مسئلہ تحریف قرآن (ممتاز قریشی/ابوھشام) قسط 4
جعفر صادقمسئلہ تحریف قرآن (ممتاز قریشی/ابوھشام) قسط 4
✳️ قسط 4 کا خلاصہ✳️
گفتگو کے اس موڑ پر شیعہ عالم ابوھشام اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ علمی انداز سے اہل تشیع کا دفاع نہیں کر سکیں گے۔
بے شک اہل سنت کی دلیل اتنی مضبوط اور مکمل ہے کہ اس کی سند و متن پر اشکال کرنا اور اس روایت کی تاویل کرنا کسی بھی شیعہ عالم کے لئے ممکن نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ابوھشام نے اس قسط میں بھی بہت ساری غیر ضروری باتیں کہہ کر وقت ضایع کیا۔
دوبارہ الزام لگایا گیا کہ اصول کافی کی روایت کے معنی و مفہوم غلط بیان کئے گئے ہیں۔
♦️ ذاتی حملے:
مثلآ : فریق مخالف عربی نہیں جانتا، ڈاکٹر بھی ہے کہ نہیں!!
واقعی انسانوں کا ڈاکٹر ہے !!! فاسق ہے! وغیرہ وغیرہ
اس کے علاوہ اہل سنت کی دلیل کا رد کرنے کے بجائے فریق مخالف کی کمزوریوں اور خامیوں کا ذکر کر کے وقت ضایع کیا گیا!!
شیعہ عالم ابوھشام کی الٹی منطق!!!
– ابوھشام نے سند میں احمد بن محمد کو ذاتی رائے سے السیاری قرار دے دیا!!
اس کا ثبوت مانگا گیا تو ذاتی حملے شروع کردئے گئے!!
– ایک موقعہ پر انہوں نے تاریخی جملہ کہا کہ “روایت کا تصحیح کرنا کچھ اور ہوتا ہے اور عقیدہ کچھ اور ہوتا ہے!!” (بس رہے نام اللہ کا)
امام کا قول ⬅️ قرآن میں سترہ ہزار آیات کا نزول
شیعہ جید علماء ⬅️ روایت صحیح ہے اور اس قول سے قرآن میں نقص، تغییر ثابت ہے اور ایسی روایات متواتر درجہ تک ہیں۔
♦️ اصول کافی کی روایت کے متن کی تاویل:
اصول کافی کی روایت میں لفظ “آیت” سے نشانی بتا کر ابوھشام نے روایت کی تاویل کرنے کی کوشش کی، یاد رہے کہ تیسری قسط میں اس تاویل کا رد کیا گیا، چوتھی قسط میں انہوں نے فریق مخالف کے الفاظ پکڑ کر اپنی مرضی کا مؤقف تھونپنے کی کوشش کی کہ دور نبوی میں کتابت قرآن کریم کا انکار کیا جا رہا ہے ، اور حضرت عثمان غنی کو معاذاللہ نبی کریمﷺ سے زیادہ حیثیت دی جا رہی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو محفوظ کر کے زیادہ بڑا کارنامہ انجام دیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لفظ “آیت” سے نشانی بتاکر ابوھشام کی تاویل کا رد کیا گیا تھا اور قرآن کریم میں آیات کے نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
♦️اہلسنت کی وضاحت:
صحیح احادیث کے مطابق دور نبوی میں صحابہ کرام نے مکمل قرآن کریم لکھ کر کتابی شکل میں محفوظ کر لیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت سات لہجوں میں قرآن کریم لکھا گیا تھا، جبکہ دور عثمان میں امت کو ایک لہجہ قریش میں قرآن کریم پر جماع کیا گیا۔
سات لہجے/قرآت قرآن
– سات لہجوں کے قرآن میں یہ قریش لہجہ بھی شامل تھا۔
– سات لہجے اپنی اپنی جگہ الگ لیکن مکمل قرآن تھے۔
– سات لہجوں سے مل کر ایک مکمل قرآن نہیں بنتا!
– احادیث صحیحہ کے مطابق کسی بھی ایک لہجہ کو امت پڑھ سکتی ہے اور وہ ایک لہجے والا قرآن کریم کافی و شافی ہے۔
♦️ سات قرآت سے ایک قرآت پر جمع کی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
– قرآت کا اختلاف دور صحابہ میں شروع ہوا جب دین اسلام عرب سے نکل کر غیر عرب علاقوں میں پہنچا۔ اس وقت مختلف علاقوں میں سات قرآت اختلاف کا باعث ہو رہی تھیں، غیر عربی مسلمان پریشان تھے کہ کس قرآت کو پڑھیں اور کس قرآت کو نہ پڑھیں۔!!
– دور عثمان میں ایک قرآت قریشی لہجہ میں قرآن کریم کو محفوظ کر کے ہمیشہ کے لئے اس فتنہ کو ختم کردیا گیا۔
♦️ سات لہجوں کا نظریہ تحریف قرآن ہے! (ابوھشام)
جواب: سات لہجوں کا اختلاف تحریف قرآن کب سے ہوگیا!!؟؟
بیشک قرآن کریم کا نزول سات لہجوں میں ہوا ، لیکن سات لہجے مل کر ایک قرآن نہیں بناتے بلکہ ہر لہجہ اپنی جگہ مکمل قرآن کریم ہے، کیونکہ سورت و آیات وہی ہیں صرف کچھ آیات کے کچھ الفاظ مختلف تھے، اور وہ الفاظ ہم معنی تھے ، یعنی تمام سات لہجوں کے قرآن کریم کی آیات میں ایک جیسے احکامات و ہدایات ہیں ، ان سب میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اہل سنت علماء کرام نے لہجوں/قرآت کے اختلاف اور ناسخ و منسوخ کو تحریف قرآن پر دلالت نہیں کیا!! اہل تشیع کو اہل سنت اصولوں کے مطابق تحریف قرآن کا الزام ثابت کرنا پڑے گا، جس طرح خود اہل تشیع دعوی کرتے ہیں کہ اہل تشیع اصولوں کے مطابق ان پرتحریف قرآن ثابت کیا جائے۔
غور فرمائیں! اہل سنت نے اہل تشیع اصولوں کے مطابق ہی دلیل پیش کی ہے۔ اہل تشیع کے چار جید علماء سترہ ہزار آیات کے نزول کی وضاحت کرتے ہوئے (معاذاللہ) نقص القرآن و تغییر (علامہ مجلسی) اور ساقط و تحریف (علامہ مازندرانی) نے بیان کرتے ہوئے تحریف قرآن کو تسلیم کیا ہے!!
♦️ اصول کافی کی اشاعت کس سال میں ہوئی؟
اس غیر ضروری نکتہ پر بھی ابوھشام نے وقت ضایع کیا تاکہ اصل نکات پر گفتگو سے بچا جاسکے۔
جبکہ خود ہی تسلیم بھی کیا کہ علامہ کلینی 328/330 ھجری میں فوت ہوئے۔ ظاہر ہے اصول کافی اس کے بعد ہی منظر عام پر آئی ہوگی، یعنی چوتھی صدی یا اس کے بعد شیعہ کی اوّل معتبر کتاب منظر عام پر آئی اور شرح وغیرہ تو آج تک لکھی جاتی رہی ہیں۔
♦️ چوتھی قسط میں شیعہ عالم ابوھشام کے جھوٹے الزام اور دعوے:
جھوٹ #1: دور نبوی میں آیات قرآنی نہیں ہوتی تھیں۔
حقیقت: اہل سنت کی طرف سے ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی تھی۔
جھوٹ #2: اصول کافی پانچویں صدی سے بہت پہلے کی کتاب ہے۔
حقیقت: ابوھشام نے خود تسلیم بھی کیا کہ علامہ کلینی /29 /328 ھجری میں (یعنی چوتھی ھجری)میں فوت ہوا۔
♦️ اصول کافی کی اشاعت پر بحث کیوں ہوئی؟
اصول کافی کی اشاعت چوتھی صدی اور اس کے بعد پانچویں صدی میں ہونے کا ذکر اس وجہ سے کیا گیا کہ موجودہ قرآن کریم اس دور سے تین سو سال پہلے (دور عثمان 24 سے 35 ھجری) میں مکمل محفوظ کتابی شکل میں جمع کردیا گیا تھا، اور وہی قرآن کریم آج تک متواتر چلا آ رہا ہے۔
علامہ کلینی چوتھی صدی (329ھجری) میں فوت ہوگئے تھے، ایک سادہ ذہن بھی سمجھ سکتا ہے کہ اصول کافی چوتھی یا پانچویں صدی یا اس کے بعد منظر عام پر آئی ہوگی!! اس وقت بلکہ آج تک قرآن کریم میں سترہ ہزار آیات نہیں ہیں۔
امام جعفر صادق دوسری صدی میں کیسے سترہ ہزار آیات کے نزول کی بات کہہ سکتے ہیں؟ اور علامہ کلینی چوتھی صدی میں یہ روایت اصول کافی میں شامل کرتے ہیں، اس کے بعد جیّد شیعہ علماء اس روایت کی توثیق اور تائید بھی بیان کرتے آ رہے ہیں۔
♦️ بصری اور کوفیوں میں تعداد آیات میں اختلاف ہے۔ اس لئے سترہ ہزار آیات بھی قرآن میں تسلیم کی جائیں! (ابوھشام)
– بصری اور کوفیوں کے تعداد آیات قرآنی میں اختلاف کا تحریف قرآن سے کیا تعلق!!؟؟ نمبر شمار، کسی آیت کی حیثیت پر اختلاف اپنی جگہ لیکن اس سے قرآن کریم میں معاذاللہ کوئی تبدیلی تھوڑی ہوجاتی ہے!!
♦️ چوتھی قسط میں ابوھشام کے لرزہ خیز اعترافات:
1- آیات کے نمبر شمار اور حیثیت کا اختلاف تحریف قرآن نہیں ہے۔۔!!
⬅️ اس اعتراف سے ثابت ہوا کہ اہل سنت مؤقف برحق ہے۔ تعداد آیات یا بسم اللہ کی حیثیت پر اختلاف سے قرآن کریم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوجاتی۔
2- علامہ مجلسی سے خطا ہوئی ہے۔ روایت ضعیف ہے۔
⬅️ اہل سنت مطالبہ: صرف حکم سند نہیں بلکہ حکم متن میں بھی خطا تسلیم کرنا پڑے گا!! پھر چار جید علماء کرام کو بھی خطاوار ماننا پڑے گا!!
3- سترہ ہزار آیات کے نزول کو تسلیم کرنا یا اس روایت کو صحیح روایت تسلیم کرنا علامہ مجلسی کی اجتہادی خطا ہے!!!
حقیقت: تحریف قرآن کا قائل ہونا اہل تشیع کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک اجتہادی خطا ہے ، مطلب تحریف کا قائل مسلمان ہے! (پہلی قسط میں بھی یہی اعتراف کیا گیا تھا)
4- اہل تشیع کے ہاں سند کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے !!
حقیقت: اس سے ثابت ہوا کہ کسی بھی صحیح روایت کا سرے سے انکار کردینا اہل تشیع کے ہاں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے!!
اہم نکتہ: اصول کافی میں موجود امام جعفر صادق کے اس قول کو صحیح السند کہنے کے بجائے ضعیف کیوں نہیں قرار دیا گیا؟؟
♦️ چار جیّد شیعہ علماء
– سند ⬅️ صحیح
– متن ⬅️ نقص القرآن ، تغییر، ساقط، تحریف
♦️ قرآن میں نقص و تغییر کا اقرار۔ (علامہ باقر مجلسی)
♦️ اسقاط بعض القرآن و تحریف ثبت (علامہ مازندرانی)
ان الفاظ سے بھی اگر قرآن کریم میں لفظی تحریف ثابت نہیں ہوتی تو پھر اور کونسے الفاظ سے ثابت کی جائے!!؟؟
اہل بصرہ، اہل مکہ، اہل کوفہ اور اہل حجاز میں آیات میں اختلاف کا تحریف قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی اہل سنت عالم نے اس قسم کے اختلاف کو تحریف القرآن نہیں کہا۔
بسم اللہ کے اختلاف سے قرآن کریم میں کمی، بیشی، تبدیلی وغیرہ نہیں ہوتی۔ قرآن کریم تو وہی متواتر چلا آ رہا ہے۔!!
موجودہ قرآن کریم میں تعداد آیات کا اختلاف چھ ہزار سے ساڑھے چھ ہزار کے بیچ میں ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ آیات کا نمبر شمار ، زیر زبر، اعراب بعد میں ڈالے گئے، اس وجہ سے بسم اللہ کی حیثیت وغیرہ پر بھی اختلاف پیدا ہوا، لیکن اس قسم کے اختلاف سے قرآن کریم میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں ہوجاتی۔ علماء اہل سنت ان اختلافات کو تحریف قرآن ہرگز نہیں سمجھتے۔
⬅️ سترہ ہزار آیات سے براہ راست موجودہ قرآن میں دو حصہ ضایع ہونے کا دعوی خود شیعہ جید علماء ہر دور میں تسلیم کرتے آرہے ہیں!!
♦️علامہ باقر مجلسی کو بچانے کے لئے شیعہ عالم ابوھشام کی عجیب و غریب باتیں:
1- نقص اور تغییر کے الفاظ سے علامہ مجلسی کا مقصد تحریف قرآن نہیں ہے۔
2- نقص اور تغییر کے الفاظ سے قرآن کریم میں کوئی عیب ظاہر نہیں ہوتا۔
3- نقص اور تغییر کے الفاظ سے علامہ مجلسی کا مقصد علامہ خود بتا سکتے ہیں!
4- نقص اور تغییر کے الفاظ سے علامہ مجلسی کا مقصد لفظی تحریف نہیں ہے۔
غور فرمائیں! مضحکہ خیر تاویلات سے ابوھشام علامہ مجلسی کا دفاع تو کرتے رہے لیکن اس کی مذمت نہ کر سکے۔
یاد رہے کہ علامہ باقر مجلسی نے نقص اور تغییر القرآن کے الفاظ سترہ ہزار آیات کی روایت کے تحت بیان کئے ہیں۔
حقیقت: موجودہ قرآن کریم میں تو سترہ ہزار آیات نہیں ہیں!
مطلب واضح طور پر علامہ باقر مجلسی نے دو حصہ قرآن کا کم ہوجانا تسلیم کیا ہے اور اسے قرآن کریم میں نقص اور تغییر سمجھا ہے۔ (معاذاللہ ثم معاذاللہ)
⬅️ابوھشام کی طرف سے متن کی ایک اور کمزور تاویل➡️
اہل سنت کے ہاں تعداد آیات میں اختلاف ہے ، اس لئے آیات قرآنی چھ ہزار ، آٹھ ہزار، سترہ ہزار اور بیس ہزار بھی ہوسکتی ہیں!! (ابوھشام)
اہل سنت کا رد:
بیشک آیات قرآنی کا نمبر شمار بعد میں کیا گیا، بسم اللہ کی حیثیت، سورتوں کی آیات کے نمبر پر علمائے اہل سنت میں اختلاف تحریف ہرگز نہیں ہے، کیونکہ اس اختلاف سے قرآن کریم میں کمی یا کسی زیادتی کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ بالفرض یہ اختلاف پانچ سو، ہزار یا دو ہزار کا بھی سمجھا جائے تو بھی اصول کافی کے اس قول کی تاویل ممکن نہیں کیونکہ اس قول میں سترہ ہزار آیات کے نزول کی بات کہی گئی ہے۔
یعنی موجودہ قرآن کریم کی ہر آیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا!!!
تصور کریں!! سترہ ہزار آیات کرنے سے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور انداز بیان کا کیا عالم ہوگا!!!
♦️ کیا نقص اور تغییر کے معنی و مفہوم کے لئے عربی جاننا ضروری ہے؟
یہ اتنے سادہ الفاظ ہیں کہ ایک عام فہم بھی سمجھ سکتا ہے کیونکہ اردو میں بھی عیب، خرابی یا کمی بیشی کے لئے نقص اور تغییر کے الفاظ عام استعمال کئے جاتے ہیں۔
نقص اور تغییر کے معنی سمجھنے اتنے مشکل نہیں ہیں کہ عربی جانے بغیر کوئی سمجھ ہی نہ سکے!!
♦️ نقص اور تغییر کے الفاظ سے علامہ باقر مجلسی کا مؤقف کچھ اور تھا! (ابوھشام)
اگر علامہ مجلسی کا مؤقف لفظی تحریف قرآن نہ ہوتا اور وہ اس روایت میں لفظ “آیت” کا مفہوم کسی اور طرح سے لیتے تو پھر قرآن کریم میں کیسا نقص؟؟ کیسا تغییر؟؟
♦️ اہل سنت کی دلیل اصول کافی کی روایت بمعہ تائید چار شیعہ علماء :
– چار جید شیعہ علماء نے امام جعفر صادق کا قول صحیح تسلیم کیا ہے!!
– دو شیعہ علماء نے واضح الفاظ میں نقص القرآن و تغییر (علامہ باقر مجلسی) اور تحریف القرآن، ساقط کے الفاظ (علامہ مازندرانی) استعمال کئے ہیں!!
✳️ اب یا تو چاروں علماء سے شیعہ ہاتھ اٹھائیں، ان کی مذمت کریں یا پھر ان کی بات تسلیم کرتے ہوئے اقرار کریں کہ معاذاللہ موجودہ قرآن کریم تحریف شدہ ہے!!
♦️ شیعہ عالم ابوھشام کا اعتراض
اہل سنت کی دلیل درست نہیں اور استدلال کا طریقہ بھی درست نہیں ہے! (ابوھشام)
غور فرمائیں:
– اہل سنت دلیل ⬅️ اصول کافی کی ایک صحیح السند روایت
– امام جعفر صادق کا قول ⬅️ ساتھ میں چار جید شیعہ علماء کی توثیق
– اسی روایت کے تحت دو جیّد شیعہ علماء کا تحریف قرآن تسلیم کرنا!
اور شیعہ عالم کو دلیل اور استدلال درست نہیں لگ رہا!!
اہم سوال: کیا امام معصوم کا قول اہل تشیع کے ہاں حجت نہیں ہے۔؟؟
♦️ اہل سنت استدلال شیعوں پر چسپاں کیا گیا ہے! (ابوھشام)
حقیقت: اصول کافی کی روایت بمعہ چار جید شیعہ علماء کی توثیق اور وضاحت پیش کی گئی ہے۔
– علامہ مجلسی نے نہ صرف سند کو صحیح کہا ہے بلکہ متن سے لفظی تحریف قرآن تسلیم کرتے ہوئے نقص القرآن و تغییر کے الفاظ بیان کئے ہیں!!
♦️ شیعہ عالم ابوھشام کی صریح جہالت! اور علامہ باقر مجلسی کی تضاد بیانی!
لفظ “تغییر” بحار الانوار سے دکھا کر فرما رہے ہیں کہ علامہ مجلسی نے تحریف القرآن کا انکار کیا ہے اور قرآن کریم کو محفوظ تسلیم کیا ہے۔
⬅️ یہ دیکھیں کھلا تضاد➡️
تغییر کا لفظ دونوں جگہ
ایک جگہ نقص اور تغییر قرآن میں ہے (شرح اصول کافی)
دوسری جگہ تغییر قرآن میں نہیں ہے۔ (بحارالانوار)
غور فرمائیں: وہی لفظ “تغییر” مرآة العقول میں سترہ ہزار آیات کے تحت لکھتے ہوئے علامہ باقر مجلسی نے نقص اور ایسی روایات کو متواتر معنوی کہہ کر تحریف قرآن کو تسلیم کیا ہے!!
✳️ علامہ باقر مجلسی کی یہ تضاد بیانی نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟؟ نقص القرآن اور تغییر جیسے صریح لفظ تحریف قرآن پر دلالت کرتے ہیں!
⬅️ ابوھشام کی عجیب جاہلانہ تاویل➡️
علامہ مجلسی کے ذہن میں نقص القرآن کے معنی تحریف سے الگ ہیں۔ (ابوھشام)
مطلب پوری دنیا نقص کے لفظ کی معنی “عیب، خرابی،غلطی، گھٹانا، بڑھانا، کمی، زیادتی” وغیرہ سمجھتی ہے۔
لیکن علامہ باقر مجلسی کی لغت میں نقص کا مطلب “بے عیب، کمی بیشی سے پاک، اچھائی، خوبی، محفوظ حالت” وغیرہ ہے!!
♦️ ابوھشام کی غیر ضروری باتیں
– ناسخ و منسوخ پر گفتگو!! جبکہ یہ موضوع زیر بحث نہیں تھا۔ اہل سنت کے نزدیک ناسخ و منسوخ کو کسی عالم نے تحریف قرآن نہیں سمجھا!
– ابوھشام اپنے چار جیّد علماء کا دفاع نہ کرسکے بلکہ ان کی مذمت بھی نہ کرسکے!!
اجتہادی خطا کہہ کر دفاع کیا مطلب روایت بھی صحیح ، توثیق بھی صحیح لیکن تحریف قرآن کا اقرار بھی تسلیم نہیں کرنا!!
♦️ابوھشام کی طرف سے صحیح السند روایت کا ایک راوی بدل کر روایت کو ضعیف قرار دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی!!
اہم سوال جو شیعہ عالم ابوھشام سے بار بار پوچھا گیا۔
– اصول کافی میں محمد بن احمد اگر السیاری ہے تو یہ علم ابوھشام کو کیسے ہوگیا؟
جبکہ چار جید شیعہ علماء کرام اتنی اہم بات سے لاعلم رہے اور اس روایت کی توثیق کرتے ہوئے تحریف القرآن کے عقیدے کو بھی بیان کردیا!!
♦️ ابوھشام کی ایک اور جہالت
راوی اپنی مرضی سے بدل کر فریق مخالف سے مطالبہ کیا گیا کہ ثابت کیا جائے کہ اس روایت میں السیاری نہیں ہے۔۔۔!!!
جبکہ اہل سنت نے دلیل میں بطور دلیل چار جیّد شیعہ علماء سے پہلے ہی ثابت کردیا تھا کہ روایت اہل تشیع کے اصولوں کے مطابق صحیح السند ہے، مطلب سند میں السیاری جیسا کوئی راوی ضعیف نہیں ہوسکتا!
⬅️ ابوھشام کو شیعہ علماء سے ثابت کرنا تھا کہ اصول کافی میں اس روایت کا راوی محمد بن احمد السیاری ہے!!
– ابوھشام نے ذاتی رائے سے ایک راوی کو بدل کر صحیح روایت کو ضعیف کردیا!! لیکن ثابت نہیں کر سکا کہ
1️⃣ کس شیعہ عالم نے اس روایت کی سند میں السیاری کا ذکر کیا ہے؟
2️⃣ السیاری جیسے ضعیف راوی کے ہوتے ہوئے چار جید شیعہ علماء کرام اس روایت کو صحیح کیسے کہہ سکتے ہیں؟؟
♦️ طوفان بدتمیزی کا الزام!!
مکمل گفتگو سن کر یہ فیصلہ کرنا نہایت آسان ہے کہ کس فریق نے زیر بحث نکات سے باہر گفتگو کی اور ذاتیات پر باتیں کہہ کر وقت ضایع کیا۔
♦️ شیعہ عالم ابوھشام کی نام نہاد تحقیق!!!
السیاری کی کتاب سے وہی روایت جو اصول کافی سے پیش کی گئی تھی، اسے دکھا کر دعوی کیا گیا کہ مصنف السیاری اس روایت کی سند میں ثابت ہوگیا۔
حقیقت: کسی مصنف کا اپنی کتاب میں کوئی روایت شامل کرنا اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی سند میں موجود ہے۔
✳️ ابوھشام کی فاش غلطی!!
ابو ہشام نے دعوی کیا کہ وہ دوسرے علماء سے بھی دکھا دے گا کہ اس اصول کافی کی روایت میں السیاری ہے۔
جبکہ آخر دن تک ان سے پوچھا گیا لیکن وہ ایک بھی عالم سے نہ دکھا سکے کہ اصول کافی کی اس روایت میں السیاری نام کا کوئی راوی ہے۔!
بالآخر اپنی بات سے مکرتے ہوئے کہنے لگے کہ
“راوی السیاری ہے یا نہیں اس پر کوئی قرینہ موجود نہیں ہے!!!”
⬅️ ایک اور جہالت➡️
چار جید شیعہ علماء کرام کی تحقیق کا جنازہ نکال دیا!!! ابوھشام کی ذاتی رائے کے مطابق یہ روایت منقطع ہے!! مرسل روایت ہے!!
♦️ اہل تشیع کے پاس صرف دو راستے :
1️⃣ توثیق کرنے والے جھوٹے ہیں، سند کے تمام راوی بشمول چار جیّد شیعہ علماء کی مذمت اور ان سے ہاتھ اٹھایا جائے!!
2️⃣ اہل تشیع اعلان کردیں کہ سند کے راوی اور چار جیّد علماء سے متفق ہیں اور موجودہ قرآن کریم میں معاذاللہ نقص ، تغییر ہوگیا ہے اور کچھ حصہ ساقط کردیا گیا ہے۔
⬅️ بیچ کا کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔
اہل سنت کا دو ٹوک مؤقف
آج کوئی ذرا بھی قرآن کریم میں شک کرے گا تو وہ بالاتفاق کفر کا مرتکب ہوگا۔
حضرت ابن عباسؓ دور نبوی کے جلیل القدر صحابی رسولﷺ ہیں، اس وقت سات لہجوں کا قرآن کریم رائج تھا۔ علمائے اہل سنت کے نزدیک اس روایت میں حضرت ابن عباس کا قول فرد واحد کا قول ہے ۔ عین ممکن ہے دور نبوی کی کسی قرآت میں تستانسو کی جگہ تستاذنو پڑھا جاتا ہو کیونکہ معنی و مفہوم میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔
۔ قرآن کریم جمع کرتے وقت قریشی لہجہ، اکثریت رائے اور نبی کریم ﷺ کے سامنے وحی کی کتابت کو براہ راست دیکھ کر موجودہ قرآن کریم کی کتابت کی گئی ہے۔ یہی قرآن کریم دور نبویﷺ سے ہر دور میں متواتر چلا آ رہا ہے، اس لئے کسی فرد واحد کے قول کی متواتر روایات کے آگے کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
– بنص قرآن کسی ایک کاتب کی خطا سے قرآن کریم کا کوئی لفظ بدل جانا ناممکنات میں سے ہے۔
♦️ آخری کوشش کہ اہل سنت کو تحریف قرآن کا قائل ثابت کیا جائے!
– ابوھشام نے اصول کافی کی روایت پر بات کرنے کے بجائے اہل سنت کو تحریف القرآن کا قائل ثابت کرنے کی کوشش کی!!
– شیعوں کی مجبوری ہے کہ اہل سنت پر تحریف ثابت کی جائے بصورت دیگر اپنے لوگوں کو سمجھانا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے قرآن کریم کو محفوظ کیسے کر لیا جبکہ صحابہ کرام تو شیعوں کے مطابق معاذاللہ بعد از نبی مرتد ہوچکے تھے!!
حضرت ابن عباس کے اس قول کو کسی ایک اہل سنت عالم نے تحریف القرآن پر محمول نہیں کیا !!
جبکہ اصول کافی میں سترہ ہزار آیات کو نہ صرف شیعہ جید علماء نے صحیح تسلیم کیا ہے بلکہ اس روایت سے قرآن کریم میں معاذاللہ نقص، تغییر، ساقط اور تحریف تک بیان کیا ہے!!
♦️ تعداد آیات کا اختلاف:
– آیات نمبر، نکتے، اعراب بعد میں قرآن کریم میں لفظوں پر لگائے گئے تاکہ غیر عرب مسلمان صحیح تلفظ سے قرآن کریم کی تلاوت کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل تعداد آیات میں اختلاف ہے۔
– تعداد آیات میں اختلاف کا قرآن کریم کی تحریف سے کوئی تعلق نہیں ہے!! کیونکہ اس اختلاف سے قرآن کریم میں ذرا برابر بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ بیشک قرآن کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے اور متواتر چلا آ رہا ہے۔!!
آڈیو