Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تعزیہ کے جلوس میں شرکت کرنے اور تعزیہ میں مرثیہ اور درود وغیرہ پڑھنے کا حکم


سوال: اس مجلس میں یعنی تعزیہ داری کی مجلس میں بنیتِ زیارت گریہ وزاری حاضر ہونا اور ہاں جا کر مرثیہ اور کتاب سننا فاتحہ خوانی و درود پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: ان مجلس میں بہ نیت و گریہ وزاری کے بھی حاضر ہونا ناجائز ہے۔ اس واسطے کہ اس جگہ کوئی زیارت نہیں کہ زیارت کے واسطے جائے۔ اور ہاں چند لکڑی جو تعزیہ داری کی بنائی ہوئی ہوتی ہے وہ زیارت کے قابل نہیں بلکہ مٹانے کے قابل ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔

من رای منکر افعلیمغرة بيده فان لم يستطع فبلسنه فان لم يستطع فبقلبه و ذلك اضعف إلايمان یعنی جو شخص خلافِ شرع امر دیکھے تو چاہیے کہ اسے مٹا دے اپنے ہاتھ سے اگر ہاتھ سے مٹانے کی قدرت نہ ہو تو زبان سے مٹا دے یعنی زبان سے منع کر دے اور اگر زبان سے منع کرنے کا اختیار نہیں تو دل سے مٹا دے یعنی دل میں اس کو برا جانے، اور یہ دل سے منع کرنا نہایت ضعیف ایمان ہے۔

اور مجلس تعزیہ داری میں جا کر مرثیہ اور کتاب سننے کے بارے میں حکم ہے کہ اگر مرثیہ اور کتاب احوالِ واقعی نہ ہو، بلکہ کذب و افتراء ہو، بلکہ اس میں ایسا ذکر ہو جس سے بزرگوں کی تحقیر ہوتی ہو تو ایسا مرثیے اور کتاب سننا درست نہیں، بلکہ ایسی مجلس میں جانا بھی جائز نہیں۔ چنانچہ اسی طرح کا مرثیہ سننے کے بارہ میں حدیث شریف میں منع وارد ہے۔

عن ابی اوفی قال نبی رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المراثي

یعنی روايت ہے کہ سیدنا ابی اوفیؓ سے کہ منع فرمایا ہے، رسول اللہﷺ نے مرثیہ سے۔

ارو اگر مرثیہ اور کتاب میں احوالِ واقعی ہو تو ایسے مرثیہ اور کتاب فی نفسه سننے میں مضائقہ نہیں لیکن ہئیت اس مجلس کی جس طرح بدعتی کرتے ہیں نہ کرنا چاہئے۔ اس واسطے کہ ان میں مشابہت بدعتی گروہ سے ہو جاتی ہے۔ اور پرہیز کرنا بدعتیوں کی مشابہت سے ضروری ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے۔ من تشابه بقوم منھم یعنی جس نے مشابہت کی کسی قوم کی وہ ان ہی لوگوں سے ہوا۔

اور جو شخص تعزیہ داروں کی مجلس کی مانند مجلس منعقد کرے تو وہ اس حدیث کے مصداق میں بھی داخل ہو جائے گا

من كثر سواد قوم فھو منهم ورضی عمل قوم کان شریکلم عمل یعنی جس شخص نے زیادہ کیا جماعت کو کسی قوم کی تو وہ شخص بھی اس قوم سے ہو گا اور جو خوش ہوا عمل سے کسی قوم کے تو وہ بھی اس کا شریک قرار پائے گا جو عمل وہ کرے۔

اور فاتحہ و درود پڑھنا فی نفسه: درست ہے لیکن ایسی جگہ یعنی مجلس تعزیہ داری میں پڑھنے سے ایک طرح کی بےادبی ہو جاتی ہے۔ اس واسطے کہ ایسی مجلس اس قابل ہے کہ مٹا دی جائے اور ایسی مجلس جس میں نجاست معنوی ہوتی ہے۔ اور فاتحہ و درود اس جگہ پڑھنا چاہئے جو نجاست ظاہری و باطنی سے پاک ہو۔

پس جو شخص پائخانہ میں قرآن کریم کی تلاوت کرے اور درود پڑھے وہ مستوجبِ ملامت وطعن ہو گا۔ اس واسطے کہ بے محل وہ پڑھنا ہو گا۔

(الجامع الفتاویٰ: جلد، 6 صفحہ، 44)