_ دکھنے والی چیز دیکھنے والے کے مقابل یا مقابل کے حکم (جیسے آئینہ میں صورت دیکھنا) میں ہو۔

2_ بالکل قریب نہ ہو۔

3_ (حد نظر سے) بہت دور بھی نہ ہو ۔

4_ درمیان میں کوئی آڑ حائل نہ ہو ۔

5_ اندھیرے اور تاریکی میں نہ ہو بلکہ اس تک روشنی پہنچ رہی ہو۔

6_ حد درجہ لطیف بھی نہ ہو کچھ نہ کچھ کثافت بھی ہو جیسے ہوا کے لطافت کے سبب ہم اس کو نہیں دیکھ سکتے۔

7_ دیکھنے والے کی نظر بھی سالم ہو اندھے پن، رتوندے یا اسی قسم کے امراض چشم لاحق نہ ہوں۔

8_ دیکھنے والے کا دیکھنے کا ارادہ بھی ہو ۔

اور ظاہر ہے یہ ساری باتیں اللّٰہ تعالیٰ کے دیدار کے بارے میں مقصود نہیں،

اس سلسلے میں اہل سنت کا یہ جواب ہے کہ بطور عادت دیکھنے کے لیے درحقیقت یہی صورت ہیں کہ ان کے بغیر عام طور سے کسی چیز کا دیکھنا ممکن نہیں لیکن بعض خاص حالات میں ان کے بغیر بھی دیکھا جا سکتا ہے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ عقل بھی ان شرطوں پہ بغیر کسی چیز کو دیکھنے کو جائز نہیں رکھتی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ بھی عام جاہلوں کی طرح عادیات اور اولیات میں فرق و تمیز نہیں کرتے، عالم اور محقق ایسی غلطی نہیں کر سکتا۔

ہندوستان میں ا کر اکثر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ برف کے بطور بارش گرنے کو تسلیم نہیں کرتے اس لیے کہ وہ خلاف عادت ہے وہ انکار کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پتھر کے مانند ٹھوس اور جمی ہوئی چیز کے تودے کے تودے زمین و آسمان کے درمیان معلق اور لٹکے ہوئے ہوں اور پھر وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر برسیں۔

اور یہ بھی نہیں مانتے کہ موسم بہار میں چاول کی فصل اسی سے ہوتی ہے حالانکہ سرد ممالک میں یہ بات عام اور مشہور ہے۔

خط استوا میں آٹھ فصلیں ہوتی ہیں اس کو بھی ہندو جاہل نہیں مانتے اور محالات میں شمار کرتے ہیں۔

اسی طرح ہر ملک کے جاہل اپنے ملک کے مقررہ موسم کے خلاف میوہ جات کی پیداوار کو میں بھی محالات میں شمار کرتے ہیں۔

اگر بالفرض کسی شخص کی عادت طلوع آفتاب سے سونے اور گروپ آفتاب کے بعد جاگنے کی ہو تو وہ ان چیزوں کے علاوہ جو مشعل، چراغ یا موم بتی کی روشنی یا چاند کی چاندنی میں دکھائی دیتی ہے، ان کی روشنی میں دکھنے والی چیزوں کا کبھی قائل نہ ہوگا کیونکہ وہ دن کی حقیقت نا آشنا اور شعاع آفتاب کی کیفیت سے نابلد ہے وہ نہیں جانتا کہ آفتاب کی شعاع کو اس کی معلوم شدہ شعاعوں سے کیا نسبت ہے وہ کیا جانے کہ آفتاب کی روشنی میں وہ جس چیز کو میل بھرے دیکھ سکتا ہے مشعل اور چراغ کی روشنی میں چند گز کی مسافت سے نہیں دیکھ سکتا اور دکھنے والی چیزوں کی دوسری باریکیاں اور مسامات جس طرح سورج کی روشنی میں دیکھے جا سکتے ہیں دوسری شعاعوں میں ان کو دیکھنا غیر ممکن ہے۔

جب عالم دنیا کے دن رات اور ملکوں اور شہروں کے اختلافات کا یہ حال ہو تو دوسرے عالم کے اختلاف کو کیوں کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے جس کا زمانہ دوسرا، جس کا مکان جدا، اور جس کے دن (یوم آخرت) کو شعاع اَشۡرَقَتِ الأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا روشن کرے گی، اور جو تُبۡلَی السَّرَائِرُ اور یَوۡمُ الفَصۡلِ کا مصداق ہے اس دن کے مقابلے میں تو عالم دنیا کے دن اندھیری کوٹھریوں کی طرح معلوم ہوں گے۔

وہ تو دن اپنے رب کے نور سے منور اور روشن ہوگا اس دن نہ دکھنے والی اشیاء مثلا پوشیدہ و چھپے ہوئے اخلاق و اعمال بھی دکھائی دیں گے، روح حیوانی میں صرف عالم بدل جانے سے وہ فراخی اور کشادگی پیدا ہو جائے گی اور اس کے تمام حواس دنیاوی حواس کے مقابلے میں ہزاروں گنا برتر اور حساس ہوں گے، جیسا کہ ارشاد باری ہے وَاِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ لَهِىَ الۡحَـيَوَانُ‌ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏ دار آخرت ہی حیات زندگی ہے، کاش یہ اس کو جانتے ہوتے اور فرمایا اَسۡمِعۡ بِهِمۡ وَاَبۡصِرۡۙ يَوۡمَ يَاۡتُوۡنَنَا‌ (جب وہ ہمارے پاس آئیں گے تو خوب دیکھتے اور خوب سننے والے ہوں گے) پھر فرمایا فَكَشَفۡنَا عَنۡكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الۡيَوۡمَ حَدِيۡدٌ (پھر ہم نے تجھ سے تیرا پردہ دور کر دیا بس اسی دن تیری نگاہ تیز ہوگی۔)

اب اس بارے میں کہ دیکھنے کے لیے مذکورہ عقلی شرطیں ضروری نہیں دلیل سنئے ہزار سے زائد قرآنی آیات بتاتی ہیں کہ اللہ تعالی سنتا بھی ہے دیکھتا بھی ہے اور خود شیعہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھنے اور سننے والا مانتے اور کہتے ہیں حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ میں یہ شرائط ناپید ہیں اور دیکھنے والی آنکھ کی پتلی میں دکھنے والی چیز کی صورت کا چھپنا اور اس سے شعاعوں کا نکلنا اللّٰہ تعالیٰ کے بارے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے علاوہ فلاسفہ جو عادات کے پھندے میں گرفتار اور عقلیات کی بیڑی میں جکڑے ہوئے ہیں دیدار کے لیے ان شرطوں کی ضروری نہیں سمجھتے۔

ثابت قرہ حزانی نے جہاں روحانی اشیاء کو دیکھنے یا ان سے گفتگو و ملاقات کو جائز بتایا ہے وہیں وہ کہتا ہے کہ زحل کی روح کو میرے ساتھ خاص وابستگی اور تعلق تھا وہ میرے دشمنوں کے مقابلہ میں میری مدد کرتی تھی ایک دن یہ سانحہ پیش آیا کے خلیفہ وقت موثق باللّٰہ سے کسی نے میری چغلی کھائی کہ تمہارے لڑکے معتضد کو بہکاتا اور برے افعال پر ابھارتا اور ان کا باعث بنتا ہے، خلیفہ اس حاسدانہ چغلی پر بہت برہم ہوا اور میرے قتل پر آمادہ ہو گیا ادھر مجھے کچھ خبر نہ تھی میں بے خبر اپنے گھر میں سویا ہوا تھا یک بیک وہ روحانیت میرے پاس آئی اور مجھے جگا کر صورت حال سے آگاہ کر کے بھاگ جانے کی ہدایت کی۔

میں جو اس باختہ گھر سے نکلا اور ایک دوست کے گھر جا چھپا ادھر خلیفہ نے ایک جماعت میری گرفتاری کے لیے بھیجی انہوں نے گھر میں مجھے تلاش کیا پڑوسی پر بھی سختی کی مگر میرا سراغ نہ ملا میرا لڑکا منان بھی گھر ہی میں رہ گیا تھا میرے ساتھ نہ آسکا حالانکہ وہ انہیں کے ساتھ چل پھر رہا تھا مگر وہ اس کو نہ دیکھ سکے۔

دوسرے دن وہ روحانیت میرے پاس آئی اور سارا قصہ مجھے بتایا میں نے اس سے کہا کہ پھر مجھے بھی میرے لڑکے کی طرح کیوں نہ کر دیا کہ میں گھر ہی میں رہتا اور دوست کا احسان مند نہ ہوتا وہ کہنے لگی کہ تیرا زائچہ مریخ کے مقابلہ میں تھا اس لیے تجھ پر میری پوری توجہ نہ تھی اور تیرے بیٹے کا زائچہ نحوست سے محفوظ تھا اس لیے اس پر میری پوری توجہ تھی۔

ثابت قرہ مذکور نے بھی یہ بھی لکھا ہے کہ فلاسفہ قدیم نے ایک سرمہ تیار کیا تھا جو اس قدر مقوی بھر تھا کہ اس کے لگانے سے دن کے وقت تارے نظر آ جاتے تھے اور وہ دور کی چیز ایسی نظر آتی تھی جیسے آنکھوں کے سامنے قریب ہی ہو میں نے وہ سرمہ بابل کے ایک شخص کے بطور تجربہ لگایا وہ شخص کہنے لگا کے ثوابت و سیارے اپنی اپنی جگہ مجھے صاف نظر آرہے ہیں، میری نظر کثیف اور ٹھوس چیزوں سے بھی گزر رہی ہے اور میں ان کے پیچھے کی چیزوں کو بھی صاف دیکھ رہا ہوں، چنانچہ میں اور قسطا بن لوقا بعلبکی بطور امتحان ایک گھر کے اندر گئے اور اس شخص کو باہر کھڑا کر دیا ہے گھر کے اندر ہم نے ایک کتاب لکھنی شروع کی وہ شخص باہر کھڑا ہوا ہم کو کتاب کی عبارت پڑھ کر لفظ بلفظ سنانے لگا وہ یہ بھی بتا رہا تھا کہ پہلی سطر اس عبارت سے شروع ہوتی ہے اور دوسری ان الفاظ سے پھر ہم نے ایک کاغذ لیا اور اس پر کچھ لکھنے لگے اس شخص نے بھی ایک کاغذ لیا اور ہمارے لکھے کی ساتھ ساتھ نقل کرنے لگا پھر ہم نے اپنے لکھے ہوئے سے اس کی تحریر ملائی تو لفظ بلفظ صحیح تھی۔

ایک مرتبہ قسطا نے اس شخص سے اپنے بھائی کا حال دریافت کیا جو بعلبک میں تھا اس نے نظر ڈالی اور کہا وہ بیمار ہے اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جس کا طالع برج ہے، ثور تو تیسرا درجہ ہے چنانچہ تفتیش و تحقیق سے پتہ چلا کہ اس نے جو بتایا صحیح تھا۔

خلاصہ کلام بتایا تھا یہ کہ جو شخص عالم دنیا اور عالم آخرت کے فرق اختلاف کو جانتا و مانتا ہے اور اللہ تعالی کی قدرت کاملہ پر اعتقاد رکھتا ہے وہ ان تمام امور کو بعید از عقل نہیں مانتا جن کا وعدہ اللّٰہ تعالیٰ نے جنت یا دوزخ میں کیا ہے اور اس میں تو اہل اسلام ہی نہیں ہرسہ مذہب کا بھی اتفاق ہے کہ آخرت میں مومن و کافر کو فرشتے، حوریں اور غلمان دکھائی دیں گے، اسی طرح بہشتی اپنے ملکیتی رقبہ کو ایسے دیکھے گا جیسے ابتدائی حصے کو دیکھتا ہوگا حالانکہ دونوں کناروں کے بین بڑی طویل طویل مسافت اور بُعد ہوگا چنانچہ ابن بابویہ قمی کی روایت مذکورہ کتاب المعراج کا وہ حصہ اس کی تائید کرتا ہے جس میں اس نے بتایا تھا یہ جناب امیر رضی اللّٰہ عنہ زمین پر وہی کچھ دیکھ رہے تھے جو حضور ﷺ آسمان پر ملاحظہ فرما رہے تھے۔

اس کے علاوہ ابن بابویہ نے کتاب الروضہ میں متعدد صحیح طرق سند سے اور ابو جعفر طوسی نے (کتاب) امالی میں روایات بیان کی ہیں کہ ہر مومن جناب پیغمبر علیہ السلام و جناب علی و حسین رضی اللّٰہ عنہ کی آرام گاہوں کو دیکھتا ہے۔ اور رواندی نے بھی روایت کی ہے جب خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا کی مدت حمل پوری ہو کر حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللّٰہ عنہا کی ولادت کا وقت قریب آیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت حوّا، حضرت سارہ، حضرت مریم، حضرت آسیہ علیہم السلام کو ان کے پاس بھیجا کہ ان کی خدمت کریں جیسا کہ ایک زندہ عورت کی زندہ عورتیں خدمت کرتی ہیں حضرت خدیجہ ان کو دیکھتی تھیں ان سے ہم کلام ہوتیں۔

صفار نے کتاب البصائر میں بیان کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی آنکھوں پر اپنا دست مبارک ملا اس کا اثر یہ ہوا کہ انہوں نے ابو جعفر طیار رضی اللّٰہ عنہ کو اور ان کے رفقاء کو علیحدہ علیحدہ حبشہ کے دریا میں کشتی کے واپسی سفر میں دیکھ لیا۔

اور شیخ الطائفہ محمد بن النعمان نے کتاب المقالات میں دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ اور تحریر کردہ آثار و اخبار شیعوں کے نزدیک تواتر کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔

یہ ساری گفتگو اس صورت میں ہے جب اہل سنت رویت خالق و مخلوق میں کوئی تمیز و فرق نہ کریں اور دونوں رؤیتوں کو متحد الماہیت مانیں لیکن اگر گفتگو اور کلام کی بنیاد محققین اہل سنت کے مذہب پر رکھیں جو یہ ہے کہ ان کے نزدیک مخلوق کا دیکھنا اور ہے اور خالق کا دیکھنا جدا کہ ایسی روایت دنیا میں ایک دو بار سے زائد و نوع پذیر نہیں ہوئی اور وہ بھی صرف پیغمبر آخر الزماں ﷺ کو تو اس صورت میں اشکال و اعتراض بالکل ختم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بالکل ظاہر الثبوت چیز ہے، کہ ایک قسم کا مشروط ہونا بعض شرطوں کے ساتھ یہ لازم نہیں کرتا کہ دوسری قسم بھی انہیں شرطوں کے ساتھ مشروط ہو۔