دلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہل توبہ و رحمت (توبہ کرنے والے)
نقیہ کاظمیدلیل القرآن: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہلِ توبہ و رحمت (توبہ کرنے والے)
لَـقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِىِّ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ الَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُ فِىۡ سَاعَةِ الۡعُسۡرَةِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا كَادَ يَزِيۡغُ قُلُوۡبُ فَرِيۡقٍ مِّنۡهُمۡ ثُمَّ تَابَ عَلَيۡهِمۡ اِنَّهٗ بِهِمۡ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ ۞
(سورۃ التوبہ: آیت، 117)
ترجمہ: بےشک اللہ نے پیغمبر پر مہربانی کی اور مہاجرین اور انصار پر جو باوجود اس کے کہ ان میں سے بعضوں کے دل جلد پھر جانے کو تھے۔ مشکل کی گھڑی میں پیغمبر کے ساتھ رہے۔ پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی۔ بے شک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔
تشریح: یہ آیت ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ہے جو کسی وجہ سے جنگِ تبوک میں شامل نہیں ہو سکے تھے اور بعد میں رسول اللہﷺ سے سچ بات کہی کہ وہ سستی کی وجہ سے نہیں جا سکے تو ان سے سوشل بائیکاٹ کیا گیا تا کہ قرآنِ کریم کی یہ آیت اور اس اگلی آیت ان کے حق میں نازل ہوئی جن میں ان کی توبہ کو قبول کیا گیا وہ تین تھے اور سیدنا کعب بن مالکؓ ان میں سے ایک تھے۔
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ يَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
(سورۃ البقرۃ: آیت، 218)
ترجمہ: اس کے برخلاف جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، تو وہ بے شک اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ يَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيۡعُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ اُولٰۤئِكَ سَيَرۡحَمُهُمُ اللّٰهُ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞
(سورۃ التوبہ: آیت، 71)
ترجمہ: اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ یقیناً اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔